سلطان باہو حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا مکمل پنجابی کلام معنی اور ترجمہ کے ساتھ

یوسف سلطان

محفلین
د
02

د۔ دل دریا سمندروں ڈونگھا، غوطہ مار غواصی ہو
جیں دریا وَنج نوش نہ کیتا، رہسی جان پیاسی ہو
ہر دَم نال اللہ دے رکھن، ذِکر فکردے آسی ہو
اُس مرشد تھیں زَن بہتر باہو،جو پھند فریب لباسی ہو
ڈونگھا: گہرا
غواصی: غوطہ خور
نوش نہ کیتا: نہ پیا
رہسی : رہے گا
ہر دَم: ہر لمحہ
رکھن: رکھیں
آسی: آس رکھنے والا،امید رکھنے والا
زَن : عورت
پھند: مکر، دھوکہ بازی
لباسی: فریبی،دھوکہ باز

ترجمہ:
دل تو دریاؤں اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے.اس کی گہرائی تک پہنچنے کی سعی اورجدوجہد کرکیونکہ یہاں ہی دریائے وحدت ہے اوراگرتُو دریائے وحدت کو نوش کرنے میں ناکام رہا تو تیری ذات ہمیشہ دیدارِ حق تعالیٰ کی پیاسی رہے گی (اور یہ محرومی کائنات کی سب سے بڑی محرومی ہے) .اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیشہ ذکراور تصور"اسمِ اللہُ ذات" کےساتھ ساتھ دیدارِ یارکی فکراورپریشانی میں بھی ہلکان رہ. لیکن اس راہ پر چلنے سے پہلے مرشد کامل اکمل کوتلاش کرکےاس کی غلامی اختیار کر کیونکہ دیدارِحق تعالیٰ کی منزل تک وہی پہنچا سکتا ہے. دیکھ کہیں ناقص مرشد کے ہتھے نہ چڑھ جانا کیونکہ یہ توطالبوں کو صرف باتوں سےبہلائے رکھتے ہیں .انکےپاس دینے کو جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ خود اندر سےخالی ہوتے ہیں. ان سےبہترتو وہ عورت ہے جومکاراوردھوکے بازہونے کےباوجود کم ازکم اپنے چاہنے والوں کی تسکین کا سامان تو کر دیتی ہے.
79
جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
د
03
د-دل دریا خواجہ دیاں لہراں، گُھمن گھیر ہزاراں ہو
رہن دلیلاں وچ فکردے، بے حد بے شماراں ہو
ہک پردیسی دوجا نیوں لگ گیا، تِریّا بے سمجھی دیاں ماراں ہو
ہَسن کھیڈن سب بُھلیا باہُو،جد عشق چنگھایاں دھاراں ہو
خواجہ: حضرت خضرعلیہ السلام-لیکن یہاں مراد معرفتِ الہٰی ہے-
گُھمن گھیر: بھنور
رہن: رہتی ہیں
ہک: ایک
دوجا: دوسرا
نیوں: عشق
تِریّا: تیسرا
ہَسن: ہنسنا
کھیڈن: کھیلنا
عشق چنگھایاں دھاراں: عشق کی گرفت میں آنا

ترجمہ:
دل' سمندر سےزیادہ وسیع ہے اوراس میں معرفتِ الہیٰ کی لہریں ہروقت موجزن رہتیں ہیں لیکن وہاں وسوساس اورخناس کےبھنور بھی ہیں لیکن طالبانِ مولیٰ حق کی دلیلوں اورتفکر کےذریعے ان بھنوروں سے نکلتے ہیں.ایک تو میں اس عالمِ فانی میں پردیسی ہوں،دوسرا حق تعالیٰ کےعشق میں مبتلا ہو گیا ہوں اور تیسری پریشانی یہ ہے کہ راہِ عشق کے رسم و رواج سے ناواقف ہوں اور جب سےعشقِ حقیقی نے میرے دل کوگرفت میں لیا ہے میں نے دنیا کی رنگینیوں' خواہشات اورلذّات سے منہ موڑ لیا ہے .
80
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
د
06

د- دِلے وچ دل جو آکھیں، سو دل دُور دلیلوں ہو
دل دا دَور اَگُوہاں کرئیے، کثرت کنوں قلیلوں ہو
قلب کمال جمالوں جسموں، جوہرجاہ جلیلوں ہو
قبلہ قلب منورہویا باہُو، خلوت خاص خلیلوں ہو

