اقتباسات حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اور پاکستان۔۔۔ زاویہ ، اشفاق احمد۔

الشفاء

لائبریرین
ایک دفعہ مجھے ایک دوست کے پوتے کی شادی پر اسلام آباد جانا ہوا۔ تو اسلام آباد پہنچ کر مجھے ایک پیغام ملا کہ ایک بابا ہیں جو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں بابوں کا بڑا دیوانہ ہوں، آپ کو علم ہے۔ پچھلے ہفتے آپ سے بابا کی بات کر رہا تھا جو ہمارے ساتھ اسی ٹی وی سٹیشن کا رہنے والا تھا۔ لیکن بابوں کے زائچے، بابوں کی شکل و صورت اور ان کے ڈھانچے، ان کے حلیے ، ان کے مزاج بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مجھ سے یہ آ کر نہ پوچھیں۔ ہر بابا میٹھا بابا نہیں ہوتا، میرے سائیں فضل شاہ صاحب جیسا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں ان سے ملنے ان کے پاس گیا۔ دھوپ تھی، پہاڑی علاقہ تھا۔ میرے گلے میں چھوٹا سا صافہ (لمبا کپڑا) تھا۔ آپ کو پتا ہے پہاڑوں کی دھوپ بہت تیز ہوتی ہے۔ جب میں ان کے پاس گیا تو کہنے لگے ، تم بڑی مٹھار مٹھار کے باتیں بناتے ہو، اور باتیں سناتے ہو۔ میں تم کو وارن کرتا ہوں۔ یہ لفظ انہوں نے استعمال کیا۔ warn کرنے کے لئے بلایا ہے یہاں پر۔ تم لوگ بہت بے خیال ہو گئے ہو اور تم لوگوں نے توجہ دینا چھوڑ دی ہے۔ اور تم ایک بہت خوفناک منزل کی طرف رجوع کر رہے ہو۔ دیکھو ، کہنے لگے میں تم کو بتاتا ہوں یہ پاکستان ملک ایک معجزہ ہے ۔ یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے۔ تم بار بار کہا کرتے ہو ، ہم نے یہ کیا، پھر یہ کیا، پھر سیاست کے میدان میں یہ کیا، پھر اپنے قائد کے پیچھے چلے۔ ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ایسے مت کہو۔ پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ تھا، اتنا بڑا معجزہ ہے جتنا بڑا قوم ثمود کے لئے اونٹنی کے پیدا ہونے کا تھا۔ اگر تم اس پاکستان کو حضرت صالح کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گے، نہ تم رہو گے نہ تمہاری یادیں رہیں گی۔۔۔ میرے گلے میں موجود صافے کو پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میری کیا کیفیت ہو گی۔ انہوں نے کہا ، تم نے صالح کی اس اونٹنی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ باون برس گزر گئے تم نے اس کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے جو ثمود نے کیا تھا۔ اندر رہنے والوں، اور باہر رہنے والوں دونوں کو وارن کرتا ہوں، تم سنبھل جاؤ۔ ورنہ وقت بہت کم ہے۔ اس اونٹنی سے جو تم نے چھینا ہے اور جو کچھ لوٹا ہے، اندر رہنے والو اس کو لوٹاؤ اور اس کو دو۔ اور باہر رہنے والو، ساؤتھ ایشیا میں سارے ملکوں کو وارن کرتا ہوں، اس کو کوئی عام چھوٹا سا، معمولی سا جغرافیائی ملک سمجھنا چھوڑ دیں۔ یہ حضرت صالح کی اونٹنی ہے۔ ہم سب پر اس کا ادب اور احترام واجب ہے۔ اس کو ایک معمولی ملک نہ سمجھنا ۔ اور اس کی طرف رخ کر کے کھڑے رہنا۔ اور اب تک جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کی معافی مانگتے رہو، اور اس کو recompensate کرو۔۔۔ میں ان کی کسی بات کاکوئی جواب نہ دے سکا، اور خوف زدہ ہو کے کھڑا رہا، اور پھر ان کو سلام کر کے، سر جھکا کے واپس چلا آیا۔

زاویہ 1، اشفاق احمد۔۔۔
 
Top