حمام بارگرد –3

حاتم کُرسئ حجامت پر دو زانو ہو بیٹھا- حجام نے گدڑی سے ایک بوسیدہ سی چادر نکال کر اس کے گرد لپیٹی- پھر چمڑے پر اُسترا تیز کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا
چلی نشتروں پہ جو کنگھیاں
اور تن پہ چل گئیں قینچیاں
گنجے نے گنجا کر دیا
کبھی اِس طرح کبھی اُسترا
اے حاتم
میں موسی وِرک کا جدّی پشتی نائ ہوں- نام اللّہ دتّہ ہے- باپ اس زلف تراش کا ” سِیپ” پر کام کرتا تھا- سال بھر کی حجامت کا صلہ گندم کی ایک بوری کی صورت ملتا تھا- ایک روز کسی سرکاری گودام سے بوری چُرا رہا تھا کہ باہر کسی نے نعرہ لگا دیا
دیکھو دیکھو کون آیا
بابا کا تراہ نکلا ، بوری سر پہ گِری اور نیچے آ کر فوت ہو گیا
والد کا سایہء عاطفیّت اٹھا تو بھائیوں میں جائیداد کی جنگ چھِڑ گئ- سو طرح کے فتنے “رچھانڑیوں” سے نکل کر گھر میں پھیل گئے- آخر کو بٹوارہ ہوا اور ترکے میں اس فقیر کے دو قینچیاں ، ایک اُسترا اور ایک نہیرنا آیا
اس دلّق پوش نے لاری آڈّے پر ایک گھنّا پیڑ تلاش کیا- تنّے پر شیشہ لٹکایا اور شکار کے انتظار میں بیٹھ گیا- آس پاس کے دیہاڑی دار مزدور پاکی و بغل گیری کےلئے متوجہ ہوئے اور کاروبار اس فقیر کا چل نکلا
پھر تقدیر مہربان ہوئ اور ایک رفیقِ کار کے توسط سے کوٹ سنجان سنگھ اڈّے پر کرائے کی دُکان مل گئ- میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا- اس خوشی میں چالیس روز تک غرباء و مساکین کی کھڑے کھڑے ٹنڈ بنائ پھر دُکان پر ” اے- ڈی- ندیم ہیئر ڈریسر” کا بورڈ لگا کر بیٹھ گیا
کچھ زرِ نقد جمع ہوا تو میانچنوں سے قسطوں پر ایک سائیکل خریدی ، تاکہ آنے جانے کا جھنجھٹ نہ رہے اور لاری کا کرایہ بھی بچا سکوں
ایک روز جب میں ایک روتے بلکتے نوزائدہ وزیرِ اعظم کی “جَھنڈ” اتار رہا تھا ، ایک خوش پوش ، لباسِ خُسروانہ پہنے دکان میں وارد ہوا- بوسکی کی قمیض ، لٹھّے کی شلوار ، گچ موزہ ، آنکھ پر سیاہ چشمہ ، بغل میں انگریزی اخبار اور سر سے گنجا
اس غنیم کی آمدِ شاہانہ پر بلکتا بچہ بھی خاموش ہو گیا- میں بخوشی مُجرا بجا لایا اور تقدیر پر شاکر ہوا کہ کیسے کیسے اُمراء یہاں تشریف لانے لگے ہیں
کام سے فارغ ہوا تو بڑے ادب سے عرض گزاری
حضور کیا خدمت بجا لاؤں ؟؟
اس پر اس خُسرو زاد نے بائیں ہاتھ کی آستین ذرا اوپر کو کھسکائ اور سونے کی مرصح گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے کہا
نزاکتِ قلّتِ وقت مانع ہے- بس ذرا حمام کرا دیجئے ، بعد میں خضابِ سیاہ اور اگر وقت میسر آوے تو دوآبے پر بٹھا کر زُلف کی نوک پلک بھی سنوار دیجئے گا
میں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ، لکڑی کے صندوقچے سے نیا رنگین تولیہ نکالا- فروشگاہ سے لکس کی نئ ٹکیہ منگوا کر شیشے کی صابن دانی میں سجائ – پھر یہ تمام لوازمات بڑے چاؤ سے ایک طشتری میں سجا کے نذر اس شریف زادے کی کئے اور کہا:
حضور انتقاعِ نظامِ برقی سے آبِ تازہ میّسر نہیں … بغل میں ہی سرکاری کھال ہے …. وہاں شوقِ پیراکی فرما کر جلد تشریف لائیے میں ٹوکن والا پینٹ منگواتا ہوں
اس نے نہایت تحمل سے کہا
آج نہری پانی کا ناغہ ہے ، آپ محض زلف تراش کر رنگ کر دیجئے … گھر جا کر نہا لوُں گا
میں شرمندہ ہوا- پھر بڑے ادب سے اس شخص کو کرسئ حجامت پر بٹھایا اور پیشہ ورانہ مہارت سے زلفوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان میں رنگ بھرنے لگا
غرض کہ کوئ گھنٹہ بھر کی مشقت کے بعد وہ صاحب زادہ تیّار ہوا- پھر اٹھتے ہی ایک شانِ بے نیازی سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور نوٹ ہزار کا نکال کر کہا
کھُلے نہیں ہیں … اسے رکھ لیجئے … پھر کبھی چکر لگا تو لے لوُں گا
میں نے کہا
قبلہ !! یہ فقیر اس قابل تو نہیں باقی جو مزاجِ یار میں آئے دِل و جان سے قبول ہے
وہ بولا
جو لطف اس حمام میں میّسر ہوا وہ افریقہ کے صحراؤں میں بھی مہیا نہیں – واللہ آپ کی خوش مزاجی نے میرا دل جیت لیا
اس طرح وہ نوشیروانِ زبردستی میری جیب میں ہزار کا نوٹ ڈال کر چلا گیا
کوئ گھنٹہ بھر بعد وہی امیرزادہ کان کھجاتا ہوا دکان میں داخل ہوا اور بولا
ایک چھوٹی سی زحمت دینا تھی آپ کو … اُمید ہے آپ خفا نہ ہونگے


بشکریہ …. ظفر اقبال محمّد

 
Top