حکومت کی مدت چار سال کرنے کی بحث

الف نظامی

لائبریرین
قومی اسمبلی میں قائد اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے چند روز پہلے کہا کہ اگر حکومت کی مدت چار سال کر دی جائے تو سازشوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے بھی کہہ دیا کہ انہیں مدت کم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

تجزیہ نگار حسن عسکری کہتے ہیں کہ آئین سازی کےذریعے حکومت کی مدت چار سال کرنے میں کوئی مضائقہ تو نہیں لیکن انتخابی عمل کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اس پر اعماد بحال ہو۔

حسن عسکری کے بقول ’ہمارےسیاست دان اپنے مخالف کی ٹانگ کھینچنے کو بہت بے چین ہوتے ہیں اور حکومت کے خلاف ذرا سی بات پر ہنگامہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان میں عملی طور پر جمہوریت کی روح جمہوری مزاج اور جمہوری کلچر کا فقدان ہے۔‘

حسن عسکری کہتے ہیں کہ معاشرے میں عمومی طور پر برداشت کی سطح بہت کم ہو گئی ہے اس لیے سیاست دانوں میں بھی برداشت کی یہ کمی بہت واضح ہے۔

تجزیہ نگار نذیر ناجی تو پارلیمان کی مدت چار سال کرنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی مدت کتنی ہو یہ اصل مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظام کی عزت نہیں کی جاتی۔

نظام چاہے کوئی بھی ہو اس میں عوام اور حکمرانوں دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت کے وقار کا خیال رکھیں اور اگر اس وقار کا خیال نہیں رکھا جاتا تو مدت چاہے چار سے تین اور تین سے دو بھی کر دی جائے کوئی فرق نہیں پڑے گا یہ دوسرے دن ہی لڑ پڑیں گے۔‘

نذیر ناجی کے بقول ’ہمارے سیاست دان انتظار کر ہی نہیں سکتے جیسے نواز شریف کو تو پہلے سال ہی پکڑنا شروع کر دیا۔‘

نذیر ناجی کا یہ بھی کہنا ہے حکومت بنتے ہی اس کی مخالفت اس لیے بھی شروع ہو جاتی ہے کہ حکومت کرنے والوں کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا اور حزب مخالف اور حزب اقتدار دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت صرف لوٹ مار کرنے کا نام ہے اور دونوں باریاں لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

نذیر ناجی کے خیالات کے بر عکس تجزیہ نگار رسول بخش رئیس حکومت کی مدت کو چار سال کرنے کے کافی حامی ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’ہمارے ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کی مدت کو پانچ سال سے کم کر کے چار سال کر دینا درست ہو گا اور یہ سب کے لیے ہو گا موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آنے والی حکومتوں کے لیے بھی۔‘

رسول بخش رئیس یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے مڈ ٹرم الیکشنز مطالبات اور اس کے لیے دھرنے اور جلسے وغیرہ کم ہو جائیں گے۔

رسول بخش رئیس کے مطابق پاکستان میں جو طرز جمہوریت ہے وہ دولت مشترکہ کے ممالک کی طرح ہے اور ایسے طرز جمہوریت میں آخر میں دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں رہ جاتی ہیں۔ لہذا یہ سمجھنا کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن چار سال کی مدت کرنے میں دلچسپی اس لیے رکھتی ہیں کہ ان کی باری جلد آ جائے سیاست دانوں کی کم علمی کے سبب ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
چار سال سے آخر کیا فرق پڑے گا؟ ایک ایسے ملک میں جہاں صرف ایک آدھ حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے وہاں یہ مسئلہ کیوں ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
چار سال سے آخر کیا فرق پڑے گا؟ ایک ایسے ملک میں جہاں صرف ایک آدھ حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے وہاں یہ مسئلہ کیوں ہے؟
اس لیے کہ دنیا کے بہترین جمہوری ممالک میں یہ مدت چار سال ہی ہے
مثلا
ناروے ؛
سویڈن؛
فن لینڈ؛
میں الیکشن کی مدت 4 سال ہے۔

ان ممالک کا ڈیموکریسی انڈیکس معلوم کر لیجیے۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
اب تو الیکشنز کے کھیل سے بھرپائے عوام پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدھے سبھاؤ " سعودیہ " یا " چائنہ " کو ٹھیکے پر کم از کم دس سال کے لیئے دے دیا جائے ۔
وسائل تو وہ بھی لوٹیں گے مگر عوام کو اس مہنگائی اس کرپشن سے بالیقین چھٹکارہ ملے گا ۔
ورنہ یونہی الیکشنز ہوتے رہیں گے ۔ مجھ ایسے کرپٹ مفاد پرست مجھ پر ہی میری مرضی سے مسلط رہیں گے ۔
کون ہے اس معاشرے میں جو کہ " 62 یا 63 کی شرائط پر پورا اترنے کی اہلیت رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ذرا سامنے تو لاؤ ایسی ہستی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 
Top