٥٠ کیلومیڑ ہر خوبصورت وادیِ پِشین ہے جہاں پہاڑوں میں سوراخ کرکےانگوری باغوں کے لئے پانی حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں سیب، انگور، آلو بخارہ، آڑو اورخوبانی کی پیداوار ہوتی ہے۔ جھیل سےشام کو واپس آ کرہم نے کیفے بلدیہ میں مقامی بکرے کےگوشت سے تیار کیا ہوابہترین پُلاؤ کھایا۔
سورج کی پہلی کرن سے پہلے ہم لوگ منی وین میں سوارتھے - تھوڑ١ فاصلہ تہہ کرنے کے بعد شہر کی گہماگہمی اور کھچا کھچ ختم ہوگی لیکن سڑک مصروف رہی۔ کار، ٹرک، بائسکل، رکشا ، گدھاگاڑیاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہماری وین ہندو کش پرچڑھ رہی تھی۔ ہندوکش کا شمار پاکستان کےاونچے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک مقام ہراسکی اونچائی ٢٥ ہزار فیٹ سے زیادہ ہے۔ ہماری سڑک سانپ کیطرح قدم قدم پر بل کھاری ہے۔ اور یہ لگاتاہےکہ بس کےڈرایئور کی ایک غلطی اورہم اللہ سے باتیں کررہے ہونگے۔
اچانک ہمیں ہرطرف خیمے ہی خیمےنظر آتے ہیں۔ یہ سرحدی شہراسپن بلڈوک ہے۔ اسکےاردگرد میلوں تک خیموں کا شہرآباد ہے۔ افغانستان کے ہزاروں مہاجرخاندان ان خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ریمشان اُداس ہوگی۔ یہاں پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں -
سڑک جو اب تک پکی تھی۔ یہاں سےگڑھوں کا ایک مجموع بن گی ہے۔ ہرقدم پر ہماری منی وین اُچھل رہی ہے اور ہمارا سر اُسکی چھت سےٹکرا رہاہے۔ دھول اُڑ رہی ہے اور درجہ حرارت ١٢٠ ڈگری ہے۔ سڑک کےدونوں طرف ہر قسم کی گاڑیوں کے ڈھانچےنظر آتے ہیں جو ہمیں حطرناک روڈ اور ایکسیڈینٹ کا احساس دِلاتے ہیں-
تین بجےہم قندھار کےاطراف میں تھے۔ ریمشاں بہت خوش تھی ۔ وہ مجھے اپنا شہردیکھانا چاہتی تھی۔ ہم نےاس کےگھر کی طرف جانے کےلئےلمبا راستہ لیا۔
کابل کےبعد قندھار افغانستان کا بڑا شہر ہے ۔ اسکی آبادی ٢٥٠ ہزار ہوگی۔ یہ دنبہ، اُون، کاٹن، غذا، اناج ، تمباکو، تازہ اورخشک پھلوں کی تجارت کا مرکز ہے۔ اسکا انٹرنیشل ائرپورٹ اسکو کابل، حیرات، کوئٹہ اور روس کے پرانی مملکتوں سےملاتا ہے -
٤ صدی ب س میں الکیزینڈردی گریٹ قندھار آیا۔ہندوستان اور ایران میں اس کی ملکیت پر جنگیں ہوئیں کیونکہ قندھار وسط ایشیا کے تجارتی راستہ پر ہے۔ ٧ صدی میں عربوں نے قندھار کو فتح کرلیا۔ ١٠ صدی میں ترکی کےغزنووں نےاس پر حکمرانی کی۔ ١٢ صدی میں چنگیزخان نےاس شہر کو تباہ کردیا۔١٤ صدی میں ایران کے تِیمُور نے منگولوں کو شکست دی - ١٦ صدی میں بابر نےقندھار کومُغل سلطنت میں شامل کرلیا۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں قندھار میں پیدا ہوئ تھی۔ نیا قندھار احمد شاہ بابا دُرانی نے بسایا۔ قندھار ١٧٤٨ سے١٧٧٣ تک افغانستان کا دارلسلطنت تھا۔ ا حمدشاہ بابا دُرانی موجودہ افغانستان کا بانی تھا۔ اسکا لقب دارِدُرانی ( موتیوں کا موتی ) تھا یہ لقب اسکو اس افغانستان کے روحانی بزرگ پیرصابرشاہ نےدیا۔ احمد شاہ دُرانی نے ١٧٤٧ سے لیکر١٧٧٢ تک بادشاہت کی۔ احمد شاہ دُرانی نے نیا قندھار ایک چوکونے کی طرح بنایا۔ چرسق چوک شہر کے درمیان میں ہے۔ جہاں چارخاص بازار ملتے ہیں۔ کابل بازار پرجامع موی مبارک ہے۔یہ مسجد جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول صلم کے بال اس مسجد میں موجود ہیں۔ دوسرے طرف حیرت بازار مشرق کیطرف جاکر شہیدان چوک پر ختم ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک توپ اور یادگار بنی ہے۔