حق مہر

ام اویس

محفلین
مہر کسے لہتے ہیں ؟
خالق کائنات نے انسان کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد کی ضرورت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ ہر معاشرے میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ اسلام میں نکاح کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان مضبوط عہد قائم کیا جاتا ہے۔ اس عہد کو پورا کرنے کے لیے مرد و عورت دونوں کی نیت ، قول اور عمل تمام عمر، مسلسل اور بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔عقد نکاح میں مہر کی خاص اہمیت ہے۔ مہر عورت کا وہ حق ہے جو مرد پر اس کی معاشی حیثیت کے مطابق لازم کیا گیا ہے۔ نکاح کے موقع پر عورت کی سماجی حیثیت کے مطابق مرد اسے کوئی ہدیہ پیش کرے۔ اس ہدیے کو مہر کا نام دیا گیاہے۔
مہر کے لیے قرآن مجید میں چار لفظ لائے گئے ہیں۔
صداق
نحلہ
فریضہ
اُجور

صداق اور نحلہ
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً
اردو:
اور عورتوں کو ان کے حق مہر خوش دلی سے دے دیا کرو۔
النساء:4
۔۔۔۔
صداق صدق سے ہے جس کا مطلب ہے سچائی، اخلاص، دوستی۔ آدمی کا بات میں پکا ہونا، آزمائش کے وقت سچا ثابت ہونا، کسی کے حسنِ ظن پر پورا اترنا۔
صدق کذب کا متضاد ہے۔ میاں بیوی کے درمیان مہر کے لیے صدقے کا لفظ اس لیے لایا گیا ہے کہ وہ اس عقد میں سچے دل سے شریعت کی موافقت کرتے ہیں ۔مہر شوہر کے خلوص، اس کی محبت، وفا اور تاحیات ساتھ نبھانے کے عہد کی علامت ہے۔
نحلہ اس تحفے کو کہا جاتا ہے جس کے بدلے میں کسی چیز کا لالچ نہ ہو۔ شہد کی مکھی بھی بغیر کسی فائدے یا غرض کے نفع دیتی ہے اس لیے اسے نحل یا نحلہ کہتے ہیں۔یہاں نحلہ سے مراد وہ تحفہ ہے جس کا ادا کرنا شرعا اور قانونا واجب ہے۔ جو عورت کے مطالبے یا اصرار کے بغیر، خوش دلی سے ادا کیا جاتا ہے اور جس کے بدلے میں شوہر عورت سے کچھ نہیں لیتا۔

فریضہ اور اُجُور

فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
ان کے مہر انہیں دو جو تم پر فرض ہیں۔
النساء:24
فریضہ لفظ فرض سے ہے جس کا مطلب ہے قطعی حکم ۔ جو احکام الله سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں پر لازم کر دئیے ہیں انہیں فرض یا فریضہ کہتے ہیں۔
اُجور اجر کی جمع ہے جس کا معنی عوضانہ، بدل یا اجرت ہے۔اسی آیت میں مہر کو اجر یا عوضانہ بھی کہا گیا ہے۔ شرعی نکاح سے عورت کا حق زوجیت مرد کے نام ہو جاتا ہے ۔ مرد کی حیثیت عورت کے مقابلے میں بلند درجہ پر ہے اور اس درجے کی وجہ بھی عورت پر اس کا مال خرچ کرنا ہے۔ اس پورے تعلق اور ذمہ داری کا پہلا ثبوت مہر ہے جسے قرآن مجید میں اُجُور کا نام دیا گیا ہے۔
مہر عورت کے لیے مرد کی طرف سے عطیہ یا انعام ہے۔ کیونکہ اجور کا ایک معنی انعام بھی ہے ۔ اہل ایمان کو اعمال صالح پر اجر ، اجور، جزا ، ثواب وغیرہ کا وعدہ قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان کیا گیا ہے۔
مأخذ : مہر بیوی کا اولین حق ۔ ام عبد منیب
 