دِلے وچ دل:دل کے اندر،باطن میں
جو آکھیں: جو کہتا ہے
سو دل: ایسا دل
دلیلوں: دلیل سے
اَگُوہاں: اور آگے
کثرت: زیادہ
کنوں: سے
قلیلوں: قلیل
جاہ : مرتبہ،شان
جلیلوں: ربّ جلیل

منورہویا : روشن ہوا
خلوت: تنہائی
خلیلوں: خلیل،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم


ترجمہ:​
تُو دعویٰ کرتا ہے کہ تیرا دل بیدارہوچکا ہے لیکن یاد رکھ ابھی یہ مقام بہت دورہے۔ اس کےلئے دل سے دنیا کی ہرشے کی محبت ختم كركے صرف الله پاک كى محبت بسانى پڑتى ہےاوراپنے آپ كوعالمِ كثرت سےعالمِ وحدت كى طرف لےجا۔ قلب جسموں كے كمال اورجمال كاجوہرہےاورربّ جليل كا گھر اوراس كے انواروتجليات كے نزول كى جگہ ہے. آپ رحمتہ اللہ عليہ فرماتے ہيں: اللہ تعالىٰ اور حضور صلى الله عليہ وسلم كى محبت اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے انواروبركات نے ميرے دل كوخلوت گاہ بنا ليا ہے جس سے ميرا دل منورہوكرحقيقت آشنا ہوگيا ہے.
81
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
د
07

د-دل کالے کُولوں منہ کالا چنگا، جے کوئی اِس نُوں جانے ہو
منہ کالا دل اچھا ہووے، تاں دل یار پچھانے ہو
ایہہ دل یار دے پچھے ہووے، متاں یار وِی کدی پچھانے ہو
سَے عالم چھوڑ مسیتاں نٹھے باہُو،جد لگے نیں دل ٹکانے ہو
کُولوں: سے
چنگا: بہتر
اِس نُوں: اس کو
متاں : شاید
کدی: کھبی
پچھانے: پہچانے
سَے عالم: سینکڑوں عالم
مسیتاں: مساجد
نٹھے: بھاگ گئے
ٹکانے: ٹھکانے،مراد اللہ تعالیٰ کی ذات نہ ملنے سے


ترجمہ:
انسان كو باطن ميں بُرا،شقى القلب، منافق اوربد كردار نہيں ہونا چاہيے كيوںکہ ايسے انسان كے بدلنے كے مواقع بہت كم ہوتے ہيں۔ ہاں اگرانسان ظاہرى طورپرايسا ہوتوكھبى نہ كھبى راهِ حق پرآ جاتا ہے كيونكہ وه دل سے برا نہيں ہوتا۔ پاک اورصاف دل ہى محبوبِ حقيقى كى پہچان اورمعرفت حاصل كرتا ہےاورايسا دل استقامت كے ساتھ مرشد كامل كے دامن سے وابستہ رہتا ہےكہ شاید كبھى دريائےِ رحمتِ الہٰی جوش میں آ کراس پرمہربانی کردے۔سینکڑوں عالم جومعرفتِ الہیٰ کے حصول کے لئے مساجد میں زہدو ریاضت میں مصروف تھے لیکن کامیاب نہ ہوسکے پھر جیسے ہی عشق نے دل میں ڈیرا جمایا،مساجد چھوڑ کرکسی عارف(مرشد کامل) کے دَرپرسجدہ ریزہو گئے-
82
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
د
08

د- دل تے دفتر وحدت والا، دائم کریں مطالیا ہو
ساری عمرپڑھدیاں گزری، جہلاں دے وچ جالیا ہو
اِکّو اِسم اللہ دا رکھیں،اپنا سبق مطالیا ہو
دوہیں جہان غلام تنہاںدے باہُو، جیں دل اللہ سمجھالیا ہو

دفتر وحدت والا: وحدت کی کتاب
دائم : ہمیشہ
مطالیا: مطالعہ
جہلاں: جہالتوں میں
وچ: درمیان
جالیا :گزارا
تنہاںدے: اُن کے
جیں دل: جس دل کے
سمجھا لیا: اسمِ اللهُ ذات کی امانت کو سنبھال لیا


ترجمہ:
اے طالبِ مولی! تیرےدل میں وحدت کی کتاب موجود ہے اس کا ہمیشہ مطالعہ کر۔ لیکن تیری توتمام عمرکتابیں اورعلم پڑھتے ہوئے بھی جہالت میں گزری ہے صرف اسمِ اللهُ ذات کا ذکراورتصورکریہی پہلا اورآخری سبق ہے۔ اگرتُو نے دل کےاندرپوشیدہ اسمِ اللهُ ذات کی امانت کوپا لیا تو دونوں جہان تیرے غلام ہوں گے کیوںکہ اسمِ اللهُ ذات کے ذکر سے ہی الله تعالی کی ذات حاصل ہوتی ہے.
83
جاری ہے ۔۔۔۔۔​
 

