"حدائقِ بخشش " از احمد رضا خان بریلوی کا اسلوبیاتی جائزہ۔۔۔محمد خرم یاسین

"حدائقِ بخشش " از احمد رضا خان بریلوی کا اسلوبیاتی جائزہ

مولانا احمد رضا خان نے عوام و خواص میں اپنی نعوت و سلام کے خصوصی حوالے سے شہرت پائی اور اردو ادب کو ”حدائقِ بخشش“ کی صورت ایسا بیش قیمت تحفہ دیا جو نہ صرف تا حال مقبول ہے بلکہ نعت گوئی میں سند کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ اپنے اچھوتے اسلوب کے سبب وہ نعت گوئی کے میدان میں متقدیمین و متاخرین میں نمایاں نظر آتے ہیں اور نثر میں خطوط نویسی کے حوالے سے بھی منفردمقام رکھتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور اردو کے علاوہ فارسی، عربی ، ہندی اور سنسکرت سے بھی بخوبی واقف تھے ۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف انھوں نے نعت گوئی میں مذکورہ زبانوں کو بھی بڑی مہارت سے استعمال کیا بلکہ بعض مقامات پر ان چاروں زبانوں کا یکجا استعمال بھی کیا۔نعتوں کے حوالے سے ان کی شہرت محض مترنم بحور، شعریت ، تغزل اور اچھوتااسلوب ہی نہیں بلکہ ان میں عشقِ رسول ﷺ کی جولانی ، ترویج اور فراوانی بھی شامل ہے۔ چونکہ عشقِ رسول ﷺ کا پرچار ان کی زندگی کا خاصا تھا اس لیے یہ جوہر ان کی نعوت میں بھی بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے مندرجات کا تعارف بہت سی کتب میں کیا گیا ہے حیات وخدمات کے حوالے سے آٹھ سو (۸۰۰)کتب تحریر کی جا چکی ہیں جب کہ اسی موضوع پر ایم فل و پی ایچ ڈی کی اکتا لیس (۴۱) ڈگریاں بھی دی جا چکی ہی (۱)۔ ” احوال و آثاراعلیٰ حضرت مجدد اسلام“میں علامہ نسیم بستوی ان کا تعارف اس طرح سے پیش کرتے ہیں:

“شہر بریلی شریف میں۱۰ شوال المعظم ۱۳۷۲ءبروز شنبہ بوقت ظہر مطابق ۱۴جون سن۶۵ ۱۸ءکو آپ عالمِ ہستی میں جلوہ گر ہوئے ۔ پیدائشی اسمِ گرامی “محمد” ہے ، والدہ ماجدہ شفقت میں ”امن میاں“اور دیگر اعزہ ”احمد میاں“کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے۔جد امجد نے آپ کا نام “احمد رضا”رکھا۔(۲)

جبکہ محمد یوسف صابرنے ان کے خاندانی پس منظر کی عکاسی اپنی کتاب ”چودھویں صدی ہجری کی ایک عظیم شخصیت“ میں ان الفاظ کی صورت میں کی ہے:

“احمد رضا خان پٹھانوں کے بھڑائچ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کا اصلی وطن قندھار تھا۔آپ کے بزرگوں میں سب سے پہلے شجاعت جنگ بہادرسعید "اللہ خان نادر شاہ کے ہمراہ قندھار سے ہندوستان آئے اور مخمس ہزاری منصب پر فائز ہوئے۔لاہور کا شیش محل انھی کی جاگیر تھا۔انھیں دو گاؤں بھی جاگیر میں ملے جو امام احمد رضا کے عہدِشباب تک ان کی ملکیت میں تھے۔بعد میں امام احمد رضا کی انگریزی سامراج سے مخالفت کی پاداش میں وہ جاگیر ضبط ہوگئی۔۷ شوال ۱۲۷۲ءہجری بمطابق جون ۶۵ ۱۸ءبروز شنبہ ظہر کے وقت بریلی کے محلے جسول میں مولاناعلی خان کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ۔۔۔دادا مولانا رضا علی خان نے اپنے عظیم فرزند کا نام محمد رکھا۔گھر میں والدہ ماجدہ پیار سے امن میاں اور والدِ ماجد و دیگر اعزہ و اقربااحمد میاں کہہ کر پکارتے ۔” (۳)

مولانا احمد رضا کی ذات کئی علمی و ادبی حوالوں سے معتبررہی ،وہ بیک وقت مفسر بھی تھے، مترجم بھی، محدث بھی ، شارح بھی ، شاعر بھی اور نثرنگار بھی۔ان کی شخصیت میں ہمہ جہتی اس قدر درجے کی تھی کہ انھوں نے محمد یوسف صابرکے مطابق دینی مدارس اور علمائے حق کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ لٹریچر کی طرف بھی توجہ دی اور تقریبا ًپچپن ( ۵ ۵) علوم میں ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔(۴)انھیں جن علوم میں دسترس حاصل کی اور ان کے حوالے سے کتب تحریر فرمائیں ان میں علومِ قرآنِ مجید،حدیث اور اصولِ حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ، تفسیر، تقابلِ ادیان، عقائد،ادب فارسی، ادبِ ہندی، ادبِ اردو،ترجمہ نگاری ، تنقید ، ادبِ عربی ،علم الکلام، نحو، صرف، معانی، بیان، بدیع، منطق، جدل، تاریخ، نعت، ادبِ عربی، مناظرہ، فلسفہ، تکسیرحساب، ہندسہ، قرات، تجوید، تصوف، سلوک ، اخلاقیات، زیجات، مثلثِ کروی، مثلثِ سطح ، مربعات، جعفر، عروض، قوافی،نجوم، اوقاف،فنِ تاریخ و اعادہ، اسما الرجال، سِیر جبر و مقابلہ، حساب سینی، مناظر و مرایہ، توقیت، اکر،خطاطی: خطِ نسخ، خطِ نستعلیق، خطِ مستقیم، خطِ شکستہ،وغیرہ کے علوم شامل ہیں۔انھوں نے محض آٹھ برس کی عمر میں نہ صرف شروح لکھنے کا آغاز کیا بلکہ زندگی کے دوسرے عشرے میں فتویٰ نویسی کا آغاز بھی کر دیا تھا۔یوسف صابر ان کے بچپن میں ہی علم و ادب کی جانب راغب ہونے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ:

