حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر تابعین اور چالیس پیشواؤں میں سے ہوئے ہیں۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ "اویس احسان و مہربانی کے اعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہے"۔ اور جس کی تعریف رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیں اس کی تعریف دوسرا کوئی کیا کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یمن کی جانب روئے مبارک کر کے حضور فرمایا کرتے تھے کہ " میں یمن کی جانب سے رحمت کی ہوا آتی ہوئی پاتا ہوں"۔
حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ " قیامت کے دن ستر ہزار ملائکہ کے آگے جو اویس قرنی کی مانند ہوں گے اویس کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ تا کہ مخلوق ان کو شناخت نہ کر سکے سوائے اس شخص کے جس کو اللہ ان کے دیدار سے مشرف کرنا چاہے۔ اس لیے کہ آپ نے خلوت نشین ہو کر اور مخلوق سے روپوشی اختیار کر کے محض اس لیے عبادت و ریاضت اختیار کی کہ دنیا آپ کو برگزیدہ تصور نہ کرے اور اسی مصلحت کے پیش نظر قیامت کے دن آپ کی پردہ داری قائم رکھی جائے گی"۔ حضور اکرم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک ایسا شخص ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیعہ و مضر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر گناہگاروں کو بخش دیا جائے گا۔(ربیعہ و مضر دو قبیلے ہیں جن میں بکثرت بھیڑیں پائی جاتی تھیں) اور جب صحابہ کرام نے حضور سے پوچھا کہ وہ شخص کون ہے اور کہاں مقیم ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا ایک بندہ ہے۔ پھر صحابہ کے اصرار کے بعد فرمایا کہ وہ اویس قرنی ہے۔
چشم باطن سے زیارت ہوئی:- جب صحابہ نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں؟ آپ نے فرمایا کبھی نہیں، لیکن چشم ظاہری کے بجائے چشم باطنی سے اس کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے۔ اور مجھ تک نہ پہنچنے کی دو وجوہ ہیں۔ اول غلبہ حال، دوم تعظیم شریعت۔ کیونکہ ان کی والدہ مؤمنہ بھی ہیں اور اور ضعیف و نابینا بھی۔ اور اویس شتربانی کے ذریعہ سے ان کے لیے معاش حاصل کرتا ہے۔ پھر جب صحابہ نے پوچھا کہ کیا ہم ان سے شرف نیاز حاصل کر سکتے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے ان کی ملاقات ہو گی اور ان کی شناخت یہ ہے کہ پورے جسم پر بال ہیں اور ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درہم کے برابر سفید رنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں۔ لہٰذا جب ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دعا کرنے کا پیغام بھی دینا۔ پھر جب صحابہ نے عرض کیا کہ آپ کے پیراہن کا حقدار کون ہے تو فرمایا اویس قرنی۔
مقام تابعی اور اشتیاق صحابہ :- دور خلافت راشدہ میں جب حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے اہل یمن سے ان کا پتا معلوم کیا تو کسی نے کہا کہ میں ان سے پوری طرح تو واقف نہیں البتہ ایک دیوانہ آبادی سے دور عرفہ کی وادی میں اونٹ چرایا کرتا ہے اور خشک روٹی اس کی غذا ہے۔ لوگوں کو ہنستا ہوا دیکھ کر خود روتا ہے اور روتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر خود ہنستا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر اور حضرت علی جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت اویس نماز میں مشغول ہیں اور ملائکہ ان کے اونٹ چرا رہے ہیں۔ فراغت نماز کے بعد جب ان کا نام دریافت کیا تو جواب دیا کہ عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اپنا اصلی نام بتائیے۔ آپ نے جواب دیا کہ اویس۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا اپنا ہاتھ دکھائیے۔ انہوں نے جب ہاتھ دکھایا تو حضور اکرم کی بیان کردہ نشانی دیکھ کر حضرت عمر نے دست بوسی کی اور حضور کا لباس مبارک پیش کرتے ہوئے سلام پہنچا کر امت محمدی کے حق میں دعا کرنے کا پیغام بھی دیا۔ یہ سن کر اویس قرنی نے عرض کیا کہ آپ خوب اچھی طرح دیکھ بھال فرما لیں شاید وہ کوئی دوسرا فرد ہو جس کے متعلق حضور نے نشان دہی فرمائی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ جس نشانی کی نشان دہی فرمائی ہے وہ آپ میں موجود ہے۔ یہ سن کر اویس قرنی نے عرض کیا کہ اے عمر تمہاری دعا مجھ سے زیادہ کار گر ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو دعا کرتا ہی رہتا ہوں البتہ آپ کو حضور کی وصیت پوری کرنی چاہیے۔ چنانچہ حضرت اویس قرنی نے حضور کا لباس مبارک کچھ فاصلے پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا رب جب تک تو میری سفارش پر امت محمدی کی مغفرت نہ کر دے گا میں سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباس ہر گز نہیں پہنوں گا۔ کیونکہ تیرے نبی نے اپنی امت کو میرے حوالے کیا ہے۔ چانچہ غیب سے آواز آئی کہ تیری سفارش پر کچھ افراد کی مغفرت کر دی۔ اسی طرح آپ دعا میں مشغول تھے کہ حضرت عمر و حضرت علی آپ کے سامنے پہنچ گئے اور جب آپ نے سوال کیا کہ آپ دونوں حضرات کیوں آ گئے؟ میں تو جب تک پوری امت کی مغفرت نہ کروا لیتا اس وقت تک یہ لباس کبھی نہ پہنتا۔