یوسف سلطان

محفلین
د
09

درد اندر دا اندر ساڑے، باہر کراں تاں گھائل ہُو
حال اساڈا کیویں اوہ جانن، جو دنیا تے مائل ہُو
بحر سمندر عشقے والا، ہر دم رہندا حائل ہُو
پہنچ حضور آسان نہ باہُو،اساں نام تیرے دے سائل ہُو
ساڑے: جلائے
گھائل: زخمی
اساڈا: ہمارا
کیویں: کیسے، کیونکر
جانن: سمجھیں
مائل: متوجہ ہونا
عشقے: عشق
حائل: رکاوٹ، درمیان میں آنا
سائل: مانگنے والا بھکاری

ترجمہ:
رازِعشق جومیرے دل میں پنہاں ہے اس نےمجھے بےچین اوربے قرارکررکھا ہے اگراس کوظاھرکردوں توہوسکتا ہے سولی چڑھا دیا جاؤں۔ ہمارا یہ حال دنیا دارلوگوں کی سمجھ سے باہر ہےعشقِ الہٰی کا سمندرہرلمحہ میرے دل میں موجزن رہتا ہے ۔ اللہ تعالی کی بارگاہ تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے یہ تو الله تعالی کے فضل وکرم سے عشق کےسمندرکی تند وتیزموجوں کوعبورکرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے.
84
جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
د
10

د۔ درد منداں دے دُھوئیں دُھکھدے، ڈردا کوئی نہ سیکے ہُو
اِنہاں دُھواں دے تاء تکھیرے، محرم ہووے تاں سیکے ہُو
چِھک شمشیر کھڑا ہے سراُتے، ترس پوس تاں تھیکے ہُو
ساہورے کڑئیےاپنےونجنا، باہُو سدا نہ رہنا پیکے ہُو

درد منداں:عاشقانِ الہیٰ
دُھکھدے: آگ سلگ رہی ہے
ڈردا: دڑکے مارے
سیکے:تاپتا ہے
تاء:تپش
تکھیرے:تیزتر
چِھک: کھنچ کر
پوس:پڑے
تھیکے:نیام میں ڈالے
ساہورے:سسرال،مراد انسان کا اصلی وطن عالمِ لاهوت ہے
کڑئیے: دلہن
ونجنا: جانا
پیکے: میکے مراد دنیا

ترجمہ:
عاشق اوردرد مند ہونا ایک ہی بات ہے۔ جب عشق کی آگ جلتی ہے تو کوئی طالبِ دنیا عاشق کےپاس نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ وہ دنیا کی لذتوں میں پھنسے ہوتے ہیں اورعاشقِ ذات کےقریب آناگویا اپنا گھرباربرباد کرنا ہے حتیٰ کےعلماءکرام بھی عاشقوں کے قریب آنے سےگریزکرتے ہیں کیونکہ وہ توجنت اور حوروقصورکی خواہش رکھتے ہیں۔ عاشق کےاندرعشق کی تپش ہر لمحہ بڑھ رہی ہوتی ہے اورقریب وہی ہوسکتا ہے جواسکےرازکا محرم ہو۔عاشق کےسر پرہجروفراق کی تلوارہر لمحہ لٹکتی رہتی ہے جوصرف وصالِ الہٰی سےدور ہوتی ہے۔ یہ حضرتِ عشق کا فضل ہے کہ وہ ایسا فرما دے۔اے طالب! ہوش میں آ اور عشقِ الہٰی میں غرق ہوجا کیونکہ تونےہمیشہ دنیا میں نہیں رہنا بلکہ عالمِ ارواح میں آخرواپس جاناہے ۔​
85

 