“آپ نے ۸ سال کی عمر میں زمانہ طالب علمی میں ہدایتہ الخو کی شرح لکھی اور غالباً یہی ان کی سب سے پہلی تصنیف ہے۔۱۲ شعبان۱۲۸۶ءکو ۱۳سال ایک ماہ پانچ دن کی عمر میں آپ نے باقاعدہ فتاویٰ نویسی کا آغاز کیا۔” (۵)

نعت گوئی کی جس طرز کا آغاز مولانا احمد رضا نے کیا وہ بہت کامیاب دیر پا اور دور رس رہا۔ آج تک نعت گو شعرا ءان کی پیروی میں حضور کی مدح سرائی کر رہے ہیں لیکن کسی کا بھی تحریر کردہ سلام ، مقبولیت کے انتہائی درجے پر فائز “مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام” کو چھو نہیں سکا۔

:حدائقِ بخشش کا جمالیاتی و اسلوبی جائزہ

ایک ادیب کی شخصیت چوں کہ بہت سے معاشرتی،معاشی، سیاسی اور مذہبی مسائل سے اثر قبول کرتی ہے اور اس کا ماحول اس کے ایک خاص اندازِ فکر کو پر وان چڑھاتا ہے اس لیے اسلوب کا تعلق براہِ راست مصنف کی ذات اور اندازِ تفکر سے ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی ادیب قلم اٹھاتا ہے تو اس کی تحریر بہت سے ثقافتی اور تہذیبی عوامل کے گرد گھومتی ہے۔ انھیں

کا نام دیتا ہے (Codes and Conventions) جنھیں رولنڈ بارتھیز کوڈز اینڈ کنوینشز

(Inter-textuality)اور جولیا کرسٹوا اسی حوالے سے تحریر کی تیاری میں بین المتنیت

کو اہم گردانتی ہے ۔ ادب میں کوڈز اینڈ کنوینشنز کا تعلق اشارات، تلمیحات، استعارات ، مصطلحات ،تشبہیات، روز مرہ اور صنائع بدائع اور زبان کے دیگر ادبی مہارتوں سے ہوتاہے۔ایک ادیب جس قدر مہارت سے تحریر میں ان کو استعمال کرتا ہے ،اس قدر وہ پختہ اسلوب کی ترجمانی کرتا ہے اور اس کا دائرہ اثربھی بڑھتا ہے ۔ ہر ادیب کا اپنا ایک خاص اسلوب ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذات اور علمیت کی نمائندگی کرتا ہے۔اسلوب کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا معلومات مہیاکرتا ہے:

"Style, involves the selection and organization of the features of language for expressive effects, and includes all uses of sound pattern, words, figure of speech, images and syntactic forms " (۶)​

یعنی اسلوب میں زبان کی تمام تر خاصیتیں بشمول اس کے خدو خال، صنائع بدائع، ساخت اور صوتی آہنگ تک سب کچھ شامل ہوتاہے۔نور اللغات کے مطابق اسلوب کے معانی ”راہ، طرز ، روش، طریقہ، بندھنا لازم، صورت پیدا کرنا، راہ نکالنا“ کے ہیں(۷) فیروز اللغات میں اسے ”راہ ، طریقہ، ڈھنگ“ کے معانی میں لیا گیا ہے جبکہ طرز، چلن راستہ بھی اسی ز مرے میں دیے گئے ہیں۔ (۸ )اسلوب کے حوالے سے کشاف تنقیدی اصطلاحات کی یہ تعریف بھی اہمیت رکھتی ہے:

“اسلوب سے مراد کسی ادیب یا شاعر کا وہ طریقہ ادائے مطلب یا خیالات و جذبات کے اظہار و بیان کا وہ ڈھنگ ہے جو اس خاص صنف کی ادبی روایت میں مصنف کی اپنی انفرادیت سے وجود میں آتا ہے اور چوں کہ مصنف کی انفرادیت کی تشکیل میں اس کا علم ، کردار، تجربہ ، مشاہدہ، افتادِ طبع، فلسفہ حیات اور طرزِ فکر و احساس جیسے عوامل مل جل کر حصہ لیتے ہیں اس لیے اسلوب کو مصنف کی شخصیت کا پرتو اور اس کی ذات کی کلید سمجھا جاتا ہے۔” (۹)

مولانا احمد رضا کی اردو شاعری کی بابت بات کی جائے تو ان کے اسلوب میں جن عناصر کی نمائندگی زیادہ ہے ان میں منظر نگاری، جذئیات نگاری، صنائع شعری ، معنویت ، سلاست ، روانگی،مشکل پسندی، اشارات، تلمیحات، استعارات ، مصطلحات اورتشبہیات کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول ﷺ کی فراوانی شامل ہیں۔وہ اپنے کلام کی انفرادیت کے حوالے سے صاحبِ اسلوب ہیں۔انھوں نے اپنے دور کے دیگر بیشترشعرا کی نسبت محض نعت ہی کواپنے جذبات کے اظہارکا ذرےعہ بنایا۔ ان کے اسلوب میں عشق رسول ﷺ کا جو نمایاں عنصرملتا ہے وہ ان کی نبی کریم ﷺ سے والہانہ عقیدت کا پتہ دیتاہے ۔ ان کے ہاں الفاظ جذبات کے تابع نظر آتے ہیں لیکن محسوسات کا بیان مجہول دکھائی نہیں دیتا۔اکثر جگہوں پر جب وہ تجاہل ِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں ، قصیدہ خواں ہوتے ہیں یا مناجات واستغاثہ پیش کرتے ہیں تو سراپا عجز و انکسار بن جاتے ہیں جس کا مقصود بھی شانِ نبوت ہی کا بیان ہوتا ہے۔آپ کا مواجہہ شریف میں کھڑے ہو کر درود وسلام کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے زیارت کی تمنا کرنا اور یہ تمنا بر نہ آنے پر بے قراری واز خود رفتگی :کے عالم میں غزل خواں ہونا انھیں متقدمین سے انوکھا اسلوب عطا کرتا ہے۔ استغاثہ کا نمونہ ملاحظہ کیجیے

