حرفِ گم

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! قریباً دو ڈھائی سال پہلے وطنِ عزیز پاکستان میں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصب کی ایک آگ سی بھڑک اٹھی تھی کہ جس میں بہت کچھ جل کر راکھ ہوگیا تھا ۔ اُسی پس منظر میں دکھے دل کے ساتھ یہ ایک نظم لکھی تھی جو بیاض میں دب کر رہ گئی۔ مذہبی نفرت اور تشدد کے تازہ واقعے پر یہ نظم یاد آئی تو اہلِ ذوق ِ بزم کی خدمت میں پیش کرر ہا ہوں کہ اس کا پیغام مثبت ہے ۔
شاید کہ کسی دل میں اتر جائے مری بات!

حرفِ گم
٭٭٭

کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
مفسّرانِ نفاق پرور شمارِ سبحہ کے زیر و بم پر
سکھا رہے ہیں جو شرحِ کاذب کہ نغمگیں ہے
نصاب میں تو کہیں نہیں ہے!
کلاہِ شہرت سروں پہ رکھے ، قبائے حرص و ہوا سنبھالے
درونِ مکتب سیاستوں کی غلام گردش میں پلنے والے
عقیدتوں کے عجیب چہرے ، تفرّقوں کے نقاب ڈالے
مظاہروں میں سجے ہوئے ہیں
بزعمِ تقویٰ ہزاروں بازو مخاصمت کے نصاب تھامے
مثالِ خنجر اٹھے ہوئے ہیں ، مجادلے پر تُلے ہوئے ہیں
فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
اخوتوں کو عداوتوں سے بدل کے خلقِ خدا کو باہم
بنامِ مسلک لڑا رہے ہیں
فضائے شہرِ کرم شعاراں غبارِ نفرت سے بھر گئی ہے
صریرِ کلکِ خبر نگاراں صدائے وحشت سے ڈر گئی ہے
ہزاروں معصوم سرخمیدہ ، بدن دریدہ ، لہو بہ دیدہ
گناہِ لب بستگی کی اونچی صلیبِ غم پر کھنچے ہوئے ہیں
فصیلِ وحدت پہ جلنے والے چراغ سارے بجھے ہوئے ہیں
حواریانِ دمِ مسیحا
دیارِ خفتہ کے آستانوں میں حرفِ قُم کو تلاشتے ہیں
وہ حرفِ معجز جو سو گیا ہے ، جو شرحِ کاذب میں کھو گیا ہے
وہ حرفِ گم تو یہیں کہیں ہے ، وہ دھڑکنوں کے بہت قریں ہے
بیاضِ دل پر لکھا ہوا ہے ، سبھی کے اندر چھپا ہوا ہے
خدا کے بندو! یہ دل ٹٹولو ، یہ سینے اپنے ذرا تو کھولو!
منافرت کے صنم گرا کر ، عقیدتوں کی فصیل ڈھا کر
زباں سے بولو ، فضا میں گھولو وہ حرفِ وحدت جو بالیقیں ہے
وہ اسمِ اعظم جو دل نشیں ہے ، وہ جس کی حرمت میں جاگزیں ہے
ہر ایک جذبہ ، ہر ایک رشتہ کہ جس کے دم سے محبتیں ہیں
محبتیں جو اداس گم صم
تمہارے چہروں کو تک رہی ہیں ، نجانے کب سے سِسک رہی ہیں
خدا کے بندو! خموش لوگو! محبتوں کو زبان دے دو!
محبتوں کی زباں حسیں ہے !
جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے

***

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰
 

جاسمن

لائبریرین
کس قدر سچا، مقدس، دلنشیں اور خوبصورت سبق ہے! کتنے حسین الفاظ ہیں!!
رب جہاں کی طرف سے دل میں اترے الفاظ ہیں ماشاءاللہ۔
واقعتاً دل کی گہرائیوں سے کہی نظم ہے جو پڑھنے والوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ گویا دل سے دلوں تک جاتی ہے۔
ماشاءاللہ۔
اللہ پاک ہم سب کو اس پہ عمل کی توفیق و آسانی دے۔ ہمارے دل محبت و رحم سے لبریز کر دے۔ اپنے رنگ میں رنگ لے۔ آمین!
ثم آمین!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کس قدر سچا، مقدس، دلنشیں اور خوبصورت سبق ہے! کتنے حسین الفاظ ہیں!!
رب جہاں کی طرف سے دل میں اترے الفاظ ہیں ماشاءاللہ۔
واقعتاً دل کی گہرائیوں سے کہی نظم ہے جو پڑھنے والوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ گویا دل سے دلوں تک جاتی ہے۔
ماشاءاللہ۔
اللہ پاک ہم سب کو اس پہ عمل کی توفیق و آسانی دے۔ ہمارے دل محبت و رحم سے لبریز کر دے۔ اپنے رنگ میں رنگ لے۔ آمین!
ثم آمین!
بہت بہت شکریہ ، خواہرم جاسمن! اللہ کریم آپ کو جزائے خیر دے!
آپ کی دعاؤں پر دل سے آمین ، ثم آمین! بے شک ہمارے معاشرے کو تربیت کی ضرورت ہے۔ تعلیم تو بہت ہوچکی ۔ کتابوں اور کتاب پڑھانے والوں کی بھرمار ہے لیکن عملی نمونے نظر نہیں آتے کہ جن سے تربیت حاصل کی جاسکے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت نہیں سکھاتا ۔ ایک دو افراد کی بدعملی اور حماقت کو وجہ بنا کر کسی مذہب کو برا کہنا یا اس کے تمام ماننے والوں کو مجرم بنادینا درست نہیں ہے۔ اللہ کریم آپ کی اور ہماری دعائین سن لے ۔ آمین !
 

ارشد رشید

محفلین
جناب ظہیر صاحب - بہت عمدہ - پیغام اور آپ کا اندز دونوں ہی بہت اچھے ہیں - بلکہ استادانہ ہیں -
بس بعض جگہوں پر مجھے واحد / جمع کا استعمال سمجھ نہیں آسکا - وہی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں تا کہ اپنی اصلاح کر سکوں
آپ نے لکھا ہے
== دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
- جب آپ نے درس کے بجائے دروس کہا یعنی جمع استعمال کی تو پھر کہیں نہیں ہے کیسے آئیگا ؟ کیا اسے کہیں نہیں ہیں ، ہونا نہیں چاہیئے ؟

==درونِ مکتب سیاستوں کی غلام گردش میں پلنے والے
- یہاں بھی جب سیاستوں کی بات کی ہے تو اے بھی غلام گردش کے بجائے غلام گردشوں نہیں ہونا چاہیئے ؟

==فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں

خطیبِ شعلہ نوا تو واحد کی اصطلاح ہے اس کے ساتھ جمع یعنی لہجے کیسے آئیگا - کیا اسے لہجہ نہیں ہونا چاہیئے ؟
کیا ان دونوں اصطلاحوں کو جمع نہیں ہونا چاہیئے کہ فقیہانِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبانِ شعلہ نوا کے لہجے ؟

یہ تو تھی واحد جمع کی بات -

اور یہ جاننا چاہوں گا کہ
آپ کی پہلی بات ان تین مصرعوں میں مکمل ہوتی ہے -
؎
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
؎
مگر اس میں فاعل نہٰیں آیا یعنی کون ہیں جو پڑھائے جاتے ہیں؟ - تو کیا اس بات کو سمجھنے کے لیئے ہم کو اگلا مکمل پیغام پڑھنا ہوگا کہ وہ کون لوگ ہیں؟

آور آخر میں آپ نے لکھا ہے

جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے

== محبت کے زیاں اور رب کے جمال میں کیا تعلق ہے کہ آپ نے یہ کہنے کے لیے کہ محبتوں میں زیاں نہیں ہے ، رب کے جمال کی قسم کس حوالے سے کھائی ہے؟

شکریہ جناب -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جناب ظہیر صاحب - بہت عمدہ - پیغام اور آپ کا اندز دونوں ہی بہت اچھے ہیں - بلکہ استادانہ ہیں
بہت شکریہ ، ارشد رشید صاحب! بہت ممنون ہوں ۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے!

