سلطان باہو حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا مکمل پنجابی کلام معنی اور ترجمہ کے ساتھ

یوسف سلطان

محفلین
ر
03

راتیں نین رَت ہنجو رووَن، تے ڈِیہاں غمزہ غم دا ہُو
پڑھ توحید وڑیا تن اندر، سُکھ آرام نہ سَمدا ہُو
سَر سولی تے چا ٹنگیونے، اِیہو راز پَرم دا ہُو
سِدھا ہو کوہیویے باہو، قطرہ رہے نہ غم دا ہُو
راتیں،نین: رات کو آنکھیں
رت ہنجو: خون کے آنسو
ڈِیہاں : دن
غمزہ : ادا،نخرہ،ناز
وڑیا:داخل ہویا
سَمدا:سونا،نیند
چا: جا
ٹنگیونے: انہوں نے لٹکا دیا
ایہو: یہی
پَرم: عشق،محبت
کوہیویے: ذبخ ہو جائے
قطرہ: ذرہ بھ
ر
ترجمہ:
عشق "اسمِ اللہُ ذات" کی صورت میں عاشقوں کے دل میں ڈیرہ جما چکا ہے اورمحبوب کا یہ راز رات کو خون کے آنسو رُلاتا ہے اور دن کوغم سے گھائل رکھتا ہے.اسمِ اللہُ ذات سے توحید کا یہ راز جب سے باطن کے اندر ظاہر ہوا ہے ایک پل بھی آرام اورسکون نہیں ہے توحید کےاسی راز کو ظاہر کرے پر منصور حلاج (رحمتہ اللہ علیہ ) کو سولی پرچڑھا دیا گیا۔اسے ظاہر کرنا عشق کے اصول کے خلاف ہے اس لئے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہیے خواہ سولی پر لٹکا دیا جائے۔ اصولِ عشق تو یہی ہے کہ رازِعشق کو سینے میں چھپا کرہر لمحہ ذبخ ہوتےاور سولی پر لٹکتے رہنا چاہیے اور یہی تسلیم و رضا ہے .جب رضا حاصل ہوتی ہے تو غم اوراندیشہ ختم ہو جاتا ہے۔​
99
جاری ہے ۔۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ر
04

ر۔ رات اندھیری کالی دے وچ، عشق چراغ جلاندا ہُو
جَیندی سِک توں دل چا نیوے،توڑے نہیں آواز سناندا ہُو
اَوجھڑ جَھل تے مارُو بیلے،اِتھے دم دم خوف شیہاں دا ہُو
تَھل جَل جنگل گئے جھگیندے باہُو، کامل نینہہ جنہاںدا ہُو
جلاند: جلاتا ہے
جیندی: جس کی
سِک :محبت،عشق کی کسک
نیوے: لے جائے
سناندا:سنائی دیتا
اَوجھڑ: جھاڑیوں کا جنگل
جَھل :جنگل
مارُو: ویرانے
بیلے: دریاؤں کے کنارے کائی اور گھاس کا جنگل
اِتھے: یہاں
دَم دَم:ہر لمحے،ہر گھڑی
شیہاں: شیر کی جمع،شیروں
تَھل: ریگستان
جَل : پانی
جھگیندے: عبور کر کے
کامل نینہہ : مرشد کامل اور اس سے کامل عشق
جنہاںدا: جن کا


ترجمہ:
نفس،دنیا اورشیطان کی صورت میں انسان پر مسلط اس کالی رات کوعشق ہی منورکرتاہے اورعشق جب دل پرچھا جاتا ہے توآواز تک نہیں آتی۔ راہِ معرفت کے سفر کے دوران ہوا وہوس،خواہشاتِ نفسانی ،صعوبتوں،پریشانیوں اور ظلمت و تاریکی کے گھتا ٹوپ اندھیروں سے نجات حاصل کرکے وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں جن کا مرشد، کامل اورعشق صادق ہوتا ہے۔​
100
جاری ہے۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ر
05