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا

تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں(۱۰)​

قلبی کیفیات کی ایسی منقش ترجمانی کم ہی شعرا کے ہاں نظرآتی ہے ۔اپنے معاصرین کے مقابل ان کی شاعری میں جذبات کی فراوانی، تڑپ ،کسک ، عجز و انکساراور اپنی کم مائیگی کے احساس کے بیان کے باوجود قنوطیت نہیں ہے ۔حدائقِ بخشش کا جائزہ انھیں شاعری کو قنوطی ثابت نہیں کرتا البتہ جب وہ اپنی کم مائیگی اور کمتری کی بات کرتے ہیں تو اشعار میں مناجات و استغاثہ کارنگ گہرا ہوتا ہےا اور اس سے بھی امید و رجائیت چھلکتے ہیں ۔ نمونہ ملاحظہ کیجیے:

نہ ہو مایوس آتی ہے صداگورِ غریباں سے

نبی امت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے(۱۱)

خو ف نہ رکھ رضا ذرا، تو تو ہے عبدِ مصطفےٰﷺ

تیرے لیے امان ہے، تیرے لیے امان ہے(۱۲)

لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا

شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا(۱۳)​

ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے ایک مضمون میں اسلوب کے بارے میں تحریر کیا تھا کہ درحقیقت اسلوب انکشاف و اظہارِ ذات ہے ، گویا اسلوب شخصیت کا اظہار ہے ۔تنقید میں اسلوب سے مراد لکھنے کا وہ رویہ یا انداز ہے جس سے لکھنے والے کی شخصیت کے ساتھ اس کے عصر کا مزاج بھی واضح ہو۔ گویا اسلوب شخصیت اور روحِ عصر کے ساتھ خیال کے اظہار کا وسیلہ بھی ہے۔(۱۴)یوں اس بیان کے دوسرے حصے پر غور کیا جائے توقصیدے کا جو مزاج مولانا احمد رضا کے عہد میں رائج تھا ، انھوں نے اس سے بھی روگردانی کی اور نعوت وقصائد کو مدغم کرتے ہوئے نعتیہ قصائد تخلیق کیے جن میں حسنِ طلب تو ہے مگر یہ طلب دنیاوی نہیں اور نہ ہی کسی لالچ کے تحت ہے۔اسی سے ان کے معاصرین شعرا کے مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے جن میں سے بیشتر :نوابین کے وظیفہ خوار رہے لیکن وہ اس روش کے خلاف چلے بلکہ نواب نانپارہ کے سفارشی کلام کے جواب میں مقابل تحریر کیا:

کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ ناں نہیں (۱۵)

مولانا احمد رضا کی شاعری میں الفاظ کا چناو ، ان کی بُنت اور برمحل استعمال کئی شعری خوبیاں لیے ہوئے ہے ۔ ان کے ہاں اردو کے ساتھ ساتھ عربی ، فارسی اور ہندی الفاظ کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔ عطش دارنی کہتے ہیں کہ الفاظ کی سطح پراسلوب در اصل انتخاب کا نام ہے ۔ تلازمِ معانی ہو یا صوتی آہنگ، ہر مقام پر انتخابِ الفاظ ہی فنکار کا ساتھ دیتا ہے۔ مولانا احمدرضا کے ہاں اردو، عربی ،فارسی اور سنسکرت کے الفاظ کی کثرت موجود ہے ۔ وہ نعت لکھتے وقت ایک ہی وقت میں مختلف زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے کلام میں جوت، چک چھالا، بپت، جنگلا، ڈائن، پی، سہاگن، کنورہ، رت،گھاٹ، ٹکسال، سنسان، پاٹ، بپتا، چھالا، موا، دھوون، ماتھا، سہاگ، بھبھوکا، گھپا، پھانس، گتھی، ماتا، پل، جگنو، بدرا، چینٹ اور گا نٹھ ایسے ہندی الفاظ بھی موجود ہیں اور سنسکرت کے الفاظ کا بھی بڑا ماہرانہ استعمال موجود ہے جن میں بل، چندن، چندر، سخا،کنڈل،پاکھ، پون، سبھ گھڑی، جل تھل وغیرہ شامل ہیں ۔ کلام میں :عربی ، فارسی ، سنسکرت اور اردو حروف کا نمونہ ملاحظہ کیجیے

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا(۱۶)​

کلام میں اردو اور ہندی الفاظ کے ساتھ ساتھ تلمیح کا خوبصورت استعمال ملاحظہ کیجیے

جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات

ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبیﷺ(۱۷)​

مولانا احمد رضا کے کلام میں علمی مصطلحات کا استعمال بھی بکثرت موجود ہے۔ جس قدر علمی مصطلحات انھوں نے نعوت میں استعمال کیں ان کے متقدمین اور متاخرین میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ڈاکٹرمحمد حسین مشاہدنے ان کے اسلوب کے حوالے سے علمی مصطلحات کا پر زور ذکران کے حوالے سے کتابی صورت میں کیاہے۔کئی مقامات پر ان مصطلحات سے جڑے اشعار کے مفاہیم تک پہنچنے کے لیے محض شاعری ہی نہیں بلکہ دیگر علوم سے وابستگی بھی ضروری ہے کیوں کہ ان علوم سے لا تعلقی نہ صرف بین السطور تک رسائی نہیں دیتی بلکہ بہت سے شبہات کو بھی جنم دیتی ہے۔اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

