حجِ اکبر از سعادت حسن منٹو

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رضوان

محفلین
امتياز اور صغير کي شادي ہوئي۔ تو شہر بھر ميں دھوم مچ گئي، آتش بازيوں کا رواج باقي نہيں رہا تھا مگر دولہے کے باپ نے اس پراني عياشي پر بے دريغ روپيہ صرف کيا۔
جب صغير زيوروں سے لدے پھندے سفيد براق گھوڑے پر سوار تھا تو اس کے چاروں طرف انار چھوٹ رہے تھے، مہتابياں اپنے رنگ برنگ شعلے بکھير رہي تھيں، پٹاخے چھوٹ رہے تھے، صغير خوش تھا۔
صغير نے امتياز کو ايک شادي کي تقريب ميں ديکھا تھا۔ اس کي صرف ایک جھلک اسے دکھائي دي تھي، مگر وہ اس پر سو جان سے فريفتہ ہوگيا، اور اس نے دل ميں عہد کرليا کہ وہ اس کے علاوہ کسي کو اپني رفيقہ حيات نہيں بنائے گا، چاہے دنيا ادھر کي ادھر نہ ہوجائے، دنيا ادھر کي ادھر نہ ہوئي، صغير نے امتيازسے ملنے کے راستے ڈھونڈ لئے شروع شروع ميں اس خوبرو لڑکي کے حجاب آڑے آيا، ليکن بعد ميں صغير کو اس کا التفات حاصل ہوگيا۔
صغير بہت مخلص دل کا نوجوان تھا، اس ميں ريا کاري نام کو بھي تھي، اس کو امتياز سے محبت ہوگئي تو اس نے يہ سمجھا کہ اسے اپني زندگي کا اصل مقصد حاصل ہوگيا، اس کو اس بات کي کوئي فکر نہيں تھي کہ اميتاز اسے قبول کرے گي يا نہيں وہ اس قسم کا آدمي تھا کہا اپني محبت کے جذبے کے سہارے ساري زندگي بسر کرديتا، اس کو جب اميتاز سے پہلي بار بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے گفتگو کي ابتدا ہي ان الفاظ سے کي“ ديکھو لالي، ميں ايک نا محرم آدمي ہوں، ميں نے مجبور کياہے تم مجھ سے ملو، اب اس ملاپ کا انجام بھي نيک ہونا چاہئيے۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔اور خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارے علاوہ اور کوئی عورت زندگی میں نہیں آئے گی۔ يہ ميرے ضمير اور دل کي اکھٹي آواز ہے۔ تم بھي وعدہ کرو کہ جب تک ميں زندہ ہو مجھے کوئي آزار نہيں پہنچاؤ گي اور ميري موت کے بعد بھي مجھے ياد کرتي رہو گي، اس لئے کہ قبر ميں بھي ميري سوکھي ہڈياں تمہارے پيار کي بھوکيں ہوں گي۔“
امتياز نے دھڑکتے ہوئے دل سے وعدہ کيا کہ وہ اس عہد پر قائم رہے گي، اس کے بعد ان دونوں ميں چھپ چھپ کے ملاقاتيں رہيں، صغير مطمئن تھا کہ امتياز اس کي محبت کي دعوت قبول کر چکي ہے، اس لئے اب اور زيادہ گفتگو کرنے کي ضرورت تھي، ويسے وہ بھي اپني محبوبہ سے ملنا اس لئے ضروري سمجھتا تھا کہ وہ اس کے عادات و خصائل سے واقف ہوجائے اور وہ بھي اس کو اچھي جان پہچان لے تاکہ وہ اس عادات کا اندازہ کرسکے اور اس کو شکايت کا کوئي موقع نہ دے-
اس نے ايک دن امتياز سے بڑے غير عاشقانہ انداز ميں کہا “ تازي ميں اب بھي تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم نے مجھ ميں کوئي خامي ديکھي ہے اگر ميں تمہارے معيار پر پورا نہيں اترا تو مجھے سے صاف صاف کہہ دو، تم کسي بندھن ميں گرفتار نہيں ہو، تم مجھے دھتکار دو تو مجھے کوئي شکايت نہيں ہوگي، ميري محبت ميرے لئے کافي ہے، ميں اس کے اور ان ملاقاتوں کے سہارے کافي دير تک جي سکتا ہوں۔“