یوسف سلطان

محفلین
د
11

د۔ درد منداں دا خون جو پنیدا، کوئی برہوں باز مریلا ہُو
چھاتی دے وچ کِیتُس ڈیرا،جیویں شیر بیٹھا مَل بیلا ہُو
ہاتھی مست سندوری وانگوں، کردا پیلا پیلا ہُو
پیلے دا وسواس نہ کرئیےباہُو، پیلے باہجھ نہ ہوندا میلا ہُو
پنیدا: پیتا ہے
برہوں: عشق،فراق
کِیتُس : کیا
بیٹھا مَل: قبضہ کر چکا ہے
بیلا:جنگل
سندوری: سرخ رنگ کا
وانگوں: کی طرح
پیلا پیلا: حملے پر حملہ
وسواس: فکر،وہم،نفرت
میلا:ملاپ،وصال
ترجمہ:
عشق نے ميرے دل ميں ايسا ڈيره لگايا ہے جيسے شيرجنگل پر قبضہ كرليتا ہے اورخون خوارشہبازكى مانند ميرا خون پى رہا ہے اوراس نے ميرے دل سے الله كى محبت كے علاوه ہرمحبت كو اسطرح جلا ڈالا ہے جس طرح مست ہاتھى يلغار كركے ہرشے كو برباد كر ديتا ہے۔ آپ رحمتہ الله عليہ فرماتے ہيں كہ اس كى يلغار كى فكرنہيں كرنى چاہيےاورنہ خوف زده ہونا چاہيے كيونكہ عشق كى اس يلغار كےبغير وصالِ الہٰى نصيب نہيں ہو سكتا۔​
86
 

یوسف سلطان

محفلین
د
12

د۔ دِین تے دنیا سکیاں بھیناں، تینوں عقل نہیں سمجھیندا ہُو
دونویں اِکس نکاح وچ آون، شرع نہیں فرمیندا ہُو
جیویں اگ تے پانی تھاں اکّے وچ، واسا نہیں کریندا ہُو
دوہیں جہانیں مُٹھا باہو، جیہڑا دعوے کوڑکریندا ہُو
سکیاں:سگی،حقیقی
بھیناں:بہنیں
دونویں: دونوں
اِکس:ایک
وچ : میں
آون:آئیں
فرمیندا :فرماتا
جیویں:جس طرح
اگ:آگ ۔۔
تے:اور
تھاں:جگہ
اکّے:ایک
واسا:گزارا
دوہیں جہانیں: دونوں جہان میں
مُٹھا : محروم
جیہڑا: جو
کوڑ: جھوٹ،غلط
کریندا:کرتا ہے

ترجمہ:
دينِ حق(فقر)اوردنيا دو سگى بہنوں كى مثل ہيں جس طرح دو حقيقى بہنيں ایک مرد كے نكاح ميں نہيں آسكتيں اور جس طرح آگ اور پانى اكٹھے نہيں ہو سكتے اسى طرح دين اوردنيا كو ایک دل ميں اكٹھا نہيں كيا جا سكتا۔ جس نے بھى يہ جھوٹا دعوىٰ كيا ہے وه كذاب ہےاور وه دونوں جہانوں ميں خساره پانے والوں ميں سے ہے۔​
87
 

یوسف سلطان

محفلین
د
13

د- دنیا گھر منافق دے، یا گھر کافردے سونہدی ہُو
نقش نگار کرے بہتیرے، زَن خوباں سبھ مونہدی ہُو
بجلی وانگوں کرے لشکارے، سردے اُتوں جھوندی ہُو
حضرت عیسٰی دِی سِلھ وانگوں باہو، راہ ویندیاں نوں کونہدی ہُو
دے: کے
سونہدی: رہتی ہے ،پھل پھول سکتی ہے
بہتیرے: بہت زیادہ
زَن: عورت
خوباں: خوبصورت
سبھ : تمام
مونہدی: لوٹ لیتی ہے
وانگوں: کی طرح
اُتوں: اوپر
جھوندی: چمک دمک کے ساتھ پھرتی ہے
سِلھ : اینٹ،پتھرکا ٹکڑا
راہ ویندیاں نوں: راہ چلتے ہوؤں کو
کونہدی: ذبخ کرتی ہے
ترجمہ:
دنیا ایک خوبصورت اورحسین لیکن مکارعورت ہے جس کے فریب کا شکارصرف دنیا دار،منافق یا کافر ہی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے فریب حسن اوربجلی کی سی جوانی سے سب کو لوٹ لیتی ہے۔ یہ دنیا اپنے محبین کواسی طرح ہلاک کرتی ہے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں تین آدمیوں کو ایک سونے کی اینٹ کے لئے جان دینا پڑھی تھی .
قصہ اس طرح ہے کہ تین مسافروں کو ایک سونے کی اینٹ مل گئی تھی۔ ایک بازارسے روٹی لینے چلا گیا اوردو اینٹ کی حفاظت کے لئے ٹھہر گئے۔دونوں نے سازش کی کہ جب وہ روٹی لے کر واپس آئے گا تو اس کو قتل کر کے اینٹ دونوں بانٹ لیں گے.روٹی لانے والے کی نیت بھی خراب ہو گئی اس نے کھانے میں زہرملا دیا جب واپس آیا اس کو تو دونوں نے قتل کر دیا اور وہ دونوں زہریلا کھانا کھا کرمرگئے ۔​
88
جاری ہے۔۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
د
14