“نعت گوئی میں عقیدے و عقیدت کی نور افزا پرچھائیوں کے ساتھ آپ کے کلام میں جہانِ فکرو فن ، جذبہ و تخیل اور متنوع شعری و فنی رچاوکے دل نشین تصورات ابھرتے وہیں آپ کے نعتیہ نغمات میں اکثر اشعار مصطلحاتِ علمیہ اور تلمیحاِ تِ دینیہ سے ایسے مالا مال ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے عالمانہ فہم وفر ا ست کی ضرورت ہے۔” (۱۸)

:اپنے بیان کی تائید میں وہ مولانا احمد رضا کا یہ شعر پیش کرتے ہیں

مہر میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چَملے

ڈالے اِک بوند شب دے میں جو بارانِ عرب(۱۹)​

اس ایک شعر کو سمجھنے کے لیے علمِ ہیت،علمِ نجوم اور علمِ موسمیات کا سمجھنا ضرروری ہے ورنہ بین السطور تک رسائی ممکن نہیں۔شعرمیں مہریعنی سورج، میزان، بارہ آسمانی برجوں میں سے ایک حمل (دنبے کی شکل کاآسمانی برج)، شبِ دے یعنی اکتوبر کے مہینے کی رات وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عربِ مقدس کی بارش اکتوبر کے مہینے کی رات میں اگر ایک قطرہ ہی گرادے تو سورج اگر برجِ میزان میں چھپا ہو تووہ وہاں سے نکل کر برجِ حمل میں آکر چمکنا شروع ہو جائے گا اور خشک سالی کا نام و نشان مٹ جائے گاجس کی وجہ عرب کے چاند (نبی کریمﷺ)سے نسبت ہوگی۔ان کے بیسیوں اشعار اسی طرز کے ہیں کہ جن پر تحقیق کے لیے

علمی مصطلحات سے آگاہی نہایت ضرور ی ہے۔یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

بارھویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا

بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارہ نور کا(۲۰)​

اس شعر میں علمِ فلکیات کو سہارا بناتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں مدح سرائی کی گئی ہے جس میں لکھتے ہیں کہ آپﷺ کی پیدائش (۲۱ ربیع الاول)کی خوشی میں ہر بارہ تاریخ کو چاند جھک جھک کر سلامی پیش کرتا ہے ۔یہ چاند تک ہی محدود نہیں بلکہ بارہ برجوں(اسد، ثور، سنبلہ، شرف، عقرب، میزان، جوزہ، حمل، حوت، اسد، جوزہ،جدی ) کاہر ہر چاند آپ کی خدمت میں حاضر ہو کرسلام پیش کرنا سعادت سمجھتا ہے۔یوں انھوں نے اپنی علمی مشاہدے کو نعت کی صنف میں بخوبی نبھانے کی کوشش کی ہے ۔ان کے کلام میں علمِ فلسفہ، نجوم اور ہیت ،ما بعد الطبیعات و علمِ ہندسہ، علمِ منطق، علم معانی و نحو، علومِ موسمیات، ارضیات و معدنیات کی

بیسویوں مصطلحات موجود ملتی ہیں۔

نعت گوئی میں چاروں زبانوں ( عربی،فارسی، اردو اور ہندی)کے بیک وقت استعمال کے حوالے سے مولانااحمد رضا بالکل منفرد اور امتیازی مقام پرمتمکن نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر محمود حسین ان کی نعت ”لم یاتِ نظیر ک فی نظرمثلِ تو نہ شد پیدا جانا“کو خصوصی حوالہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ متفرق زبانوں کا ایک ہی وقت میں استعمال ان کے کلام میں لاجواب دکھائی دیتا ہے اوراس فن میں اصحابِ شعرو سخن سے اپنا لوہا منوایا۔ صنا ئع بدائع کا استعمال جس خوبصورتی سے انھوں نے نعوت میں کیا اس کا تقابل ان کے کسی بھی ہم عصر شاعر سے کیا جاسکتا ہے۔بالخصوص مذکورہ نعت سارے اردو ادب کے لیے چارمختلف زبانوں کے الفاظ کے بیک وقت و بہترین استعمال کے حوالے سے ایک نمونہ ہے۔ ان کی یہ نعت بھر پور غنایت کے ساتھ اربابِ ذوق بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ مزے لے لے کر پڑھتے اور گنگناتے ہیں جس کا

مطلع ہے:

لم یاتِ نظیر ک َفی نظرمثلِ تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج تو راج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا(۱۲)​

:اسی نعت کے مزید اشعار ملاحظہ کیجیے

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
(۲۲)توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا​