امتياز اس سے بہت متاثر ہوئي اس کا جي چاہا کہ صغير کو اپنے گلے سے لگا کر رونا شروع کردے مگر وہ اسے نا پسند کرتا تھا۔ اس لئے اس نے اپنے جذبات اند ہي مسل ڈالے، وہ چاہتي تھي کہ صغير اس سے فلسفیانہ باتيں نہ کرے، ليکن کبھي کبھي اس طور پر بھي اس سے پيش آئے، جس طرح فلموں ميں ہيرو اپني ہيروئن سے پيش آتا ہے ، مگر صغير کو ايسي عاميانہ حرکت سے نفرت تھي۔
بہر حال ان دونوں کی شادی ہو گئی۔
پہلي رات کو حجلہ عروسی ميں جب صغير داخل ہوا تو اميتاز چھينک مار رہي تھي، وہ بہت متفکر ہوا امتياز کو بلا شبہ زکام ہو رہا تھا ليکن وہ نہيں چاہتي تھي کہ اس کا خاوند اس معمولي سے عارضے کي طرف متوجہ ہو کر اس کي تمام امنگوں کو فراموش کردے وہ سرتاپا سپردگي تھي مگر صغير کو اس بات کي تشويش تھي کہ امتياز اس کي جان سے زيادہ عزيز ہستي عليل ہے۔ چنانچہ اس نے فورا ڈاکڑ بلوايا۔ جو دوائياں اس نے تجويز کيں بازار سے خريد کر لايا، اور اپني نئي دلہن کو جس کو ڈاکڑ کي آمد سے کوئي دلچسپي تھي نہ اپنے خاوند کي تیمارداري سے، مجبور کيا کہ وہ انجکشن لگوائے اور چار چار گھنٹے کے بعد دوا پئے۔
زکام کچھ شديد قسم کا تھا اس لئے چار دن اور چار راتين صغير اپني دلہن کي تيمارداري ميں مصروف رہا، اميتاز چڑ گئي، وہ جانے کيا سوچ کر عروسي جوڑا پہن کر صغير کے گھر آئي تھي، مگر وہ بے کار، اس کے زکام کو درست کرنے کے پيچھے پڑا ہوا تھا، جيسے دلہا دلہن کيلئے بس ايک يہي چيز اہم ہے باقي اور باتيں سب فضول ہيں۔
تنگ آ کر ايک دن اس نے اپنے ضرورت سے زيادہ شريف شوہر سے کہا، آپ چھوڑئيے ميرے معالجے کو، ميں اچھي بھلي ہوں، پھر اس نے دعوت بھري نگاہوں سے اس کي طرف ديکھا ميں دلہن ہوں آپ کے گھر آئي ہوں، اور آپ نے اسے اسپتال بناديا ہے“ صغير نے بڑے پيار سے دلہن کا ہاتھ دبايا اور مسکرا کر کہا، تازي خدا نہ کرے کہ يہ کوئي اسپتال ہو، يہ ميرا گھر نہيں تمہارا گھر ہے،
اس کے بعد امتياز کو جو فوري شکايت تھي وہ دور ہوگئي، اور شير و شکر ہو کر رہنے لگے صغير اس سے محبت کرتا تھا ليکن اس کو ہميشہ امتياز کي صحت اس کے جسم کي خوبصورتيوں اور اس کو ترو تازہ ديکھنے کا خيال رہتا تھا، وہ اسے کانچ کے نازک پھولدان کي طرح سمجھتا تھا، جس کے متعلق ہر وقت يہ خدشہ ہو کہ ذرا سي بے احتياطي سے ٹوٹ جائے گا، امتياز اور صغير کا رشتہ دوہرا تھا دو بھائي اصغر حسين اور امجد حسين تھے، کھاتے پيتے تاجر، صغير بڑے بھائي اصغر حسين کا لڑکا تھا اور امتياز امجد حسين کي بيٹي تھي، اب يہ دنوں مياں بيوي تھے، شادي سے پہلے دونوں بھائيوں ميں کچھ اختلافات تھے جو اب دور ہوگئے۔