د۔ دُنیا ڈھونڈن والے کُتّے، دَر دَر پھرن حیرانی ہُو
ہڈی اُتے ہوڑ تنہاں دی، لڑدیاں عمروِہانی ہُو
عقل دے کوتاہ سمجھ نہ جانن، پیون لوڑن پانی ہُو
باجھوں ذکر رب دے باہُو، کوڑی رام کہانی ہُو

ڈھونڈن والے:تلاش کرنے والے
ہوڑ: زور سے یا ضد سے قبضہ کرنا،حریصانہ قبضہ کرنا
تنہاں دی:اُن کی
لڑدیاں:لڑتے ہوئے
وِہانی: بیت گئی
کوتاہ : اندھے
نہ جانن: نہیں جانتے
پیون: پینے کے لئے
لوڑن: تلاش کرتے ہیں
باجھوں: بغیر
کوڑی: جھوٹی
رام کہانی: کہانیاں،قصے (باجھ وصال اللہ دے باہُوسب کہانیاں قصے ھُو)


ترجمہ :
طالبانِ دنیا کتوں کی طرح دنیا اور لذاتِ دنیا (مال ودولت) کی تلاش میں دنیا بھر میں دوڑتے پھر رہے ہیں اورکنویں کے بیل کی طرح ساری عمراسی طرح گزار دیتے ہیں اور دنیا کے حصول کے لئے کتوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں۔ ان کی تمام عمر گزرجاتی ہے اورعقل کے اندھوں کو اتنی خبرنہیں ہوتی کہ اللہ پاک انہیں رزق عطا فرما رہا ہے اوراُن کے رزق کا ضامن ہے لیکن اسمِ اللہُ ذات کے ذکرکے بغیراصل حقیقتِ حال تک راہنمائی اور رسائی نہیں ہوتی اورزندگی یونہی فضول تمام ہوتی ہے۔​
89
 

یوسف سلطان

محفلین
د
15

د۔ دُدّھ تےدہی ہر کوئی رِڑکے، عاشق بھاہ رِڑکیندے ہُو
تَن چٹورا مَن مدھانی، آہیں نال ہلیندے ہُو
دُکھاں دا نیترا کڈھے لشکارے، غماں دا پانی پنیدے ہُو
نام فقیرتنہاں دا باہو،جیہڑے ہڈاں چُوں مکھن کڈھیندے ہُو
دُدّھ : دودھ
رِڑکے: بلوئے
بھاہ: آگ
رِڑکیندے: بلوتے ہیں
چٹورا: ماٹی،چاٹی،وہ برتن جس میں دہی ڈال کرلسی بنائی جاتی ہے
مدھانی: لسی بلونے کا آلہ
ہلیندے:ہلاتے ہیں
نیترا : دہی بلونے کے لئےمدھانی کو جس رسی سے ہلایا جاتاہے اسے نیترا کہتے ہیں،
لشکارے: چمک دمک
پنیدے: پیتے ہیں
کڈھیندے: نکالتے ہیں

ترجمہ:
اس بیت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طالبِ دنیا تو راحت پسند اورآرام پسند ہیں کہ دودھ اوردہی بلوتے ہیں مگرعاشق وصالِ محبوب کے لئے اپنے جسم کے برتن میں دل کی مدھانی سے آتشِ عشق بلوتے ہیں اوردکھوں اورغموں کی رسی کو مدھانی میں ڈال کرآہوں اورسسکیوں سے اسے کیھنچتے ہیں اورساتھ ساتھ آنسوؤں کا پانی بھی اس میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ فقیرِ کامل تووہ ہیں جو اپنے تن کی ہڈیوں سےمعرفتِ الہیٰ کا مکھن نکالتے ہیں۔​
90
 