سنسکرت اور ہندی زبان کے بہت سارے الفاظ، محاورے اور کہاوتوں کو انھوں نے بڑی مشاقی سے اپنے اشعار میں یوں استعمال کیا ہے کہ نہ صرف شعر کی روانی، بحر، تسلسل، عنوان، فصاحت وغیرہ پر ان الفاظ کے بزبانِ دیگر ہونے کے باوجود کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی شعر کے حسن میں کوئی نقص پیدا ہوا ہے بلکہ اس سے شعر کے حسن میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ ان کے نعتیہ کلام کا لب و لہجہ اسلامی رنگوں میں بھی ڈوبا ملتا ہے اور اس میں عشق و محبت کی فضا بھی نظرآتی ہے چوں کہ ان کے کلام میں جام و مینا، ساغر، مے ، زلفِ خمِ جاناں ، حسن و عشق کے قصے، تنہائی کی کارستانیاں، محبوب کے لب و رخسار کی باتیں اور کے شاعرانہ تخیلات کی بے راہ روی دکھائی نہیں دیتی اس لیے ان کاکلام سوز و گداز، فصاحت و بلاغت، جذب وکشش کے عناصر کے ساتھ ساتھ شرعی اصول و ضوابط کی کسوٹی پرپورا اترتاہے ۔ڈاکٹر حامد علی خان اس

بات کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

“آپ کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ اقرار کرنا پڑتاہے کہ آپ کی نعت گوئی آداب ِ عشق و محبت کی آئینہ دار ہے، حضور نبی ہاشم ﷺ سے آپ کی محبت نہ صرف ہر چیز سے بلند و برتر تھی بلکہ والہانہ عقیدت اور حقیقی جاں نثاری تھی۔” (۲۳)

مولانا احمد رضا کی نعتیہ شاعری میں موضوعاتی تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ان کے نعتوں میں تغزل اور غزلیہ اشعار کے حوالے سے ڈاکٹر محمد امجد رضا امجد انتخاب شائع کرچکے ہیں۔نعت میں استغاثہ پیش کرتے وقت ملکی حالات کا بیان نعوت میں رائج رہا ہے ۔ مسدس حالی کا ابتدائیہ ”اے خاصہ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے”بھی استغاثہ ہی کا نمونہ ہے اس حوالے سے ان کی شاعری میں محض مو ضو عاتی تنوع ہی نہیں بلکہ عصر یہم سیاسی اور سماجی مسائل بھی :موجود ہیں ۔مثلاً برصغیر پر انگریز کا تسلط اور اس حوالے سے مسلمانوں کی بیداری کی کوشش کا نمونہ ملاحظہ کیجیے اس میں ایک تنبیہہ بھی موجود ہے:

سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے

آنکھ سے کاجل صاف چرا لیں یاں وہ چور بلا کے ہیں

تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے(۲۴)

ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آگئی

سر پر کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے(۲۵)​

گو کہ مولانااحمد رضا نے نعت نگاری میں قدرے مشکل پسندی سے کام لیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اپنے ترنم اور غنائیت کے سبب مشہور اور زبان زدِ عام ہوئی۔ان کی نعت گوئی کا جمالیاتی جائزہ لیا جائے تو یہ باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے کلام متنوع جمالیاتی رنگوں سے سجایا، سنوارااور منظر نگاری کے لےے جو لفاظی کی وہ بھی متاخرین کے لیے مثال بن کر رہ گئی۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نعت کے الفاظ کے انتخاب کے لیے انھوں نے الفاظ کے مترادفات کی طویل فہرست تیار کر کے ایسے الفاظ کا انتخاب اور اطلاق کیا ہوجو پہلے لفظ سے

زیادہ معنوی خوبصورتی رکھتا ہو۔مختلف نعتوں کے چند اشعارملاحظہ کیجیے:

سرتا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول

لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول (۶۲)

نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رواں کا پہنا

کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکاحبابِ تاباں کے تھل کے ٹکے تھے

یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا

صفائے راہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے(۲۷)

ڈالیاں جھومتی ہیں رقصِ خوشی جوش پہ ہے

بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا (۲۸)

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں(۲۹)​

شاعر کے کلام میں منظر نگاری بھی جمالیاتی مطالعے ہی ایک حصہ ہے ۔گو کہ لغات نے جمالیات کے مختلف معانی پیش کیے ہیں لیکن ان سب کا تعلق ادب پارے کے حسن و قباح ہی سے رہا ہے۔اس حوالے سے جمالیات کے مشاق نقاداور اس پر اٹھارہ (۱۸) کتب تخلیق کرنے والے شکیل الرحمن، انور سن رائے اور ارشد محمود سبھی کی رائے مذکورہ ہی ہے۔ مولانا احمد رضا جمالیاتی حوالے سے نہ صرف اپنی شاعری میں منظر نگاری کو اوج تخیل بخشتے ہیں بلکہ ان کے الفاظ کا انتخاب بھی ایسا ہوتا ہے جو مناظر میں رنگ بھرتا چلا جائے۔ان کی شاعری جن خوبصورت الفاظ کا استعمال بار بارملتا ہے ان میں گل، گلستان، باغ، گلزار، گلشن، بلبل، پھول، عندلیب، بہار، خوشبو، گلاب، سبزہ، بحر ، عارض ، ماہ ، عرش،جنت، محبوب، بوند، رحمت، آنکھ ،شمس،قمر، شمع، پروانہ، قمری ، حسن، فصل، سرو، ٹھنڈ ، ٹھنڈک، خنکی، آب، قدرت، حسن اور جلوہ وغیرہ شامل ہیں جبکہ زلف، رخ، شب، بارش، قطرہ، آفتاب، فردوس، رات،ملک، فلک، بادل، سرو سمن،دولہا، جنگل، پیڑ، قندیل، چراغ، خورشید، غنچہ جیسے دیگر کئی الفاظ بھی مستعمل ملتے ہیں۔ اگر تعدادکے حوالے سے رنگ و نور کے اظہار کے ان الفاظ کو دہرانے کی بات کی جائے توحدائقِ بخشش کے ۷۵۱صفحات پر موجود پہلی تراسی (۳۸)نعتوں ، مناقب اور رباعیات میںدرج ذیل الفاظ کی تعداد اس طرح سامنے آتی ہے: آنکھ(۳۴بار) ، بوند(۰۷بار)،بلبل(۲۳بار)، بہار(۳۱بار)، باغ(۲۳بار)، بحر(۰۹بار) ، جلوہ(۳۸بار)،جگنو(۱بار)،حسن(۲۱بار)،چاند(۱۹)،خوشبو(۳بار)،خوش(۷)، دِل(۱۲۵بار)، سحر ( ۸ بار) رحمت(۴۸بار)، ,(زندگی(۲بار)، سبزہ ( ۳ با ر ) ، شمع ( ۱ ۱ با ر ) ، شمس ( ۷ با ر ) ، صبح (۱۶ ) ، عند لیب ( ۵ با ر ) ، عا ر ض ( ۲ ۲ بار) ، عر ش(۳۵ با ر ) ،

