حاصل مطالعہ: روحِ انقلاب محمدی

ابوشامل

محفلین
انسانیت کی شاید سب سے بڑی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ جس کسی کو بھی برسر قوت آنے کا موقع تاریخ میں ملا ہے۔ تلوار کے زور سے، سازش کے بل پر، جمہوری انتخاب کے راستے سے یا کسی اتفاقی حادثے کے تحت – اسی کو اپنے متعلق یہ زعم ہو گیا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کا معلم اور زندگی کا مصلح بھی ہے۔ ایسے مصلحین و معلمین کے ہاتھوں میں جب اقتدار کا لٹھ آتا ہے تو وہ عقلِ کُل بن بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بہترین مفکر سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ہر سر چشمۂ علم سے بے نیاز ہو کر اور معاشرہ کے بہترین زیرک اور حساس عناصر کو برطرف رکھ کر اندھا دھند محیر العقول اقدامات کرنے لگتے ہیں جن میں سے ہر اقدام ایک خوف ناک حادثہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ تشدد کے ہتھیاروں سے انسان کو انسان بنانا چاہتے ہیں اور زندگی کی پیٹھ پر کوڑے برسا برسا کر اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ بسا اوقات اصلاح و انقلاب کے ایسے مدعیوں کو سرے سے انسان کی فطرت کا پتہ نہیں ہوتا۔ انہیں زندگی کے بناؤ اور بگاڑ کے موجبات کا مبتدیانہ علم بھی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کبھی یہ کاوش ہی نہیں کی ہوتی کہ انسان کو انسانیت سکھانے کے صحیح طریقے کیا ہیں اور بگاڑ کا سرچشمہ کہاں واقع ہے اور اس کی اصلاح کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے اور اس کی تکمیل کہاں جا کے ہوتی ہے۔ وہ سابق تجربات سے فائدہ اٹھائے بغیر اپنا تجربہ الف با سے شروع کرتے ہیں۔ وہ مشورہ و تنقید کے دروازے بند کر دیتے ہیں تاکہ ان کا کوئی خیر خواہ اور انسانیت کا کوئي محب ان کے مہلک تجربہ کی تکمیل میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ ان کے پاس ہر درد کی ایک ہی دوا ہوتی ہے۔ جبر و تشدد! سخت ترین قوانین بنانا، نت نئے کڑے احکام جاری کرنا، عوام الناس کے چاروں طرف قدغنیں کھڑی کر دینا اور پھر ان کی تواضع بار بار اپنے غیظ و غضب کے تازیانے سے کرتے رہنا۔

محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو انقلاب برپا کیا اس کی روح تشدد کی روح نہ تھی، محبت و خیر خواہی کی روح تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) انسانیت کے لیے حد درجہ رحم دل تھے اور ابنائے آدم کے ساتھ آپ کو سچا پیار تھا۔ اپنی دعوت کی نوعیت کو آپ نے مثال دے کر سمجھایا کہ

تم لوگ پروانوں کی طرح آگ کے گڑھے کی طرف لپکتے ہو اور میں تم کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کر رہا ہوں (حوالہ: ریاض الصالحین، باب السادس عشر۔ روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ)
قرآن نے اسی لیے آپ کو پیغامبر رحمت قرار دیا۔ ذرا اس حقیقت پر غور کیجیے کہ وہ ہستی اتنا عظیم انقلاب لاتی ہے مگر تشدد سے کام لینے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی، مدینہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دس سالہ زندگی میں سنگین درجے کی ایمرجنسی کے زیر سایہ رہا ہے۔ ہر آن حملے کا خطرہ رہتا۔ قریش نے تین بار بڑے بڑے حملے کیے، چھوٹی چھوٹی جھڑپوں اور سرحدی آویزشوں کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ متفرق قبائل مدینہ پر دھاوا بولنے کے لیے کبھی اِدھر سے سر اٹھاتے کبھی اُدھر سے، بار بار طلایہ گردی کرنے اور فتنوں کی سرکوبی کے لیے مدینہ سے فوجی دستوں کی ترسیل ہوتی۔ راتوں کو فوجی پہرہ لگایا جاتا۔غرضیکہ ایک جنگی کیمپ کی سی زندگی تھی۔ اس پر مستزاد یہود اور منافقین کی سازشیں تھیں — جنگ کی سازشیں اسلامی معاشرہ کو پھاڑ دینے اور مختلف عناصر کو ٹکرا دینے کی سازشیں، حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قیادت کو ناکام کرنے کی سازشیں، اور پھر اس زندگی بخش ہستی کو قتل کر دینے کی سازشیں، ایمرجنسی کا اس سے بڑھ کر اور کیا عالم ہو سکتا ہے۔ مگر حضور نے (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ کبھی اپنے لیے کوئی مستبدانہ اختیار حاصل کیا، نہ کوئی ہنگامی آرڈیننس جاری کیا، نہ کوئی جابرانہ ایکٹ نافذ کیا، نہ کسی ایک فرد کو نظر بندی میں ڈالا، نہ کوئی ہنگامی عدالتیں بٹھائیں، نہ تازیانے برسا کر لوگوں کی کھال ادھیڑی، نہ جرمانے اور تاوان ڈالے، نہ کسی شہری پر کوئی بار خدائی قانون سے تجاوز کر کے ڈالا، نہ اختلاف اور تنقید کا حق سلب کیا، نہ کسی کی زباں بندی کی اور نہ کسی پر پابندی عائد کی۔ حتٰی کہ عبد اللہ بن ابی جیسے فتنہ پرداز تک سے کوئی تعرض نہ کیا۔ سارا دار و مدار اپنی دعوت کی صداقت اور اپنے کردار کی پاکیزگی پر رکھا۔ کبھی کسی پر دھونس نہیں جمائی، کبھی رعونت نہیں دکھائی، کبھی کسی کی انسانیت کی تحقیر نہیں کی۔ کبھی اکڑفوں سے کام نہیں لیا بلکہ دوسرے کی — جو درحقیقت کمزور اور بے بس تھے — رعونتوں کو صبر سے برداشت کیا۔ یہی وجہ تھی کہ دشمنوں کے دل مسخر ہو جاتے تھے۔ ساتھ آنے والے دیدہ و دل فرش راہ کرتے تھے۔ مخالفت کرنے والے اپنے آپ کو پست اور ذلیل محسوس کرتے تھے اور پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت و شرافت کے آگے سر جھکا دیتے تھے تو ان میں ایسی تبدیلی آتی تھی کہ گویا کایا کلپ ہو گئی۔

حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سینے میں خدا کی جو محبت کار فرما تھی اسی کا دوسرا روپ یہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) انسانیت سے گہری محبت رکھتے تھے۔ اس محبت انسانی کا اگر ہم اندازہ کرنا چاہیں جو محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سینے میں کار فرما تھی تو ہم اس واقعہ سے کر سکتے ہیں کہ وہی مکہ جس کے باسی جنگ کی تلوار لیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابلے میں کھڑے تھے۔ ان پر قحط کا زمانہ آتا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) غلہ کی رسد جاری کراتے ہیں اور اسی شہر کے غرباء کے لیے پانچ سو اشرفی نقد بھجواتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت انسانی کا اندازہ ہم اس واقعے سے بھی کر سکتے ہیں کہ بدر کے قیدیوں کی کراہیں گوش مبارک تک پہنچیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نیند اڑ گئی اور آپ اس وقت تک آرام سے نہ سو سکے جب تک ان کے بندھن ڈھیلے کر کے انہیں آرام نہ پہنچا دیا گیا۔ آپ کی محبت انسانی کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ بنو ہوازن کے چھ ہزار قیدی ایک اپیل پر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارے سے رہا کر دیے جاتے ہیں اور پھر آپ کی محبت انسانی کا اندازہ کرنا ہو تو فتح مکہ کے موقع پر اس کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھیے۔ انسانیت کا محسن (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ میں کامل فاتحانہ شان سے داخل ہوتا ہے اور اس کے خلاف بیس برس تک لڑنے والے دشمن اس کے سامنے بے بس ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرا ہوتا تو ایک ایک واقعہ کا انتقام لیتا۔ قتل عام کا حکم جاری کرتا اور خون کی ندیاں بہا دیتا کشتوں کے پشتے لگائے بغیر نہ ٹلتا۔ وہ لوگ عرفاً قانوناً اخلاقاً ہر لحاظ سے مجرم تھے اور دین و سیاست دونوں پہلوؤں سے گردن زدنی۔ مگر اس لمحے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت انسانی ابھرتی ہے اور قریش کے مظالم کی ساری تاریخ پر خط عفو پھیر کر کہتی ہے کہ “لا تثریب علیکم الیوم اذھبو فانتم الطلقاء” (آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم آزاد ہو) الٹا ان کی تالیف قلب کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کو مال و دولت عطا کرتے ہیں اور ان کو ذلیل اور مسترد کرنے کے بجائے ان کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں اور گلے لگا لیتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) پر یہ حقیقت روشن تھی کہ جو انقلاب انتقام پر اتر آتا ہے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے اور جو انقلاب عفو اور دلبری سے کام لیتا ہے وہ دشمنوں کو رام کرتا ہے اور مزاحمت کرنے والوں کو خادم بنا لیتا ہے۔

یہ قریش کا ذوق تشدد تھا جس کے تحت انہوں نے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مجبور کر دیا کہ ان کی تیغ خون آشام کی دھار توڑ دی جائے اور جنگ کے سر آ پڑنے پر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نظام حق کے بچاؤ میں پوری طرح بازی لگا دی۔ مگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت انسانی نے جنگی پالیسی اور دفاعی تدابیر ایسی نکالیں کہ کم سے کم جانی نقصان ہو اور کم سے کم خون بہے، نیز حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کڑا اہتمام کیا کہ میدان جنگ میں بھی انسانیت کا احترام برقرار رہے۔

محبت انسانی کی ایسی روشن اور وسیع مثال کسی دوسرے انقلاب میں نہیں ملتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا انقلاب خالص تعلیمی انقلاب تھا اور اس کی اساس بنی آدم کی خیر خواہی پر تھی۔ (اقتباس: “محسن انسانیت” از نعیم صدیقی)
 

مغزل

محفلین
بہت خوب ۔۔ رات مجھے ایک کتاب میسر آئی ’’ کردار کی دیمک ‘‘
بجلی اجازت دے تو حاضر کرتا ہوں۔۔
 
Top