خائف و تائب کی ذاتی تخلیق کردہ شاعری

جب ہم نے ٹھان لی کہ شعر کہنا ہے تو پھر ہمیں اپنے شعر کو کسی نہ کسی بحر کے تابع رکھنا ہو گا۔ وہ کسی نہ کسی عروضی نظام میں پورا آنا چاہئے۔ پہلے مصرعے کو اگر یوں کر لیں:
نگہ قاتل، حیا قاتل، جبیں پر پھیلی زلفیں بھی​
تو یہ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحرِ ہزج مثمن سالم) میں پورا اترتا ہے۔ فکر اور مفاہیم کے حوالے سے ترجیح تو ظاہر ہے آپ کی ہے، تاہم یہ دھیان رکھئے تو بہتر ہے کہ کوئی خلافِ واقعہ بات نہ کیجئے۔ مبالغہ جب بڑھ کر غلو کی حدوں کو چھونے لگے تو شعر کی لذت جاتی رہتی ہے۔
جی ہاں ! میں نے اسی بحر میں لکھا تھا۔۔ کیا حروف کی املاء بھی آواز کے زاویے میں کرنا ہوگی؟
 
پلا اب جام رحمت کا میں تیرے در پہ آیا ہوں
بھکاری بن کے ٹوٹے دل کے ٹکڑے ساتھ لایا ہوں
زخم خوردہ میں اپنے نفس و شیطان کے فریبوں کا
لہو دل کے سیاہ پارے دکھانے تجھ کو آیا ہوں
سوالی ہوں نہ منگتا ہوں کسی در کا مگر تیرا
ترے در پر تجھی سے میں فغاں کرنے کو آیا ہوں
مری جھولی میں موتی ہے نہ ٹکڑا کانچ کا کوئی
ندامت ہی ندامت ہے یہی میں ساتھ لایا ہوں
سنا ہے ساقی کے در کے نہیں مڑتے کبھی منگتے
میں منگتا بن کے جام عشق پینے خوب آیا ہوں
بہا کر زندگانی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
میں جل بھن کر ترے در پر سہارا لینے آیا ہوں
اداب در سے بھی واقف نہیں منگتا مگر تائب
ترے عفو و کرم کی میں تمنالے کےآیا ہوں

زخم خوردہ میں اپنے نفس و شیطان کے فریبوں کا۔۔۔۔ اس میں زخم کا تلفظ اگر خاء کے جزم کے ساتھ ہے تو اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟


اداب در سے بھی واقف نہیں منگتا مگر تائب۔۔۔۔۔ اس میں اداب کے ’’آ‘‘ کو شعر کی وجہ سے الف سے نہیں بدلا جا سکتا ؟ اگر نہیں تو متبادل کیا ہونا چاہیے؟
 
جی ہاں ! میں نے اسی بحر میں لکھا تھا۔۔ کیا حروف کی املاء بھی آواز کے زاویے میں کرنا ہوگی؟


الف، واو، یاے، ہاے کا گرانا (اخفا) تو آپ کے علم میں ہے۔ کچھ فارسی الفاظ ایسے ہیں جن کی املاء دو، دو، تین، تین ہجوں میں درست سمجھی جاتی ہے۔ راہ، رَہ (راستہ)، گاہ، گَہ (مقام، موقع)، خموشی، خامشی، خاموشی (چُپ)؛ ایسے الفاظ کی املاء کو امکانی حد تک صوتیت کے مطابق لکھ لینا بہتر ہے۔ حیاء، رداء، صفاء، طلباء وغیرہ میں عربی املاء کے مطابق ہمزہ لازمی ہے، اردو میں اکثر یہ ہمزہ نہ لکھا جاتا ہے نہ پڑھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو املاء سے بھی حذف کیا جا سکتا ہے۔ مرکبات کا معاملہ دوسرا ہے اس پر پھر بات کریں گے۔

