حضرت علی عليہ السلام نے فرمايا

کاشفی

محفلین
حضرت علی عليہ السلام نے فرمايا،
"تم کو ان لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجا م کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طالبوں کے سے ہوتے ہیں. اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجا نہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں. اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں. جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تواترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے. جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں. ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبالیتے. دوسروں کے لیے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں. اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں .جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پرآتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں. اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں ,اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو اسلام کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں. عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں. مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں. فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں وہ نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خیال کرتے ہیں. موت سے ڈرتے ہیں. مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے. دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں .اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں .لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں. اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے. وہ اپنے پروردگا ر کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خو ف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔"
 
Top