ام اویس

محفلین
حق مہر کتنا ہونا چاہیے؟

کم از کم مہر کے متعلق صحیح مسلم میں ایک روایت ملتی ہے جو درج ذیل ہے ۔۔
سہل بن سعد ساعدی رضي اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ :
ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپنے آپ کوآپ کے لیے ھبہ کرتی ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اوراپنی نظریں اوپرکرنے کے بعد نيچے کرلیں جب عورت نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئي فیصلہ نہیں فرمایا تووہ بیٹھ گئي ۔
صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کھڑا ہوا اورکہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ کواس عورت کی ضرورت نہیں تومیرے ساتھ اس کی شادی کردیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس صحابی نے جواب دیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ اللہ تعالی کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنے گھروالوں کے پاس دیکھو ہوسکتا ہے کچھ ملے جائے ، وہ صحابی گيا اورواپس آ کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے وہ گیا اورواپس آکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم لوہے کی انگوٹھی بھی نہيں ملی ، لیکن میرے پاس یہ چادر ہے اس میں سے نصف اسے دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
اس کا تم کیا کرو گے اگر اسے تم باندھ لو تواس پر کچھ بھی نہيں ہوگا ، وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بات سن کر بیٹھ گيا اورجب زيادہ دیر بیٹھا رہا تواٹھ کر چل دیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تواسے واپس بلانے کاحکم دیا جب وہ واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
تجھے کتنا قرآن حفظ ہے ؟ اس نے جواب دیا فلاں فلاں سورۃ حفظ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اسے زبانی پڑھ سکتے ہو ؟ وہ کہنے لگا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جاؤ میں نے جو تمہیں قرآن کریم حفظ ہے اس کے بدلہ میں اس کا مالک بنا دیا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1425 )

تواس حدیث میں ہے کہ مہر کم بھی ہوسکتا ہے اورزیادہ بھی جس سے مال حاصل کیا جاسکتا ہو ، لیکن اس میں خاوند اوربیوی کی رضامندی ضروری ہے کہ وہ جتنے مہر پر راضي ہوجائيں ، اس لیے کہ مہر میں کم از کم لوہے کی انگوٹھی ہے ۔
امام شافعی اورسلف اوربعد میں آنے والے جمہور علماء کرام رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے ، ربیعہ ، ابوالزناد ، ابن ابی ذئب ، یحیی بن سعید ، لیث بن سعد ، اورامام ثوری ، اوزاعی ، مسلم بن خالد ، ابن ابی لیلی ، اورداود ، اوراہل حدیث فقھاء کرام رحمہ اللہ تعالی اجمعین اورامام مالک کے اصحاب میں ابن وھب کا بھی یہی مسلک ہے ۔
حجازیوں ، بصریوں ، کوفیوں ، اورشامیوں وغیرہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ جس پر بھی خاوند اوربیوی راضي ہوجائیں چاہے وہ زيادہ وہ یا کم مہر مثلا جوتا ، لوہے کی انگوٹھی اور چھڑی وغیرہ ۔

