حُسین ہی تو ہیں وہ بحرِ بے کرانِ حیات - یکتا امروہوی

حسان خان

لائبریرین
حُسین ہی تو ہیں وہ بحرِ بے کرانِ حیات
ردائیں جن کے حرم کی ہیں بادبانِ حیات
ازل سے تا بہ ابد میرِ کاروانِ حیات
جدھر یہ چاہیں اُدھر پھیر دیں عنانِ حیات
زمینِ زندگیِ جاوداں ہے زیرِ نگیں
انہی کے قبضۂ قدرت میں آسمانِ حیات
ملی ہے اِن سے غرورِ اجل کو پسپائی
یہ زندگی کے ہیں فاتح، یہ کامرانِ حیات
ہر اک قدم پہ درخشاں ہے نقشِ پا اِن کا
یہ نقشِ پا، رہِ ہستی میں ہے نشانِ حیات
انہی کی راہِ محبت ہے ایک نور کا خط
انہی کی راہِ محبت ہے کہکشانِ حیات
انہی کے نام پہ مرنا ہے زندگی کی نوید
انہی کے نام پہ مرتے ہیں سرخوشانِ حیات
اُدھر اُدھر کی فضا ہو گئی حیات آثار
جدھر جدھر یہ گئے لے کے کاروانِ حیات
پیامِ زندگیِ جاوداں انہی نے دیا
قسم ہے خالقِ جاں کی یہی ہیں جانِ حیات
انہی کے دم سے ہے دنیائے زندگی قائم
نہ ہو جو آپ کا قائم، مٹے جہانِ حیات
دوسرے مصرعے میں قائم سے امام مہدی مراد ہیں۔
انہی کے فیضِ نگاہِ حیات آگیں سے
ہے کربلا کی زمیں آج آسمانِ حیات
بنایا تیغ کے پانی کو جس نے آبِ بقا
دیا وہ موت کی صورت میں امتحانِ حیات
جو اِن کے سر پہ حوادث کے چھائے تھے بادل
وہ آج ہیں سرِ امت پہ سائبانِ حیات
کلائی موت کی بڑھ کر مروڑ دیتے تھے
بڑے غضب کے جیالے ہیں عاشقانِ حیات
جو ہونی چاہیے دراُصل اک حیات کی شان
بس اِن کے در پہ نظر آئے گی وہ شانِ حیات
کسی شہید سے سن لو حیات کی تشریح
نہیں ہے ایک، بہتّر ہیں ترجمانِ حیات
یہی ہیں محرمِ اسرارِ زندگی یکتا
انہی کو حق نے بنایا ہے رازدانِ حیات
(یکتا امروہوی)
 
سبحان اللہ ۔۔۔۔ نہایت لاجواب انتخاب !
پیامِ زندگیِ جاوداں انہی نے دیا
قسم ہے خالقِ جاں کی یہی ہیں جانِ حیات۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حُسین ہی تو ہیں وہ بحرِ بے کرانِ حیات
ردائیں جن کے حرم کی ہیں بادبانِ حیات
ازل سے تا بہ ابد میرِ کاروانِ حیات
جدھر یہ چاہیں اُدھر پھیر دیں عنانِ حیات
زمینِ زندگیِ جاوداں ہے زیرِ نگیں
انہی کے قبضۂ قدرت میں آسمانِ حیات
ملی ہے اِن سے غرورِ اجل کو پسپائی
یہ زندگی کے ہیں فاتح، یہ کامرانِ حیات
ہر اک قدم پہ درخشاں ہے نقشِ پا اِن کا
یہ نقشِ پا، رہِ ہستی میں ہے نشانِ حیات
انہی کی راہِ محبت ہے ایک نور کا خط
انہی کی راہِ محبت ہے کہکشانِ حیات
انہی کے نام پہ مرنا ہے زندگی کی نوید
انہی کے نام پہ مرتے ہیں سرخوشانِ حیات
اُدھر اُدھر کی فضا ہو گئی حیات آثار
جدھر جدھر یہ گئے لے کے کاروانِ حیات
پیامِ زندگیِ جاوداں انہی نے دیا
قسم ہے خالقِ جاں کی یہی ہیں جانِ حیات
انہی کے دم سے ہے دنیائے زندگی قائم
نہ ہو جو آپ کا قائم، مٹے جہانِ حیات
دوسرے مصرعے میں قائم سے امام مہدی مراد ہیں۔
انہی کے فیضِ نگاہِ حیات آگیں سے
ہے کربلا کی زمیں آج آسمانِ حیات
بنایا تیغ کے پانی کو جس نے آبِ بقا
دیا وہ موت کی صورت میں امتحانِ حیات
جو اِن کے سر پہ حوادث کے چھائے تھے بادل
وہ آج ہیں سرِ امت پہ سائبانِ حیات
کلائی موت کی بڑھ کر مروڑ دیتے تھے
بڑے غضب کے جیالے ہیں عاشقانِ حیات
جو ہونی چاہیے دراُصل اک حیات کی شان
بس اِن کے در پہ نظر آئے گی وہ شانِ حیات
کسی شہید سے سن لو حیات کی تشریح
نہیں ہے ایک، بہتّر ہیں ترجمانِ حیات
یہی ہیں محرمِ اسرارِ زندگی یکتا
انہی کو حق نے بنایا ہے رازدانِ حیات
(یکتا امروہوی)


بہت عمدہ، بہت خوبصورت، کس درجہ شان یکتائی ہے!
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ ۔ ۔
حُسین ہی تو ہیں وہ بحرِ بے کرانِ حیات
ردائیں جن کے حرم کی ہیں بادبانِ حیات
نہائت عمدہ کلام
 
Top