خائف و تائب کی ذاتی تخلیق کردہ شاعری

انتظار ان کا مگر آرزو نہیں ہے
دل میں رہتے بس وہی ہیں مگر جستجو نہیں ہے
ہم یہ کس بستی میں آکر رکے ہیں ہمدم
یہ مکاں ہے وہ مکاں ؟راہ رو نہیں ہے
اب میرے ابا سے کہہ دو کہیں چلا جا
سر زمینِ پاک میں برقی رو نہیں ہے
کہاں ہے مجنوں؟میں ہوں مجنوں ادہر نہ جانا
تو لہو مانگے ہے لیلی، جی وہ نہیں ہے
قافلے منزل کو کھو کر بھٹک رہے ہیں
جھاڑیاں ہیں ہر طرف پیش رو نہیں ہے
یہ ہے الفت یہ محبت دھری ہوئی ہے
تیرگی ہر سو ،کوئی خوبرو نہیں ہے
ہر کوئی کہتا ہے تائبؔ وہ بے وفا تھا
بے وفا وہ بے مگر آبرو نہیں ہے
 
انتظار ان کا مگر آرزو نہیں ہے

دل میں رہتے بس وہی ہیں مگر جستجو نہیں ہے

ہم یہ کس بستی میں آکر رکے ہیں ہمدم

یہ مکاں ہے وہ مکاں ؟راہ رَو نہیں ہے

اب میرے ابا سے کہہ دو: کہیں چلا جا

سر زمینِ پاک میں برقی رو نہیں ہے

کہاں ہے مجنوں؟میں ہوں مجنوں ادہر نہ جاؤ

تَو، لہو مانگے ہے لیلی، جی وہ نہیں ہے

قافلے منزل کو کھو کر بھٹک رہے ہیں

جھاڑیاں ہیں ہر طرف، پیش رو نہیں ہے

یہ ہے الفت یہ محبت دھری ہوئی ہے

تیرگی ہر سو ،کوئی خوبرو نہیں ہے

ہر کوئی کہتا ہے تائبؔ وہ بے وفا تھا

بے وفا ہو گا مگر آبرو نہیں ہے

یہ سب کچھ آپ نے ایک ہی سطر میں لکھ دیا!! ۔۔ اس کا فارمیٹ ٹھیک کر دیجئے تو نوازش۔


لیجئے ۔۔۔۔ اب یہ فارمیٹ ٹھیک ہو گیا!! اپنے آپ؟
 
یہیں اسی محفل میں ایک سوال تھا: نئے لکھنے والوں سے کچھ کہنا چاہیں گے، یا کچھ ایسا ہی مفہوم تھا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ:
محسنات اور منکرات کا سب کو پتہ ہے، محسنات کی طرف آئیے اور منکرات سے بچئے، زندگی میں بھی، فکر میں بھی، فن میں بھی، اظہار میں بھی۔ ایک بات جو پہلے بھی ہو چکی اسی کا دوسرا پہلو ہے کہ فضولیات اور لغویات سے پرہیز کیجئے اور اگر آپ نے شعر کہنے کی ٹھان لی ہے تو مطالعہ بھی کیجئے۔ ادبی محفلوں میں جایا کیجئے، وہاں تحریک بھی ملتی ہے اور تربیت بھی۔ اصلاح کا پہلا قدم اپنی غلطی کا ادراک اور اس کو غلطی تسلیم کر لینے کی جرات ہے۔ اغلاط سے بچئے اور ان پر اَڑیے نہیں، ایسا کریں گے تو نقصان آپ کو تو ہو سکتا ہے، کسی دوسرے کو نہیں۔
یاد رکھئے کہ جدت روایت سے پھوٹتی ہے اور روایت سے منسلک رہ کر اپنی حیثیت بناتی ہے گویا جدت روایت کے تنے سے پھوٹنے والی ایک شاخ ہے۔ اس کو پھلنے پھولنے کے لئے درخت سے جڑے رہنا ہو گا، درخت سے الگ ہو کر وہ لکڑی یا ایندھن یا کچھ اور تو کہلا سکتی ہے شاخ نہیں کہلا سکتی اور نہ زندہ رہ سکتی ہے۔
اپنے آپ سے کبھی جھوٹ نہ بولئے اور شعر میں کوئی ایسی بات کبھی نہ کیجئے جس کو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ غلط ہے۔ ایک بات میں ہر ایک سے کہا کرتا ہوں کہ ہم برے بھلے جیسے بھی ہیں اولاً مسلمان ہیں، پھر پاکستانی اور پھر کچھ بھی! اپنی ان دونوں بنیادوں کا پاس رکھئے۔ اور مسلمان اور پاکستانی کہلانے میں کسی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوئیے۔