بس بعض جگہوں پر مجھے واحد / جمع کا استعمال سمجھ نہیں آسکا - وہی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں تا کہ اپنی اصلاح کر سکوں
رشید ارشد صاحب ، میں اپنی سی کوشش کرتا ہوں سمجھانے کی ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ آپ کے سوالات پڑھ کر مجھے کچھ ایسا احساس ہورہا ہے کہ آپ کو بنیادی اردو گرامر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ :) یہ بات کہنے کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن اردو نحو سے واقفیت رکھنے والے کسی بھی شخص کو اس نظم کی بنت کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے اور واحد جمع سے متعلق سوالات نہیں اٹھنے چاہیئیں۔ بہرحال اس جملۂ معترضہ کے لیے معذرت خواہ ہوں ۔ کوشش کرتا ہوں کہ صاف صاف انداز میں آپ کے اشکالات کا جواب دے سکوں ۔

آپ نے لکھا ہے
== دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
- جب آپ نے درس کے بجائے دروس کہا یعنی جمع استعمال کی تو پھر کہیں نہیں ہے کیسے آئیگا ؟ کیا اسے کہیں نہیں ہیں ، ہونا نہیں چاہیئے ؟
"کہیں نہیں ہے" کا فقرہ دروسِ نفرت کے لیے نہیں بلکہ حرفِ باطل کے لیے استعمال ہوا ہے۔ درمیان میں جو دو فقرے ہیں وہ موصول ہیں ۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں ان مصرعوں کی نثر بناتا ہوں:
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے وہ حرفِ باطل جس کو سرِ ورق پر سجا کر فی زمانہ دروسِ نفرت پڑھائے جاتے ہیں ، وہ (حرفِ باطل) کتاب میں تو کہیں نہیں ہے ۔
اس جملے میں "جس کو " اسمِ موصول ہے اور اس کے بعد" سرِ ورق پر سجا کر۔۔۔۔۔۔۔ جاتے ہیں" تک کا فقرہ صلہ کہلاتا ہے ۔ لیکن بات شروع سے آخر تک حرفِ باطل ہی کے بارے میں کی جارہی ہے ۔

==درونِ مکتب سیاستوں کی غلام گردش میں پلنے والے
- یہاں بھی جب سیاستوں کی بات کی ہے تو اے بھی غلام گردش کے بجائے غلام گردشوں نہیں ہونا چاہیئے ؟
اردو میں مضاف اور مضاف الیہ کا تعدید اور تجنیس میں مطابق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ واحد کو جمع سے اور جمع کو واحد سے ہر دو طرح منسوب کیا جاتا ہے ۔ سیاستوں کی غلاظت بالکل درست زبان ہے ۔ غلاظتیں کہنا گرامر کے لحاظ سے ضروری نہیں ۔ سیاستوں کا مرکز درست ترکیب ہے مراکز کہنا لازم نہیں ۔ اسی طرح سیاست کی پیچیدگیاں درست ہے ، یہاں واحد کی مطابقت سے پیچیدگی کہنا لازم نہیں ۔

==فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں

خطیبِ شعلہ نوا تو واحد کی اصطلاح ہے اس کے ساتھ جمع یعنی لہجے کیسے آئیگا - کیا اسے لہجہ نہیں ہونا چاہیئے ؟
یا حیرت! یہ کیسا اعتراض ہے ! :) کیا ایک آدمی کے ایک سے زیادہ لہجے نہیں ہو سکتے۔ لہجے بدل بدل کر بات کرنا تو خطیبوں کا عام دستور ہے۔کیا ایک آدمی کی گفتگو کے ایک سے زیادہ رنگ نہیں ہوتے؟!

کیا ان دونوں اصطلاحوں کو جمع نہیں ہونا چاہیئے کہ فقیہانِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبانِ شعلہ نوا کے لہجے ؟
نہیں ۔ شاعری میں جز سے کل مراد لینا عام بات ہے اوراسے ایک خوبصورت پیرایۂ اظہار سمجھا جاتا ہے ، یہ شعری محاسن میں داخل ہے۔۔ حیرت ہے کہ آپ شاعری کے اس عام رویے سے ناواقفیت کا اظہار کررہے ہیں ۔ یہاں ایک خطیب اور ایک فقیہ کی بات نہیں ہورہی بلکہ معاشرے کے تمام فقیہوں اور خطیبوں کی عمومی بات ہورہی ہے ۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ اس مصرع میں کسی ایک آدمی کی بات نہیں بلکہ تمام آدمیوں کی بات ہورہی ہے۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ۔ ایک شمع کی بات نہیں بلکہ ہر شمع کی عمومی بات ہورہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ

اور یہ جاننا چاہوں گا کہ
آپ کی پہلی بات ان تین مصرعوں میں مکمل ہوتی ہے -
؎
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
؎
مگر اس میں فاعل نہٰیں آیا یعنی کون ہیں جو پڑھائے جاتے ہیں؟ - تو کیا اس بات کو سمجھنے کے لیئے ہم کو اگلا مکمل پیغام پڑھنا ہوگا کہ وہ کون لوگ ہیں؟
ہائیں ۔ یہ کیا لکھ دیا بھائی؟ :):):)! مجہول صیغے میں فاعل کب آتا ہے؟ پڑھائے جاتے ہیں صیغۂ مجہول ہے یعنی جسے انگریزی میں passive- voice کہتے ہیں ۔ اس میں فاعل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ صیغۂ مجہول استعمال ہی تب کیا جاتا ہے جب فاعل کا ذکر محذوف کرنا مقصود ہو ۔ جیسے کہا جائے کہ آج کل جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں ۔ٹی وی پر حکمرانوں کی خوشامدکی جاتی ہے ۔ وغیرہ ۔ ان جملوں میں فاعل کی ضرورت نہیں ۔یہ بھی نوٹ کیجیے کہ ان جملوں کا مفہو م معروف کے بجائے مجہول کے صیغےہی میں بہتر طور پر ادا کیا جاسکتا ہے ۔

امید ہے کہ آپ کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے تھے وہ دور ہوگئے ہوں گے ۔ اگر اب بھی کوئی بات تشریح طلب رہ گئی ہو تو مجھے حکم دیجیے گا میں پھر حاضر ہوجاؤں گا ۔:)

آور آخر میں آپ نے لکھا ہے

جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے

== محبت کے زیاں اور رب کے جمال میں کیا تعلق ہے کہ آپ نے یہ کہنے کے لیے کہ محبتوں میں زیاں نہیں ہے ، رب کے جمال کی قسم کس حوالے سے کھائی ہے؟
رشید صاحب ، قسم تو بات میں زور اور یقین پیدا کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے ۔ اور رب کی کسی بھی صفت کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ اُس قسم کا تعلق کسی مصرع سے پیدا کرنا ضروری تو نہیں ہے لیکن اس نظم میں بالکل واضح تعلق موجود ہے ۔ آپ نے غور نہیں کیا ۔
نظم کےہر ہر مصرع کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھا جاتا ہے ۔ قسم سے پہلے والے مصرع میں کہا گیا ہے کہ "محبتوں کی زباں حسیں ہے" اور پھر محبتوں میں زیاں نہیں ہے کہنے سے پہلے جمالِ رب قسم کھائی گئی ہے۔ محبت کے حسن اور جمالِ رب کے درمیان ربط واضح ہے۔ یہ دیکھیے:
خدا کے بندو! خموش لوگو! محبتوں کو زبان دے دو!
محبتوں کی زباں حسیں ہے !
جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے
 

ارشد رشید

محفلین
"کہیں نہیں ہے" کا فقرہ دروسِ نفرت کے لیے نہیں بلکہ حرفِ باطل کے لیے استعمال ہوا ہے۔ درمیان میں جو دو فقرے ہیں وہ موصول ہیں ۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں ان مصرعوں کی نثر بناتا ہوں:
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے وہ حرفِ باطل جس کو سرِ ورق پر سجا کر فی زمانہ دروسِ نفرت پڑھائے جاتے ہیں ، وہ (حرفِ باطل) کتاب میں تو کہیں نہیں ہے ۔
اس جملے میں "جس کو " اسمِ موصول ہے اور اس کے بعد" سرِ ورق پر سجا کر۔۔۔۔۔۔۔ جاتے ہیں" تک کا فقرہ صلہ کہلاتا ہے ۔ لیکن بات شروع سے آخر تک حرفِ باطل ہی کے بارے میں کی جارہی ہے ۔
جی سر آپ کی بات درست ہے - مگر یاد رکھیں حاصل وصول کی جو مثال آپ نے دی ہے وہ ایک ہی جملے کی ہے -
آپ کے ہاں وہ بات تین جملوں یا تین مصرعوں میں کی گئی ہے - لہٰذا ایسا ابہام ہونا لازمی ہے - اگر آپ کے مصرعے اس طرح ہوتے تو یہ ابہام نہ ہوتا -

کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو
پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ دروسِ نفرت بنامِ مذہب
کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!