ر-رحمت اُس گھر وِچ وَسّے،جِتّھے بَلدے دِیوے ہُو
عشق ہوائی چڑھ گیا فلک تے،کِتّھے جہاز گھتیوے ہُو
عقل فکردی بیڑی نوں،چا پہلے پور بوڑیوے ہُو
ہرجا جانی دِسے باہو،جِت ول نظرکچیوے ہُو
وَسّے: برستی ہے
بَلدے: جلتے ہیں،روشن ہوتے ہیں
دِیوے: چراغ
کِتّھے:کہاں
گھتیوے:ڈال دیا جائے،لنگر انداز کیا جائے
بیڑی:کشتی
پہلے پور: پہلی دفعہ ہی
بوڑیوے: ڈبو دیا جائے
ہرجا: ہر جگہ
جانی: محبوبِ حقیقی،اللہ تعالیٰ
دِسے: دکھائی دے ،نظر آئے
جِت ول:جس طرف
کچیوے: کی جائے

ترجمہ:
رحمتِ الہٰی اس دل پربرستی ہے جہاں عشقِ الہٰی کے چراغ روشن ہو گئے ہوں۔ میرےعشق کا سمندردریائے وحدت تک چلا گیا۔ اب جہاز کو وہاں کیسے لنگراندازکیا جائے۔ عقل وفکر کی کشتی کوتوعشق کی راہ پر چلتے وقت ہی ڈبودینا چاہیے۔اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ جدھرنظراٹھائیں ہمیں ہرطرف ذاتِ حق تعالیٰ نظرآتی ہے۔
101
جاری ہے۔۔۔​
 

یوسف سلطان

محفلین
ر
06

ر۔روزے نفل نمازاں تقویٰ سَبھو کم حیرانی ہُو
اِنہیں گَلیں رب حاصل ناہیں، خود خوانی خود دانی ہُو
ہمیش قدیم جَلیندا ملیو،سو یار' یار نہ جانی ہُو
ورد وظیفے تھیں چُھٹ رہسی باہُو، جد ہو رَہسی فانی ہُو
سَبھو: تمام،سارے
کم: کام
گَلیں: باتیں
خود خوانی خود دانی:خود پڑھنے اورخود سمجھنے والا،خود کو درست اوردوسروں کوغلط جاننا،خود نمائی اورخود ستائیشی
ہمیش:ہمشہ
جَلیندا :رہ رہاہے،نبھارہا ہے
جانی: ذاتِ حق تعالیٰ
چُھٹ: چھوٹ جائیں گے

ترجمہ:
اے طالب! روزے رکھنا نوافل پڑھنا اورپرہیزگار بنے رہنا نیکی اورعبادت تو ہیں مگراس سے ذاتِ حق تعالیٰ تک رسائی نصیب نہیں ہوتی بلکہ اس سے نفس میں خود نمائی،خود پرستی،خود ستائشی اورانانیت پیدا ہوتی ہے۔ ذاتِ حق تعالیٰ تو ازل سے تیرے اندر پوشیدہ ہے کیا تجھے اس کاعرفان نہیں ہے۔ جب طالب ذاتِ حق تعالیٰ میں فنا ہو جاتا ہے تو تمام ورد وظیفوں سے چھٹکارا پا جاتا ہے۔​
102
جاری ہے۔۔۔​
 

یوسف سلطان

محفلین
ز
01

ز۔ زبانی کلمہ ہرکوئی پڑھدا، دل دا پڑھدا کوئی ہُو
جتھے کلمہ دل دا پڑھیئے،اُوتھے ملے زبان نہ ڈھوئی ہُو
دل دا کلمہ عاشق پڑھدے،کی جانن یار گلوئی ہُو
ایہہ کلمہ مینوں پیرپڑھایا باہو،میں سدا سوہاگن ہوئی ہُو

زبانی کلمہ: اقرار باللّسان،زبان سے کلمہ پڑھنا
دل دا کلمہ:تصدیق بالقلب سے کلمہ طیب پڑھنا
جتھے: جہاں
اُوتھے:وہاں
ڈھوئی:گنجائش،رسائی
کی جانن: کچھ نہیں جانتے،کیا جانیں
گلوئی:گفتارکےغازی،قیل وقال اور زبان سے کام چلانے والے
ایہہ: یہ
مینوں: مجھے
سدا: ہمیشہ
سہاگن: سہاگ والی،نیک بخت،خوش نصیب


ترجمہ :
زبانی کلمہ تو ہرکوئی پڑھ لیتا ہے لیکن قلبی تصدیق کے ساتھ کلمہ توکوئی کوئی پڑھتا ہے۔ جب عاشق کلمہ کی کنہہ اور حقیقت کو اپنے اندرپا لیتے ہیں تو وہاں زبان ہلانے کی ضرورت نہیں رہتی بس دیدارہی رہ جاتا ہے۔ یہ کلمہ تو صرف عاشقِ ذات ہی پڑھتے ہیں۔ زبانی باتیں بنانے والےاس کلمہ کی حقیقت کونہیں سمجھ سکتے۔ مجھےتصدقِ قلب کےساتھ کلمہ تومیرے مرشد کامل نے پڑھایا ہے اورمیں دونوں جہانوں میں خوش بخت ہو گیا۔
103
جاری ہے۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ز
02