ادب میں اپنے سینئرز کی بات مانئے یا نہ مانئے اُن سے ترش روئی نہ برتیے گا۔

اللہ میرا، آپ کا سب کا حامی و ناصر ہوں۔

بجلی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، میں آپ کی کاوشوں کے حوالے سے بہت کچھ کہنا چاہ رہا ہوں اور صرف آپ کے لئے نہیں، ہر اس ’’جوان‘‘ کے لئے جو شعر کہنے پر مائل ہے یا مشقِ سخن کر رہا ہے۔

جناب ابودجانہ المنصور
 
یہیں اسی محفل میں ایک سوال تھا: نئے لکھنے والوں سے کچھ کہنا چاہیں گے، یا کچھ ایسا ہی مفہوم تھا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ:


بجلی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، میں آپ کی کاوشوں کے حوالے سے بہت کچھ کہنا چاہ رہا ہوں اور صرف آپ کے لئے نہیں، ہر اس ’’جوان‘‘ کے لئے جو شعر کہنے پر مائل ہے یا مشقِ سخن کر رہا ہے۔

جناب ابودجانہ المنصور
اللہ اآپ کو اور اخلاص کی دولت عطا فرمائے تاکہ سیکھنے والوں کی مزید راہنمائی کریں
 
جناب ابودجانہ المنصور ۔۔
فی الحال تو یہ لنک لیجئے۔
http://www.4shared.com/office/uSNdF_tj/MYAssy_asan_aruz_final_draft.html?
مزید گفتگو بھی ہو گی، ان شاء اللہ۔
جناب آسی صاحب آپ کی کتاب بہت اچھی لگی ہے۔ میں نے اس کو پڑھنا شروع کر دیا ہے ایک دو دن میں مکمل مطالعہ کر لوں گا انشاء اللہ تعالی اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطافرمائے
 
نگاہ قاتل، حیاء قاتل، جبین پر پھیلی زلفیں بھی
صبح اک لاش کے سینے پہ لوگوں نے لکھا دیکھا

جب ہم نے ٹھان لی کہ شعر کہنا ہے تو پھر ہمیں اپنے شعر کو کسی نہ کسی بحر کے تابع رکھنا ہو گا۔ وہ کسی نہ کسی عروضی نظام میں پورا آنا چاہئے۔ پہلے مصرعے کو اگر یوں کر لیں:
نگہ قاتل، حیا قاتل، جبیں پر پھیلی زلفیں بھی​
تو یہ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحرِ ہزج مثمن سالم) میں پورا اترتا ہے۔ فکر اور مفاہیم کے حوالے سے ترجیح تو ظاہر ہے آپ کی ہے، تاہم یہ دھیان رکھئے تو بہتر ہے کہ کوئی خلافِ واقعہ بات نہ کیجئے۔ مبالغہ جب بڑھ کر غلو کی حدوں کو چھونے لگے تو شعر کی لذت جاتی رہتی ہے۔
 
ایک جگہ آپ نے لکھا ہے:
مجھے ’’اساتذہ کی اصلاح‘‘ کا انتظار ہے، یا کچھ اس سے ملتے جلتے لفظ ہیں۔
معنوی سطح پر تو ’’اساتذہ کی اصلاح‘‘ یہ ہے کہ اُن (اساتذہ) میں کوئی نقص ہے جسے دور کرنا ہے؟ اور ظاہر ہے آپ کا یہ مدعا ہرگز نہیں۔ براہ کرم اس کو یوں کر لیجئے: ’’اساتذہ کی جانب سے اصلاح‘‘۔
 
لفظ ’’درستگی‘‘ درست نہیں ہے۔ صحیح لفظ ’’درستی‘‘ ہے۔ کوئی غیر ادیب لکھے یا کسی غیر ادبی تناظر میں یہ لفظ ’’درستگی‘‘ اصطلاحاً یا کسی اور انداز میں آ رہا ہے تو وہ ایک قطعی مختلف بات ہے۔ اس لفظ پر اچھی خاصی گفتگو پہلے بھی اسی محفل میں ہو چکی ہے۔ دیکھ لیجئے گا۔