بہر حال اسے آپ کا اسلوب کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے
 

ارشد رشید

محفلین
اردو میں مضاف اور مضاف الیہ کا تعدید اور تجنیس میں مطابق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ واحد کو جمع سے اور جمع کو واحد سے ہر دو طرح منسوب کیا جاتا ہے ۔ سیاستوں کی غلاظت بالکل درست زبان ہے ۔ غلاظتیں کہنا گرامر کے لحاظ سے ضروری نہیں ۔ سیاستوں کا مرکز درست ترکیب ہے مراکز کہنا لازم نہیں ۔ اسی طرح سیاست کی پیچیدگیاں درست ہے ، یہاں واحد کی مطابقت سے پیچیدگی کہنا لازم نہیں ۔
آ پ کی بات قاعدے کے حساب سے درست ہے کہ یہاں دونوں استعمال ہو سکتے ہیں اسکا تعلق آگے پیچھے کے جملوں سے ہے - میرے نزدیک پچھلے جملوں کا یہ تقاضہ ہے کہ یہاں جمع استعمال ہو تو بہتر لگے گا -
 

ارشد رشید

محفلین
یا حیرت! یہ کیسا اعتراض ہے ! :) کیا ایک آدمی کے ایک سے زیادہ لہجے نہیں ہو سکتے۔ لہجے بدل بدل کر بات کرنا تو خطیبوں کا عام دستور ہے۔کیا ایک آدمی کی گفتگو کے ایک سے زیادہ رنگ نہیں ہوتے؟!
جناب یہاں تو آپ میرا سوال ہی نہیں سمجھے -
==فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
مجھے لہجے پہ اعتراض نہیں -
آپ نے لکھا ہے
فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
یہ بھی خوب ہے - ایک آدمی لہجے بدل کر بات کر رہا ہے - ایک خطیب شعلہ نو ا جب شعلہ نوا ہوا تو یہی اس کا لہجہ ہے یہ منافقت سے بھرا ہوا تو ہوسکتا ہے بھرے ہوے کہنے کے لیے آپ کو لہجے کی صفت نہیں گنوانا چاہیے کہ وہ لہجہ شعلہ نوا ہے -
 

ارشد رشید

محفلین
ہائیں ۔ یہ کیا لکھ دیا بھائی؟ :):):)! مجہول صیغے میں فاعل کب آتا ہے؟ پڑھائے جاتے ہیں صیغۂ مجہول ہے یعنی جسے انگریزی میں passive- voice کہتے ہیں ۔ اس میں فاعل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ صیغۂ مجہول استعمال ہی تب کیا جاتا ہے جب فاعل کا ذکر محذوف کرنا مقصود ہو ۔ جیسے کہا جائے کہ آج کل جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں ۔ٹی وی پر حکمرانوں کی خوشامدکی جاتی ہے ۔ وغیرہ ۔ ان جملوں میں فاعل کی ضرورت نہیں ۔یہ بھی نوٹ کیجیے کہ ان جملوں کا مفہو م معروف کے بجائے مجہول کے صیغےہی میں بہتر طور پر ادا کیا جاسکتا ہے ۔

امید ہے کہ آپ کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے تھے وہ دور ہوگئے ہوں گے ۔ اگر اب بھی کوئی بات تشریح طلب رہ گئی ہو تو مجھے حکم دیجیے گا میں پھر حاضر ہوجاؤں گا ۔
جی جناب مجہول جملے میں فاعل نہیں آتا مگر آپ کا جملہ مجہول کیسے ہے ؟ یاد رکھیں یہ ایک جملہ نہیں ہے تین مصرعے ہیں
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!

آپ پورا سیاق و سباق دے رہے ہیں اس مظہر کا تو آپ اسے مجہول کہہ کر فاعل سے گریز نہیں کر سکتے - لیکن یہ میری رائے - آپ کی الگ ہو سکتی ہے -
 