اور ایک بات امہات المؤمنین رضي اللہ تعالی عنہن کے مہر کے بارہ میں گزارش ہے کہ :
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے حدیث بیان کی ہے کہ :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ میں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المؤمنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر کتنا تھا ؟
توان کا جواب تھا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر بارہ اور نش اوقیہ تھا ، فرمانے لگیں کہ نش کا علم ہے کہ وہ کتنا ہے ؟ ابوسلمہ کہتے ہیں میں نے جواب دیا نہیں مجھے علم نہيں وہ کہنے لگیں کہ نصف اوقیہ :
تویہ پانچ سودرھم ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مہرتھا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1426 )
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
آپ اپنے علم میں یہ رکھیں کہ شروع اسلام اورصحابہ کرام اورتابعین عظام کے دور سے یہ اجماع پایا جاتا ہے کہ شرعی درھم وہ ہے جس کا وزن دس درھم سات مثقال سونے کے برابر ہو ، اورایک اوقیہ چالیس درھم کا ہوتا ہے ، تو وہ اس طرح ستر دینار ہوئے ۔۔۔ وزن کا یہ اندازہ اجماع سے ثابت ہے ۔ دیکھیں : مقدمہ ابن خلدون ص ( 263 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دینار بارہ درھم کے برابر تھا ۔
اور دینار کا وزن ہمارے موجودہ دور میں سوا چارگرام چوبیس کیرٹ سونے کا وزن بنتا ہے ۔
تو اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مجموعی مہر پانچ سو درھم جو کہ تقریبا ساڑھے اکتالیس دینار بنتا ہے جو ( 176.375 ) یعنی ایک سوچھتر اعشاریہ تین سو پچھتر گرام سونے کے برابر ہوگا ۔
تومثلا جب ایک گرام سونا نو ڈالر کا ہو تو جوتقریبا اس وقت ریٹ چل رہا ہے (اب تو بہت بڑھ گیا ہے) توازاوج مطہرات کا مجموعی مہر موجودہ کرنسی میں تقریبا ( 1587 ) ڈالر
اور پاکستانی روپوں میں (40162)بنے گا ۔
لیکن یاد رہے جتنا آپ آسانی سے دے سکیں اتنا دینا چاہیے اور زیادہ حق مہر کی کوئی حد مقرر نہیں
واللہ اعلم .
مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی اور نہ عورت کے پیار و عصمت کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے ۔ یہ تو صدیوں سے ظلم اور بے بسی میں جکڑی عورت کو آزادی کا اختیار Freedom of Will عطا کرنے کے لیے اسلام نے عورت کو مہر کا حق دے دیا ۔ یہ ایک علامت symbol ہے جس کو قبول کر کے وہ مرد کو اپنانے کا اعلان کرتی ہے ۔ اگر وہ اسے قبول نہ ہو تو نہ مرد اس پر زبردستی کر سکتا ہے نہ خود اس کے ماں باپ ۔ دراصل مہر عورت کی رضا مندی Consent کا اعلان ہے ۔
قرآن مجید میں واضح طور پر جہاں بھی مہر کا حکم آیا ہے ’ نقد ‘ ادا کرنے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ فقہاء نے اگرچہ اس کو اُدھار رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن قرآن مجید یا سیرت رسول و صحابہ سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ مہر کو اُدھار رکھا گیا ہو ۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی مالی حیثیت کیا تھی یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر ایک کو حسب استطاعت جتنا نقد ادا کرسکتے ہوں ادا کرنے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ عورت کو قبول ہو ۔
کسی صحابی (رضی اللہ عنہ) کو زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا کسی کے پاس صرف ایک چادر تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی چادر دینے کا حکم دیا ۔
کسی کو صرف قرآن مجید کی کچھ آیتیں یاد تھیں ، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی سورتیں عورت کو یاد دلادینے کے کام کو مہر کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا ۔
حضرت اُم سلیم (رضی اللہ عنہا) کا واقعہ قابل مثال ہے کہ انہوں نے ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) جیسے امیر شخص کے لیے مہر میں صرف کلمہ پڑھنے کی شرط رکھی۔ (اُس وقت تک ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اسلام نہیں لائے تھے ) ۔
شادی کے رقعوں پر النکاح من سنتی لکھوانے والے غور کریں کہ اگر اُدھار رکھنے کا جواز ہوتا تو سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) و صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ہمیں بے شمار واقعات مل جاتے جو یقیناً بہت غریب تھے لیکن دلوں کے ایسے امیر کہ اگر وہ اُدھار بھی رکھتے تو ان کی طرف سے مہر کے ڈوب جانے کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مہرکے فرض ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ // النساء:34
مرد کو عورتوں پر قوام اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کی ابتداء مہر سے ہوتی ہے ۔ جہیز لے کر جہاں وہ اس آیت کو الُٹ دیتا ہے وہیں مہر کو اُدھار کر کے وہ ان تمام آیات کی خلاف ورزی کرتا ہے ، جن کے ذریعے عورت اس پر حلال ہوتی ہے۔۔۔۔
واللہ اعلم
مہر کی اہمیت ومقدار
مہر لوازم نکاح میں سے ہے ، اس کی ادائیگی مرد کے ذمے ہے ۔ قرآن کریم میں ہے
واٰتواالنساء صدقاتھن نحلة
عورتوں کو خوش دلی سے ان کے مہر ادا کردو۔
مہردراصل عورت کے اعزاز کا ایک رمز ہے، اس کا مقصد عورت کا اعزاز ہے ، مہر نہ تو عورت کی قیمت ہے اورنہ صرف ایک رسمی اور فرضی کارروائی کا نام ہے ، اسلام مہر کو لازم کرتا ہے ، مگر اسے نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ اس لیے اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی تحدید وتعیین نہیں کی گئی ہے ، اسلام نے مہر کی کوئی ایسی آخری حد متعین نہیں کی ہے جس کے بعد اجازت نہ رہے، لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہر کا اتنا رہنا مطلوبِ شرعی ہے جو بآسانی ادا ہو سکے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک موقع پر اپنے اجتہاد سے مہر کی تحدید کرنی چاہی اور چار سو درہم سے زیادہ مہرمتعین کرنے پر روک لگا دی اور یہ فرمایا کہ اس سے زیادہ مہر نہ باندھا جائے ، اگر مہر کی زیادتی باعث اعزاز دینی ودنیوی ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے ، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کاعمل یہ رہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بالعموم اپنی بیویوں اور صاحب زادیوں کا مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ نہیں رکھا، اب چارسو درہم سے زیادہ جو مہر رکھے گا وہ زائد رقم بیت المال میں جمع کرے گا۔۔۔۔
اس پر قریش کی ایک خاتون نے اعتراض کیا اور کہا : اے عمر ! اس تحدید کا تمہیں کس نے اختیار دیا ہے؟
قرآن تو اس طرح کی حدبندی نہیں کرتا۔ قرآن میں تو آیا ہے:
واٰتیتم احداھن فنطاراً فلا تاخذوا منہ شیئاً
تم نے اسے ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔
”قنطار“(خزانہ او رمال کثیر) کا لفظ مہر کی کثرت بتارہا ہے ، پھر تم کیسے حدبندی کرسکتے ہو؟
اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے برملا اعتراف کیا کہ عورت نے درست کہا او رمرد نے غلطی کی، خدایا! مجھے معاف رکھیے۔۔۔۔ ہر آدمی عمر سے زیادہ سمجھ دار ہے
پھر فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے روکا تھا، مگر اب میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے مال میں کم وبیش جتنا چاہے مہر رکھ سکتا ہے۔
(مجمع الزوائد:283/4 ، الفقہ الاسلامی للزحیلی256,255/7)
اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مہر کی آخری کوئی حد اسلام نہیں مقرر کرتا، تاہم اسلام یہ مزاج بنانا چاہتا ہے کہ مہر کی تعیین انسان اپنی ادائیگی کی وسعت وطاقت کے تناسب سے کرے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا انتہائی صریح، زریں اورپورے معاملہٴ نکاح میں حرزجاں بنانے کے قابل ارشاد یہ ہے:
”ان اعظم النکاح برکة أیسرہ مؤنة“․
(نیل الاوطار:168/6)
ترجمہ: سب سے بابرکت نکاح بلاشبہ وہ ہے ،جس میں مشکلات ومصارف کم سے کم اور آسانیاں زیادہ سے زیادہ ہوں۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
”خیر الصداق أیسرہ․“
( مستدرک حاکم:182/6)

