حدیثِ دوست.....فرامین رسول صلی اللہ علیہ و سلم

سیما علی

لائبریرین
أخرجه الحاکم في المستدرک، 4/170، الرقم: 7256، وابن حبان في الصحیح، 2/140، الرقم: 409، وابن خزیمة في الصحیح، 3/192، الرقم: 1888، والبیهقی في السنن الکبری، 4/304، الرقم: 8287، وابن أبي شیبة في المصنف، 2/270، الرقم: 8871، والطبراني في المعجم الأوسط، 9/17، الرقم: 8994، والمعجم الکبیر، 19/144، الرقم: 315، وأبو یعلی في المسند، 10/308، الرقم: 5922، والبزار في المسند، 4/241، الرقم: 1405، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/330، الرقم: 2591.

’’حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منبر کے پاس آجاؤ، ہم آ گئے۔ جب ایک درجہ چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ جب دوسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ اور جب تیسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘۔ جب اترے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم نے آج آپ سے ایک ایسی چیز سنی ہے جو پہلے نہیں سنا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل ں میرے پاس آئے اور کہاجسے رمضان ملا لیکن اسے بخشا نہ گیا وہ بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔ جب میں دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے درود نہ بھیجا وہ بھی بد قسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس شخص کی زندگی میں اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوگیا اور انہوں نے اسے (خدمت و اِطاعت کے باعث) جنت میں داخل نہ کیا، وہ بھی بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔‘‘

اسے امام حاکم، ابن حبان، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
صحيح البخاري: كِتَابُ الإِيمَانِ (بَابٌ : { وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا } فَسَمَّاهُمُ الْمُؤْمِنِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

31. حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ المُبَارَكِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَيُونُسُ، عَنِ الحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ، قَالَ: ارْجِعْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ»، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا القَاتِلُ فَمَا بَالُ المَقْتُولِ قَالَ: «إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ.»
صحیح بخاری:
کتاب: ایمان کے بیان میں
(۔۔۔"اور اگر اہل ایمان میں سے دوکردہ آپس میں قتال کریں تو ان کے درمیان صلح کرادو ۔اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جنگ وقتال کے باوجود دونوں گروہوں کے لیے لفظ مومن استعمال فرمایا ہے)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

31.
احنف بن قیس کا بیان ہے کہ میں اس شخص (حضرت علی ؓ) کی مدد کے لیے چلا۔ راستے میں مجھے حضرت ابوبکرہ ؓ ملے۔ انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: میرا ارادہ اس شخص کی مدد کرنے کا ہے۔ انہوں نے فرمایا: واپس ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر آپس میں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (اس کا جہنمی ہونا سمجھ میں آتا ہے) لیکن مقتول کا کیا جرم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اس کی خواہش بھی دوسرے ساتھی کو قتل کرنے کی تھی۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
حضرتِ سیِّدُناابودَرْداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ، راحت قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ باقرینہ ہے:
’’ قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حسنِ اَخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہو گی۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
أکمل المؤمنین ایمانا أحسنہم خلقا۔ ﴿ابودائود: ۲۸۶۴۔ترمذی:۲۶۱۱﴾

‘‘کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں’’
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی چیز تیار کر رکھی ہے کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ اس کی خوبیوں کو کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کی ماہیت کا خیال گزرا۔ اس کی دیوار سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہے۔ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے، زمین زعفران کی کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت سے بنی ہے۔‘‘

بخاري، الصحيح، 3 : 1185، کتاب بدء الخلق، رقم : 3072
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔
*(ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)*
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس بندے نے کسی نیکی کے راستہ کی طرف (لوگوں کو) دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے اجروں کے برابر اجر ملیگا جو اسکی بات مان کر نیکی کے اس راستہ پر چلیں گے اور عمل کریں گے اور اسکی وجہ سے ان عمل کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
اور اسی طرح جس نے(لوگوں کو) کسی گمراہی (اور بدعملی) کی دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جو اسکی دعوت پر اس گمراہی اور بدعملی کے مرتکب ہوں گے اور اسکی وجہ سے ان لوگوں کے گناہوں میں (اور انکے عذاب میں) کوئی کمی نہ ہوگی۔
( صحیح مسلم ) (بحوالۂ سابق/ص:۹۲)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی تین بیٹیا ں تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا معا ملہ رکھے اور ان کے حقوق کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اس کے لئے جنت واجب ہے۔‘‘
( ترمذی ،بحوالہ منتخب احادیث ،ص۵۱۲ حدیث نمبر ۲۲۰،اشاعت ۲۰۱۳)
 

