حدیثِ دوست.....فرامین رسول صلی اللہ علیہ و سلم

سیما علی

لائبریرین
9NRSkfJ.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں:
‏میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: "الله اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گمنام ہو."
‏(گمنام: دنیاوی بلندی، عہدوں کا خواہشمند نہ ہو.
‏غنی: نفس کی مالداری و بے نیازی).
‏مسلم 7432
‏(مسند احمد 9340؛ مشکوٰۃ 5284)
 

سیما علی

لائبریرین
xcLGVPG.jpg

حدیث نمبر: 3116پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مالك بن عبد الواحد المسمعي، حدثنا الضحاك بن مخلد، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، حدثني صالح بن ابي عريب، عن كثير بن مرة، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان آخر كلامه لا إله إلا الله، دخل الجنة".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا آخری کلام «لا إله إلا الله» ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۱؎“۔
19655 - D 3116 - U 2712
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11357)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/233، 247) (صحیح)» ‏‏‏‏
۱؎: اس لئے مرتے وقت مرنے والے کے قریب «لا إله إلا الله» کہنا چاہئے تاکہ اس کی زبان پر بھی یہ کلمہ جاری ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح البخاری
 

سیما علی

لائبریرین
لامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 260
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نماز کھڑے ہو کر پڑھو، اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر بیٹھ کر بھی پڑھنے کی استطاعت نہیں تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھو (ان میں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو سکے) تو اشارے سے ہی پڑھ لو۔“ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 260»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب إذا لم يطق قاعدًا صلي علي جنب، حديث:1117.»

تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کسی صورت بھی معاف نہیں بجز مدہوشی کی حالت کے‘ نیز ثابت ہوا کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھنی چاہیے۔
بامر مجبوری یا بیماری کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا مشکل ہو تو بیٹھ کر پڑھ لے۔
اگر ایسا کرنا بھی دشوار ہو تو لیٹ کر پڑھ لے۔
اگر ان حالتوں میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو تو پھر اشاروں سے ادا کرے۔
گویا نماز کسی صورت بھی ترک نہ کرے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 260

bs2BBt2.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
WAgPRSk.jpg
--. موت کی آرزو نہ کرو
اس باب میں 1 احادیث آئی ہیں، باب سے متعلقہ تمام احادیث دیکھیں۔
حدیث نمبر: 1613پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تمنوا الموت فإن هول المطلع شديد وإن من السعادة ان يطول عمر العبد ويرزقه الله عز وجل الإنابة» . رواه احمد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”موت کی تمنا نہ کرو، کیونکہ مرنے کے بعد کے سماں کی ہولناکی بہت سخت ہے، اور یہ سعادت کی بات ہے کہ بندے کی عمر دراز ہو جائے اور اللہ عزوجل اسے اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ “ سندہ حسن، رواہ احمد۔
61791 - D 1613 - U 0
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده حسن، رواه أحمد (332/3 ح 146180)
٭ و حسنه الھيثمي في مجمع الزوائد (203/10) والمنذري في الترغيب والترهيب و للحديث شواھد معنوية.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده حسن
bar.gif

1610161116121613161416151616
 

سیما علی

لائبریرین
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2515
´باب:۔۔۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص مومن کامل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2515]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیر خواہ ہونا چاہیے،
اگر مسلمان اپنے معاشرہ کو خود غرضی رشوت،
بددیانتی،
جعل سازی،
لوٹ کھسوٹ وغیرہ سے پاک صاف رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حدیث کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اس پر عمل کر نا ہوگا،
إن شاء اللہ جو بھی اخلاقی بیماریاں عام ہیں وہ ختم ہوجائیں گی،
ورنہ ذلت اوربد اخلاقی سے ہمیشہ دو چار رہیں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2515
ruQZuLP.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4800
´خوش اخلاقی کا بیان۔`
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو۔‏‏‏‏“ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4800]
فوائد ومسائل:
1) حق پر ہوتے ہو ئے جھگڑا چھوڑ دینا انتہائی عزیمت کا عمل ہے اور اس کا اجر جنت میں شاندار محل کی صورت حاصل ہو گا۔