امتياز کي دو بہنيں اور تھيں اور جو اس پر جان چھڑکتي تھيں، امتياز کا بياہ تو ہوا ان دونوں کي باري قدرتي طور پر آگئي، وہ اپنے گھروں ميں آباد خوش تھيں، کبھي کبھي امتياز سے ملنے آتيں، اور صغير کے اخلاق سے متاثر ہوتيں ان کي نظر ميں وہ آئيڈيل شوہر ہے۔
دو برس گزر گئے امتياز کے ہاں کوئي بچہ نہ ہوا دراصل چاہتا تھا کہ اتني چھوٹي عمر ميں وہ اولاد کے بکھيڑوں ميں نہ پڑے، ان دونوں کے دن کے ابھي کھيلنے کودنے کے تھے، صغير ہر روز اسے سينما لے جاتا باغوں کي سیر کراتا، نہر کے کنارے کنارے اسکے ساتھ چہل قدمي کرتا، اس کي ہر آسائش کا اسے خيال تھا، بہترين کھانے، اچھے سے اچھا باورچي اگر امتياز کبھي باورچي خانے کا رخ کرتي تو وہ اسے کہتا “تازي انگھيٹوں ميں پتھر کے کوئلے جلتے ہيں، ان کي بو بہت بري ہوتي ہے، اور صحت کيلئے نا مفيد، ميري جان تم اندر نہ جايا کرو، دو نوکرہيں، کھانے پکانے کا کام جب تم نے ان کے سپرد کر رکھا ہے تو اس زحمت کي کيا ضرورت ہے، امتياز مان جاتي۔
سرديوں ميں صغير کا بڑا بھائي اکبر جو نيروبي ميں ايک عرصہ سے مقيم تھا اور ڈاکڑ تھا کسي کام کے سلسلے ميں کراچي آيا ہوا تھا تو اس نے سوچا کہ چلو لاہور صغير سے مل آئيں بذريعہ ہوائي جہاز لاہور پہنچا اور اپنے چھوٹے بھائي کے پاس ٹہرا، وہ صرف چار روز کيلئے آيا کہ ہوائي جہاز ميں اس کي سيٹ پانچويں دن کي بک تھي، مگر جب اس کي بھابي نے جو اس کي آمد پر خوش ہوئي تھي، اصرار کيا تو چھوٹے بھائي صغير نے اس سے کہا، بھائي جان آپ اتني دير کے بعد آئے ہيں کچھ دن اور ٹھہر جائيے، ميري شادي ميں آپ شريک نہ ہوئے تھے جتنے آپ فالتوں ٹہريں گے اتنا جرمانہ سمجھ ليجے گا،

امتياز مسکرائي اور اکبر سے مخاطب ہوئي“ اب تو آپ کو ٹہرنا ہي پڑے گا---------- اور پھر مجھے آپ نے شادي پر کوئي تحفہ بھي تو نہيں ديا، ميں جب تک وصول نہيں کرلوں گي آپ کيسے جاسکتے ہيں اور آپ کو ميں جانے بھي کب دوں گي۔“
دوسرے روز اکبر اس کو ساتھ لے گيا اور سچے موتيوں کا ايک ہار لے ديا، صغير نے اپنے بڑے بھائي کا شکريہ ادا کيا، اس لئے کہ ہار بہت قيمتي تھا کم از کم پانچ ہزار کا ہوگا ہي، اسي دن اکبر نے واپسي نيروبي جانے کا ارادہ ظاہر کيا اور صغير سے کہا کہ وہ ہوائي جہاز ميں اس کے ٹکٹ کا بندوبست کردے اس لئے کے اس کي لاہور شہر ميں کافي واقفيت تھي اکبر نے اس کو روپے دئيے مگر اس نے برخوردرانہ انداز ميں کہا، آپ ابھي اپنے پاس رکھئے ميں لے لوں گا، اور ٹکٹ کا بندوبست کرنے چلا گيا، اسے کوئي دقت نہ ہوئي اس لئے کہ ہوائي جہاز سروس کا ايک جنرل مينيجر اس کا دوست تھا اس نے فورا ٹکت لے ديا، صغير کچھ دير اس کے ساتھ بيٹھا گپ لڑا تا رہا اس کے بعد گھر کا رخ کيا، موٹر گيراج ميں بند کرکے وہ اندر داخل ہوا ليکن فورا باہر نکل آيا، گراج سے موٹر نکالي اور اس ميں بيٹھ کے جانے کہاں روانہ ہو گيا، اکبر اور امتياز دير تک اس کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آيا انہوں نے موٹر کے آنے اور گيراج ميں بند ہونے کي آواز سني تھي، مگر انہوں نے سوچا کہ شايد ان کے کانوں کو دھوکا ہوا تھا، اس لئے کہ صغير موجود تھا نہ اس کي موٹر وہ غائب ہو گيا تھا؟ اکبر کو واپس جانا تھا، مگر اس نے ايک ہفتہ انتظار کيا ادھر ادھر کئي جگہ پوچھ گچھ کي پوليس ميں رپورٹ لکھوائي مگر صغير کي کوئي سن گن نہ ملي، آخري دن جب کہ اکبر جا رہا تھا پوليس اسٹيشن سے اطلاع ملي کہ پي بي ايل 1059 نمبر کي موٹر کار جس کے ايک خانے ميں صغير اختر کے نام کا لائسنس نکلا ہے، ہوائي اڈے کے باہر کئي دنوں سے پڑي ہے، دريافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اکبر امجد حسين نام کے ايک آدمي نے آٹھ روز پہلے ہوائي جہاز ميں نيروبي کا سفر کيا ہے، اکبر کي سيٹ نيروبي کيلئے بک تھي امتياز سے رخصت لے کر جب وہ کینيا پہنچا تو اسے بڑي مشکلوں کے بعد صرف اتنا پتہ ايک صاحب جن کا نام اکبر امجد تھا ہوائي جہاز کے ذريعے سے يہاں پہچنے تھے ايک ہوٹل ميں دور روز ٹہرے اس کے بعد چلے گئے۔
اکبر نے بہت تلاش کي مگر کوئي پتہ نہ چلا اس دوران ميں اس کو امتياز کے کئي خطوط آئے، پہلے دو تين خطوں کي تو اس نے رسيد بھيجي اس کے بعد جو بھي خط آيا پھاڑديتا تاکہ اس کي بيوي نہ پڑھ لے، دس برس گزر گئے امجد حسين يعني امتياز کا باپ بہت پريشان تھا، بہت لوگوں کا خيال تھا کہ صغير مر کھپ چکا ہے مگر امجد حسين کا دل نہيں مانتا تھا۔
کہيں اس کي لاش ہي مل جاتي، خود کشي کرنے کي کيا وجہ ہوسکتي ہے؟ بڑا نيک ، شريف اور برخوردار لڑکا تھا، امجد کو اس سے بہت محبت تھي، ايک ہي بات اس کي سمجھ ميں آئي تھي کہ اس کي بيٹي امتياز نے کہيں اس جيسے ذکي الحس آدمي کو ایسی ٹھيس نہ پہنچائي ہو کہ وہ دل شکستہ ہو کر کہيں رو پوش ہو گيا ہے، چنانچہ اس نے امتياز سے کئي مرتبہ اس بارے ميں پوچھا مگر وہ صاف منکر ہوگئي، خدا اور رسول کي قسميں کھا کر اس نے اپنے باپ کي تشفي کردي، کہ اس سے اسي کوئي حرکت سرزد نہيں ہوئي اکثر اوقات وہ روتي تھي، اس کو صغير ياد آتا تھا، اس کي نرم و نازک محبت ياد آتي تھي، اس کو وہ دھيما دھيما نيسم سحري کا سلوک ياد آتا تھا، جو اس کي فطرت تھي،
امجد کا ايک دوست حج کو گيا، واپس آيا تو اس نے اس کو يہ خوشخبري سنائي کہ صغير زندہ ہے اور ايک عرصے سے مکے ميں مقيم ہے امجد حسين کو ہوش ہوا، اس کو اس کے دوست نے صغير ہندي کا پتا ديا تھا، اس نے اپني بيٹي کو تيار کيا کہ وہ اس کے ساتھ حجاز چلے، فورا ہوائي جہاز کا سفر کا انتظام کيا، امتياز ساتھ جانے کو تيار نہ تھي، اس کو جھجھک سي محسوس ہو رہي تھي۔
