حقوقِ نسواں بل

مہوش علی

لائبریرین
آجکل پاکستان میں حقوقِ نسواں بل پر بہت بحث چل رہی ہے۔
یہ بتائیے کہ یہ بل ہے کیا اور اسکی کیا شقیں ہیں؟
اور کیا وجہ ہے کہ اس معاملے میں علماء میں اختلاف ہے۔
ایک طرف حکومتی علماء ہیں جنہوں نے یہ بل تیار کیا ہے، اور دوسری طرف علماء ہی ہیں جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

آپکی آراء (مگر آراء سے پہلے اس بل کا مکمل مسودہ)۔ شکریہ۔
 

دوست

محفلین
وہ مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں ضیاءالحق نے جو پیش کیا وہی عین اسلام ہے۔ اور باقی سب منافق ہیں جو رو رہے ہیں کہ زنا بالجبر میں عورت چار گواہ کہاں سے لے کر آئے۔
 
بل کا مسودہ کوئی پیش کردے تو لطف آجائے ویسے میرا ذاتی خیال ہے اسے اب سیاسی ایشو بنایا جارہا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بل کا مسودہ تو نہیں معلوم، لیکن زنا کی نئی تعریف کہ لڑکی کا بالغ ہونا لازمی ہے اور زنا بالرضا کو حدود سے نکالنا ہی سب سے زیادہ متنازعہ سمجھے جا رہے ہیں (یہ ایک بلاگ کی تحریر پر پڑھا تھا)
 
ویسے حکومتی علما اور ایم ایم اے مزید ترمیم کے ذریعے ان جرائم کو بھی حدود کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔

1۔ عورت کا حق جائیداد تسلیم نہ کرنے والوں کو حد کے اندر سزا دی جائے اور اسے جرم قرار دیا جائے۔

2۔ قرآن سے نکاح غیر قانونی ہونا چاہیے

3۔ مرضی کا نکاح کرنے کی اجازت

ان ترمیم کے بعد تو مجھے یہ قانون پاس ہوتا نظر نہیں‌ آرہا۔ اس لیے کہ اس کی سب سے پہلی ضرب ایوان میں بیٹھے ہوئے وڈیروں اور چوہدریوں پر پڑے گی۔ ہاں اگر زنا بالراضا کو جائز اور زنا بالجبر کو تعزیر کا حصہ بنانے کی بات ہوتی تو شاید یہ بل پاس ہو جاتا ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
درست شکریہ وہاب بھائی، اگر موقع ملے تو اس بل کا مسودہ تو اپ لوڈ کردیں‌پلیز۔ اگر مجھے پاکستان سے موقع ملا تو میں کر دوں‌گا لیکن کوئی پکی بات نہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
وہاب اعجاز خان نے کہا:
ویسے حکومتی علما اور ایم ایم اے مزید ترمیم کے ذریعے ان جرائم کو بھی حدود کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔

1۔ عورت کا حق جائیداد تسلیم نہ کرنے والوں کو حد کے اندر سزا دی جائے اور اسے جرم قرار دیا جائے۔

2۔ قرآن سے نکاح غیر قانونی ہونا چاہیے

3۔ مرضی کا نکاح کرنے کی اجازت

ان ترمیم کے بعد تو مجھے یہ قانون پاس ہوتا نظر نہیں‌ آرہا۔ اس لیے کہ اس کی سب سے پہلی ضرب ایوان میں بیٹھے ہوئے وڈیروں اور چوہدریوں پر پڑے گی۔ ہاں اگر زنا بالراضا کو جائز اور زنا بالجبر کو تعزیر کا حصہ بنانے کی بات ہوتی تو شاید یہ بل پاس ہو جاتا ۔

کچھ باتیں میرے حلق سے نیچے نہیں اتر پا رہیں کیونکہ پاکستان سے دور رہنے کی وجہ سے معلوماتی خبروں کا فقدان ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ ایم ایم اے اس بل کی مخالفت کیوں کر رہی ہے، کیونکہ جیسا کہ اعجاز وہاب صاحب آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ بل وڈیروں کے خلاف جا رہا ہے:


1۔ عورت کا حق جائیداد تسلیم نہ کرنے والوں کو حد کے اندر سزا دی جائے اور اسے جرم قرار دیا جائے۔

