( حسرتوں کے چراغ ) برائے اصلاح

الف عین
فلسفی یاسر شاہ خلیل الر حمن اور دیگر
-------------------
چراغ دل میں حسرتوں کے جل رہے ہیں آج بھی
اگر دیا ہے دکھ ہمیں تو خوش نہیں سماج بھی
-------------------
گلے لگا کے مل ہمیں ، کہ آج دن ہے عید کا
حرج نہیں ہے آج تو ، کہ رسم ہے رواج بھی
-------------------
ہے کیوں خفا خفا میں جانتا نہیں ہوں بات کو
جو سخت اس کی بات ہے ، تو تُرش ہے مزاج بھی
----------------------------
ستا رہا ہے وہ اگر ، مجھے تو اُس سے پیار ہے
میں نے کیا ہے پیار تو ، میں رکھ رہا ہوں لاج بھی
--------------------------
جہان ہی خراب ہے ، مجھے وفا نہ مل سکی
جفا کا غم ملا مجھے ، ملا نہیں علاج بھی
-------------------
وطن مرا جو لوٹتے تھے ، وہ پڑے ہیں جیل میں
بے گھر ہوئے ہیں گھر سے ، اور چھن چکا ہے راج بھی
-------------------------
 

الف عین

لائبریرین
چراغ دل میں حسرتوں کے جل رہے ہیں آج بھی
اگر دیا ہے دکھ ہمیں تو خوش نہیں سماج بھی
------------------- دو لخت ہے، دوسرے مصرعے میں اگر اور تو یا تو بھرتی ہیں یا واضح نہیں

گلے لگا کے مل ہمیں ، کہ آج دن ہے عید کا
حرج نہیں ہے آج تو ، کہ رسم ہے رواج بھی
------------------- حرج کا تلفظ.. ر پر سکون ہے.۔ موضوع وہی عامیانہ شعر کا ہے

ہے کیوں خفا خفا میں جانتا نہیں ہوں بات کو
جو سخت اس کی بات ہے ، تو تُرش ہے مزاج بھی
---------------------------- صرف بات کہنے سے تو واضح نہیں ہوتا۔ 'میں اس کی وجہ جانتا نہیں' شاید بہتر ثابت ہو

ستا رہا ہے وہ اگر ، مجھے تو اُس سے پیار ہے
میں نے کیا ہے پیار تو ، میں رکھ رہا ہوں لاج بھی
-------------------------- دوسرے مصرعے کا پہلا حصہ بحر میں نہیں۔ پہلا مصرع بے ربط ہے

جہان ہی خراب ہے ، مجھے وفا نہ مل سکی
جفا کا غم ملا مجھے ، ملا نہیں علاج بھی
------------------- ایک ہی بات کو دہرایا جا رہا ہے

وطن مرا جو لوٹتے تھے ، وہ پڑے ہیں جیل میں
بے گھر ہوئے ہیں گھر سے ، اور چھن چکا ہے راج بھی
-------------- بے گھر کو 'بگھر' نہیں کیا جا سکتا، ے ہندی الفاظ میں ہی گرائی جا سکتی ہے
 
الف عین
-------------
چراغ دل میں حسرتوں کے جل رہے ہیں آج بھی
ہمیں بھی غم کا شوق تھا ،بے رحم تھا سماج بھی
یا
ہمیں خوشی نہ مل سکی نہ خوش ہوا سماج بھی
--------------------
ہے کیوں خفا خفا ، میں اس کی وجہ جانتا نہیں
جو تلخ اس کی بات ہے تو تُرش ہے مزاج بھی
--------------------
وفا ہے کِس بلا کا نام ،اُسے نہیں ہے کچھ خبر
میں نے کیا ہے پیار تو میں رکھ رہا ہوں لاج بھی
یا
مجھے ہوا ہے پیار تو میں رکھ رہا ہوں لاج بھی
---------------------
وہ جا چکا ہے چھوڑ کر ، اُسے نہ اب تُو یاد کر
ہجر کا کا غم ملا مجھے ِملا نہیں علاج بھی
یا
جفا کا دکھ دیا مجھے ، ہوا نہیں علاج بھی
----------------
وطن مرا جو لوٹتے تھے ، وہ پڑے ہیں جیل میں
ہوئے ہیں گھر سے بے گھر اور چھن چکا ہے راج بھی
------------------
مراد میں نہ پا سکا یہی مرا نصیب تھا
ملا جو غم ، ہوا نہ کم ، جلان ہے دل میں آج بھی
------------------------
 

الف عین

لائبریرین
چراغ دل میں حسرتوں کے جل رہے ہیں آج بھی
ہمیں بھی غم کا شوق تھا ،بے رحم تھا سماج بھی
یا
ہمیں خوشی نہ مل سکی نہ خوش ہوا سماج بھی
-------------------- بات تو اب بھی واضح نہیں
بے رحم کی ے نہیں گرائی جا سکتی
دوسرا مصرع درست ہے

ہے کیوں خفا خفا ، میں اس کی وجہ جانتا نہیں
جو تلخ اس کی بات ہے تو تُرش ہے مزاج بھی
-------------------- درست

وفا ہے کِس بلا کا نام ،اُسے نہیں ہے کچھ خبر
میں نے کیا ہے پیار تو میں رکھ رہا ہوں لاج بھی
یا
مجھے ہوا ہے پیار تو میں رکھ رہا ہوں لاج بھی
--------------------- میں نے کو مِ نے تقطیع کرنا غلط ہے
دوسرا مصرع درست ہے

وہ جا چکا ہے چھوڑ کر ، اُسے نہ اب تُو یاد کر
ہجر کا کا غم ملا مجھے ِملا نہیں علاج بھی
یا
جفا کا دکھ دیا مجھے ، ہوا نہیں علاج بھی
---------------- ہجر کا تلفظ؟ متبادل مصرع درست ہے اگرچہ علاج ہجر کا نہیں کیا جاتا

وطن مرا جو لوٹتے تھے ، وہ پڑے ہیں جیل میں
ہوئے ہیں گھر سے بے گھر اور چھن چکا ہے راج بھی
------------------ درست

مراد میں نہ پا سکا یہی مرا نصیب تھا
ملا جو غم ، ہوا نہ کم ، جلان ہے دل میں آج بھی
----------------- جلان؟ جلن تو ٹھیک ہے لیکن پہلا نصف سمجھ نہیں سکا
 
Top