اس طرح ارشاد نبوی ہے:
”ان اعظم النساء برکة ایسرھن صداقاً“․
( ایضاً)
ترجمہ: سب سے بابرکت خاتون وہ ہے ( جس کا مہر ادا کرنے کے اعتبار سے) آسان(اورکم) ہو۔

مہر کو زیادہ نہ رکھنے کی تعلیم کا مقصود صرف یہ ہے کہ نوجوان بآسانی نکاح کے بندھن میں بندھ سکیں اور بے نکاح رہنے کی وجہ سے جو بے شمار اور لاینحل معاشرتی او راخلاقی مفاسد درآتے ہیں، ان سے بچاؤ ہو سکے۔
والله اعلم

نکاح میں مہر کا رکھنا ضروری ہے، نکاح کے وقت اگر مہر مقرّر نہیں کیا گیا تو ”مہرِ مثل“ لازم ہوگا، اور ”مہرِ مثل“ سے مراد یہ ہے کہ اس خاندان کی لڑکیوں کا جتنا مہر رکھا جاتا ہے، اتنا لازم ہے۔ مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ہے۔ نکاح کے دن بازار میں اتنی چاندی کی جتنی قیمت ہو، اس سے کم مہر رکھنا جائز نہیں، اور زیادہ مہر کی کوئی حد مقرّر نہیں کی گئی، فریقین کی باہمی رضامندی سے جس قدر مہر رکھا جائے جائز ہے۔ لیکن مہر لڑکی اور لڑکے کی حیثیت کے مطابق رکھنا چاہئے تاکہ لڑکا اسے بہ سہولت ادا کرسکے۔
مہر وہی دینا ہوگا جو طے ہوا، مرد کی نیت کا اعتبار نہیں۔
 
Top