2۔ قرآن سے نکاح غیر قانونی ہونا چاہیے

3۔ مرضی کا نکاح کرنے کی اجازت


میری ایم ایم اے کے متعلق ایک رائے میں ایک مثبت پہلو بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایم ایم اے اُن روایات کو نہیں مانتی جو کہ اسلام کے اصولوں کے خلاف جا رہے ہوں۔
لہذا اس چیزوں پر شاید ایم ایم اے حکومت کی حمایت ہی کرے جبکہ وڈیرے مخالفت کریں گے۔


میرے خیال میں ایم ایم اے کی طرف سے جو اس بل کی مخالفت ہو رہی ہے، وہ شاید ان وجوہات کی بنا پر ہو:

1۔ زنا بالجبر کے سلسلے میں 4 گواہوں کی شرط نکال کر میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ کو فوقیت دینا۔

2۔ زنا بالرضا کو حدود سے نکال دینا۔

ویسے یہ دوسری شق دلچسپ ہے۔

اس سے پہلے بھی یہ ہو چکا ہے کہ پاکستانی عدالت نے زنا بالرضا پر حد نہیں لگائی تھی اور نکاح بغیر گواہوں کا قبول کر لیا تھا۔ میرے پاس لنک تو نہیں رہا، مگر جنگ اخبار میں اس عدالتی فیصلے کا ذکر کیا گیا تھا۔
 

دوست

محفلین
زنا بالرضا اگر حدود سے نکال دیا تو یہ اللہ سے جنگ کے مترادف ہوگا۔
زنا جو بھی ہے زنا تو ہے۔ لیکن زنا بالجبر میں عورت پر جو 4 گواہ لانے کی شرط ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دوست نے کہا:
زنا بالرضا اگر حدود سے نکال دیا تو یہ اللہ سے جنگ کے مترادف ہوگا۔
زنا جو بھی ہے زنا تو ہے۔ لیکن زنا بالجبر میں عورت پر جو 4 گواہ لانے کی شرط ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔

زنا بالرضا:

سوچنے کی بات ہے کہ:
۔ حکومتی علماء (جن میں بڑے بڑے نام ہیں اور جن سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ شریعت میں خود سے تبدیلی لائیں گے) خود اس شق کے حق میں ہیں۔
۔ ایک پاکستانی عدالت کا فیصلہ۔۔۔۔ (اس فیصلے کا ریفرنس ارشاد احمد حقانی نے اپنے ایک کالم میں دیا تھا اور اسے مثبت نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔ بالکہ ان کے الفاظ زنا بالرضا کے نہیں تھے، بلکہ "بغیر گواہوں کے نکاح" کے تھے)۔

ان وجوہات کی بنا پر لگتا ہے کہ ہم تک صحیح تصویر نہیں پہنچ رہی ہے اور اصل حقیقت کچھ اور ہے جسے ہمارے معاشرے کی دیواریں سامنے نہیں آنے دے رہیں۔

مثلاً "بغیر گواہوں کے نکاح" کے ضمن میں ایک تضاد جو میرے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ:

۔ ہمارے روایتی علماء نکاح کے لیے 2 گواہوں کی موجودگی لازمی قرار دیتے ہیں۔

۔ مگر یہی علماء اس بات کے بھی قائل نظر آتے ہیں کہ اسلام کی رو سے یہ جائز رہا ہے کہ کنیز باندی (جو آپکی ملکیت میں ہے) بغیر گواہوں کے ہمبستری کی جائے۔
چلیں یہاں تک بات ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی۔۔۔ مگر تضاد یہاں آتا ہے کہ:

۔ اگر اُس کنیز باندی کا مالک اُس کنیز کو آگے بیچنا چاہتا ہے، اور وہ گواہی دے کہ اُس نے ہمبستری نہیں کی تو اُس کی گواہی قبول کی جائے گی۔

[یعنی ہمبستری کرنے یا نہ کرنے دونوں صورتوں میں مالک کی گواہی مانی جائے گی]

چلیں یہاں تک بھی بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ مگر بات یہاں تک نہیں رہتی بلکہ یہاں آتی ہے کہ:

