جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا، عبید اللہ علیم کا تذکرہ۔۔۔۔۔

سیما علی

لائبریرین
18 مئی 2008 کو اردو کے ممتاز شاعر عبید اللہ علیم نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے مقبول شعرا میں سے ایک تھے جنھیں‌ مشاعروں میں بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا۔ علیم نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے کرنے کے ساتھ علمی و ادبی حلقوں میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی، ان کا کلام پاکستان کے معروف گلوکاروں نے گایا۔

عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں کو بہت پذیرائی ملی اور شعروسخن کی دنیا میں یہ مجموعہ ان کی شناخت بنا۔ اس کے علاوہ ان کا کلام ویران سرائے کا دیا، نگار صبح کی امید کے نام سے بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔ علیم کے ان مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل کلیات بھی ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
 
ہمارا پسندیدہ شاعر اور پسندیدہ نظم

عبید اللہ علیم

مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میرا چہرہ یہ میری آنکھیں
بجھے ہوئے سے چراغ جیسے
جو پھر سے چلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
جنہوں نے پیماں کیے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہ وفا کے
جہاں بھی جائے گا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے
بنیں گے راتوں میں چاندنی ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
وہ اپنے پیماں رفاقتوں کے محبتوں کے
شکست کر کے
نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا منارۂ روشنی ہوئے ہیں
مگر مسافر کو کیا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گیا ہے
ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں
وہ زلفیں بے سایہ ہو گئی ہیں
وہ روشنی اور وہ سائے مری عطا تھے
سو میری راہوں میں آج بھی ہیں
کہ میں مسافر رہ وفا کا
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں
ہزاروں زلفوں کا ایک سیلاب تند لے کر
مرے تعاقب میں آ رہے ہیں
ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں
تمام ہیں
مہرباں سایہ دار زلفیں
میں کس کو چاہوں میں کس کو چوموں
میں کس کے سائے میں بیٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں
نہ میرا چہرہ نہ میری آنکھیں
مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
 

سیما علی

لائبریرین
کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے
تھے گدا تحفۂ نایاب اٹھا کر لے آئے

کون سی کشتی میں بیٹھیں ترے بندے مولا
اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لے آئے

ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے

ایسا ضدی تھا مرا عشق نہ بہلا پھر بھی
لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے

سطح ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی
ہم خزانوں کو تہہ آب اٹھا کر لے آئے

جب ملا حسن بھی ہرجائی تو اس بزم سے ہم
عشق آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے

اس کو کم ظرفی رندان گرامی کہیے
نشے چھوڑ آئے مئے ناب اٹھا کر لے آئے

انجمن سازئ ارباب ہنر کیا کہیے
ان کو وہ اور انہیں احباب اٹھا کر لے آئے

ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے جب لوگ تو ہم
گفتگو کے نئے آداب اٹھا کر لے آئے

خواب میں لذت یک خواب ہے دنیا میری
اور مرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے
 

سیما علی

لائبریرین
وہ بھی ہر آن نیا میری محبت بھی نئی
جلوۂ حسن کشش ہے مری حیرانی کو

کوزۂ حرف میں لایا ہوں تمہاری خاطر
روح پر اترے ہوئے ایک عجب پانی کو
 

سیما علی

لائبریرین
اس لفظ کی مانند جو کھلتا ہی چلا جائے
یہ ذات و زماں مجھ سے ہی تحریر ہوئے سب

اتنا سخن میرؔ نہیں سہل خدا خیر
نقاد بھی اب معتقد میرؔ ہوئے سب
 

سیما علی

لائبریرین
نیند آنکھوں سے اڑی پھول سے خوشبو کی طرح
جی بہل جائے گا شب سے ترے گیسو کی طرح

دوستو جشن مناؤ کہ بہار آئی ہے
پھول گرتے ہیں ہر اک شاخ سے آنسو کی طرح
 
Top