"جیسے" کی جگہ "ایسے" کا استعمال

کچھ افسانوں میں لفظ "جیسے" کی جگہ لفظ "ایسے" کا استعمال دیکھا تو کچھ عجیب سا لگا۔ مثلاً منٹو اپنے اس افسانے میں لکھتے ہیں:-

"امرتسر میں مجھے اس ایسا دلچسپ دوست میسر نہ آسکے گا۔"

"ان کی موٹائی میں بہت خفیف سا فرق تھا، جو صرف مجھ ایسا باریک بیں ہی دیکھ سکتا ہے۔"

کیا یہاں "اس جیسا" اور "مجھ جیسا" زیادہ بہتر نہیں؟
کیا اس طرح لکھنا اب بھی جائز اور رائج ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھا سوال اٹھایا ہے ۔ چیمہ صاحب ۔
مجھے بھی جیسا کی جگہ ایسا استعمال کرنا (جیسے اوپر کی مثالوں میں ہے اور کافی پایا جاتا ہے) انتہائی عجیب ہی لگتا ہے ۔ :)
دیکھیں احباب کیا رائے دیتے ہیں ۔
 
تلاش کرنے پر میر کا یہ شعر نظر سے گزرا ہے:

خار و خس الجھے ہیں آپھی بحث انھوں سے کیا رکھیں
موج زن اپنی طبع رواں سے جب ہم جیسے دریا ہوں

اس سے تو یہی لگتا ہے کہ جیسا قدیم اردو میں بھی مستعمل رہا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا، آسا کی بگڑی ہوئی شکل ہو؟
 
آخری تدوین:
کچھ افسانوں میں لفظ "جیسے" کی جگہ لفظ "ایسے" کا استعمال دیکھا تو کچھ عجیب سا لگا۔ مثلاً منٹو اپنے اس افسانے میں لکھتے ہیں:-

"امرتسر میں مجھے اس ایسا دلچسپ دوست میسر نہ آسکے گا۔"

"ان کی موٹائی میں بہت خفیف سا فرق تھا، جو صرف مجھ ایسا باریک بیں ہی دیکھ سکتا ہے۔"

کیا یہاں "اس جیسا" اور "مجھ جیسا" زیادہ بہتر نہیں؟
کیا اس طرح لکھنا اب بھی جائز اور رائج ہے؟


جوش کا ایک مشہور شعر ہے

ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

اور آپ نے منٹو کے افسانے سے مثال دی. دونوں صاحبان کا دور ہمارے زمانے سے کچھ اتنا بعید نہیں ... سو میرے خیال میں اس کو قدیم رواج تو نہیں کہنا چاہیے. میری حقیر رائے میں اگر نشست مناسب ہو تو کہیں کہیں ایسے زیادہ اچھا لگتا ہے ... جوش کے شعر میں تو خیر ضرورت شعری بھی ہے، تاہم منٹو والی مثالوں میں ہی دیکھیں تو پہلی مثال میں عجیب لگتا ہے جبکہ دوسری مثال میں جچ رہا ہے ... غالبا اس لیے کہ اس ایسا اور مجھ جیسا میں خفیف سا تنافر محسوس ہوتا ہے، سو اس جیسا اور مجھ ایسا لکھنے سے جملے کی روانی بہتر ہو جاتی ہے.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ افسانوں میں لفظ "جیسے" کی جگہ لفظ "ایسے" کا استعمال دیکھا تو کچھ عجیب سا لگا۔ مثلاً منٹو اپنے اس افسانے میں لکھتے ہیں:-

"امرتسر میں مجھے اس ایسا دلچسپ دوست میسر نہ آسکے گا۔"

"ان کی موٹائی میں بہت خفیف سا فرق تھا، جو صرف مجھ ایسا باریک بیں ہی دیکھ سکتا ہے۔"

کیا یہاں "اس جیسا" اور "مجھ جیسا" زیادہ بہتر نہیں؟
کیا اس طرح لکھنا اب بھی جائز اور رائج ہے؟
مثال دینے کے لئے عام اور قدیمی دستور تو " جیسا ، جیسے" ہی ہے لیکن بعد کی اردو نثر اور شاعری میں اس کام کے لئے " ایسا ، ایسے" کا استعمال بھی بہت ملتا ہے۔ یہ اسلوب اگر مناسب جگہ استعمال کیا جائے تو کلام کا حسن بڑھا دیتا ہے ۔ جوش کا مشہور شعر راحل بھائی نے نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی یہ چند مثالیں دیکھئے:

