حسرتیں

رباب واسطی

محفلین
اک بوڑھا اسپتال میں دیتا تھا یہ صدا
ہے کوئی جو غریب کا گُردہ خرید لے ؟
مزدور کی حیات اِسی کوشش میں کٹ گئی
اک بار اُس کا بیٹا بھی بستہ خرید لے
ہم سر کٹا کے بیٹھے ہیں مقتل کی خاک پہ
دشمن سے کوئی کہہ دے کہ نیزہ خرید لے
جب اُس سے گھر بنانے کے پیسے نہ بن سکے
وہ ڈھونڈتا رہا کوئی نقشہ خرید لے
بیٹی کی شادی سر پہ تھی اور دل تھا باپ کا
زیور کے ساتھ چھوٹی سی گڑیا خرید لے
تُو بادشاہ ہے فقر کے طعنے نہ دے مجھے
بس میں نہیں تیرے میرا کاسہ خرید لے
حیدر وہ صدیاں بیچ کے آیا تھا میرے پاس
ممکن نہیں ہوا میرا لمحہ خرید لے

سید حیدر رضوی
 
Top