یوسف سلطان

محفلین
د
16

د۔ درد منداں دیاں آہیں کولُوں،پہاڑ پتھردے جھڑدے ہُو
درد منداں دیاں آہیں کولُوں،بھج نانگ زمین وچ وڑدے ہُو
درد منداں دیاں آہیں کولُوں،آسمانوں تارے جھڑ دے ہُو
درد منداں دیاں آہیں کولُوں باہُو،عاشق مول نہ ڈردے ہُو
درد منداں: عاشقانِ الہیٰ
آہیں: آہ کی جمع ،مراد عاشق کی آہ و زاریاں
کولُوں: سے
بھج : بھاگ
نانگ: ناگ،سانپ
وڑدے: داخل ہوتے
جھڑدے: ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے
مول: ہرگز،قطعاََ

ترجمہ:
حق تعالیٰ کےعاشق نے عشق کی امانت کو قبول کر لیا ہے جس کو زمین وآسمان کی کوئی شے بھی اٹھانے کو تیارنہ تھی۔ اُس امانت نے ان کی یہ حالت کردی ہے کہ ان عاشقانِ حقیقی کی آہ سے پتھر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں،سانپ ڈور کرزمین میں گھس جاتے ہیں اورآسمان سے تارے ریزہ ریزہ ہو کرگر جاتے ہیں لیکن اس عاشقانہ آہ و زاری سے صرف عاشقِ ذات نہیں ڈرتے کیونکہ وہ خود دیدارِ ذات کے انواروتجلیات کے مشاہدہ میں مصروف ہیں اور ہر لمحہ ھل من مزید کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں۔​
91
 

یوسف سلطان

محفلین
د
17

د- دلیلاں چھوڑ وجودوں، ہو ہشیار فقیرا ہُو
بَنھ توکل پنچھی اُڈدے، پلّے خرچ نہ زیرا ہُو
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ،نہیں کردے نال ذخیرا ہُو
مولا خرچ پہنچاوے باہو، جو پتھر وچ کیڑا ہُو
دلیلاں: دلیل کی جمع،مراد عقل سے پرکھنا،شکوک و شبہات
وجودوں: اپنے وجود سے،اپنے اندر سے
ہشیار: ہوشیار،دانا،عقل مند
بَنھ: باندھ
پنچھی: پرندے
اُڈدے: اڑتے ،پرواز کرتے
پَلّے: دامن میں ، پاس
زیرا: زرہ بھر
اُڈ کھان: اڑ کر کھاتے ہیں
وچ: میں


ترجمہ:
اس بیت میں حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ طالبِ مولیٰ سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ دینوی ضروریات کے لئے قطعاً غم زدہ نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے وہ اسے ضرور ملے گا. پرندے بھی تو اللہ تعالیٰ کے توکل پر اڑتے پھرتے ہیں اور روزی کا ایک زرہ بھی اپنے ساتھ نہیں اٹھائے پھرتے بلکہ شام کو جب واپس آشیانوں کی طرف پلٹتے ہیں تو سیر ہو کرلوٹتے ہیں اور ذخیرہ کرنے کے لئے ایک دانہ بھی ساتھ نہیں لاتے. آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ پاک تو وہ رازق ہے جو پتھر کے اندر موجود کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے.​
92
 

یوسف سلطان

محفلین
د
18

د۔ دل بازارتے منہ دروازہ ،سینہ شہر ڈسیندا ہُو
روح سوداگر نفس ہے راہزن، جیہڑاحق دا راہ مریندا ہُو
جاں توڑی ایہہ نفس نہ ماریں، تاں ایہہ وقت کھڑیندا ہُو
کردا ہےزایا ویلا باہُو، جان نوں تاک مریندا ہُو
ڈسیندا: دکھائی دیتا ہے
راہزن: ڈاکو ،لٹیرا
جاں توڑی: جب تک
تاں: تب تک
ایہہ۔۔ کھڑیندا:یہ ۔ ضائع کرتا ہے
زایا: ضائع
ویلا: وقت
جان نوں: زندگی کو
تاک: دروازہ
مریندا: بند کرتاہے


ترجمہ :
دل ایک بازار ہے جس میں حقیقت موجود ہے اور منہ اس بازار تک پہنچنے کا دروازہ ہے جس سے حقیقت تک رسائی ہوتی ہے اور سینہ ایک شہر ہے جس میں پوری کائنات پوشیدہ ہے . روح (رازِ حق تعالیٰ ) اس شہر اور بازارِ حقیقت کی سوداگر ہے مگر نفس ایسا ظالم راہزن ہے جو ہمیں اس بازار اور شہر تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ لیتا ہے اس نفس کو مارنا بہت ضروری ہے جب تک نفس کا تزکیہ نہیں ہو گا تب تک یہ غفلت میں مبتلا کر کے وقت ضائع کرتا رہے گا . یہ نفس ذاتِ حق تعالیٰ تک پہنچنے کے قیمتی لمحات ضائع کرتا ہے اور اسی طرح زندگی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔​
93
جاری ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ذ
01

