::::::: حج بدل ، اِیصالء ثواب نہیں ہے :::::::

::::: حج بدل ، اِیصال ء ثواب نہیں ہے ::::::
بسم اللہ و الصلاۃ و السلام علی محمد ، الذی لیس بعدہ رسولا ولا نبیا ولا معصوما
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
پاک نیٹ پر اِیصالء ثواب سے متعلقہ ایک تھریڈ میں ایک بھائی نے حج بدل کے بارے میں سوال کیا ،
""" وہاں """ میں نے حج بدل کے بارے میں بڑے اختصار کے ساتھ کچھ معلومات ارسال کیں،اور اُن بھائی سے ان معلومات کے دلائل پیش کرنے کا وعدہ کیا ،
معلومات مرتب کرنے کے دوران ہی خیال آیا کہ انہیں ایک الگ دھاگے کی صُورت میں ارسال کر دوں ، تا کہ دونوں موضوعات کو الگ الگ رکھنے کا سبب ہو سکے ، اِن شاء اللہ ،
پس حج بدل کے بارے میں معلومات کو وہاں اُس تھریڈ میں پیش کرنے کی بجائے ایک الگ تھریڈ کی صُورت میں پیش کر رہا ہوں ،
الحمد للہ ، کہ جِس اپنے اس کمزور بندے کو اُس کا وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطاء فرمائی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغاز میں تین باتیں خوب اچھی طرح سے سمجھ لینے والی ہیں ، اور اِن شاء اللہ ان تینوں باتوں کے دلائل ابھی آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ میں سے پیش کروں گا ،
:::: ( 1 ) ::: سب سے پہلی بات تو اچھی طرح سے سمجھنے والی یہ ہے کہ حج بدل ، جسے حج نیابت بھی کہا جاتا ہے ، وہ حج ہوتا ہے جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا نائب بن کر ، اُس کی نیابت کرتے ہوئے اُس دوسرے شخص کی طرف سے کرتا ہے ،
:::: ( 2 ) ::: اِس عمل میں""" ایصالء ثواب """والا کوئی معاملہ نہیں ، بلکہ حج بدل کسی کی نیابت کرتے ہوئے اُس کی ایک ایسی ذمہ داری پورا کرنا ہوتا ہی جو وہ خود کسی مقبول شرعی عُذر کی بنا پر پوری نہیں کر سکتا ، یا پوری کرنے سے پہلےمر گیا،
جبکہ ایصال ء ثواب اپنے کسی عمل کا ثواب کسی دوسرے کے کھاتے میں بھی شامل کیا جانا ہوتا ہے ،
اور دوسری بات یہ کہ فرض حج خواہ وہ اسلام کا فرض حج ہو ، یا نذر مان کر خود پر فرض کیا ہو حج ہو ، اورصدقہ کرنے کے علاوہ کوئی بھی شخص کسی کی طرف سے کوئی عبادت کرنے کی ہمیں اللہ کی کتاب یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ سے کوئی دلیل میسر ہے ، اور نہ ہی کسی ایک کی کسی عبادت کا کسی دوسرے کو کوئی ایصال ء ثواب ہوتا ہے،
:::: ( 3 ) ::: اور تیسری بات یہ کہ حج کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کا قرض ، اور اللہ کا حق قرار دیا ہے ، لہذاکسی کے ذمے میں رہ جانے والا فرض حج ادا کرنا اُس کے ذمے واجب الاداء قرض ادا کرنے کے زمرے میں آتا ہے ،
حج بدل کیے اور کروائے جانے کے دو سبب ہی ہوتے ہیں ،
::::: (1) پہلا سبب :::::: جِس کے لیے حج کیا جائے وہ شخص زندہ ہو ، لیکن کسی مقبول شرعی عُذر کی وجہ سے اپنا فرض حج خود نہ کر سکتا ہو، خواہ وہ حج اسلام کا فرضی حج ہو ، یا نذر کی طور پر خود پر فرض کیا ہوا حج ہو،نفلی حج کی کوئی گنجائش نہیں ،
::::: (2) دوسرا سبب :::::: جِس کے لیے حج کیا جانا ہو وہ شخص مر چکا ہو ، لیکن کسی وجہ سے اپنا حج نہ کر سکا ہو ،خواہ وہ حج اسلام کا فرضی حج ہو ، یا نذر کی طور پر خود پر فرض کیا ہوا حج ہو ، نفلی حج کی کوئی گنجائش نہیں ،
پہلی صُورت میں ،دو مسئلے پیش آتے ہیں :::
::: (1)::: حج نہ کر سکنے والے زندہ شخص کی طرف سے کوئی بھی شخص حج کر سکتا ہے ، خواہ وہ اپنے خرچ پر کرے ، یا جس کے لیے حج کیا جا رہا ہے اُس کے خرچ پر کرے ،
::: (2)::: اِس کے لیے شرط یہ ہے کہ نیابت میں حج کرنے والا ، یعنی حج بدل کرنے والا اپنا فرض حج کر چکا ہو،