ابودجانہ المنصور
 
زخم خوردہ میں اپنے نفس و شیطان کے فریبوں کا۔۔۔ ۔ اس میں زخم کا تلفظ اگر خاء کے جزم کے ساتھ ہے تو اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟
اداب در سے بھی واقف نہیں منگتا مگر تائب۔۔۔ ۔۔ اس میں اداب کے ’’آ‘‘ کو شعر کی وجہ سے الف سے نہیں بدلا جا سکتا ؟ اگر نہیں تو متبادل کیا ہونا چاہیے؟


زخم (زَخ+م) خاء ساکن کے ساتھ درست ہے۔ اس کو مصرعے میں اس کی جگہ بدل کر دیکھئے، یا کوئی اور ترکیب بنا لیجئے۔ فوری طور پر کچھ تجویز کرنا مشکل ہے۔ آپ سوچئے، تو کچھ نہ کچھ سوجھ جائے گا۔

’’میں آدابِ درِ شاہاں سے واقف تو نہیں لیکن‘‘ ۔۔۔۔۔ یا ایسا کچھ دیکھ لیجئے۔ رہی بات تخلص کی، میں تخلص کا استعمال لازمی نہیں سمجھتا، بہ سہولت ہو جائے تو ٹھیک ہے۔

ابودجانہ المنصور
 
زخم (زَخ+م) خاء ساکن کے ساتھ درست ہے۔ اس کو مصرعے میں اس کی جگہ بدل کر دیکھئے، یا کوئی اور ترکیب بنا لیجئے۔ فوری طور پر کچھ تجویز کرنا مشکل ہے۔ آپ سوچئے، تو کچھ نہ کچھ سوجھ جائے گا۔

’’میں آدابِ درِ شاہاں سے واقف تو نہیں لیکن‘‘ ۔۔۔ ۔۔ یا ایسا کچھ دیکھ لیجئے۔ رہی بات تخلص کی، میں تخلص کا استعمال لازمی نہیں سمجھتا، بہ سہولت ہو جائے تو ٹھیک ہے۔

ابودجانہ المنصور
جزاک اللہ خیرا احسن الجزا
 
ایک جگہ آپ نے لکھا ہے:
مجھے ’’اساتذہ کی اصلاح‘‘ کا انتظار ہے، یا کچھ اس سے ملتے جلتے لفظ ہیں۔
معنوی سطح پر تو ’’اساتذہ کی اصلاح‘‘ یہ ہے کہ اُن (اساتذہ) میں کوئی نقص ہے جسے دور کرنا ہے؟ اور ظاہر ہے آپ کا یہ مدعا ہرگز نہیں۔ براہ کرم اس کو یوں کر لیجئے: ’’اساتذہ کی جانب سے اصلاح‘‘۔
بہت بہت شکریہ جناب۔۔
 
لفظ ’’درستگی‘‘ درست نہیں ہے۔ صحیح لفظ ’’درستی‘‘ ہے۔ کوئی غیر ادیب لکھے یا کسی غیر ادبی تناظر میں یہ لفظ ’’درستگی‘‘ اصطلاحاً یا کسی اور انداز میں آ رہا ہے تو وہ ایک قطعی مختلف بات ہے۔ اس لفظ پر اچھی خاصی گفتگو پہلے بھی اسی محفل میں ہو چکی ہے۔ دیکھ لیجئے گا۔

اسی طرح احسان مند ہونے کے معانی میں ایک لفظ بہت زیادہ مستعمل ہے: میں ’’مشکور‘‘ ہوں۔
مشکور تو وہ ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے! شکریہ ادا کرنے والا ’’شاکر‘‘ ہے یا پھر ’’شکر گزار‘‘ ہے۔
’’مشکور‘‘ کی بجائے ’’ممنون‘‘ کہا جائے تو اچھا بھی لگتا ہے اور اس کے معانی بھی بہت عمدہ ہیں: احسان مند۔

اچھی باتیں اپنا لینی چاہئیں۔ کیا خیال ہے؟
یقینی طور پر اچھی باتیں اپنا لینی چاہییں
 
Top