۔ اگر کنیز کے مالک کا بیٹا یا باپ اُس کنیز سے بغیر گواہوں کے ہمبستری کر لیے تو یہ بھی زنا نہیں۔

اسی طرح فتاویٰ عالمگیری (جسے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر اُس وقت کے 500 سے زائد جید علماء نے جمع کیا تھا) کے مطابق اگر کوئی کنیز کسی شخص کے پاس جا کر کہے کہ اُس کے مالک نے اسے اُس شخص پر حلال کر دیا ہے تو وہ شخص اُس کنیز سے بغیر گواہوں کے ہمبستری کر سکتا ہے۔



میرا ذہن یہ کہتا ہے کہ اگر کنیز کے معاملے میں اللہ نے گواہی نہیں رکھی، تو ہو سکتا ہےکہ نکاح کے معاملے میں گواہوں کی موجودگی شاید فقہی اختلاف کا درجہ رکھتی ہو، اور شاید ایسے فقہاء بھی گذرے ہوں جو بغیر گواہوں کے نکاح کو جائز قرار دیتے ہوں۔ اور اسی بات کی بنیاد پر شاید عدالتی فیصلہ بغیر گواہوں کے نکاح کے بارے میں تھا اور موجودہ خواتین حقوق بل میں بھی حکومتی علماء کا شاید یہی موقف ہے۔



۔
 

دوست

محفلین
دیکھیں جی کنیز اور ایک عام عورت میں فرق ہے۔
مرد کنیز کا مالک ہے عام خاتون کا مالک نہیں۔ اگرچہ اب کنیزوں اور غلاموں کا رواج نہیں لیکن کنیز ایک خریدی ہوئی چیز ہے۔جسے آپ کسی بھی طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ کم از میرے تو سامنے یہی بات آئی ہے۔ جتنا میرا علم ہے۔ اگرچہ کنیز و غلاموں سے اچھے سلوک کی تلقین موجود ہے، انھیں آزاد کرنےکا بہت بڑا اجر رکھا گیا ہے، انھیں اپنے جیسا پہنانے کی ترغیب دی گئی ہے لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ وہ آزاد نہیں اپنے مالک کے تابع ہیں اور اس سلسلے میں انھیں بھی بہت تاکید کی گئی ہے۔(مالک کی وفاداری کی، اس کے مال کی حفاظت کی وغیرہ وغیرہ)
ایک کتاب پڑھی تھی کبھی اس میں تو مصنف اس بات کو ماننے سے ہی انکاری ہے کہ کنیز سے بغیر نکاح ہمبستری جائز ہے( کچھ اسی طرح کا تھا بہرحال اس کو دیکھ کر ہی بتا سکوں گا لیکن اس بندے نے سیدھے قرآن کریم سے رہنمائی لینے کی کوشش کی تھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بھی حوالہ نہیں تھا اس کے پاس جس کی وجہ سے اس کا دعوٰی مشکوک ہے میرے خیال میں)۔
اب بات آتی ہے زنا بالرضا کی ۔ کچھ احادیث میں واقعات موجود ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان واقعات سے دانستہ چشم پوشی کی یا یوں کہہ لیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔
مثلًا ایک عورت جو خدمت اقدس میں حاضر ہوکر زنا کا اعتراف کرتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف توجہ فرمانے سے گریز کرتے ہیں۔( مجھے یہی یاد آرہا ہے اگر غلط ہوں تو بتا دیجیے گا)۔
اسی طرح ایک لڑکا ( شاید بارہ سال کی عمر پڑھا ہے میں نے) جو کسی اور کی کنیز سے زنا کرتا رہا اور جب یہ کیس سامنے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاسف کا اظہار فرماتے ہیں کہ اگر یہ معاملہ عام نہ ہوتا تو بہتر تھا( کچھ ایسا ہی واقعہ تھا اگر میں کہیں غلط ہوں تو درست کردیجیے گا)۔
تو ان واقعات سے شاید، شاید یہ استدلال کیا جاسکے کہ زنا بالرضا حدود سے خارج ہے۔ لیکن اور طرح سے دیکھیں تو ان پر بھی حد لاگو کی گئی تھی۔ اس عورت کو پتھر مار مار کر سنگسار کردیا گیا تھا اور اور لڑکے کو بھی سزا ملی تھی۔اب یہ لوگ پتا نہیں کہاں سے یہ استدلال کررہے ہیں کہ زنا بالرضا حدود اللہ سے خارج ہے یہ تو صریح‌ گمراہی ہوگی۔
 