ارشد رشید

محفلین
ہیں ۔ شاعری میں جز سے کل مراد لینا عام بات ہے اوراسے ایک خوبصورت پیرایۂ اظہار سمجھا جاتا ہے ، یہ شعری محاسن میں داخل ہے۔۔ حیرت ہے کہ آپ شاعری کے اس عام رویے سے ناواقفیت کا اظہار کررہے ہیں ۔ یہاں ایک خطیب اور ایک فقیہ کی بات نہیں ہورہی بلکہ معاشرے کے تمام فقیہوں اور خطیبوں کی عمومی بات ہورہی ہے ۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ۔ اس مصرع میں کسی ایک آدمی کی بات نہیں بلکہ تمام آدمیوں کی بات ہورہی ہے۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ۔ ایک شمع کی بات نہیں بلکہ ہر شمع کی عمومی بات ہورہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
یہاں آپ نے خود ہی اپنی پچھلی بات کی نفی کردی - یہاں آپ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ تمام فقیہوں کی بات ہو رہی ہے تو پھر گرامر بھی اس کے حساب سے آنی چاہیئے نا
 

ارشد رشید

محفلین
رشید صاحب ، قسم تو بات میں زور اور یقین پیدا کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے ۔ اور رب کی کسی بھی صفت کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ اُس قسم کا تعلق کسی مصرع سے پیدا کرنا ضروری تو نہیں ہے لیکن اس نظم میں بالکل واضح تعلق موجود ہے ۔ آپ نے غور نہیں کیا ۔
نظم کےہر ہر مصرع کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھا جاتا ہے ۔ قسم سے پہلے والے مصرع میں کہا گیا ہے کہ "محبتوں کی زباں حسیں ہے" اور پھر محبتوں میں زیاں نہیں ہے کہنے سے پہلے جمالِ رب قسم کھائی گئی ہے۔ محبت کے حسن اور جمالِ رب کے درمیان ربط واضح ہے۔ یہ دیکھیے:
خدا کے بندو! خموش لوگو! محبتوں کو زبان دے دو!
محبتوں کی زباں حسیں ہے !
جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے
جناب یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ قسم کیوں کھائ جاتی ہے مگر جب آپ خدا کی صفت جمال کی قسم کھا رہے ہیں تو اس کوئ تعلق ہونا چاہیئے مضمون سے ایسے تو آپ یہاں لکھ دیتے قہرِ رب کی قسم ہے لوگو -

آخر میں یہی لکھوں گا - کہ آپ پہلے تو اپنے ذہن سے یہ نکال دیں کہ مجھے اردو نہیں آتی - مجھے گرامر نہیں آتی - مجھے شاعری نہیں آتی - اور پہلے بھی آپ ایسا ہت کچھ لکھ چکے ہیں کہ مجھے کیا کیا نہیں آتا -

اس سے نکل کر میرے کمنٹس کو دیکھیں - زیادہ سے زیادہ آپ یہ لکھ دیں کہ آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے - بات ختم
میرے بارے میں اتنی ساری رائے بنانے کی کوئ ضرورت نہیں پڑے گی آپ کو-
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی سر آپ کی بات درست ہے - مگر یاد رکھیں حاصل وصول کی جو مثال آپ نے دی ہے وہ ایک ہی جملے کی ہے -
آپ کے ہاں وہ بات تین جملوں یا تین مصرعوں میں کی گئی ہے - لہٰذا ایسا ابہام ہونا لازمی ہے - اگر آپ کے مصرعے اس طرح ہوتے تو یہ ابہام نہ ہوتا -

کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو
پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ دروسِ نفرت بنامِ مذہب
کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!


بہر حال اسے آپ کا اسلوب کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے
لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ارشد صاحب ، آپ یقیناً بحث برائے بحث کرتے ہیں ۔، یعنی قائل ہونے کے بعد بھی اتنے لمبے چوڑے مراسلے لکھ رہے ہیں ۔ بھائی ایسے موقع پر سمجھانے والے کا شکریہ ادا کرکے ایک طرف ہوجانا چاہیے ۔ آپ میری بات کو تسلیم کرنے کے بعد بھی مصر ہیں کہ قصور پھر بھی میرا ہی ہے ۔
ایک ہی جملہ آپ جتنے چاہے مصرعوں میں باندھ سکتے ہیں ۔ مصرعوں کی تعداد پر کوئی پابندی تھوڑی ہے۔ اس جملے کو پڑھنا تو آپ کام ہے نا۔ اگر آپ شعر ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ سکتے یا سمجھ سکتے تو یہ قصور کس کا ہوا ؟!

