حد سے بڑھی ہوئی سیاستکاری اور ریاکاری ....ایازا میر

نبیل

تکنیکی معاون
ماخذ: روزنامہ جنگ 21 ستمبر 2009

پاکستان اس وقت تک اس مائنڈ سیٹ سے چھٹکارا نہیں پا سکتا جب تک ہماری قانون کی کتابوں میں سے ریاکاری پر مبنی پرسائی کے وہ تمام نشانات کامل طور پر مٹا نہیں دیئے جاتے جو ضیائی دور میں ثبت کئے گئے ہیں۔
ہمیں اگر واپسی کا سفر کرنا ہی ہے تو یہ سفر 12اکتوبر 1999( جب مشرف نے ضمام اقتدار سنبھالا) کی بجائے 5جولائی 1977سے شروع ہونا چاہیئے جب ضیاء اور ان کے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔واپسی کے اس سفر کا مقصد کسی کو نشانہ بنانا یا سزا دینا نہیں بلکہ صرف اپنے ذہنی اور روحانی بوجھ سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ریاکار پارسائی کے نام پر ضیاء نے حدود آرڈیننس سمیت جتنے بھی قوانین پیش کئے، ان کا بیک جنبش قلم خاتمہ ضروری ہے۔ فروری 2008میں جس اسمبلی کو قوم نے ہزار ہا امیدوں کے ساتھ منتخب کیا، اسکا تاریخی کارنامہ ضیائی دور کے قوانین کی تنسیخ ہو گی۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ان قوانین کی تنسیخ کے بعد ہماری قوم کو مذہب اور سیاست پر بحث کے علاوہ بھی کچھ اور موضوع بحث مل سکیں گے۔ پاکستان میں بہت زیادہ غم اندوہ کی فضا ہے، بہت زیادہ تاریکی ہے۔ ہم بہت زیادہ اخلاق پرست اور بزعم خود، خود کو ہی درست سمجھنے والے ہوگئے ہیں اور بہت جلد دوسروں کے بارے میں فیصلے صادر کرنے بلکہ فتوے لگانے میں جت جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اندھا دھند وعظ و تلقین میں لگے رہتے ہیں اور بلاوجہ مستقبل کے حوالے سے پریشان ہوتے رہتے ہیں جبکہ ہمیں حال میں زندہ رہنے کا ہنر سیکھنا چاہئے۔

مزید پڑھیں۔۔
 
Top