ذ۔ ذاتی نال ناں ذاتی رَلیا، سو کم ذات سڈیوے ہُو
نفس کُتّے نوں بنھ کراہاں، فہما فہم کچیوے ہُو
ذات صفاتوں مہنا آوے،جداں ذاتی شوق نپیوے ہُو
نام فقیر تنہاں دا باہو، قبر جنہاں دی جیوے ہُو

ذاتی نال ناں ذاتی رَلیا: ذات کے اندر ذات کو فنا نہ کیا یعنی فنافی اللہ ہو نہ ہوا
کم ذات: کمینہ،ادنٰی
نوں: کو
بنھ: باندھ کر
کراہاں: کر کے
فہمافہم: غورو فکر،سمجھ ،شعور،ادراک
کچیوے: کیا جائے،کرے
مہنا:طعنہ،گِلہ
جداں: جب
نپیوے: پکڑا جائے
تنہاں دا: اُن کا
جنہاں دی: جن کی
جیوے: حیات ہو

ترجمہ:
اپنی ذات کو مٹا کر ذاتِ حقیقی میں فنا ہونے کےعلاوہ سب مراتب کمتر ہیں۔اس مقام تک رسائی کے لئے طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ اسمِ اللہُ ذات کے تصوراور ذکر سے سگِ نفس کو قید کر لے۔ جس طالب کو ذات کا عشق اورشوق نصیب ہو جائے وہ صفات کی طرف دھیان نہیں کرتا۔اصل فقیر تو وہ ہوتا ہے جس کے ظاہری وصال کے بعد اُس کی قبرحیات حاصل کر لیتی ہے اورلوگ اس قبرِانور سے فیض حاصل کرتے ہیں۔​
94
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ذ
02

ذ۔ ذکر فِکر سب اُرے اُریرے، جَاں جان فِدا ناں فانی ہُو
فدا فانی تنہاں نوں حاصل، جیہڑے وَسّن لامکانی ہُو
فدا فانی اُونہاں نوں ہویا، جنہاں چَکھی عشق دی کانی ہُو
باہو ہُو دا ذکر سڑیندا ہر دَم، یار نہ مِلیا جانی ہُو
اُرے اُریرے: نزدیک ہی، ادھر ہی
جاں: جب تک
فِدا:قربان
تنّہاں نوں : انہیں
جیہڑے: جو
وَسّن: رہتے ہیں، بستے ہیں
فانی: فنا ہونے والی
کانی: تیر
ہُو دا ذکر: سلطان الاذکار'یاھُو' کا ذکر
سڑیندا: جلاتا ہے

ترجمہ:
ذکرفکرتوسب معمولی باتیں ہیں اصل تو جان کو فدا اورفنا کرنا مقصود ہےاورفنافی ذات تو وہ عارفِ کامل ہیں جو بقابالله ہو کرلامکان میں جابستے ہیں اور انہوں نے یہ بلند مرتبہ اور مقام تیرِعشق سے گھائل ہوکرحاصل کیا ہے۔ سلطان الاذکارھُو کے ذکرسےمحبوبِ حقیقی کو پالینے کی طلب میں اور شدت سے اضافہ ہورہا ہے اور جب تک محبوبِ حقیقی نہیں ملتا اس کا فراق ہردم تڑپاتا رہتا ہے۔​
95
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ذ
03

ذ۔ ذکر کنوں کر فکر ہمیشاں،ایہہ لفظ تِکھّا تلواروں ہُو
کڈھن آہیں تےجان جلاون، فکر کرن اسراروں ہُو
ذاکر سوئی جیہڑے فکر کماون، ہِک پلک ناں فارغ یاروں ہُو
فکر دا پھٹیا کوئی نہ جیوے، پَٹے مُڈھ چا پاڑوں ہُو
حق دا کلمہ آکھیں باہو، رب رکھے فکر دی ماروں ہُو

کنوں: سے
ہمیشاں: ہمیشہ
تِکھّا: تیز
کڈھن آہیں: آہیں نکالتے ہیں۔
جان جلاون:جان جلاتے ہیں
کرن: کرتے ہیں
اسراروں: اسرار،راز
سوئی: وہی
کماون: کماتے ہیں،کرتے ہیں
ہک پلک: ایک لمحہ،ایک گھڑی
ناں: نہ
پھٹیا: پٹھا ہوا،اثر زدہ
پَٹے: اکھیڑ دئیے ،اکھاڑ دیئے
مُڈھ: تنا
پاڑوں: جڑ سے،بیج سے
فکر دی ماروں: گمراہ کرنےوالا تفکر