آ پ کی بات قاعدے کے حساب سے درست ہے کہ یہاں دونوں استعمال ہو سکتے ہیں اسکا تعلق آگے پیچھے کے جملوں سے ہے - میرے نزدیک پچھلے جملوں کا یہ تقاضہ ہے کہ یہاں جمع استعمال ہو تو بہتر لگے گا -
کون سے پچھلے جملے؟؟؟؟؟ پہلے آپ نے کہا تھا کہ سیاستوں کی مناسبت سے غلام گردش کے بجائے غلام گردشوں ہونا چاہیے ۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ پچھلے جملوں کا تقاضا ہے۔ کون سے پچھلے جملے؟؟؟؟؟

جناب یہاں تو آپ میرا سوال ہی نہیں سمجھے -
==فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
مجھے لہجے پہ اعتراض نہیں -
آپ نے لکھا ہے
فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
یہ بھی خوب ہے - ایک آدمی لہجے بدل کر بات کر رہا ہے - ایک خطیب شعلہ نو ا جب شعلہ نوا ہوا تو یہی اس کا لہجہ ہے یہ منافقت سے بھرا ہوا تو ہوسکتا ہے بھرے ہوے کہنے کے لیے آپ کو لہجے کی صفت نہیں گنوانا چاہیے کہ وہ لہجہ شعلہ نوا ہے -
شعلہ نوا تو خطیب کی صفت ہے یعنی وہ اپنی باتوں سے لوگوں میں آگ لگادیتا ہے ، انہیں بھڑکادیتا ہے ۔ شعلہ نوائی یا شیریں بیانی کے مختلف لہجے نہیں ہوسکتے کیا؟ لہجہ رنگ اور انداز کو کہتے ہیں ۔ ایک ہی میٹھی یا کڑوی بات کو مختلف لہجوں یا رنگوں میں کہا جاسکتا ہے ۔ یہ شاعری ہے کوئی ریاضی یا سائنس کا مضمون نہیں ہے ۔
جی جناب مجہول جملے میں فاعل نہیں آتا مگر آپ کا جملہ مجہول کیسے ہے ؟ یاد رکھیں یہ ایک جملہ نہیں ہے تین مصرعے ہیں
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!

آپ پورا سیاق و سباق دے رہے ہیں اس مظہر کا تو آپ اسے مجہول کہہ کر فاعل سے گریز نہیں کر سکتے - لیکن یہ میری رائے - آپ کی الگ ہو سکتی ہے -
ہائیں۔۔ آپ دو تین گھنٹے کے اندر ہی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے اپنے پچھلے مراسلے میں کیا سوال پوچھا تھا ور کیا کہا تھا؟ آپ نے پوچھا تھا کہ:" مگر اس میں فاعل نہٰیں آیا یعنی کون ہیں جو پڑھائے جاتے ہیں؟ "
بات کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کے بعد بھی آپ پھر بلا وجہ کا اور بے معنی اعتراض لکھ رہے ہیں ۔
خیر ، اس کو ایک دفعہ پھر سمجھ لیجیے۔
جیسا کہ آپ کو میں نے نثر بنا کر سمجھایا کہ یہ ایک جملہ ہے جو کئی مصرعوں میں باندھا گیا ہے۔ یہ مرکب جملہ ہے اس جملے کے اندر جو موصول اور صلہ والے فقرے ہیں وہ صیغۂ مجہول میں ہیں یعنی " فی زمانہ بنامِ مذہب جو دروسِ نفرت پڑھائے جاتے ہیں " ۔ جبکہ " کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے" کا فقرہ صیغۂ معروف میں ہے ۔ اس کا فاعل حرفِ باطل ہے ۔ گرامر کی اصطلاحات میں جملے اور فقرے کا فرق سمجھ لیجیے۔

