حادثہ تھا کوئی ہو گیا --- غزل برائے اصلاح

شام

محفلین
حادثہ تھا کوئی ہو گیا​
وہ ہمیں مل کے اب کھو گیا​
چار سو پھیلا اندھیرا ہے​
اپنا چاند کہاں سو گیا​
عشق کی راہ پرخار ہے​
ڈگمگایا جو سو وہ گیا​
فطرتِ انساں شاید ہے یہ​
ہر طرف یہ زہر بو گیا​
کن بلندیوں سے ہے گرا​
ٹکرے ٹکرے یہ دل ہو گیا​
جان تھا جو، بتائیں کسے​
آج کیسے بچھڑ وہ گیا​
ایک آنسو ندامت کا وہ​
میرے سارے گناہ دھو گیا​
شام کوئی نہ کوئی تو تھا​
تجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا​
 
چار سو پھیلا اندھیرا ہے
پھیلا کا الف گرانا مناسب نہیں لگتا۔ ماضی مطلق ہے یہ۔​
اپنا چاند کہاں سو گیا
وزن میں نہیں ہے​
یوں کہیں تو؟​
چاند اپنا کہاں کھو گیا​
ڈگمگایا جو سو وہ گیا
”وہ“ قافیہ میں ٹھیک نہیں۔​
”سو“ ہوسکتا ہے۔ لیکن مصرعہ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔ اساتذہ دیکھیں کیا کہتے ہیں۔​
فطرتِ انساں شاید ہے یہ
انساں کا الف ثانی گرنا نہیں جچتا۔
اس شعر کا دوسرا مصرعہ” زہر بونا“ کا فاعل سمجھ نہیں آیا۔ اساتذہ بہتر جانیں۔
کن بلندیوں سے ہے گرا
وزن میں نہیں ہے​
کس بلندی سے ہوگا گرا​
آج کیسے بچھڑ وہ گیا
وہ قافیہ ۔ خیر اساتذہ بہتر مشورہ دینگے۔​
ایک آنسو ندامت کا وہ​
میرے سارے گناہ دھو گیا​
”وہ“ زائد ہے پہلے مصرعے میں۔ اسکے بغیر بھی مطلب پورا ہے۔​
با وزن مصرعہ مجھ سے بھی نہیں بن رہا۔​
دیکھیں اساتذہ کیا کہتے ہیں۔​
@الف عین​
 

الف عین

لائبریرین
وہ قافیہ غلط ہی ہے یہاں،
بحر کے افاعیل ہیں فاعلن فاعلن فاعلن فع÷فاع
کچھ باتیں مزمل کی درست ہیں۔
چار سو پھیلا اندھیرا ہے​
میں محض پھیلا کا الف ہی نہیں گر رہا ہے، جو جائز ہے، اندھیرا میں نون کا اعلان ہو رہا ہے۔ تلفظ کے اعتبار سے غلط ہے درست تقطیع ’ادیرا‘ ہونی چاہئے
 
وہ قافیہ غلط ہی ہے یہاں،
بحر کے افاعیل ہیں فاعلن فاعلن فاعلن فع÷فاع
کچھ باتیں مزمل کی درست ہیں۔
چار سو پھیلا اندھیرا ہے​
میں محض پھیلا کا الف ہی نہیں گر رہا ہے، جو جائز ہے، اندھیرا میں نون کا اعلان ہو رہا ہے۔ تلفظ کے اعتبار سے غلط ہے درست تقطیع ’ادیرا‘ ہونی چاہئے

استاد جی ایک سوال یہ بھی تھا کہ حرف علت کا فعل میں گرنا کیا درست ہے؟ جیسے کہا, گیا, پھیلا, دیکھا, کہو , سنو وغیرہ.
بیسوی صدی میں 1920 کے بعد ادب پہ جو کام ہوا ہوا ہے اکثر کتابیں یہی کہتی ہیں فعل کے آخر سے حرف علت کا گرنا ایک عیب ہے.
غالباً یہ بات بحر الفصاحت میں بھی ہے. اگر چہ غالب اور میر نے بھی اس کا خیال نہیں کیا کبھی.
آپ کی وضاحت کا طالب.
 

احمد بلال

محفلین
وہ قافیہ غلط ہی ہے یہاں،
بحر کے افاعیل ہیں فاعلن فاعلن فاعلن فع÷فاع
کچھ باتیں مزمل کی درست ہیں۔
چار سو پھیلا اندھیرا ہے​
میں محض پھیلا کا الف ہی نہیں گر رہا ہے، جو جائز ہے، اندھیرا میں نون کا اعلان ہو رہا ہے۔ تلفظ کے اعتبار سے غلط ہے درست تقطیع ’ادیرا‘ ہونی چاہئے
لیکن آخری رکن تو کسی مصرعے میں نظر نہیں آ رہا
 
ٹھیک کہتے ہو بلال بھائی.
یہ تین رکن یعنی مسدس شکل میں ہے. اب میرے خیال میں متادرک مسدس شاید مستعل نہیں ہے. البتہ استاد جی نے جو بحر بتائی وہ بحر متادرک مثمن محذوذ ہے ہے جو مستعمل بھی ہے.
 