دوست

محفلین
آپ نے جس عدالتی فیصلے کی بات کی ہے اگر یہ سچ ہے تو ۔
اس کا مطلب ہوا کہ کل کو کوئی فاحشہ اٹھ کر یہ کہہ دے کہ اس بندے نے میرے ساتھ نکاح کیا ہے اور وہ بندہ بھی کہے جی ہاں اگرچہ وہ جھوٹ ہوتو اسے سچ مان لیا جائے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں فحاشی اور زنا کو نکاح کی آڑ بڑی آسانی سے فراہم کردی جائے۔
شادی کا مطلب ہے دو فریق دنیا کےسامنے ایک ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں دیکھ لیں شادی، نکاح کوئی بھی نام دے لیں کیسے ہوسکتا ہے کہ دو فریق بغیر کسی تیسرے کی موقع پرموجودگی کے دعوٰی کردیں کہ ہماری شادی ہوگئی ہے۔
اگر کسی اور مذہب، معاشرے میں ایسا نہیں تو اسلام میں کیسے ہوسکتا ہے جو دین فطرت ہونے کا دعویدار ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دوست نے کہا:
دیکھیں جی کنیز اور ایک عام عورت میں فرق ہے۔
مرد کنیز کا مالک ہے عام خاتون کا مالک نہیں۔ اگرچہ اب کنیزوں اور غلاموں کا رواج نہیں لیکن کنیز ایک خریدی ہوئی چیز ہے۔جسے آپ کسی بھی طرح استعمال کرسکتے ہیں

شاکر، بلاشبہ کنیز عورت اور آزاد عورت میں بہت فرق ہے۔
مگر یہ فرق جن معاملات میں ہے، وہ دوسرے ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن معاملات کی ہم یہاں بات کر رہے ہیں، وہاں یہ فرق نہیں رہ جاتے۔

نکاح میں گواہوں کی تاکید اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ اس کے بعد اولاد، محرم ہونا، عدت وغیرہ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ تمام مسائل ایک کنیز عورت اور ایک آزاد عورت کے مماملے میں بالکل یکساں ہیں اور ان میں چنداں فرق نہیں۔

اسی لیے میری ناقص رائے میں حقوق نسواں بل کی یہ شق کچھ ایسا پس منظر رکھتی ہے کہ جو کہ کھل کر ہمارے سامنے نہیں آ پا رہا، اور جب مفتی منیب صاحب جیسے جلیل القدر عالمِ دین اس حکومتی شق کے حق میں ہیں، تو میرے لیے یہ یقین کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ وہ خدائی نظام کے خلاف کوئی کام کریں گے۔

چنانچہ، اس شق کے متعلق میں شک و شبہ میں مبتلا ہو گئی ہوں۔

دیکھئیے۔۔۔۔ ایک مسلمان کی گواہی بہت اہم ہوتی ہے۔ کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں اللہ نے مسلمان کی واحد گواہی کو بہت اہمیت دی ہے۔

مثال کے طور پر پچھلے تیرہ سو سالوں میں نکاح کے کاغذات نہیں ہوتے تھے (تاوقتیکہ انگریزوں کا زمانہ نہیں آ گیا)۔ اور نہ ہی میاں بیوی اپنے ساتھ ہر وقت اپنے نکاح کے گواہوں کو باندھے پھرا کرتے تھے۔ ہوتا یہی تھا کہ اگر وہ کسی اجنبی شہر گھومنے پھرنے جاتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ وہ میاں بیوی ہیں تو اُن کی یہ گواہی پوری مانی جاتی تھی۔