مقام ولایت خلافت سے بہتر ہے:- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو ایسے کمبل کے لباس میں دیکھا جس کے نیچے تونگری کے ہزاروں عالم پوشیدہ تھے۔ یہ دیکھ کر آپ کے قلب میں خلافت سے دستبرداری کی خواہش پیدا ہوئی اور فرمایا کہ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو روٹی کے ٹکڑے کے بدلے میں مجھ سے خلافت خرید لے۔ یہ سن کر حضرت اویس نے کہا کہ کوئی بے وقوف شخص ہی خرید سکتا ہے۔ آپ کو تو فروخت کرنے کی بجائے اٹھا کر پھینک دینا چاہیے پھر جس کا جی چاہے اٹھا لے گا۔ یہ کہہ کر حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھیجا ہوا لباس پہن لیا اور فرمایا کہ میری سفارش پر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کے برابر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی مغفرت فرما دی۔ اور جب حضرت عمر نے آپ سے حضور اکرم کی زیارت نہ کرنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ دیدار نبی سے مشرف ہوئے ہیں تو بتائیے کہ حضور کے ابرو کشادہ تھے یا گھنے(ملے ہوئے)؟ لیکن دونوں صحابہ جواب سے معذور رہے۔
اتباع نبوی میں دندان مبارک کا توڑنا:- حضرت اویس نے کہا کہ اگر آپ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوستوں میں سے ہیں تو یہ بتائیے کہ جنگ احد میں حضور کا کون سا دانت مبارک شہید ہوا تھا؟ یہ کہہ کر اپنے تمام ٹوٹے ہوئے دانت دکھا کر کہا کہ جب دانت مبارک شہید ہوا تو میں نے اپنا ایک دانت توڑ ڈالا۔ پھر خیال آیا کہ شاید کوئی دوسرا دانت شہید ہوا ہو، اسی طرح ایک ایک کر کے جب تمام دانت توڑ ڈالے اس وقت مجھے سکون نصیب ہوا۔ یہ دیکھ کر دونوں صحابہ پر رقت طاری ہو گئی اور یہ اندازہ ہو گیا کہ پاس ادب کا حق یہی ہوتا ہے۔ گو حضرت اویس قرنی دیدار نبی سے مشرف نہ ہو سکے لیکن اتباع رسالت کا مکمل حق ادا کر کے دنیا کو درس ادب دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
مؤمن کے لیے ایمان کی سلامتی ضروری ہے:- جب حضرت عمر نے اپنے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے کہا کہ نماز میں التحیات کے بعد میں یہ دعا کیا کرتا ہوں۔ اللٰھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات ، اے اللہ تمام مؤمن مردوں عورتوں کو بخش دے اور اگر تم ایمان کےساتھ دنیا سے رخصت ہوئے تو تمہیں سرخروئی حاصل ہو گی۔ ورنہ میری دعا بے فائدہ ہو کر رہ جائے گی۔
وصیت:- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب وصیت کرنے کے لیے فرمایا تو آپ نے کہا کہ اے عمر ! اگر تم خدا شناس ہو تو اس سے زیادہ افضل اور کوئی وصیت نہیں کہ تم خدا کےسوا کسی دوسرے کو نہ پہچانو، پھر پوچھا کہ اے عمر، کیا اللہ تعالیٰ تم کو پہچانتا ہے؟ آپ نے فرمایا ، ہاں۔ حضرت اویس نے کہا کہ بس خدا کے علاوہ تمہیں کوئی نہ پہچانے یہی تمہارے لیے افضل ہے۔
استغناء:- حضرت عمر نے خواہش کی کہ آپ کچھ دیر اسی جگہ قیام فرمائیں میں آپ کے لیے کچھ لے کر آتا ہوں تو آپ نے جیب سے دو درہم نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ اونٹ چرانے کا معاوضہ ہے اور اگر آپ یہ ضمانت دیں کہ یہ درہم خرچ ہونے سے پہلے میری موت نہیں آئے گی تو یقیناً آپ کا جو جی چاہے عنایت فرما دیں ورنہ یہ دو درہم میرے لیے بہت کافی ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہاں تک پہنچنے میں آپ حضرات کو جو تکلیف ہوئی اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ اور اب آپ دونوں واپس ہو جائیں کیونکہ قیامت کا دن قریب ہے اور میں زاد آخرت کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ پھر ان دونوں صحابہ کی واپسی کے بعد جب لوگوں کے قلوب میں حضرت اویس کی عظمت جاگزیں ہوئی اور مجمع لگنے لگا تو آپ گھبرا کر کوفہ میں سکونت پزیر ہو گئے اور وہاں پہنچنے کے بعد بھی صرف ہرم بن حبان کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے نہیں دیکھا ، کیونکہ جب سے ہرم بن حبان نے آپ کی شفاعت کا واقعہ سنا تھا، اشتیاق زیارت میں تلاش کرتے ہوئے کوفہ پہنچے۔۔۔
(تذکرۃ الاولیاء، حضرت شیخ فریدالدین عطّار رحمۃ اللہ علیہ)
اللہ عزوجل ہمیں اپنے اولیاء کا فیضان عطا فرمائے، آمین۔
 
Top