الف عین

لائبریرین
پہلے مزمل کا جواب۔
حروف علت کا گرانا جائز تو ہے، لیکن کہیں کہیں ناگوار بھی لگتا ہے، یا بار بار گرنا بھی درست نہیں لگتا۔
بلال کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔
اب آئیں غزل کا جائزہ لیں۔

حادثہ تھا کوئی ہو گیا
وہ ہمیں مل کے اب کھو گیا
//شعر میں کوئی خاص بات نہیں۔ ویسے درست ہے

چار سو پھیلا اندھیرا ہے
اپنا چاند کہاں سو گیا
//اندھیرا میں نون نون غنہ ہے، یوں کر دیں
اب اندھیرا ہے ہر چار جانب
چاند اپنا کہاں سو گیا

عشق کی راہ پرخار ہے
ڈگمگایا جو سو وہ گیا
//وہ غلط قافیہ ہے۔ دوسرا مصرع یوں کر دیں
ڈگمگایا ذرا۔ سو گیا

فطرتِ انساں شاید ہے یہ
ہر طرف یہ زہر بو گیا
//انساں کا الف گرنا اچھا نہیں، اور زہر کا تلفظ بھی غلط ہے
آدمی کی ہے فطرت یہی
ہر طرف زہر سا بو گیا

کن بلندیوں سے ہے گرا
ٹکرے ٹکرے یہ دل ہو گیا
//کتنی اونچائیوں سے گرا تھا
ٹکڑے ٹکڑے یہ دل ہو گیا

جان تھا جو، بتائیں کسے
آج کیسے بچھڑ وہ گیا
//قافیہ غلط ہے، کوئی خاص بات نہیں شعر میں۔ نکالا جا سکتا ہے۔

ایک آنسو ندامت کا وہ
میرے سارے گناہ دھو گیا
//وہ کی جگہ ‘تھا‘ ہو تو بات میں زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔
ایک آنسو ندامت کا تھا
میرے سارے گنہ دھو گیا

شام کوئی نہ کوئی تو تھا
تجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا
//کہنا کیا چاہتے ہو؟ وزن کے حساب سے تو درست ہے۔
 

احمد بلال

محفلین
بلال کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔
سر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ نے کہا "بحر کے افاعیل ہیں فاعلن فاعلن فاعلن فع÷فاع" لیکن تقطیع فاعلن فاعلن فاعلن پر ہو رہی ہے۔ آپ نے اصلاح( مثلا اب اندھیرا ہے ہر چار جانب) میں گو کہ فع ڈالا ہے مگر شام نے یہ رکن استعمال نہیں کیا۔ مثلا حادثہ تھا کوئی ہو گیا
فاعلن فاعلن فاعلن
 

شام

محفلین
پہلے مزمل کا جواب۔
حروف علت کا گرانا جائز تو ہے، لیکن کہیں کہیں ناگوار بھی لگتا ہے، یا بار بار گرنا بھی درست نہیں لگتا۔
بلال کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔
اب آئیں غزل کا جائزہ لیں۔

حادثہ تھا کوئی ہو گیا
وہ ہمیں مل کے اب کھو گیا
//شعر میں کوئی خاص بات نہیں۔ ویسے درست ہے

ٹھیک ہے استاد محترم


چار سو پھیلا اندھیرا ہے
اپنا چاند کہاں سو گیا
//اندھیرا میں نون نون غنہ ہے، یوں کر دیں
اب اندھیرا ہے ہر چار جانب
چاند اپنا کہاں سو گیا

میں نے وزن "فاعلن فاعلن فاعلن" سوچ کے غزل لکھی تھی مگر آپ کے مصرعہ میں "اب ا دی ÷ را ہ ہر ÷ چا ر جا ÷ نب" ہے تو کیا میں ساری غزل کو آپ کے بتائے گئے وزن کے مطابق کر لوں یا دونوں وزن ایک ہی غزل میں اکھٹے کیے جا سکتے ہیں


عشق کی راہ پرخار ہے
ڈگمگایا جو سو وہ گیا
//وہ غلط قافیہ ہے۔ دوسرا مصرع یوں کر دیں
ڈگمگایا ذرا۔ سو گیا

تو یہ شعر یوں ہو گیا اب
عشق کی راہ پر خار ہے
ڈگمگایا ذرا، سو گیا
اگر اس کا دوسرا مصرعہ یوں کر دوں " ڈگمگایا جو بھی، سو گیا"


فطرتِ انساں شاید ہے یہ
ہر طرف یہ زہر بو گیا
//انساں کا الف گرنا اچھا نہیں، اور زہر کا تلفظ بھی غلط ہے
آدمی کی ہے فطرت یہی
ہر طرف زہر سا بو گیا

ٹھیک استاد محترم


کن بلندیوں سے ہے گرا
ٹکرے ٹکرے یہ دل ہو گیا
//کتنی اونچائیوں سے گرا تھا
ٹکڑے ٹکڑے یہ دل ہو گیا