یہاں آپ نے خود ہی اپنی پچھلی بات کی نفی کردی - یہاں آپ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ تمام فقیہوں کی بات ہو رہی ہے تو پھر گرامر بھی اس کے حساب سے آنی چاہیئے نا
لا حول والاقوۃالاباللہ ۔۔۔۔ یعنی یہ بات تو آپ کے سر سے گزر گئی ۔
بھائی ، میں نے تفصیل سے لکھا تھا کہ جز کہہ کر کل مراد لینا ایک عام شعری اسلوب ہے ۔ لیکن جملے میں گرامر تو جز یعنی واحد ہی کے حساب سے استعمال ہوگی۔ اسے اس مثال سے سمجھیے: غالب کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے اگر میں کہوں کہ غالب کا شعر بہت تہہ دار ہوتا ہے ۔ تو اس جملے میں شعر سے مراد کوئی ایک شعر نہیں بلکہ غالب کے اکثر یا تمام اشعار مراد ہیں ۔ یعنی یہاں جز کہہ کر کُل مراد لی گئی ہے ۔ لیکن نوٹ کیجیے کہ جملے کی گرامر جز یعنی واحد ہی کے حساب سے استعمال ہوئی ہے ۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غالب کا شعر بہت تہہ دار ہوتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ بلکہ یہی کہا جائے گا کہ شعر بہت تہہ دار ہوتا ہے ۔ یہ تو بنیادی اردو ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جناب یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ قسم کیوں کھائ جاتی ہے مگر جب آپ خدا کی صفت جمال کی قسم کھا رہے ہیں تو اس کوئ تعلق ہونا چاہیئے مضمون سے ایسے تو آپ یہاں لکھ دیتے قہرِ رب کی قسم ہے لوگو -
میں نے صاف صاف تو لکھا تھا اور وہ تینوں مصرع بھی نقل کیے تھے کہ محبتوں کی زباں حسیں ہے ۔ محبت کے حسن اور جمالِ رب کا اتنا صاف تعلق اب بھی آپ کونظر نہیں آرہا۔

آخر میں یہی لکھوں گا - کہ آپ پہلے تو اپنے ذہن سے یہ نکال دیں کہ مجھے اردو نہیں آتی - مجھے گرامر نہیں آتی - مجھے شاعری نہیں آتی - اور پہلے بھی آپ ایسا ہت کچھ لکھ چکے ہیں کہ مجھے کیا کیا نہیں آتا -
یہ باتیں تو میرے ذہن میں نہیں ہیں ۔ اور نہ میں نے یہ کہا کہ آپ کو اردو نہیں آتی اور شاعری نہیں آتی ۔ یہ دونوں دعوے اپنے متعلق تو خود آپ نے کیے ہیں ۔ آپ نے کہا :" بس بعض جگہوں پر مجھے واحد / جمع کا استعمال سمجھ نہیں آسکا - وہی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں تا کہ اپنی اصلاح کر سکوں" ۔ میں نے جواباً آپ کو یہ بنیادی گرامر سمجھانے کی کوشش کی ۔
اس سے نکل کر میرے کمنٹس کو دیکھیں - زیادہ سے زیادہ آپ یہ لکھ دیں کہ آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے - بات ختم
بھائی ، آپ نے سوال پوچھا اور درخواست کی مجھے یہ باتیں سمجھادیجیے تاکہ میں اپنی اصلاح کرسکوں ۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ یہ لکھنا تھا کہ میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا ۔ یعنی آپ نے ہر حال میں مجھے ہی قصور وار ٹھہرانا ہے۔ اگر کوئی میرے شعر کے بارے میں اعتراض اٹھائے اور سوال پوچھے تو کیا مجھے اس کا جواب نہیں دینا چاہیے؟!
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
 

ارشد رشید

محفلین
حضرت جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے -
میرا خیال ہے کہ اس فورم پر اس سے زیادہ ایک دوسرے کو قائل معقول نہیں کیا جا سکتا -
بس میرا نکتہ نظر آپ تک پہنچا - آپ کا مجھ تک - اور ہم دونوں آپس میں متفق نہیں ہیں - کوئی بات نہیں -
اب ہم جو بھی لکھیں گے وہ انہی باتوں کو دہرانا ہوگا - لہذا اس کو یہیں تک رہنے دیں
اپنا ایک شعر آپ کی نظر کر تا ہوں

ہم متفق نہیں ہیں اِسی پر ہے اتفاق
وہ متفق ہؤا ہے جبھی اتفاق سے
 

صابرہ امین

لائبریرین
یہ نظم زبردست سے بڑی ریٹنگ کی مستحق ہے۔
ماشااللہ، کیا روانی ہے، کیا الفاظ کی بنت ہے، اور سب سے بڑھ کر کیا ہی عمدہ خیالات ہیں۔
مجھے تو الفاظ کی قلت محسوس ہوتی ہے جب آپ کی شاعری پڑھتی ہوں۔ اللہ نے آپ کو بہت نوازا ہے۔ماشااللہ
 

سیما علی

لائبریرین
Top