ز۔ زاہد زُہد کریندے تھکے، روزے نفل نمازاں ہُو
عاشق غرق ہوئے وچ وحدت، اللہ نال محبت رازاں ہُو
مَکھی قید شہد وچ ہوئی، کیا اُڈسی نال شہبازاں ہُو
جنہاں مجلس نال نبیؐ دے باہو،سوئی صاحبِ راز نیازاں ہُو
زاہد: عبادت گزار
زُہد: زہد و ریاضت ،مجاہدہ
کریندے: کرتے
تھکے: تھک گئے
غرق: ڈوب گئے
وِچ:میں
وحدت:وحدتِ حق تعالیٰ
مَکھی: مراد طالبانِ عقبٰی
اُڈسی: اُڑے گی،پرواز کرے گی
شہبازاں: مراد طالبانِ مولیٰ
جنہاں: جنہیں،جن کو
مجلس نال نبیؐ: حضوری مجلسِ محمدی صلی اللہ ہوعلیہ وسلم
سوئی: وہی
صاحبِ راز: فنافی ھُوفقیرِ کامل،محرمِ راز طالبِ مولیٰ،دل کا محرم


ترجمہ:
زاہد زُہد و ریاضت اورعبادت کرکے تھک گئےمگر پھر بھی حجاب میں ہی رہے اور وصالِ الٰہی نہ پا سکے مگرعاشق اپنےعشق سے اللہ پاک کے رازدان بن گئےاوراس کی ذات میں فنا ہو گئےاورتوحید میں غرق ہوکرخود بھی توحید ہوگئے لیکن یہ طالبانِ دنیا جو دنیاوی خواہشات عیش وعشرت اور حرص وہوا میں مبتلا ہیں اور طالبانِ عقبیٰ جوبہشت،حوروقصوراورنیکیوں کے لالچ میں عبادت و ریاضت میں مصروف ہیں وہ ان عاشق لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ خوش نصیب ہیں وہ صاحبِ راز جن کو مجلسِ محمدی صلی اللہ ہوعلیہ وسلم کی حضوری نصیب ہوتی ہے۔

104
جاری ہے۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
س
01

س۔ سَے روزے سَے نفل نمازاں، سَے سجدے کرکرتھکَے ہُو
سَے واری مکّے حج گزارن، دل دی دوڑ ناں مکّے ہُو
چِلّے چَلیہے جنگل بَھونا،اِس گَل تِھیں ناں پکّے ہُو
سَبھے مطلب حاصل ہوندے باہو،جد پیر نظر اِک تکّے ہُو
سَے:سینکڑوں،کئی سو
تھکَے:تھک گئے
دل دی دوڑ:دل کی ڈوریعنی اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کی طرف باطنی سفر
مکّے: ختم ہو
چِلّے:چلہ کشی
چَلیہے:چالیس روزہ
بَھونا:پھرنا،گھومنا
اِس گَل تِھیں: اس بات سے
پکّے:پختہ
سَبھے:سبھی
جد:جب
تکّے:دیکھے


ترجمہ:
مرشد کامل اکمل کی راہبری اور رہنمائی کے بغیرمعرفتِ الہٰی کے حصول کے لیے ہزاروں نوافل ادا کیے سینکڑوں مرتبہ سجدہ میں سررکھ کرالتجا کی،حج ادا کیے، چالیس چالیس روز چلہ کشی بھی کی اورپھرجنگلوں میں تلاشِ حق کے لیے بھی پھرتے رہے لیکن ناکام رہے اورمعرفتِ الہٰی سے محروم رہے لیکن جب میں نے مرشد کامل کی غلامی اختیارکی اورمیرے مرشد کامل نے ایک نگاہِ فیض مجھ پرڈالی تومیں نے اپنی منزلِ حیات کو پالیا۔
105
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
س
02

س۔ سبق صفاتی سوئی پڑھدے،جو وت ہینے ذاتی ہُو
عِلموں عِلم اُنہاں نوں ہویا،جیہڑے اصلی تے اثباتی ہُو
نال محبت نفس کٹّھونیں،کڈھ قضا دی کاتی ہُو
بہرہ خاص اُنہاں نوں باہو،جنہاں لدّھا آب حیاتی ہُو