بہر حال باپ بيٹی سرزمين حجاز ميں پہنچے، ہر مقدس مقام کي زيارت کي، امجد حسين نے ايک ايک کونہ چھان مارا مگر صغير کا پتہ نہ چلا، چند آدميوں سے جو اس کو جانتے تھے، صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ آپ کي آمد سے دس روز پہلے، کيونکہ اسے کسي نہ کسي طريق معلوم ہوچکا تھا، کہ آپ تشريف لارہے ہيں، کھڑکي سے کودا اور گر کر ہلاک ہوگيا، مرنے سے پہلے چند لمحات اس کےہونٹوں پر ايک لفظ کانپ رہا تھا غالبا امتياز تھا۔
اس کي قبر کہاں ہے وہ کب اور کيسے دفن ہوا اس کے متعلق صغير کے جاننے والوں نے کچھ نہ بتايا، يہ ان کے علم ميں نہيں تھا، امتياز کو يقين ہوگيا کہ اس کے خاوند نے خودکشي کر لي ہے، اس کو شاید اس کا سبب معلوم تھا، مگر اس کا باپ يہ ماننے سے يکسر منکر تھا، چنانچہ اس نے ايک بار اپني بيٹي سے کہا “ميرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے، وہ تمہاي محبت کي خاطر اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک خدا اس کو موت کے فرشتے کے حوالے نہ کردے، ميں اس کو اچھي طرح سمجھتا تمہاري جگہ اگر وہ ميرا بيٹا ہوتا تو ميں خود کو دنيا کا سب سے خوش نصيب انسان سمجھتا“ يہ سن کر امتياز خاموش رہي۔
دونوں سرزمين حجاز سے بے نيل و مرام واپس آگئے، ايک برس گزر گيا، اس دوران ميں امجد حسين بڑي مہلک بيماري يعني دل کے عارضے ميں گرفتار ہوا اور وفات پاگيا، مرتے وقت اس نے اپني بيٹي کو کچھ کہان چاہا مگر وہ شايد بڑي اذيت دہ تھي کہ وہ خاموش رہا اور صرف سرزنس بھري نگاہوں سے امتياز کو ديکھتے ديکھتے مر گيا، اس کے بعد امتياز اپني بہن ممتاز کے پاس راولپنڈي چلي گئي، ان کي کوٹھي کے سامنے ايک اور کوٹھي تھي، جس ميں ايک ادھيڑ عمر کا مرد بہت تھکا تھکا سا دکھائي ديتا تھا، دھوپ تاپتا اور کتابيں پڑھتا رہتا تھا، ممتاز اس کو ہر روز ديکھتي، ايک دن اس نے امتياز سے کہا، مجھے ايسا معلوم ہوتا ہے يہ صغير ہے، کيا تم نہيں پہچان سکتي ہو، وہ ناک نقشہ متانت وہي سنجیدگي، امتياز نے اس آدمي کي طرف غور سے ديکھا ايک دم چلائي ہاں ہاں وہي ہے پھر فورا رک گئي، ليکن وہ کيسے ہوسکتے ہيں وہ تو وفات پاچکے ہيں۔
انہيں دنوں ان کي چھوٹي بہن شہناز بھي آگئي ممتاز اور امتياز نے ان کو قبل از وقت مرجھايا اور افسردہ مرد دکھايا جس کي داڑھي کچھڑي تھي، اور اس سے پوچھا تم بتاؤ اس کي شکل صغير سے ملتي ہے يا نہيں؟ شہناز نے اس کو بڑي گہري نظروں سے ديکھا اور فيصلہ کن لہجے ميں کہا، شکل ملتي کيا ہے يہ خود صغير ہے سوفي صدي صغير اور يہ کہہ کہ وہ سامنے والي کوٹھي ميں داخل ہوگئي وہ شخص کتاب پڑھنے ميں مشغول تھا چونکا، شہناز جس نے شادي کے موقع پر اس کي جوتي چرائي تھي، اسي پرانے انداز ميں کہا، جناب آپ کب تک چھپے رہيں گے؟
اس شخص نے شہناز کي طرف ديکھا اور بڑي سنجيدگي اخيتار کرتے ہوئے پوچھا آپ کون ہيں؟
