جے یو ائی کا منشور

زرقا مفتی

محفلین
اس ویب سائٹ پر مولانا صاحب کے بارے میں یہ پڑھنے کو ملا:

بعض لوگ ان کا شمار اسلامی رہنما کے بھیس میں ملبوس ایک موقع پرست کے طور پر کرتے ہیں۔ نیز، ان کے ناقدین نے انہیں بے نظیر کی سابقہ حکومت میں ڈیزل اجازت نامے بانٹنے میں مشارکت اور خوب پیسے کمانے کے باعث 'مولانا ڈیزل' کے لقب سے نوازا تھا۔ ان کے مخالفین انہیں ایک ایسے بدعنوان شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں جو اسلام پر دھبا لگا رہا ہے۔
یہ مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دیتے ہیں، حالانکہ یہ خود اور ان کے خانوادے کا کوئی فرد مسلح لڑائی میں شریک نہیں ہوا ہے۔ در حالِ حاضر یہ حزبِ اختلاف کے رئیس ہیں اور مستقبل میں پاکستان کے وزیرِ اعظم بننے کے آرزومند کہے جاتے ہیں۔

He is regarded by some as an opportunist posing as an Islamic leader. However, his critics tagged him with the name "Maulana Diesel" in the past government of Benazir Bhutto due to his involvement in Diesel permits and making a lot of money. Opponents regard him as a corrupt man who is tarnishing the image of Islam.
He urges Muslims to fight, although he and his family have not participated in armed conflicts themselves. He is presently leader of the opposition in Parliament and is rumoured to hold aspirations to be the prime minister of Pakistan one day.

اور یہ پاکستانی سائیٹ ہے یہ امریکی پراپیگنڈا بھی نہیں ہے
 
7639_84326673.jpg
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ انتہائ قابل افسوس امر اور بدقسمتی کی بات ہے کہ آج بھی جب پاکستان ميں سياسی قيادت کو پرکھنے اور ان کی کارکردگی کو جانچنے کے ضمن ميں بحث ہوتی ہے تو لامحالہ اس کا رخ 80 کی دہائ کے انھی پرانے نعروں اور دليلوں کی جانب ہو جاتا ہے جو صرف کيچڑ اچھالنے کا کام ديتے ہيں ليکن اہم مسائل کے حوالے سے تعميری گفتگو کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہوتا۔

يہ سوچ کسی ايک سياست دان يا دھڑے تک محدود نہيں ہے۔ آپ پاکستان کی کئ سياسی جماعتوں کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں، وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليئے وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی تقدير کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔

يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔

کسی بھی سياسی يا مذہبی جماعت کے نمايندے کو امريکی پھٹو يا ايجنٹ قرار دينے کے ليے اگر صرف يہی معيار کافی ہے کہ امريکی عہديداران اور سفارت کاروں سے ان کے روابط اور ميل جول کے "ثبوت" فراہم کر ديے جائيں تو پھر ميں واضح کر دوں کہ ہم پاکستان ميں تمام سياسی اور مذہبی فريقين سے روابط کے ليے باضابطہ کوششيں کرتے ہيں۔

ليکن ہماری ان سفارتی کاوشوں کا مطلب ہرگز يہ نہيں ہے کہ ہم کسی فريق کو دوسرے پر ترجيح ديتے ہيں يا پاکستان ميں زبردستی کوئ مخصوص سياسی يا مذہبی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہيں۔ چاہے وہ کسی مذہبی جماعت کی قيادت ہو يا کسی اہم سياسی جماعت کے قائدين، ہماری ہر ممکن سفارتی کوشش ہوتی ہے کہ گفتگو اور رابطے کا عمل جاری رہے تا کہ ايک دوسرے کے موقف کو بہتر طريقے سے سمجھنے کے ساتھ ساتھ باہم دلچسپی کے معاملات کے بارے ميں جان کاری حاصل کی جا سکے۔

کچھ رائے دہندگان کے غلط تاثرات اور بعض سياست دانوں کی جانب سے دانستہ ابہام پيدا کرنے کی خواہش کے برعکس ان الزامات ميں بالکل کوئ صداقت نہيں ہے کہ امريکی حکومت پاکستان کے حکومتی نظام ميں اپنی مرضی کے "پتلے" لگانے کی خواہش رکھتی ہے۔ اس ضمن ميں نا تو ہمارے پاس وسائل ہيں اور نا ہی ہماری ايسی کوئ خواہش ہے۔