سبق صفاتی:صفاتی اسماء کا ذکراوراسمِ ذات کےعلاوہ دوسرے ذکر اذکار
سوئی:وہی
وت:پھر،پھر سے
ہینے:کمزور،بزدل
اُنہاں نوں:اُن کو
جیہڑے:وہی،جو
اثباتی:ثابت قدم
کٹّھونیں:ذبخ کر
کڈھ:نکال
قضا:تسلیم و رضا
کاتی:چُھری
بہرہ:حصہ
لدّھا:مِلا
آب حیاتی
:اسمِ اللهُ ذات

ترجمہ:​
اسمائے صفات کا ذکر تو وہی کرتے ہیں جوکمزوراوربزدل ہوتے ہیں اورجن میں عشقِ الہٰی کا بھاری بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں ہوتی۔اسمِ اللّٰہُ ذات کی کنہہ اورحقیقت تک رسائی تو بلند ہمت اورعالیٰ مرتبت طالبانِ مولیٰ کا ازلی ورثہ ہے۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے تسلیم و رضا کے خنجرسے نفس کو ذبح کردیا ہے۔ فقر کی انتہا تک تو وہ پہنچے ہیں جو سلطان الاذکارھُو کا آبِ حیات پی چکے ہیں۔
106
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
س
03

س۔ سوز کنوں تن سڑیا سارا،میں تے دُکھاں ڈیرے لائے ہُو
کوئل وانگ کوکیندی وَتاں، ناں ونجن دن اَضائے ہُو
بول پَپِیہا رُت ساون آئی،مَتا مولیٰ مینہ وَسائے ہُو
ثابت صدق تے قدم اَگوہاں باہُو،رب سِکدیاں دوست ملائے ہُو

سوز:فراق اور جدائی کی جلن
تن سڑیا:جسم جل گیا
وانگ:کی طرح
کوکیندی:فریاد کرتی
وَتاں:پھر رہی ہوں
ناں:نہ
ونجن:جائیں
اَضائے:ضائع
مَتا:شاید ،خدا کرے
وَسائے:برسائے
اَگوہاں:اور آگے
سِکدیاں:وصال کی کسک
دوست:محبوب حقیقی،حق تعالیٰ


ترجمہ:
عشق کی آگ میرے جسم کو جلا چکی ہے اورفراقِ یارمیں دل کے اندرغموں اوردکھوں کا گہرا گھاؤ ہے۔ دیدارکی پیاس بجھانے کے لئے میں ہرطرف فریاد اورچیخ و پکارکرتا پھررہا ہوں۔ مرشد کامل کی طرف سے تو"معرفت" کا بادل آ چکا ہے لیکن میرے اعمال ہی کچھ ایسے ہیں کہ یہ برس نہیں رہا۔ شاید آہ و زاری اور ذکر وفکرسے اس ساون کا آغاز ہو جائے۔ جوطالبانِ مولیٰ راہِ فقر میں صدق اوراستقامت سے چلتے رہتے ہیں وہی وصالِ الہٰی کی منزل تک پہنچنے ہیں۔​

107
جاری ہے۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم !
مجھے ایک کتاب ملی ہے پی ڈی ایف میں جس میں حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا پنجابی کلام "الف الله چنبے دی بوٹی " ہے، ترجمہ کے ساتھ اور میں روز کچھ نہ کچھ ان شاء الله (جتنی الله پاک نے توفیق دی )ادھر لکھوں گا اوپرسے دیکھ کر۔ اس سے پہلے مختصر سا تعارف حضرت سلطان با ہو رحمتہ الله علیہ کا ۔