دونوں صورتوں ، اور پہلی صُورت کے دونوں مسائل کے دلائل درج ذیل ہیں :::
::::: (1) ::::::عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما روایت کرتے ہیں کہ :::
""" كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ ، وَجَعَلَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ::: فضل (ابن العباس رضی اللہ عنہما ، ان عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بھائی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ اُن کی سواری پر سوار تھے ، کہ خثعم کی ایک عورت آئی ، تو فضل (رضی اللہ عنہ ُ ) اُس عورت(رضی اللہ عنہا ) کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل (رضی اللہ عنہ ُ ) کی طرف دیکھنے لگی ،
تو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیر دِیا ،
فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِى الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِى شَيْخًا كَبِيرًا ، لاَ يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ ؟
تو اُس عورت (رضی اللہ عنہا) نے کہا """ اے اللہ کے رسول ، اللہ کے بندوں پر اللہ کی طرف سے فرض کیے گئے حج نے میرے والد کو اس بہت بڑھاپے کے حال میں پایا ہے ، میرے والد سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے ، کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ:::جی ہاں )))))،
وَذَلِكَ فِى حَجَّةِ الْوَدَاعِ:::اور یہ واقعہ حج الوادع کے موقع کا ہے """،
مُتفقٌ علیہ،صحیح البخاری /حدیث1513/کتاب الحج/ پہلا باب،صحیح مُسلم /حدیث3315/کتاب الحج/باب71،
::::: (2) :::::: یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک اور واقعہ یُوں روایت فرماتے ہیں کہ :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا ، اور عرض کی """إِنَّ أَبِى شَيْخٌ كَبِيرٌ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟::: میرے والد بڑی عُمر کے بوڑھے ہیں ، کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں ؟"""
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے(انتہائی خوبصورت حِکمت بھرے انداز میں سوالیہ جواب کے طور پر ) اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ أَكَانَ يُجْزِئُ عَنْهُ؟:::جی ہاں ، کیا اگر تمہارے والد پر کوئی قرض ہوتا اور تُم وہ قرض ادا کرتے تو کیا وہ تمہارے والد کی طرف سے ادا نہ ہوتا؟))))) سُنن النسائی/حدیث5413/کتاب آداب القُضاۃ /باب10،
::::: (3) :::::: اور ایک تیسرا واقعہ اس طرح روایت کرتے ہیں کہ:::
""" ایک عورت (رضی اللہ عنہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی """إِنَّ أُمِّى نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ أَفَأَحُجَّ عَنْهَا؟::: میری والدہ نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کریں گی ، لیکن حج کرنے سے پہلے ہی وہ مر گئیں ، کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں ؟"""،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نَعَمْ حُجِّى عَنْهَا ، أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ؟::: جی ہاں ، اپنی والدہ کی طرف سے حج کرو،کیا اگر تمہاری والد پر کوئی قرض ہوتا اور تُم وہ قرض ادا نہ کرتِیں)))))،
اُس عورت نے عرض کیا '"" جی ہاں (ادا کرتی) """،
(تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاقْضُوا الَّذِى لَهُ ، فَإِنَّ اللَّهَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ :::پس جو اللہ کے لیے ہے اُسے ادا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ وفاء کا حقدار ہے)))))صحیح البخاری /حدیث7315/کتاب الاعتصام بالکتاب/باب12،
یہ حدیث شریف نذری حج کے بارے میں ہے ، لیکن اس کو میں نے یہاں اس لیے ذکر کیا ہے اس میں کسی مر چکے ہوئے کی طرف سے حج کرنے کا مسئلہ بیان ہوا ہے ، رہا معاملہ کسی کی طرف سے نذری عبادات کرنے کا تو اس کے بارے میں میری کتاب """ ایصالء ثواب اور اس کی حقیقت """ میں تفصیل بیان کی گئی ہے ،
اس کے بعد ایک اور حدیث پڑھیے جِس میں مرچکی شخصیت کی طرف سے فرض حج کرنے کا مسئلہ بیان ہوا ہے ،
::::: (4) :::::: بریدہ رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ :::
ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ ایک عورت (رضی اللہ عنہا) خدمتء اقدس میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوئی کہ """ إِنِّى تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّى بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ::: میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی صدقہ میں دی تھی ، اور میری والدہ فوت ہوگئیں ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ ::: تمہارا ثواب پکا ہو گیا ، اور تُم اُس لونڈی کو میراث میں واپس لے لو)))))،
(پھر) اُس عورت (رضی اللہ عنہا) نے عرض کیا """ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟::: اے اللہ کے رسول میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے ، کیا میں اُن کی طرف سے روزے رکھوں؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((صُومِى عَنْهَا:::(جی ہاں)اُس کی طرف سے روزے رکھو)))))،
(پھر) اُس عورت (رضی اللہ عنہا) نے عرض کیا """إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟:::میری والدہ نے بالکل کوئی حج نہیں کیا ، کیا میں اُن کی طرف سے حج کروں؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((حُجِّى عَنْهَا:::(جی ہاں)اُس کی طرف سے حج کرو)))))، صحیح مُسلم/حدیث2753/کتاب الصیام/باب27،
اس واقعہ میں فرضی حج کا ذِکر ہے ، رہا معاملہ روزوں کا کہ اس واقعہ میں مذکورروزے نفلی ہیں یا فرضی ، یہ اس مضمون کے موضوع سے متعلق نہیں ، اس کے بارے میں بھی تفصیل میری کتاب """ ایصالء ثواب اور اس کی حقیقت """ میں موجود ہے ،
::::: (5) :::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھُماسے ایک اور واقعہ روایت ہے کہ :::
ایک شخص (رضی اللہ عنہ ُ )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،ا ور عرض کی """ إِنَّ أُخْتِى نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ وَإِنَّهَا مَاتَتْ::: میری بہن نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی لیکن وہ(نذر پوری کرنے سے پہلے ہی) مر گئی """ ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلہ آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟:::اگر تمہاری بہن پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تُم وہ قرض ادا کرتے ؟)))))،
اُس شخص (رضی اللہ عنہ ُ ) نے عرض کی """ جی ہاں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلہ آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَاقْضِ اللَّهَ ، فَهْوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ:::تو پھر اللہ (کے حق)کو ادا کرو، کیونکہ اللہ سب سے زیادہ اس کا حقدار ہے)))))،صحیح البخاری /حدیث6699/کتاب الأیمان و النُذُور /باب30،