پاکستان کی سياسی تاريخ کا ايک سرسری جائزہ بھی اس حقيقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان کے سياسی منظرنامے پر کسی ايک عنصر نے کبھی بھی فيصلہ کن کردار ادا نہيں کيا ہے۔ قريب تمام ہی اہم سياسی قوتيں وفاقی يا صوبائ سطح پر اقتدار کا حصہ رہی ہيں۔ اس ليے يہ ناممکن ہے کہ کسی ايک سياسی دھڑے يا قوت کے ذريعے پاکستان کے حکومتی نظام کو کنٹرول کيا جا سکے۔

حتمی تجزيے ميں کسی بھی ملک کی داخلہ پاليسی اس ملک کے منتخب حکمران بناتے ہيں۔ اسی بنياد پر ان کو اليکشن ميں ووٹ ملتے ہيں۔کسی "بيرونی ہاتھ" ميں اتنی طاقت نہيں ہوتی کہ وہ کسی ملک کے انتظامی معاملات کو اس ملک کے حکمرانوں کی مرضی کے برخلاف کنٹرول کرے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 

شمشاد

لائبریرین
جی ہاں، بس بیرونی طاقت کی دھونس ہوتی ہے اور دھمکی ہوتی ہے۔ باقی کرتے تو ہمارے اپنے ہی ہیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
پتہ نہیں امریکی سفارت کار یا نمائندگان پاکستان میں
سياسی اور مذہبی فريقين سے روابط کے ليے باضابطہ کوششيں کیوںکرتے ہيں؟​
اس لئے کہ جان سکیں کہ وقتِ ضرورت کون زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے​
 

Fawad -

محفلین
پتہ نہیں امریکی سفارت کار یا نمائندگان پاکستان میں
سياسی اور مذہبی فريقين سے روابط کے ليے باضابطہ کوششيں کیوںکرتے ہيں؟​
اس لئے کہ جان سکیں کہ وقتِ ضرورت کون زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے​


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سفارت کاروں کا تو کام ہی يہ ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ملک کی سياسی قيادت سے مسلسل رابطے ميں رہيں۔ مسلسل روابط کے يہ سلسلے ان کی ذمہ داريوں کا حصہ ہيں اور اسی مناسبت سے ان کی تعنياتی کی جاتی ہے۔

کچھ تجزيہ نگار اس حقیقت کا ادارک کيے بغير بے بنياد تھيورياں پيش کرنا شروع کر ديتے ہیں کہ سيادی قيادت اور امريکہ سميت کسی بھی ملک کے سفارتی عہديداروں کے درميان ملاقاتيں قواعد و ضوابط کے دائرے کے اندر اور سفارتی تعلقات کی روح کے عين مطابق ہے۔

اگر اہم حکومتی عہديداروں، سياست دانوں اور سفارت کاروں کے درميان ملاقاتيں سازش کے زمرے ميں آتی ہيں تو پھر اس اعتبار سے تو دنيا کے تمام سفارت کار ہی اس سازشی عمل کا حصہ ہيں۔

يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ ان ملاقاتوں کا دائرہ کسی ايشو کے حوالے سے ايک مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے سياسی قائدين تک محدود نہيں ہوتا۔ عام طور پر امريکی اہلکار ملک ميں حکومت اور اپوزيشن سميت تمام اہم قائدين سے ملاقاتيں کرتے ہيں۔ چاہے وہ عمران خان ہوں، مولانا فضل الرحمن، نواز شريف يا کوئ اور سياسی ليڈر – يہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مختلف ملکی قائدين، رائے عامہ سے متعلق اکابرين اور سول سوسائٹی کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کے ذريعے دو طرفہ امور پر خيالات اور نظريات سے ايک دوسرے کو آگاہ رکھيں۔ يہ معمول کی ملاقاتيں خفيہ نہيں بلکہ پہلے سے طے شدہ ايجنڈے کی بنياد پر ہوتی ہيں اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کار بھی واشنگٹن ميں سفارت کاری کے اس مسلسل عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔

دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی خارجہ پاليسی بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں بات چيت اور ڈائيلاگ کے ذريعے اسی خارجہ پاليسی کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس ضمن ميں کيے جانے والے فيصلے بہرحال پاکستان کے حکمران سياست دانوں کی ذمہ داری ہے۔