سیما علی

لائبریرین
والدین کی اولاد کو نصیحت ہی اس کے درست و غلط راستے کا تعین کرتی ہے، اسکی طرف حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارہ یوں ملتاہے:

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ،صحیح البخاری: 1358
یہ حدیث ہمارے لئے بالکل واضح طورپریہ اعلان کر رہی ہے کہ ہر پیداہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتاہے،لیکن اس کے ماں باپ جو اس کو نصیحت کریں گے اسی لحاظ سےوہ یہودی وعیسائی اور مجوسی بن جاتا ہے، اس سے ہم نصیحت والدین کا باخوبی اندازہ لگا سکتےہیں۔
والدین بچوں کی تربیت پر مسئول ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ (بخاری 893)

اس لئے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اگر آج ہم اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کریں گے تو کل اس پر ہم سے سوال ہو گا جس کا جواب ہم نے کیا دینا ہے یہ ہمیں آج ہی سوچنا ہوگا۔

اسلام نے ہمیں اس تربیت اولاد کی طرف بہت ہی اچھےانداز سے ناصرف دعوت دی ہے بلکہ ہمارےلئے اسلوب بھی وضع کر دیئے ہیں، ذیل میں ہم ان اسالیب کا احاطہ قرآن مجیدکی سورۃ لقمان کی روشنی میں کرتےہیں۔

اللہ رب العزت نے لقمان کو بڑی حکمت و دانائی سے نوازا تھا،اور اسی حکمت کے انداز سے انہوں اپنے بیٹے کو نصیحت کی جو اللہ کے ہاں اس قدر مقبول ٹھری کے قیامت تک کے لئےہمارے لئے ایک نصیحت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

پہلا اسلوب: (اسلام) اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور شرک سے دوری۔ (ذاتی پہلو)

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ۔ (لقمان13
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک بہت بڑا ظلم (گناہ)ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ﷺ کا فرمان ہے: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي( صحيح الترمذي:3895)
ترجمہ: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عمرو بن جموح
ra:
روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اللہ کے لئے ہی (کسی سے) ناراض اور اللہ کے لئے (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اسکی رضا کا مرکز و محور فقط ذاتِ الہٰی ہو جائے) اور جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے ایمان کی حقیقت کو پا لیا، اور بےشک میرے احباب اور میرے اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے وہ یاد آجاتے ہیں اور ان کا ذکر کرنے سے میں یاد آجاتا ہوں۔ (میرے ذکر سے انکی یاد آجاتی ہے اور ان کے ذکر سے میری یاد آ جاتی ہے یعنی میرا ذکر ان کا ذکرہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)“۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا : یا رسول اللہ آپ بھی روتے ہیں تو حضور ﷺنے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہےپھر فرمایا: بے شک آنسو بہتے ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی بات کہتے جس میں اللہ کی رضا ہو‘ اور اے ابراہیم تیری جدائی کی وجہ سے ہم غمگین ہیں (بخاری، باب انا بک لمحزونوں، حدیث نمبر1303)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس بندے نے کسی نیکی کے راستہ کی طرف (لوگوں کو) دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے اجروں کے برابر اجر ملیگا جو اسکی بات مان کر نیکی کے اس راستہ پر چلیں گے اور عمل کریں گے اور اسکی وجہ سے ان عمل کرنے والوں کے اجروں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
اور اسی طرح جس نے(لوگوں کو) کسی گمراہی (اور بدعملی) کی دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جو اسکی دعوت پر اس گمراہی اور بدعملی کے مرتکب ہوں گے اور اسکی وجہ سے ان لوگوں کے گناہوں میں (اور انکے عذاب میں) کوئی کمی نہ ہوگی۔
( صحیح مسلم ) (بحوالۂ سابق/ص:۹۲)
 