::::: (6) :::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھُماسے ہی یہ واقعہ بھی روایت ہے کہ :::
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک شخص (رضی اللہ عنہ ُ ) کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ """لَبَّيْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ ::: میں تیری پکار پر شُبرمہ کی طرف سےحاضر ہوں""" ،
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَنْ شُبْرُمَةَ؟:::شُبرمہ کون ہے؟ )))))،
اُس شخص (رضی اللہ عنہ ُ) نے عرض کی """ أَخٌ لِى أَوْ قَرِيبٌ لِى::: میرا بھائی ہے (یا کہا)میرا قریبی (رشتہ دار ، دوست وغیرہ) ہے """ ،
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا (((((حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ::: کیا تُم نے اپنے لیے حج کر لیا ہے؟)))))،اُس شخص (رضی اللہ عنہ ُ)نے عرض کی """ لاَ::: جی نہیں """ ،
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حکم اِرشاد فرمایا ((((((حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ::: (پہلے)اپنے لیے حج کرو، پھر (اُس کے )بعد شُبرمہ کے لیے حج کرو)))))،
اس واقعہ میں بھائی یا کسی قریبی کے لیے حج بدل کرنے کی اجازت دی گئی لیکن یہ شرط عائد کی گئی کہ حج بدل کرنے والا پہلا اپنا فرض حج کرے ،
اِس مضمون میں چونکہ صرف فرضی یا نذر مانے ہوئے حج کے بدل حج کے بارے میں بات کرنا مقصود ہے لہذا اسی موضوع تک محدود رہتے ہوئے گذارش ہے کہ ابھی ابھی بیان کردہ احادیث شریفہ کی روشنی میں ، آغاز میں ذِکر کی گئی دونوں صورتوں اور دونوں میں سے پہلی صورت کے دونوں مسائل کے دلائل میسر ہوئے ، وللہ الحمد ،
ان احادیث مبارکہ میں سے کسی بھی طور کسی دوسرے ، زندہ یا مُردہ شخص کے لیے کوئی نفلی عبادت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ، لہذا حج بدل کو """ ایصالء ثواب """کے اجازت شدہ طریقوں میں شامل نہیں کیا جا سکتا ،
آغاز میں کہی ہوئی تین باتوں کو یاد دہانی کے طور پر دہراتے ہوئے میں اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں :::
:::: (1) ::: سب سے پہلی بات تو اچھی طرح سے سمجھنے والی یہ ہے کہ حج بدل ، جسے حج نیابت بھی کہا جاتا ہے ، وہ حج ہوتا ہے جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا نائب بن کر ، اُس کی نیابت کرتے ہوئے اُس دوسرے شخص کی طرف سے کرتا ہے ،
:::: (2) ::: اِس عمل میں""" ایصالء ثواب """والا کوئی معاملہ نہیں ، بلکہ حج بدل کسی کی نیابت کرتے ہوئے اُس کی ایک ایسی ذمہ داری پورا کرنا ہوتا ہی جو وہ خود کسی مقبول شرعی عُذر کی بنا پر پوری نہیں کر سکتا ، یا پوری کرنے سے پہلےمر گیا،
جبکہ ایصال ء ثواب اپنے کسی عمل کا ثواب کسی دوسرے کے کھاتے میں بھی شامل کیا جانا ہوتا ہے ،
اور دوسری بات یہ کہ فرض حج خواہ وہ اسلام کا فرض حج ہو ، یا نذر مان کر خود پر فرض کیا ہو حج ہو ، اورصدقہ کرنے کے علاوہ کوئی بھی شخص کسی کی طرف سے کوئی عبادت کرنے کی ہمیں اللہ کی کتاب یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ سے کوئی دلیل میسر ہے ، اور نہ ہی کسی ایک کی کسی عبادت کا کسی دوسرے کو کوئی ایصال ء ثواب ہوتا ہے،
:::: (3) ::: اور تیسری بات یہ کہ حج کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کا قرض ، اور اللہ کا حق قرار دیا ہے ، لہذاکسی کے ذمے میں رہ جانے والا فرض حج ادا کرنا اُس کے ذمے واجب الاداء قرض ادا کرنے کے زمرے میں آتا ہے ۔ والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ،
 
Top