جو رائے دہندگان امريکی اور پاکستانی عہديداران کے مابين ملاقاتوں کو شک کی نگاہ سے ديکھتے ہيں، ان سے گزارش ہے کہ امريکہ ميں تعينات پاکستانی سفير شيری رحمان کی مصروفيات پر ايک نظر ڈالیں جو تواتر کے ساتھ امريکی عہديداروں اور سياست دانوں سے ملاقاتيں کرتی رہتی ہيں۔


http://www.embassyofpakistanusa.org/news573020282013.php

http://www.embassyofpakistanusa.org/news570020152013A.php

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد صاحب میں نے انٹرنیشنل افیئرز میں پوسٹ گریجوایشن کر رکھی ہے سو آپ مجھے سفارت کاری کے رموز نہ ہی سمجھائیں تو بہتر ہوگا ۔ ساری دُنیا جانتی ہے امریکی سفارت کار اپنے ملک کے مخصوص مفادات کے لئے کیا کرتے ہیں۔ پہلے ہم جن باتوں کے اندازے لگایا کرتے تھے یا تاریخ کے حوالے سے سمجھا کرتے اُن پر وکی لیکس نے سچ کی مہر ثبت کر دی ہے
 
فواد صاحب میں نے انٹرنیشنل افیئرز میں پوسٹ گریجوایشن کر رکھی ہے سو آپ مجھے سفارت کاری کے رموز نہ ہی سمجھائیں تو بہتر ہوگا ۔ ساری دُنیا جانتی ہے امریکی سفارت کار اپنے ملک کے مخصوص مفادات کے لئے کیا کرتے ہیں۔ پہلے ہم جن باتوں کے اندازے لگایا کرتے تھے یا تاریخ کے حوالے سے سمجھا کرتے اُن پر وکی لیکس نے سچ کی مہر ثبت کر دی ہے
اب آپ نے وہ کہہ دیا جس کا انتظار تھا۔ "ساری دنیا جانتی ہے امریکی سفارت کار اپنے ملک کے مخصوص مفادات کے لیے کیا کرتے ہیں" جب آپ خود ہی یہ سب کچھ مان رہی ہے تو پھر وکی لیکس اُڑا ہوا میں۔ وکی لیکس وہی کچھ شائع بلکہ "افشا" کرتی ہے جو امریکی سفارت کاروں نے لکھے ہوں۔ اب یہی امریکی مخصوص ایجنڈے کے تحت دینی قوتوں کے خلاف ایسی باتیں لکھتے ہیں جن سے ان کو بدنام کیا جاسکے۔ مگر اب تک ان کی یہ کوششیں بچوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ آپ جان لیجیے کہ آپ نے صرف وہی نصاب "کیریکولم" پڑھا ہے جسے امریکی اور برطانوی ماہرین انتہائی منصوبہ سازی سے تیار کرتے ہیں۔ اب کون الو کا پٹھا اپنے، اپنی قوم اور اپنے ملک کے خلاف دوسروں کا ذہن خراب کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ پڑھیے۔ اور خوب پڑھیے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اپنا ذہن کھلا رکھیے۔ ابھی تو آپ نے صرف گریجویشن کیا ہے۔ ماسٹر بھی کرلیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
اب آپ نے وہ کہہ دیا جس کا انتظار تھا۔ "ساری دنیا جانتی ہے امریکی سفارت کار اپنے ملک کے مخصوص مفادات کے لیے کیا کرتے ہیں" جب آپ خود ہی یہ سب کچھ مان رہی ہے تو پھر وکی لیکس اُڑا ہوا میں۔ وکی لیکس وہی کچھ شائع بلکہ "افشا" کرتی ہے جو امریکی سفارت کاروں نے لکھے ہوں۔ اب یہی امریکی مخصوص ایجنڈے کے تحت دینی قوتوں کے خلاف ایسی باتیں لکھتے ہیں جن سے ان کو بدنام کیا جاسکے۔ مگر اب تک ان کی یہ کوششیں آپ جیسی برگر فیملیوں کے بچوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ آپ جان لیجیے کہ آپ نے صرف وہی نصاب "کیریکولم" پڑھا ہے جسے امریکی اور برطانوی ماہرین انتہائی منصوبہ سازی سے تیار کرتے ہیں۔ اب کون الو کا پٹھا اپنے، اپنی قوم اور اپنے ملک کے خلاف دوسروں کا ذہن خراب کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ پڑھیے۔ اور خوب پڑھیے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اپنا ذہن کھلا رکھیے۔ ابھی تو آپ نے صرف گریجویشن کیا ہے۔ ماسٹر بھی کرلیں۔
آپ کو پہلے بھی کہا تہذیب کے دائرے میں رہیں۔ پہلے میرے مراسلے کو سمجھیں پھر جواب بھیجنے کی زحمت فرمایا کریں
آپ کو پوسٹ گریجوایشن کے معنی بھی نہیں آتے ۔ آپ کے مشورے کا شکریہ میں نے معاشیات میں ماسٹرز بھی کر رکھا ہے۔
انتظامیہ سے درخواست ہے کہ آصف صاحب کے مراسلات پر نگاہ ڈالیں اور غیر مناسب مراسلات حذف کریں
 