جیسے آپ کا مشورہ استاد محترم مگر " کت نِ او ÷ چا ء یو ÷ سے گ را ÷ تا " میری اختیار کردہ بحر " فاعلن فاعلن فاعلن" میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور کیا اونچائیوں میں "ن" نون غنہ ہے


جان تھا جو، بتائیں کسے
آج کیسے بچھڑ وہ گیا
//قافیہ غلط ہے، کوئی خاص بات نہیں شعر میں۔ نکالا جا سکتا ہے۔

ٹھیک ہے اس کو نکال دیتا ہوں اور ایک سوال "وہ" کا قافیہ درست کیوں نہیں


ایک آنسو ندامت کا وہ
میرے سارے گناہ دھو گیا
//وہ کی جگہ ‘تھا‘ ہو تو بات میں زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔
ایک آنسو ندامت کا تھا
میرے سارے گنہ دھو گیا

جیسے آپ کا مشورہ استاد محترم


شام کوئی نہ کوئی تو تھا
تجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا
//کہنا کیا چاہتے ہو؟ وزن کے حساب سے تو درست ہے۔




اس کو یوں تبدیل کر رہا ہوں


کون ہے وہ بتا شام کو
تجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا
 
مختصر بات یہ ہے کے اونچائیوں میں "ن" غنہ ہے اور وزن ٹھیک ہے جو استاد جی نے لکھا. اب یہ وزن اس میں شامل ہو سکتا ہے یا نہیں یہ محمد وارث یا الف عین ہی بتائینگے.
لفظ "وہ" میں جو "ہ" ہے وہ ہائے غیر مختفی ہے . اور ہائے غیر مختفی کو حرف علت کا قائم مقام بنا کر قافیہ بنانا ٹھیک نہیں.
 

الف عین

لائبریرین
تم درست کہتے ہو۔ میری ہی غلطی تھی، میں اس سے رجوع کرتا ہوں۔ تقطیع لکھنے میں غلطی کر گیا۔ لیکن اصلاح میں صرف اس مصرع میں غلطی ہے۔ اسے یوں کر دیں
اب اندھیرا ہے چاروں طرف

کون ہے وہ بتا شام کو
تجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا
اس میں بھی کوئی خاص بات نہیں کہی گئی ہے۔ اسی لئے پچھلے شعر کو بھی چھوڑ دیا تھا۔ کیا تم کو بھی معلوم نہیں کہ کون چھوڑ کر گیا تھا، اور پھر شام سے یہاں وقت شام کا بھی احساس ہوتا ہے، تخلص کا نہیں۔ اسی لئے مشورہ ہے کہ مقطع دوسرا ہی کہو۔
 

شام

محفلین
اگر اس غزل کی بحر " فاعلن فاعلن فاعلن" درست ہے تو یہ غزل یوں ہوئی

حادثہ تھا کوئی ہو گیا​
وہ ہمیں مل کے اب کھو گیا​
اب اندھیرا ہے چاروں طرف​
چاند اپنا کہاں سو گیا​
عشق کی راہ پر خار ہے​
ڈگمگایا جو بھی، سو گیا​
آدمی کی ہے فطرت یہی​
ہر طرف زہر سا بو گیا​
کتنی اونچائیوں سے گرا​
ٹکڑے ٹکڑے یہ دل ہو گیا​
ایک آنسو ندامت کا تھا​
میرے سارے گنہ دھو گیا​
اس کی خاطر نہ اب سوچوں گا​
مجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا​
 
آخری شعر کا پہلا مصرعہ یوں بہتر ہوگا شاید.

اس کے خاطر نہ سوچونگا اب

تیسرے شعر کے دوسرے مصرعےپر نظر ثانی کی ضرورت ہے.
ڈگمگایا جو بھی سو گیا.
غلط مصرعہ.
 

شام

محفلین
اگر اس غزل کی بحر " فاعلن فاعلن فاعلن" درست ہے تو یہ غزل یوں ہوئی
حادثہ تھا کوئی ہو گیا​
وہ ہمیں مل کے اب کھو گیا​
اب اندھیرا ہے چاروں طرف​
چاند اپنا کہاں سو گیا​
عشق کی راہ پر خار ہے​
ڈگمگایا ذرا، سو گیا​
آدمی کی ہے فطرت یہی​
ہر طرف زہر سا بو گیا​
کتنی اونچائیوں سے گرا​
ٹکڑے ٹکڑے یہ دل ہو گیا​
ایک آنسو ندامت کا تھا​
میرے سارے گنہ دھو گیا​
اس کے خاطر نہ سوچوں گا اب​
مجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا​
 

الف عین

لائبریرین
آخری شعر کا اضافہ کر دیا ہے؟ لیکن اس کے خاطر نہیں، اس کی خاطر درست ہے۔ سوچوں گا، جو سوچُگا تقطیع ہو رہا تھا، اس کی یہ ترمیم عزیزی بسمل نے درست کی ہے
 
Top