حیات سعدی کتاب کے لحاظ سے صفحہ 19، 20، 21، 22،

شکاری

محفلین
حیات سعدی صفحہ 19
ٹائپنگ عدنان زاہد


ہوگیا تھا۔ بغدادد میں جن لوگوں سے شیخ نے پڑھا تھا اُن میں سب سے زیادہ مشہور اور نامور شخص علامہ ابوالفرج عبداحمٰن ابنِ جُوزی ہے جسکا لقب جمال الدین ہے۔ یہ شخص حدیث اور تفسیر میں اپنے وقت کا امام تھا بیشمار کتابیں اس کی تصنیفات میں سے ہیں۔کہتے ہیں کہ اُسنے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میں نے جن قلموں سے حدیث لکھی ہے اُن کا تراشہ سے پانی گرم کریں۔ چنانچہ اُس کی وصیت کے موافق عمل کیا گیا۔ اور پانی گرم ہوکر کچھ تراشہ بچ رہا۔
جس زمانہ میں شیخ بغداد میں علامہ ابنِ جوزی سے پڑھتا تھا اس وقت شیخ کی جوانی کا آغاز تھا۔دولت شاہ سمرقندی اور سرگوراوسلی نے لکھا ہے کہ ابن جوزی سے تحصیل علم کرنے کے بعد شیخ نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے بعیت کی تھی اور اُن سے علم تصوف اور طریق معرفت وسلوک حاصل کیا۔ اور پہلی مرتبہ اُنہیں کے ساتھ بیت اللہ کے حج کو گیا۔ مگر یہ بات بالکل غلط ہے۔ کیونکہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی وفات 561 ہجری میں یعنی شیخ سعدی کی ولادت سے بہت پہلے ہوچکی تھی۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ شیخ شہاب الدین سُہروردی سے اُسکو صُحبت رہی ہے۔ اور ایکبار سفرِ دریا میں وہ اُن کے ساتھ رہا ہے۔
 

شکاری

محفلین
حیات سعدی صفحہ 20
ٹائپنگ عدنان زاہد

چنانچہ ایک بار اس نے شکایت کی کہ فلان طالب علم مُجھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جب میں آپس میں بیٹھکر مسائل علمیہ بیان کرتا ہوں تو وہ حسد سے جل جاتا ہے اُستاد یہ سنکر شیخ پر غُصے ہوااور یہ کہا کہ اوروں کے رشک وحسد کی تو شکایت کرتے ہو اور اپنی بدگوئی اور غیبت کو بُرا نہیں سمجھتے۔ تم دونو اپنی عاقبت خراب کرتے ہو وہ رشک وحسد سے اور تم بدگوئی وغیبت سے۔
شیخ کو بچپن سے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے فقر اور درویشی کی کیطرف زیادہ میلان تھا۔ طالب علمی کے زمانہ میں بھی وہ برابر وحد وسماع کی مجلسوں میں شریک ہوتا تھا۔ اور علامہ ابوالفرج ابن جوزی ہمیشہ اُسکو سماع سے منع کرتا تھا مگر شیخ کو سماع کا ایسا چکا تھا کہ اسباب میں کسی کی نصیحت کارگر نہ ہوتی تھی۔ لیکن علماء کی سوسائٹی آہستہ آہستہ اُس کے دل میں گھر کرتی جاتی تھی۔ آخر ایک روز کسی مجلس میں اُنکو ایک بد آواز قوال سے پالا پڑا اور بضرورت ہماری رات اُس مکروہ صُحبت میں بسر ہوئی۔ صحبت کے ختم ہونے پر آپ نے سر سے مُنڈاسا اُتارا اور حبیب میں سے ایک دینار نکالا اور یہ دونوں چزیں قوال کی نذر کیں۔ اصحاب مجلس کو اس حرکت سے تعجب ہوا۔ شیخ نے یاروں سے کہا کہ میں نے آج اس شخص کی کرامت مشاہدہ کی ہے۔ میرا مربی استاد ہمیشہ سماع سے منع کرتا تھا مگر میں نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی اور برابر سماع میں شریک ہوتا رہا۔ آج خوش قسمتی سے اس مبارک جلسے میں آنا ہوا اور اس بزرگوار قوال کے تصرف سے میں نے ہمیشہ کے لیے
 