سیما علی

لائبریرین
صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[qh](يَطْوِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ السَّبْعَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟)[/qh](صحیح مسلم، صفات المنافقین و احکامھم، باب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، ح:278
“اللہ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے گا اور فرمائے گا:میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں خود کو سرکش ارو متکبر سمجھا؟ پھر ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائےگا: میں بادشاہ ہوں۔کہاں ہیں جنہوں نے دنیا میں خود کو سرکش اور متکبر سمجھا؟”
 

سیما علی

لائبریرین
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان ہے : جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اس وقت اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ پاک اسکو ضرور د ے گا اور وہ گھڑی مختصر ہے۔ (صَحیح مُسلِم، ص424،حدیث:852)
 

سیما علی

لائبریرین
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے (اس کی رعیت کے بارے میں) سوال ہوگا۔ پس امام حاکم ہے اس سے سوال ہوگا۔ مرد اپنی بیوی بچوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا۔ غلام اپنے سردار کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا ہاں پس تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا۔

صحیح بخاری – حدیث نمبر 5188​

 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک زمانہ پلٹ کر اسی حالت پر آگیا جیسا اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مسلسل؛ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، اور (چوتھا) رجب مُضَر جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ (آپ ﷺ نے پوچھا بتاؤ) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ اس پر خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ آپ ﷺ اسے کوئی اور نام دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں (یہ ذوالحجہ ہی ہے)۔ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم گمان کرنے لگے کہ آپ ﷺ اس کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں (یہ حرمت والا شہر ہی ہے)۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت کیا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔اس پر آپﷺ خاموش ہو گئے۔ یہاں تک کہ ہمیں خیال گزرا کہ آپ ﷺ اس دن کا نام تبدیل کرکے کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ کیوں نہیں (یہ یوم النحر ہی ہے)۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاریں جانیں، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کر دو۔ خبردار! یہاں موجود شخص غیر موجود تک یہ پیغام پہنچا دے۔کیونکہ بعض وہ لوگ جنہیں کوئی بات پہنچائی جائے اس بات کو سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ کیا میں نے (احکامِ الہی کو) پہنچا دیا۔ کیا میں نے پہنچا دیا؟ ہم نے جواب دیا: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! تم گواہ رہنا.
صحیح - متفق علیہ
 

سیما علی

لائبریرین
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنُ فِيْ شَيْئٍ إِلاَّ زَانَہُ وَلَا یُنْزَعُ مِنْ شَيْئٍ إِلاَّ شَانَہُ۔ ))
1
'' نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت کردیتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے عیب دار کردیتی ہے۔ ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: ۶۶۰۲۔ [احیاء علوم الدین للغزالی ص ۱۸۴، ۱۸۶،۳/ نووی شرح مسلم ص ۱۴۵، ۱۶ عون المعبود ص ۱۱۴،۱۳۔
 

سیما علی

لائبریرین
مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
25. مومن ایک بل (سوراخ) سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا (یعنی ایک ہی غلطی دو مرتبہ نہیں کرتا)۔
حدیث نمبر: 44
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں لگتا۔ (ڈسا نہیں جاتا، یعنی مومن جب کسی معاملہ میں ایک بار خطا اٹھائے تو دوبارہ اس کو نہ کرے)۔
bar.gif
 

سیما علی

لائبریرین
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے پاكيزہ كمائى سے ايك كھجور كے برابر صدقہ كيا ۔ اللہ تعالى پاكيزہ كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا ۔ اللہ تعالى اسے اپنے دائيں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے خرچ كرنے والے كے ليے اس كى ايسے پرورش كرتا ہے جس طرح تم ميں كوئى اپنے گھوڑے كے بچھيرے كى پرورش كرتا ہے، حتى كہ وہ پہاڑ كى مانند ہو جاتا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1344 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1014 )
 
Top