اسی طرح احسان مند ہونے کے معانی میں ایک لفظ بہت زیادہ مستعمل ہے: میں ’’مشکور‘‘ ہوں۔
مشکور تو وہ ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے! شکریہ ادا کرنے والا ’’شاکر‘‘ ہے یا پھر ’’شکر گزار‘‘ ہے۔
’’مشکور‘‘ کی بجائے ’’ممنون‘‘ کہا جائے تو اچھا بھی لگتا ہے اور اس کے معانی بھی بہت عمدہ ہیں: احسان مند۔

اچھی باتیں اپنا لینی چاہئیں۔ کیا خیال ہے؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اس لڑی کو اصلاح والے سیکشن میں ہونا چاہیے کہ "گیسؤے شاعر ابھی منت پذیرِ شانہ ہے"۔ شاید کوئی منتظم نظر فرما لے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جب ہم نے ٹھان لی کہ شعر کہنا ہے تو پھر ہمیں اپنے شعر کو کسی نہ کسی بحر کے تابع رکھنا ہو گا۔ وہ کسی نہ کسی عروضی نظام میں پورا آنا چاہئے۔ پہلے مصرعے کو اگر یوں کر لیں:
نگہ قاتل، حیا قاتل، جبیں پر پھیلی زلفیں بھی​
تو یہ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحرِ ہزج مثمن سالم) میں پورا اترتا ہے۔ فکر اور مفاہیم کے حوالے سے ترجیح تو ظاہر ہے آپ کی ہے، تاہم یہ دھیان رکھئے تو بہتر ہے کہ کوئی خلافِ واقعہ بات نہ کیجئے۔ مبالغہ جب بڑھ کر غلو کی حدوں کو چھونے لگے تو شعر کی لذت جاتی رہتی ہے۔
یہ انداز آتش کے دور کے لکھنؤ میں تو شاید چل جاتا ہو۔ مگر نئے زمانے میں اس انداز سے کنارہ کشی ہی اولیٰ، چاہے آپ کے نام کا ایک شعر کم ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اب تو گور و کفن کی شاعری عجیب سی لگتی ہے۔
 
ایک جگہ آپ نے لکھا ہے:
مجھے ’’اساتذہ کی اصلاح‘‘ کا انتظار ہے، یا کچھ اس سے ملتے جلتے لفظ ہیں۔
معنوی سطح پر تو ’’اساتذہ کی اصلاح‘‘ یہ ہے کہ اُن (اساتذہ) میں کوئی نقص ہے جسے دور کرنا ہے؟ اور ظاہر ہے آپ کا یہ مدعا ہرگز نہیں۔ براہ کرم اس کو یوں کر لیجئے: ’’اساتذہ کی جانب سے اصلاح‘‘۔
بالکل ٹھیک فرمایا اآپ نے
 
لفظ ’’درستگی‘‘ درست نہیں ہے۔ صحیح لفظ ’’درستی‘‘ ہے۔ کوئی غیر ادیب لکھے یا کسی غیر ادبی تناظر میں یہ لفظ ’’درستگی‘‘ اصطلاحاً یا کسی اور انداز میں آ رہا ہے تو وہ ایک قطعی مختلف بات ہے۔ اس لفظ پر اچھی خاصی گفتگو پہلے بھی اسی محفل میں ہو چکی ہے۔ دیکھ لیجئے گا۔

اسی طرح احسان مند ہونے کے معانی میں ایک لفظ بہت زیادہ مستعمل ہے: میں ’’مشکور‘‘ ہوں۔
مشکور تو وہ ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے! شکریہ ادا کرنے والا ’’شاکر‘‘ ہے یا پھر ’’شکر گزار‘‘ ہے۔
’’مشکور‘‘ کی بجائے ’’ممنون‘‘ کہا جائے تو اچھا بھی لگتا ہے اور اس کے معانی بھی بہت عمدہ ہیں: احسان مند۔

اچھی باتیں اپنا لینی چاہئیں۔ کیا خیال ہے؟
جی بالکل ضرور اپنانی چاہییں
 
Top