شکاری

محفلین
حیات سعدی صفحہ 21
ٹائپنگ عدنان زاہد

سماع سے توبہ کی۔
شیخ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کی صحبت سے عالم طالب علمی ہی میں تصوف اور درویشی کے خیالات اس کے دل سے اُتر گئے تھے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک شخص خانقاہ کو چھوڑ کر مدرسہ میں چلاآیا۔ میں نے پوچھا کہ عالم اور درویش میں کیا فرق دیکھا جو اُس طریقہ کو چھوڑ کر اس کوچہ میں قدم رکھا۔ کہا درویش صرف اپنی جان بچانے میں کوشش کرتے ہیں اور علماء چاہتے ہیں کہ اپنے ساتھ ڈوبتوں کو بھی بچائیں۔شیخ نے شعر میں اکثر یہ بات بتائی ہے کہ اُسکو کسی سرزمین کے ساتھ عراق یا بغداد سے بڑھکر تعلق نہیں رہا۔ چنانچہ ایک جگہ کہتا ہے۔
بعد از عراق جابے خوش نایدم ہواسے ساقی بزن تواسے زاں پردہ عراقی
جس زنانہ میں شیخ نظامیہ بغداد میں پڑھتا تھا اگرچہ اُسوقت حقیقت میں عباسیوں کی خلافت کا خاتمہ ہوچکا تھا مگر ظاہری شان وشوکت ہارون اور ہامون کے عہد کو یاد دلاتی تھی۔ عباسیہ کا اخیر خلیفہ معتصم باللہ سریر سلطنت پُر شکن تھا۔ اور اُس کے عہد میں گویا بغداد کی خلافت نے چند روز کے لیے سنبھالا لیا تھا۔ اطراف عالم کے اکابر واشراف اور ہر علم وفن کے ماہر اور ارباب حرفت وصنعت مدنیتہ السلام بغداد میں جمع تھے عیش و عشرت کے سامان حد سے زیادہ ہر طرف مہیا نظر آتے تھے۔ خلیفہ کی عظمت اور رعب وادب سے بڑے بڑے جلیل القدر بادشاہ لررزتے تھے۔ اور بڑے بڑے شہر یار اور فرمان رواید گاہ خلافت میں مشکل سے
 

شکاری

محفلین
حیات سعدی صفحہ 22
ٹائپنگ عدنان زاہد


باریاب ہوتے تھے۔ قصر خلافت کے آستانہ پر ایک پتھر بمنزلہ حجرالاسود کے پڑا ہوا تھا۔ جسکو اُمرا اور اعیان سلطنت قصر خلافت میں داخل ہوتے وقت بوسہ دیتے تھے تہواروں میں جس راہ سے خلیفہ کی سواری نکلتی تھی وہاں ایک مدت پہلے سے رستہ کے تمام منظر اور بالا خانے کرایہ داروں سے رک جاتے تھے۔ الغرض عباسیہ کا یہ آخری جاہ و جلال شیخ نے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ اور پھر اُسی آنکھ سے اُس دارالخلافہ کا بے چراغ ہونا جو چھ سو برس بوسہ گاہ ملوک وسلاطین رہا تھا اور اُس خاندان کی بربادی جس کا سایہ اقتدار یورپ ایشیا اور افریقہ پر برابر پڑتا تھا اور خلیفہ اور اُسکی اولاد اور ہزارہا بنی عباس اور کئی لاکھ اہل لشکر اور اہل بغداد کا تاتاریوں کی تیغ بیدریغ سے قتل ہونا اور عرب کے سطوت اور اقتدار کا ہمشیہ کے لیے صفحہ روزگار سے مٹ جانا مُشاہدہ کیا تھا۔ شیخ نے وہ تمام اسباب بھی دیکھے تھے جو مستعصم باللہ کی تباہی اور عباسیہ کے زوال کا باعث ہوئے اور وہ ظلم وستم بھی اُسکی آنکھوں کے روبرو گزرے تھےجو ہلاکو خان کے خونخوار لشکر نے بغداد میں برپا کیے۔ ان حوادث و واقعات کا تماشہ شیخ کے لیے نہایت عمدہ سبق تھا جسے اُسکے دل میں قوم کی دلسوزی بادشاہوں کی اصلاح رعایا کی ہمدردی اور ہر طبقہ کے لوگوں کی بھلائی کا خیال پیدا کردیا تھا اور اسی خیال کی بدولت اُس نے اپنی تمام عمر ابنائے جنس کی نصیحت اور خیر اندیشی میں صرف کی۔ مستعصم باللہ کا بہایت دردناک مرثیہ شیخ نے اُسوقت لکھا ہے جب کوئی شخص اُس کا
 
Top