2) مومن کے لیئے جھوٹ بولنا کسی طرح روا نہیں۔
سوائے اس کے کہ زوجین میں یا دو مسلمان بھائیوں میں صلح صفائی کے غرض سے کو ئی مناسب با ت بنا لی جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4800
x13QeFO.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
(مرفوع)وبهذا الإسناد عن عائشةقالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم " ياكل طعاما في ستة من اصحابه فجاء اعرابي فاكله بلقمتين "، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إنه لو سمى لكفاكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وام كلثوم هي بنت محمد بن ابي بكر الصديق رضي الله عنه.
اسی سند سے عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، اچانک ایک اعرابی آیا اور دو لقمہ میں پورا کھانا کھا لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے «بسم اللہ» پڑھ لی ہوتی تو یہ کھانا تم سب کے لیے کافی ہوتا“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
33969 - D 1858M - U 1777
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: **
1855185618571858185918601861
8ofMEhg.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
sVCgwYm.jpg
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3763
´کھانے کی برائی بیان کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ بات ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر رغبت ہوتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3763]
فوائد ومسائل:

انسان اللہ کی نعمت کھانے سے رہ بھی نہ سکے۔
اور پھر اس کی عیب جوئی بھی کرے۔
یہ بہت بُری خصلت ہے۔
اگر کھانا تیار کرنے والے کی تقصیر ہوتو اس کو مناسب انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔


اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے۔
کہ انسان نے کسی شخص یا کسی ادارے سے کوئی معاہدہ طے کیا ہو۔
اور طے شدہ امور وشرائط پر معاملہ چل رہا ہو تو مناسب نہیں کہ اس ادارے یا افراد پر بلاوجہ معقول طعن وتشنیع کرے۔
یا تو بخیر وخوبی ساتھ نبھائے یا بھلے انداز سے جدا ہو جائے۔
تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا اسلامی شرعی اور اخلاق حق اچھے طریقے سے ادا کیا جانا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3763
bar.gif

5406540754085409541054115412
 

سیما علی

لائبریرین
4. بَابُ كَلاَمِ الْخُصُومِ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ:
4. باب: مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں۔

(مرفوع) حدثنا محمد، اخبرنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حلف على يمين وهو فيها فاجر ليقتطع بها مال امرئ مسلم، لقي الله وهو عليه غضبان"، قال: فقال الاشعث: في والله كان ذلك، كان بيني وبين رجل من اليهود ارض، فجحدني، فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: الك بينة؟ قلت: لا، قال: فقال لليهودي: احلف، قال: قلت: يا رسول الله، إذا يحلف ويذهب بمالي، فانزل الله تعالى: إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77، إلى آخر الآية.
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس نے کوئی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی تاکہ کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کر لے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حالت میں حاضر ہو گا کہ اللہ پاک اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر اشعث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مجھ سے ہی متعلق ایک مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ اس نے انکار کیا تو میں نے مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا، کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا کہ پھر تو قسم کھا۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! پھر تو یہ جھوٹی قسم کھا لے گا اور میرا مال اڑا لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» ”بیشک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونچی خریدتے ہیں۔“آخر آیت تک۔
2876 - D 2416 - U 2251
bar.gif

2413241424152416241724182419

5SOW8Om.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4216
´ورع اور تقویٰ و پرہیزگاری کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر صاف دل، زبان کا سچا“صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: زبان کے سچے کو تو ہم سمجھتے ہیں، صاف دل کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پرہیزگار صاف دل جس میں کوئی گناہ نہ ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4216]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دل کی صفائی اور پاکیزگی آخرت میں نجات کا باعث ہے۔

(2)
متقی آدمی دوسروں سے افضل ہے۔

(3)
کینے کا مطلب ہے دل میں ناراضی رکھنا تاکہ موقع ملنے پر بدلہ لیا جاسکے۔
یہ بہت ہی بری عادت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4216
bar.gif

4213421442154216421742184219



8IJj2zU.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
رسول الله ﷺ نے فرمایا:

‏جنت میں کچھ ایسے لوگوں کو داخل کیا جائے گا جن کے دل (نرمی، نزاکت اور الله پر توکل میں) پرندوں کے دلوں کی طرح ہوں گے.