فصل ( ۶ با ر ) ، قمر (۱۳با ر)، قمری(۲بار)، قدرت ( ۹ بار)، گلستان(۶بار)،گلزار(۹بار)،گلشن(۷بار، گلا ب( ۳ با ر)، گل(۳۲بار)،پھول (۴۱بار)، ٹھنڈ اورٹھنڈک(۶بار)، ماہ(۱۱بار) ، محبوب(۶بار)، سرو(۶بار) اورچمن (۱۸بار)۔ ممتاز شیریں کے مطابق شعری مادے کو مٹی اور اس میں خوبصورت الفاظ کے استعمال کو رنگوںکا ملاپ قرار دے کر اسلوب کا نام دیا ہے۔جس طرح ایک مشا ق کوزہ گر مٹی کو گوندھتا ہے، توڑتا، موڑتا، دباتا، کھینچتا، گول، چکور ، لمبا اور گہرا کرتا ہے اسی طرح ایک ادیب بھی اپنے الفاظ کو مختلف روپ دے کر اسے خوبصورت بناتا ہے اور مختلف معنیاتی جامے پہناتا ہے۔کلامِ احمد رضا میں مصطلحات کی طرح تلمیحات کا بکثرت استعمال بھی ان کی شعری تکنیک کا اہم حصہ ہے۔اسی حوالے سے حدائقِ بخشش کے پہلے ۱۵۷صفحات پر موجود تراسی (۸۳)نعوت ، مناقب اور رباعیات میں موجود مخصوص تلمیحات تعداد کے اعتبار سے اس طرح سامنے آتی ہیں:آل (۵بار)،اللہ(۷۱بار)،الٰہی (۲۹بار)،حشر و محشر(۵۳بار)، خدا (۶۶بار)،خلد (۱۱بار) ، جہنم (۳بار)، جبریل(۳بار) ،جنت (۹ با ر ) ، د و ز خ (۳بار)، رحمت(۴۸بار)، رسول (۲۸بار)،شفیع(۶بار)، شفاعت (۲۳)، طیبہ(۳۵بار) ، عرش(۴۳بار)،عفو (۱۰)،کریم (۱۲بار)، کرم(۲۹بار)،کوثر (۱۰بار)، قدرت (۹بار)، گنہ (۱۱بار)، گناہ ( ۴ با ر )، مالک ، ((۴بار)، موت(۵)، مدینہ (۲۵بار)،محمد(۲۷بار)، نبی(۳۹بار​

ولی (۸بار)،یوسف (۲ با ر)۔ مذکورہ تلمیحات کے علاوہ بھی دیگر بہت سی تلمیحات جیسے ملائکہ، مکہ، والضحیٰ، حجرات، الم نشرح، مسیحا، شفا، آبِ حیات،رسالت، نور، انوار، روح الامیں، حضور وغیرہ بھی اس مجموعہ نعت میں جا بجا رنگ جماتی نظر آتی ہیں۔ تلمیحات کے شعر میں استعمال کا :نمونہ ملاحظہ کیجیے

سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشانِ عرش اعلےٰ

ہر اک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض ان کی جناب میں ہے(۳۰)

کلامِ احمد رضا میں تلمیحات کے بکثرت استعمال کی ایک وجہ ان کا عربی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنا ہے ۔ڈاکٹر محمود حسین کے مطابق عربی زبان میں مختلف مو ضوعات پر۲۹۱ کتابیں سپردِ قلم کیں (۳۱)۔اسی مشاقی کے سبب انھوں نے اپنی رباعیات میں بھی بڑی خوبی سے رباعی کے مخصوص اوزان نبھاتے ہوئے عربی اور تلمیحات کااستعمال کیا ہے ۔ دو ر با عیا ت ملاحظہ کیجیے: :

آتے رہے انبیاءکَما قِیلَ لَھُم وَالخَاتَمُ حَقّکُم کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفترِ تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اَکمَلتُ لَکُم

:دوسری رباعی کا چوتھا مصرعہ ملاحظہ کیجیے

وَالفَجر کے پہلومیں لَیَالِِ عَشَرِِ (۳۲)

مولانااحمد رضا کی علمِ قوافی پرمضبوط گرفت نے بھی اردو ادب میں بہت سے ایسے محیرالعقول کارنامے سر انجام دیے ہیں جو متاخرین کے لیے ایک معمہ اور للکار بن کر رہ گئے ۔ عبدالستار ہمدانی اس حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج تک اردو ادب کا کوئی بھی شاعر حسنِ مطلع کے محض دس (۱۰) اشعار تک بھی نہ پہنچ سکاجبکہ مولانا احمد رضا کا اعزا ز یہ ہے کہ انھوں نے قصیدہ نور(صبح طیبہ میں ہوئی)کے“صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑہ نور کا ” سے باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا،مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کاتک “ مسلسل چھیالیس اشعار حسنِ مطلع کے کہے ۔قصیدہ نور ان کی قوافی پر گرفت کی عمدہ ترین مثال ہے جس میں وہ بانوے(۹۲) مختلف قافیوں کے لیے چھیاسی(۸۶) الفاظ لائے۔علمِ قوافی کے حوالے سے انھوں نے کئی نعتوں کے اشعار کے تمام ارکان کو قوافی کا حسن عطا کیا جو خود علمِ قوافی کے حوالے سے ایک کارنامہ :ہے۔نمونے کے طور پر ”قصیدہ نور “ کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا

مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا(۳۳)​

ان کی قادر الکلامی کی ایک مثال صنعتِ اقتباس ہے کہ اس کا استعمال کلاسیک شعرا سے موخرین شعرا تک بہت ہی کم ملتی ہے ۔صنعتِ اقتباس میں شعر میں کوئی اور معتبر حوالہ لایا جاتا ہے جو بیشتر آسمانی کتابوں یا احادیث وغیرہ سے ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ایسے اشعار کثرت سے ملتے ہیں جن میں اقتباسات موجود ہوں۔ حدائقِ بخشش میں عبدالستار ہمدانی کی تحقیق کے مطا بق حدائقِ بخشش میں ایسےاناسی(۹ ۷)اشعار موجود ہیں جو صنعتِ اقتباس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔مولانا کے سوا اردو ادب کا کوئی ایک بھی شاعر اس کثرت سے صنعتِ اقتباس کا استعمال نہیں کر سکا ہے۔ملاحظہ کیجیے:

بے ابرِ کرم کے میرے دھبّے
لَا تَغْسِلُہَا الْبِحَار آقا

اتنی رحمت رؔضا پہ کرلو
لَا یَقْرُبُہُ الْبَوَار آقا(۳۴)​

کسی بھی شعر کے دونوں مصرعوں کے تمام الفاظ ہم قافیہ لانا صنعتِ ترصیع کہلاتا ہے ۔یہ صنعت چونکہ مشکل ہے اور بہت زیادہ محنت و عرق ریزی کی طلب گار ہے اس لیے اس کا استعمال اردو شعرا کے ہاں بہت کم ملتا ہے۔ مولانا صاحب کے ہاں دیگر صنائع شعری کی طرح صنعتِ ترصیع کا استعمال بھی بہت خوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔اس صنعت میں سارے مصرعوں کے تمام الفاظ ہم :قافیہ ہوتے ہیں۔حدائقِ بخشش سے اس صنعت کا نمونہ ملاحظہ کیجیے

تمھاری چمک ،تمھاری دمک، تمھاری جھلک، تمھاری مہک

زمین و فلک، سماک و سمک، ہیں سکہ نشاں تمھارے لیے

کلیم و نجی، مسیح و صفی، قلیل و رضی، رسول و نبی

عتیق و وصی، غنی و علی، ثنا کی زباں تمھارے لیے(۳۵)

سب سے اولی ٰو اعلیٰ ہمارا نبی

سب سے بالا و الا ہمار ا نبی(۳۶)​

اس کے علاوہ ان کے کلام میں صنعت ِتجنیس ایسی صناع شعری کا ماہرانہ استعمال ملتاہے ۔ اس صنعت میں شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جو حروف اور اعراب میں مساوی ہوں لیکن معنی میں الگ یا مختلف۔ حدائقِ بخشش کے صرف اردو کلام میں ۰۷۱ اشعار تجنیس کامل کے الگ کیے گئے ہیں جب کہ تجنیس کی باقی اقسام جیسے تام اور ناقص وغیرہ کے اشعار ابھی تحقیق طلب ہیں۔عبدالستار ہمدانی لکھتے ہیں کہ:

“حضرت رضا بریلوی کے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش کے صرف اردو کلام میں سے راقم الحروف نے ۰۷۱ اشعار صنعتِ تجنیس کامل کے الگ چھانٹ کر ان میں سے ایک سو تیس اشعار کی تشریح کردی ہے۔” (۳۷)

مولانااحمد رضا نے جن دیگرصناعِ شعری کا زیادہ استعمال کیا ان میں حسنِ تعلیل اور تشبیہ،استعارہ،صنعت عزل الشفتین(اس میںشعر پڑھنے والے کے دونوں ہونٹ جدا رہتے ہیں )،صنعتِ ایہام، صنعتِ اشتقاق(اس میں ایک بات کر کے اس پر زور دیا جاتا ہے اور بڑہایا جاتا ہے ، صنعتِ اتصال تربیعی، صنعتِ مقلوبِ کل ، صنعتِ حسنِ طلب، صنعتِ ایہام،صنعت سیاق الاعداد، صنعتِ مستزاد، صنعتِ لف و نشر، صنعتِ تضمین، صنعتِ تشبیب :وغیرہ کا بکثرت استعمال موجود ہے۔ صنعتِ اشتقاق کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:

مٹ گئے، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا(۳۸)​

:اسی ضمن میں ایک اور مشکل صنعت “سیاق الاعداد” کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں اشیاءکی تعداد کا ذکر کیا جاتا ہے

ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہان

پانچ جاتے ہیں چارپھرتے ہیں(۳۹)​

صنعتِ تشبیب کا استعمال ملاحظہ کیجیے جس میں قصیدے کو عشقیہ یا رومانوی مضامین کے ساتھ :شروع کیا جاتا ہے

چمن ِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو

حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو(۴۰)

عرش کی عقل دنگ ہے چرغ میں آسمان ہے

جانِ مراد اب کدھر ہائے تیرامکان ہے (۴۱)​

ان کے کلام میں صنعتوں کے علاوہ محاورات اور کہاوتوں کا استعمال بھی بہت خوبی اور مشاقی سے کیا گیا ہے جن کی تعداد مولانا فضل کریم کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ ہے ۔اس سے مولانا احمد رضاکی قادر الکلامی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ مولانااحمد رضا نعت نگاری میں اپنے مخصوص لب و لہجے اور اسلوبِ بیاں کی وجہ سے ایک منفرد اور ممتاز مقام کے حامل ٹھہرتے ہیں وہیں۔اسی لیے انھیں مولانا مودودی، سیدسلیمان ندوی، فرمان فتح پوری و دیگر بڑی اہم ادبی شخصیات کی جانب سے خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا ہے۔ مولانافضل کریم اپنے ایک مضمون میں ان کے اسلوب کے حوالے سے یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:

“مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کا جو نت نئے اور جدت و ندرت سے مملو اظہاریہ آپ کے کلام میں ملتا ہے وہ با وجود تلاش و تفحص دیگر شعراءکے ہاں کم نظر آتا ہے۔” (۴۲)







﴿حوالہ جات﴾

۱۔شبنم خان، احمد رضا بریلوی کی شہرت کے اسباب ، مشمولہ سہہ ماہی افکارِ رضا(سہہ ماہی)، ممبئی،جلد :۳ ۱ ، شمارہ: ۴،اکتوبر تا دسمبر۰۰۷ ۲، ص: ۳۵۰
۲۔نسیم بستوی، علامہ،احوال و آثاراعلیٰ حضرت مجدد اسلام، رضا اکیڈمی،لاہور، ۰۶ ۱۹، ص: ۷ ۳
۳۔محمد یوسف صابر، مرتب ، چودھویں صدی ہجری کی ایک عظیم شخصیت، ناشر محمد ارشاد اختر، فیصل آباد،۳ ۹۸ ۱ء، ص : ۰ ۱
۴۔ایضاً، ص: ۲۳
۵۔ایضاً، ص: ۴۱
-6Encyclopedia Britinica, Published: U.S.A, 1973, P 332
۷۔مولوی نور حسن نیر، نور اللغات(جلد اول)، نیشنل بک فاو نڈیشن، اسلام آباد، ۱۹۸۹، ص: ۳۱۱
۸۔فیروز الدین ، مولوی، فیروز اللغات، فیروز سنز،لاہور،ص: ۹۴
۹۔ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، مرتب، کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،۱۹۸۵ء، ص: ۱۳
۱۰۔احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، مکتبة المدینہ، کراچی،۲۰۱۲ء، ص:۹۹
۱۱۔ایضاً، ص: ۱۸۲
۱۲۔ایضاً، ص: ۹ ۱۷
۱۳۔ایضاً، ص: ۴۰
۱۴۔عطش درانی، ڈاکٹر،اسلوب اور اسلوبیاتی انتخاب، مشمولہ، صحیفہ (جنوری ۔مارچ ۱۹۹۸)، لاہور ، ص ۲۵
۱۵۔احمد رضا خان، حدائقِ بخشش،مکتبة المدینہ، کراچی،۲۱۰۲، ص: ۱۰۹
۱۶۔ایضاً،ص: ۳۴
۱۷۔ایضاً، ص: ۱۳۸
۱۸۔محمد حسین مشاہد ، ڈاکٹر، کلام ِرضامیں علمی مصطلحات کی ضیا باریاں، ادارہ دوستی،مالیگاو ں،بھارت، ۲۱۰۲ء، ص: ۳
۱۹۔احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، مکتبة المدینہ، کراچی،۲۱۰۲، ص: ۵۷
۲۰۔ایضاً، ص:۲۴۲
۲۱۔ایضاً، ص۴۳
۲۲۔ایضاً
۲۳۔معارف رضا(ماہنامہ)،ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا،کراچی، ۱۹۸۹، ص:۲۱۲
۲۴۔احمد رضا خان، حدائقِ بخشش،مکتبة المدینہ، کراچی،۲۱۰۲ئ، ص:۵ ۸ ۱
۲۵۔ایضاً، ص: ۱۸۲
۲۶۔ایضاً، ص: ۷۸
۲۷۔ایضاً، ص: ۲۳۰
۲۸۔ایضاً، ص : ۲۵
۲۹۔ایضاً، ص: ۸۶
۳۰۔ایضاً، ص: ۸۰ ۱
۳۱۔محمود حسین ،ڈاکٹر، مولانا احمد رضا خان کی عربی زبان و ادب میں خدمات“(مقالہ)، ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا ،کراچی، ۲۰۰۶ ، ص:۲ ۹ ۱
۳۲۔احمد رضا خان، حدائقِ بخشش،مکتبة المدینہ، کراچی،۲۰۱۲، ص: ۲۳۸
۳۳۔ایضاً، ص: ۳۴۸
۳۴۔ایضاً، ص: ۶ ۳
۳۵۔ایضاً، ص۳۴۸
۳۶۔عبدالستار ہمدانی، مولانا، فن شاعری اور حسان الہند،ادارہ تحقیقاتِ احمد رضا، کراچی،۲۰۰۳ء، ص :۳ ۱۶
۳۷۔احمد رضا خان، حدائقِ بخشش،مکتبة المدینہ، کراچی،۲۰۱۲،ایضاً، ص: ۱۴۸
۳۸۔ایضاً،ص :۸۲
۳۹۔ایضاً،ص :۹۹
۴۰۔ایضاً، ص: ۱۱۹
۴۱۔ایضاً، ص: ۸۷ ۱
۴۲۔فضل کریم، مولانا، احمد رضا تحقیق کے آئینے میں،مشمولہ: ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف،اڑیسہ، نومبر۔دسمبر ۱۹۹۴ء، ص۵۹۔۵۸


نوٹ: یہ مضمون 2016 میں تحریر کیا گیا تھا اور بعد ازاں شائع ہوا تھا۔
 

الشفاء

لائبریرین
واہ۔ بہت خوب جائزہ۔۔۔
دل اپنا بھی شیدائی ہے اُس ناخن پا کا
اتنا بھی مہ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
 
Top