ساجد

محفلین
اراکین سے گزارش ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور باہم جارحانہ الفاظ کے استعمال سے گریز فرمائیں۔ میں نے ایک مراسلے میں سے ایسے ہی چند الفاظ کو نکال دیا ہے امید کرتا ہوں کہ احترامِ باہمی کا لحاظ رکھتے ہوئے مکالمہ جاری رہے گا۔
 

Fawad -

محفلین
وکی لیکس وہی کچھ شائع بلکہ "افشا" کرتی ہے جو امریکی سفارت کاروں نے لکھے ہوں۔ اب یہی امریکی مخصوص ایجنڈے کے تحت دینی قوتوں کے خلاف ایسی باتیں لکھتے ہیں جن سے ان کو بدنام کیا جاسکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ کوئ تعجب کی بات نہيں ہے کہ کچھ رائے دہندگان اور تجزيہ نگار جو ہر خبر اور واقعے کو ايک خاص زاويے سے ديکھتے ہيں وہ امريکہ کی اپنی حساس دستاويزات کی چوری اور تشہير کے واقعے کے ليے بھی الٹا امريکہ ہی کو مورد الزام قرار دے رہے ہيں۔

يہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ وکی ليک ويب سائٹ کے اقدامات سے امريکہ کے ديگر ممالک کی حکومتوں سے باہم سفارتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے جن کے باہم تعاون سے ہم ان عالمی مسائل کے حل کے ليے کوشاں ہيں جو کروڑوں افراد سے متعلق ہيں۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت کے ليے کام کرنے والے افراد کی زندگيوں کو بھی خطرات لاحق ہوئے ہيں۔ اس ضمن ميں وضاحت کر دوں کہ اس طرح کی تشہير سے ايسے تمام افراد کے لیے مشکلات پيدا ہو سکتی ہيں جو جمہوريت اور ايک آزاد حکومت کے لیے دنيا بھر ميں امريکی معاونت کے ليے رابطہ قائم کرتے ہيں۔

امريکی حکومت کی سوچ اس بات سے عياں ہے کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے قانونی مشير کی جانب سے وکی ليک کے مالک کے نام سرکاری طور پر ايک خط بھی جاری کيا گيا تھا جس ميں ويب سائٹ کے اقدامات کی مذمت کی گئ اور اس ضمن ميں قانونی نتائج واضح کيے گئے۔ يہ تاثر اور رائے دينا کہ امريکی حکومت کسی بھی حوالے سے اس ويب سائٹ کی مدد اور سپورٹ کر کے خود اپنے ہی قومی سلامتی کے معاملات کو نقصان پہنچا رہی ہے ايک لغو اور بے بنياد الزام ہے۔

امريکی حکومت حساس نوعيت کی دستاويزات کی تشہير کی حمايت نہيں کرتی اور جو افراد اس کام کو انجام دے رہے ہيں انھيں سرکاری طور پر ہماری پوزيشن اور موقف سے آگاہ کر ديا گيا ہے۔

جو رائے دہندگان اب بھی اس مضحکہ خيز سوچ پر يقين رکھتے ہيں کہ امريکی حکومت نے دانستہ ان دستاويزات کو ريليز کيا تھا، انھيں چاہيے کہ اس کيس کے حوالے سے مرکزی ملزم پر لگآئے جانے والے الزامات اور ممکنہ سزا پر بھی ايک نظر ڈالیں۔ ياد رہے کہ ملزم ان ميں سے اکثر الزامات کو درست تسليم کر چکا ہے۔

http://www.nytimes.com/2013/03/02/us/manning-to-face-more-serious-charges-in-leak.html?_r=0

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 
Top