‏مسلم 7162
‏(مسند احمد 13318؛ مشکوٰۃ 5625)
 

سیما علی

لائبریرین
yPSmvXk.jpg
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5150
´یتیم کی پرورش کی ذمہ داری لینے والے کی فضیلت کا بیان۔`
سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے“ آپ نے بیچ کی، اور انگوٹھے سے قریب کی انگلی، کو ملا کر دکھایا۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5150]
فوائد ومسائل:
یعنی یتیم نابالغ لڑکی یا لڑکا جس کا والد فوت ہوگیا ہو معاشرتی زندگی میں اس کو اپنے گھر کا فرد بنا لینا اس کی سرپرستی کرنا اور اسے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دینا بڑی عزیمت اور فضیلت کا کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5150
bar.gif

6002600360046005600660076008
 

سیما علی

لائبریرین
FLGVrN0.jpg

(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا محمد بن معن المدني الغفاري، حدثني ابي , عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الطاعم الشاكر بمنزلة الصائم الصابر " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجر و ثواب میں)صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔
34668 - D 2486 - U 2423
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم 55 (1764، 1765) (تحفة الأشراف: 13072)، و مسند احمد (2/283) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1764 و 1765)
● جامع الترمذي​
2486
عبد الرحمن بن صخر
الطاعم الشاكر بمنزلة الصائم الصابر​
● سنن ابن ماجه​
1764
عبد الرحمن بن صخر
الطاعم الشاكر بمنزلة الصائم الصابر​
bar.gif

2483248424852486248724882489
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جناب ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) سے خطاب میں دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا «يا اباذر و الذي نفس محمد بيده لو ان الدنيا کانت تعدل عندالله جناح بعوضه او ذباب ما سقي الکافر منها شربه من ماء۔۔۔۔ ؛ (۱)

اے ابوذر ! قسم اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد [صل اللہ علیہ والہ وسلم کی جان ہے ، اگر مچھر یا مکھی کے پروں کے بقدر بھی اس دنیا کی حیثیت ہوتی تو خداوند متعال کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔

اے ابوذر ! دنیا اور جو کچھ بھی اس میں ہے نفرین شدہ ہے بجز اس کے جو خدا کی راہ اور رضایت میں انجام دیا جائے ، خدا کے نزدیک دنیا سے زیادہ منفور و مبغوض کوئی چیز نہیں ہے »
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مکارم الاخلاق، ج 2 ، ص 368.
 

سیما علی

لائبریرین
MnY76mR.jpg

حدیث نمبر: 5641
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الملك بن عمرو، حدثنا زهير بن محمد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، وعن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ما يصيب المسلم من نصب، ولا وصب، ولا هم، ولا حزن، ولا اذى، ولا غم، حتى الشوكة يشاكها، إلا كفر الله بها من خطاياه".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہیر بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔
6722 - D 5641 - U 5239
bar.gif

5638563956405641564256435644
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4289
´امت محمدیہ کی صفات۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت والوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، ان میں سے اسی صفیں اس امت کے لوگوں کی ہوں گی، اور چالیس صفیں اور امتوں میں سے۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4289]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
۔
دوسری حدیث میں ہے کہ تمھارے مقابلے میں دوسروں کی تعداد ایسے ہوگی جیسے سفید بیل پر ایک سیاہ بال (حدیث: 4283)
یہ موازنہ مشرکین سے ہے۔
اور دوتہائی تعداد صرف اہل جنت کے مقابلے میں ہے۔

(2)
اس سے امت محمدیہ کا شرف ظاہر ہے۔
تاہم نجات کے لئے صرف امتی ہونا کافی نہیں بلکہ صحیح ایمان اور صحیح عمل بھی ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4289
bar.gif

2543254425452546254725482549

CeRj2Gn.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4047
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جائے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے «هرج» کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”قتل، قتل، قتل۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4047]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مال کی کثرت امن وسکون کا باعث نہیں جب کہ ایمان وتقوی نہ ہو۔

(2)
فتنوں سے مراد مختلف قسم کے تعصبات بھی ہوسکتے ہیں جو قتل وغارت کا باعث بنتے ہیں اور ایسی چیزیں بھی جو ایمان کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
خصوصاً جب کہ لوگ دین کے علم سے بھی محروم ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4047
bar.gif

603460356036
QFkcu7T.jpg
6037603860396040
 

سیما علی

لائبریرین
حدیث نمبر: 6552
اور اسحاق بن ابراہیم نے کہا : ہم سے المغیرہ بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نےبیان کیا، انہوں نے ابوحازم سے ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، اللہ کی بارگاہ میں درود و سلام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال تک بغیر کاٹے چلتا ہے۔
اسحاق بن ابراہیم ایمان کا بیان ہے، یعنی مغیرہ بن سلمہ کا، وہ اس کی خبر ہے، یعنی ابو حازم کا، یعنی سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا۔ خدا کا ایک رسول خدا اس پر رحم کرے اور اسے سلامتی عطا کرے۔ "
7757 - D 6552 - U 6099
bar.gif

6549 6550 6551 6552 6553 6554 6555

fuHUY84.jpg
 
Top