اسی طرح سورہ طلاق میں اللہ نے طلاق دینے کا جو طریقہ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ:
۔ عورت جب حیض سے پاک ہو جائے تب جا کر پہلی طلاق دی جا سکتی ہے۔
۔ مگر اسکے بعد عورت کو اجازت نہیں کہ لڑ جھگڑ کر اپنے میکے جا بیٹھے، بلکہ اسے اسی کمرے میں اپنے شوہر کے ساتھ راتیں گذارنی ہیں۔
۔ پھر دوسری مہینے بھی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو مرد ہاتھ لگائے بغیر اسے طلاق دے تو یہ دوسری طلاق ہو گی۔
۔ اسی طرح تیسرے مہینے بھی بغیر ہاتھ لگائے طلاق کہے تو یہ تیسری طلاق ہو گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ مرد تین مہینے تک عورت کے ساتھ اسی کمرے میں رہتا ہے، اور ان تین مہینوں کے بعد "صرف اور صرف" اُس کی ایک گواہی پوری مانی جائے گی کہ اُس نے عورت کو اس عرصے میں ہاتھ نہیں لگایا ہے۔

چنانچہ آپ نے دیکھا کہ ایک "مسلمان کی گواہی" کی کیا اہمیت ہے؟

مزید دیکھیئے کہ اللہ دینِ اسلام میں آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح کی ایک آسانی یہ بھی ہے کہ گھر کی چاردیواری میں لوگوں کو مکمل پرائیویسی حاصل ہے اور کسی قسم کی حکومتی مداخلت کی اجازت نہیں۔ یہ بات اس بل کا حصہ بھی ہے۔ اب جو واحشہ عورتوں کا ڈر ہے، وہ تو اس گھر کی پرائیویسی کی صورت میں بھی موجود رہا، مگر کیا اس ڈر کی وجہ سے اللہ نے گھر کی جو پرائیویسی دی ہوئی ہے، کیا اسے چھوڑ کر ہر گھر میں کیمرے نصب کر دیے جائیں؟

اسی سب باتوں کو دیکھتے ہوئے میری خواہش تھی کہ مفتی منیب صاحب اور عدالت کے جو دلائل تھے، وہ عام کیے جاتے تاکہ لوگ اصل مسئلہ کو صحیح طور پر سمجھ پاتے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
چلیں مجھے کچھ اور حوالے ملے ہیں۔

پہلا تو جنگ اخبار میں ارشاد احمد حقانی صاحب کا کالم جو کہ مورخہ 04-03-2005 کو شائع ہوا، جس میں انہوں نے اس عدالتی فیصلے کا ذکر کیا کہ جس کے مطابق:

1۔ گواہوں کے بغیر نکاح صحیح ہے۔
2۔ ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح درست ہے۔

اسکے علاوہ اب تلاش کرنے پر کچھ علماء کے فتاویٰ بھی سامنے آئے ہیں۔ دیکھئیے:

علامہ شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطار میں رقم پذیر ہیں:

1۔ عبداللہ ابن عمر (جو حضرت عمر ابن خطاب کے بیٹے اور جلیل القدر صحابی ہیں اور صحابہ کے درمیان صاحب اجتہاد و صاحبِ فتاویٰ ہیں)ّ
2۔ عبداللہ ابن زبیر (جو زبیر بن عوام کے صاحبزادے ہیں)۔
3۔ رحمن بن مہدی
4۔ عثمان
ان لوگوں کی آراء میں نکاح کے لیے گواہوں کی موجودگی لازمی نہیں ہے۔
حوالہ: نیل الاوطار از شوکانی، جلد 6 صفحہ 144، باب شہادہ فی النکاح

اور ھدایہ (جو کہ فقہ حففی کے فتاویٰ کا انسائیکلوپیڈیا ہے) میں تحریر ہے:
امام مالک فرماتے ہیں کہ نکاح کا صیغہ پڑھا جانا شرط ہے جبکہ گواہوں کی موجودگی شرط نہیں۔
حوالہ: ھدایہ، جلد 2، صفحہ 204، کتاب النکاح

اور فتاوی قاضی خان، جو کہ برصغیر کے دیوبند اور بریلی مکتبہائے فکر میں یکساں مقبول ہے، میں یہ درج ہے:
نکاح کے لیے صیغے کا پڑھا جانا کافی ہے اور گواہوں کا لیا جانا لازمی شرط نہیں۔
حوالہ: فتاویٰ قاضی خان، جلد 1، صفحہ 153، کتاب النکاح