تعارف :
حضرت سلطان باہو (1631-1691)
نجاب کے صوفی ۱کابرین میں سلطان باہو کو بھی ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ سلطان باہو اپنے عہد کے کامل بزرگ اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں. آپ کے کلام میں ایک روح پرور تاثیر، مٹھاس اور چاشنی ہے. آپ سلطان العارفین کے لقب سے مشہور ہیں. آپ کا تعلق شاہ جہاں کے عہد کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے تھا۔ آپ کے والد بایزید محمد ایک صالح شریعت کے پابند حافظ قرآن، فقیہہ ، دنیاوی تعلقات سے آشنا سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔ حضرت سلطان باہو 1631ء (1039ھ) میں جھنگ کے موضع اعوا ن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ظاہری علوم کا اکتساب باقاعدہ اور روایتی اندز میں نہیں کیا بلکہ زیادہ ترابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔ خود ہی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
”اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کر دی ہے۔“
مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہوئے تو آپ کی ملاقات شور کوٹ کے نزدیک گڑھ بغداد میں سلسلہ قادر یہ کے ایک بزرگ شاہ حبیب اللہ سے ہوئی۔ اور جب مرید مرشد سے بھی آگے بڑھ گیا تو مرشد نے آپ کو سید عبدالرحمٰن کی جانب رجوع کرنے کا مشور ہ دیا۔ اورنگزیب کے عہد میں آپ سید عبدالرحمٰن سے ملنے دہلی پہنچے مگر معروضی حالات کی بنا پر آپ کے عالمگیر کے ساتھ تضادات پیدا ہو گئے۔ اسی بنا پر آپ دہلی سے واپس چلے گئے اور بقیہ زندگی روحانی ریاضتوں اور لوگوں کو روحانی فیض پہنچانے میں بسر کی۔ آپ دوسرے صوفیا کی طرح محض درویشانہ زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کی زندگی کا انداز بلاشبہ روایتی صوفیانہ زندگی سے مختلف تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے سب کچھ تیاگ دیا تھا۔ آپ کی تصانیف کی طویل فہرست عربی، فارسی اور پنجابی زبانوں پر محیط ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو نہ صرف مروجہ زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ مذہبی علوم سے بھی کماحقہ فیض یاب ہوتے تھے۔
آپ کی شاعری میں ایک سرور انگیز مقدس آواز کی صورت میں لفظ ” ہو“ کا استعمال آپ کو تمام صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ آپ بظاہر فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے اور سیدھی سادھی باتیں خطیبانہ انداز میں کہے چلے جاتے، جن کا مطالعہ بلاشبہ ہماری دیہاتی دانش کا مطالعہ ہے۔ آپ کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سلسلہ قادریہ کے دوسرے صوفیا سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
”میں نہ تو جوگی ہوں نہ جنگم ، نہ ہی سجدوں میں جا کر لمبی لمبی عبادتیں کرتا ہوں نہ میں ریاضتیں کرتا ہوں ۔ میرا ایمان محض یہ ہے، جو لمحہ غفلت کا ہے وہ لمحہ محض کفرکا ہے۔جو دم غافل سو دم کافر۔“
حضرت سلطان باہو سرچشمہ علوم و فیوض ہیں، مشہور ہے کہ آپ نے ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتابیں امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ناپید ہیں ۔ تاہم اب بھی آپ کی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں اور علمائے ظاہر کے مقابلے میں سلطان باہو فقر کا تصور پیش کرتے ہیں جہاں علما لذتِ نفس و دنیا میں مبتلا ہو کر نفس پیروی کرتے ہیں اور لذتِ یادِ الٰہی سے بیگانہ رہتے ہیں ، وہاں فقراء شب و روز یادِ خدا میں غرق ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں ترکِ دنیا اور نفس کشی کے خیالات بکثرت ملتے ہیں۔آپ کے نقطہ نظر کے مطابق دین و دنیا دو ایسی متضاد قوتیں ہیں جن کے باہم تفاوت کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سلطان باہو کا وصال 1691ء بمطابق اسلامی تاریخ یکم جمادی الثانی 1102ھ میں تریسٹھ سال کی عمرمیں ہوا۔ آپ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے ایک گاؤں جو آپ ہی کے نام سے موسوم ہے اور جھنگ سے پچاس میل دور جنوب کی جانب قصبہ گڑھ مہاراجہ کے نزدیک تحصیل شورکوٹ میں مرجعِ خاص و عام ہے.

دراصل چنبیلی کا پودا اس کی ہی ایک شاخ ہوتاہے جو مٹی میں دبا دیا جاتا ہے اور پھر پانی دے کر اسے جڑیں بننے کے بعد علیہدہ جگہ پر منتقل کر دیا جاتا ہے اس طرح ایک سے بیسیوں اور ان سے سیکڑوں پھر ان سے ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں پھیلتے چلے جاتے ہیں۔مگر یہ سفر اگر کہیں پر رک جائے تو پھر نیا پودا لایا جاتا ہے ۔لہٰزا نئے آنے کے بجائے یہ سفر جاری رہے ہی دعا کریں۔
 
Top