ترجمہ:
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے طالب ! تو ذکر(اسمِ اللهُ ذات)اورتفکر کیا کر کیونکہ جب ذکراورفکرآپس میں مل جاتے ہیں توان کی تاثیر تلوار سے بھی تیز ہوتی ہے۔ تفکر سے ہی اللہ تعالیٰ کے اسراراوربھید سے آشنائی حاصل ہوتی ہے .اہلِ تفکر جب اسرارِالہٰیہ سے واقف ہوتے ہیں تو ان کے دل سے پُر درد اور پُر سوز آہیں نکلتی ہیں جو وساوسِ خناس اور خواہشاتِ دنیا کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں .اصل ذاکرتو وہ ہیں جو ذکر اسمِ اللہُ ذات کے تفکر میں محو رہتے ہیں اور ایک لمحہ بھی فارغ نہیں ہوتے۔ تفکر سے وہ اسرار اور بھید القا ہوتے ہیں جو کسی اور ذریعہ سے ہو ہی نہیں سکتے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمیشہ کلمہء حق کہتے رہنا چاہیے اور گمراہ کرنے والے تفکر سے الله تعالیٰ کی ذات ہمیشہ محفوظ رکھے ۔​
96
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ر
01

ر۔ راہ فقر دا پرے پریرے، اوڑک کوئی نہ دِسّے ہُو
ناں اُتھے پڑھن پڑھاون کوئی،ناں اُتھے مَسلے قِصّے ہُو
ایہہ دنیاہے بُت پرستی، مت کوئی اِس تے وِسّے ہُو
موت فقیری جیں سِرآوے باہو، معُلم تھیوے تِسّے ہُو

پرے پریرے: دور بہت دور
اوڑک: انتہا
دِسّے: دکھائی دے
ناں، اُتھے: نہ ۔ وہاں
مَسلے: شرعی مسائل
وِسّے: بھروسہ کرے
جیں: جس کے
معُلم تھیوے: معلوم ہے ،احساس ہوتا ہے
تِسّے:اسی کو

ترجمہ:
راہِ فقر بہت دور ہے اور اس کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی۔ عالمِ احدیت میں جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے نہ تو وہاں علم اور تعلیم ہے اور نہ ہی شرعی مسائل اور قصے کہانیاں ہیں۔ یہ توبت پرستی کی دنیا ہے اس پر توکوئی بھی بھروسہ نہ کرے۔ فقیری مُوْ تُوْاقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے بعد حاصل ہوتی ہے فقیری نہ توعالمانہ گفتگو میں ہے اورنہ مسئلہ مسائل اور قصہ خوانی میں ہے بلکہ یہ تو اللہ کے ساتھ عشق اورغرق فی التوحید ہونے میں ہے اور جس کو یہ حاصل ہوتی ہے اسی کو اس کے حال اور قدر کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔​
97
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ر
02

ر۔ راتیں رَتی نیندر نہ آوے، دِہاں رہے حیرانی ہُو
عارف دی گل عارف جانے، کیا جانے نفسانی ہُو
کر عبادت پچھوتاسیں،تیری زایا گئی جوانی ہُو
حق حضور اُنہاں نوں حاصل باہو، جنہاں مِلیا شاہ جیلانیؓ ہُو
رَتی نیندر: معمولی سی نیند
دِہاں: دن
نفسانی: دنیا دار اور ظاہری علوم کے ماہر
پچھوتاسیں: پچھتاوا،پشیمانی
زایا : ضائع
اُنہاں نوں: اُن کو
جنہاں: جن کو


ترجمہ:
عشقِ محبوب میں رات کو نیند نہیں آتی اور دن بھی اسی طرح حیرانی میں گزر جاتا ہے۔ عارف کی بات کوعارف ہی سمجھ سکتا ہے اورعارف کی بات نفس پرست لوگوں کو سمجھ نہیں آ سکتی۔ معرفتِ الہٰی کے حصول کی کوشش کر ورنہ دورِ جوانی گزر جانے کے بعد اس کے ضائع جانے پر تجھے پشیمانی ہو گی۔ حضورِ حق تعالیٰ تواُن کو حاصل ہوتا ہے جن کے مرشد سیدناغوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی (رضی اللہ عنہ) ہوتے ہیں۔​
98
 
آخری تدوین:
Top