مسئلہ یہ ہے کہ قران میں کئی جگہ نکاح کی شرائط بیان کی گئیں۔۔۔۔ (مثلا کن کن عورتوں سے حلال ہے، حق مہر، عدت سے پاک ہونا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ) مگر پورے قران میں ایک مرتبہ بھی نکاح کے لیے گواہوں کی موجودگی لازمی قرار نہیں دی گئی۔

اسی طرح لگتا ہے کہ "حدیث" میں بھی ایک بھی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے جو نکاح میں گواہوں کی شرط لازمی بتاتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دوست نے کہا:
چلیں اسے درست مانے لیتے ہیں۔
پھر بھی زنا بالرضا؟؟؟
بات حلق سے نہیں اترتی۔

جی۔۔۔ میرے حلق سے بھی یہ الفاظ نہیں اتر رہے۔ ویسے بھی "بغیر گواہوں" کے نکاح الگ چیز ہے جبکہ "زنا بالرضا" الگ چیز ہے۔ کیونکہ "زنا بالرضا" میں یہ چیز بھی آ جاتی ہے کہ ایک شادی شدہ عورت دوسرے مرد سے راضی بہ رضا زنا کرے۔

اس لیے میں چاہتی تھی کہ مفتی منیب الرحمان صاحب ٹی وی پر آتے اور کھل کر صحیح الفاظ کا استعمال کرتے اور اسکے حق میں دلائل دیتے۔ اب اگر واقعی بل میں "نکاح بغیر گواہان" کا ذکر ہے اور لوگوں نے مخالفت میں اسے "زنا بالجبر" کا نام دے دیا ہے، تو یہ زیادتی ہو گی اور غیر انصافی طور پر اسکی مخالفت میں اضافہ ہو گا۔
یعنی اگر قران و سنت سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو پھر غیر متعلقہ الفاظ استعمال کر کے چیزوں کو کوئی اور رنگ نہیں دینا چاہیئے۔
 

زیک

مسافر
باقی باتیں تو ہوتی رہیں گی مگر کنیز یا لونڈی کے ساتھ ہمبستری کا ذکر آیا تو یہ کہوں گا کہ یہ rape ہے اور کرنے والا rapist۔ اور غلام رکھنا crime against humanity۔ یہ فتوٰی آپ کی خدمت میں زکریا اجمل نے پیش کیا۔ شکریہ۔
 

دوست

محفلین
اس پر ایک کنڈیشن بھی تو لگتی ہے جناب۔
کنیز یا لونڈی کا “ہونا“۔ جب تھے تب کی بات تھی یہ۔ اب نہیں تو بات ختم۔
اصل میں اس وقت اگر بیک جنبش قلم اسے ممنوع قرار دے دیا جاتا یعنی غلام کنیز وغیرہ سب ختم تو تو فساد مچ جاتا۔ اس لیے ایک لانگ ٹرم پالیسی اپنائی گئی۔ غلاموں سے اس زمانے میں، اس گئے گزرے زمانے میں بہترین سلوک کرنے کی تلقین کی گئی،ان کے حقوق واضح کیے گئے پھر جب عقلی ارتقاء ہوا تو آج آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک زانی ہے۔ جو یہ کام کرے۔مجھے بھی غلط لگا تھا اور آج اگر کوئی قرآن و حدیث سے یہ ثابت کردے کہ ہاں کنیز سے ہمبستری بغیر نکاح کے جائز نہیں اسلام میں تو میں اس کی حمایت میں کھڑا ہونے والا پہلا شخص ہوں۔ لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے اس وقت شاید ایسا نہیں تھا۔یا تھا؟؟
اگر تھا تو کوئی دوست رہنمائی کرے میں اپنے علم میں اضافے کے لیے شکر گزار ہونگا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس موضوع پر کتب موجود ہیں۔ خاص طور پر مودودی صاحب کی کتاب نظر سے گذری ہے۔
انگلش میں تو میں آپکو کتابوں کا لنک دے سکتی ہوں، البتہ اردو میں ایسی کتابوں کا آنلائن ہونا باقی ہے۔

اسلام میں اُس وقت بھی مکاتبت کا اصول موجود تھا کہ غلام اپنے مالک سے معاہدہ کرتا تھا کہ اُس نے اتنی اور اتنی رقم کما کر مالک کو دی تو وہ آزاد ہو جائے گا۔ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

والسلام۔
 
Top