شہناز طراز تھي اس کے علاوہ اس کو يقين تھا کہ جس سے وہ ہم کلامي ہے وہ اس کا بہنوئي ہے چناچہ اس نے بڑے نوکيلے لہجے ميں کہا جناب ميں آپ کي سالي شہناز ہوں، اس شخص نے شہناز کو سخت نا اميد کيا اس نے کہا، مجھے افسوس ہے کہ آپ کو غلط فہمي ہوئي ہے، اس کے بعد شہناز نے اور بہت سے باتيں کيں مگر اس نے بڑے ملائم انداز ميں اس سے جو کچھ کہا، اس کا يہ مطلب تھا کہ تم ناحق اپنا وقت ضائع کر رہي ہو، ميں تمہيں جانتا ہوں نہ تمہاري بہن کو جس کے متعلق تم کہتي ہو کہ ميري بيوي ہے، ميري بيوي میری اپني زندگي ہے اور ميں ہي اس کا خاوند ہوں۔
شہناز اور مہناز نے لاکھ سر پٹکا۔ مگر وہ شخص جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا مانتا ہی نہیں تھا کہ صغیر ہے۔ اس کو کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی سوائے کتابوں کے۔
شہناز اور ممتاز کو معلوم ہوگيا تھا کہ وہ امتياز کے متعلق تمام معلومات حاصل کرتا ہے، ان کو يہ بھي پتہ چل گيا تھا کہ اس پر اسرار مرد کے نوکر کے ذريعے سے کہ وہ راتوں کو اکثر روتاہے نمازيں پڑھتا ہے اور دعائيں مانگتا ہے کہ زندہ رہے وہ چاہتا ہے کہ اس کو جو اذيت پہنچي ہے اس سے دير تک لطف اندوز ہوتا رہے،۔
نوکر حيران تھا کہ انسان کي زندگي ميں ايسي کون سي تکليف ہوسکتي ہے، جس سے وہ لطف اٹھا سکتا ہے، سب باتيں امتياز سنتي تھي اور اس کے دل ميں يہ خواہش پيدا ہوئي تھي کہ مرجائے، چنانچہ اس نے جب يہ سنا کہ وہ شخص جس کو امتياز اچھي طرح پہچانتي تھي، اس کے نام سے قطعاً نا آشنا ہے تو اس نے ايک روز افيم کھالي اور يہ ظاہر کيا کہ اس کے سر ميں درد ہے اور اکيلي آرام کرنا چاہتي ہے، وہ آرام کرنے چلي گئي ليکن شہناز نے جب اس کو غنودگي کے عالم ميں ديکھا تو اسے شبہ ہوا اس نے ممتاز سے بات کي، اس کا ماتھا بھي ٹھنکا کمرے ميں جاکر ديکھا تو امتياز بالکل بے ہوش پڑي تھي، اس کو جھنجھوڑا مگر نہ جاگي شہناز دوڑي دوڑي سامنے کوٹھي ميں گئي اور اس شخص جس کا نام راولپنڈي ميں کسي کو معلوم نا تھا، سخت گھبراہٹ ميں يہ اطلاع دي کہ اس کي بيوي نے زہر کھا ليا ہے، اور مرنے کے قريب ہے، يہ سن کر اس نے اتنا کہا آپ کو غلط فہمي ہے وہ ميري بيوي نہيں ہے، ليکن ميرے ہاں اتفاق سے ايک ڈاکڑ آيا ہوا ہے، آپ چليئے ميں اسے بھيج ديتا ہوں۔
شہناز گئي تو وہ اندر کوٹھي ميں گيا اور اپنے بھائي اکبر سے کہا، يہ جو کوٹھي سامنے ہے اس ميں کسي عورت نے زہر کھا ليا ہے، بھائي جان آپ جلدي سے جائيے، اور کوشش کيجئے کہ بچ جائے، اس کا بھائي جو نيروبي ميں بہت بڑا ڈاکٹر تھا امتياز کو نہ بچاسکا دونوں نے ايک دوسرے کو ديکھا تو اس کا رد عمل بہت مختلف تھا، امتياز فورا مر گئي اور اکبر اپنا بيگ لے کر واپس چلا گيا، صغير نے اس سے پوچھا کيا حال ہے مريضہ کا؟
اکبر نے جواب ديا مرگئي، صغير نے اپنے ہونٹ بھينچ کر بڑے مضبوط لہجے ميں کہا “ميں زندہ رہوں گا“
ليکن ايک دم سنگين فرش پر لڑکڑانے کے بعد گرا اورجب اکبر نے اس کي نبض ديکھي تو وہ ساکت تھي۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top