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
(فیض احمد فیض)

مجھ ایسے رند سے رکھتے ضرور ہی الفت
جناب شیخ اگر عاشقِ خدا ہوتے
(اکبر الٰہ آبادی)

کیوں مجھ میں گنوا رہا ہے خود کو
مجھ ایسے یہاں ہزار ہا تو
(جون ایلیا)

مجھ ایسے کتنے ہی گمنام بچے کھیلے ہیں
اسی زمیں سے اسی میں سپردِ خاک ہوئے
(فراق گورکھپوری)
 
قریشی صاحب، راحل صاحب، ظہیر صاحب، بہت بہت شکریہ!

آپ حضرات کی گفتگو سے اس بات کا اطمینان تو ہو گیا کہ اساتذہ نے تواتر سے اسے برتا ہے، اور کم از کم تحریر میں یہ استعمال معیاری بھی تصور کیا جائے گا اور رائج بھی، اگر مناسب جگہ لایا جائے۔

مگر تحریر سے قطع نظر، کیا روز مرہ بول چال میں یہ استعمال سننے میں آتا ہے؟ یا آپ کی نظر میں کوئی علاقہ ایسا ہے جہاں یہ بول چال میں مستعمل ہو؟ دراصل، میں ٹھہرا پنجابی، اور مجھے تو روزانہ وہی پنجابی آمیز اردو سے سامنا رہتا ہے۔ کچھ دوست پنجابی ہیں اور کچھ پٹھان۔ سارا دن کبھی اپنے تلفّظ کی عزت بچاتا ہوں تو کبھی بے چارے مذکر کو مؤنث ہونے سے۔ میری قسمت میں کہاں کہ کراچی، لکھنئو، اور دہلی کی خوبصورت زبان کانوں میں رس ٹپکائے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قریشی صاحب، راحل صاحب، ظہیر صاحب، بہت بہت شکریہ!

آپ حضرات کی گفتگو سے اس بات کا اطمینان تو ہو گیا کہ اساتذہ نے تواتر سے اسے برتا ہے، اور کم از کم تحریر میں یہ استعمال معیاری بھی تصور کیا جائے گا اور رائج بھی، اگر مناسب جگہ لایا جائے۔

مگر تحریر سے قطع نظر، کیا روز مرہ بول چال میں یہ استعمال سننے میں آتا ہے؟ یا آپ کی نظر میں کوئی علاقہ ایسا ہے جہاں یہ بول چال میں مستعمل ہو؟ دراصل، میں ٹھہرا پنجابی، اور مجھے تو روزانہ وہی پنجابی آمیز اردو سے سامنا رہتا ہے۔ کچھ دوست پنجابی ہیں اور کچھ پٹھان۔ سارا دن کبھی اپنے تلفّظ کی عزت بچاتا ہوں تو کبھی بے چارے مذکر کو مؤنث ہونے سے۔ میری قسمت میں کہاں کہ کراچی، لکھنئو، اور دہلی کی خوبصورت زبان کانوں میں رس ٹپکائے۔ :)
جیسے کی جگہ ایسے کا استعمال تحریری زبان ہی میں ملتا ہے ۔ تقریری زبان میں تو جیسے ، جیسا اور جیسی بولنے کا دستور ہے ۔ کبھی کبھار کسی صاحبِ ذوق کی گفتگو میں سننے کو مل جائے تو اور بات ہے ۔

امجد صاحب ، گلوبلائزیشن اور اربنائزیشن کی برکت سے اردو کا خالص لب و لہجہ تو اب ہر جگہ ہی زوال پذیر ہے ۔ پاکستان میں تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں روز مرہ بول چال میں معیاری اردو استعمال ہوتی ہو ۔ ویسے بھی بازار اور کاروبار کی زبان عام زبان سے ہٹ کر ہی ہوتی ہے ۔ ہاں ایسے خاندان اور گھرانے اب بھی پائے جاتے ہیں جہاں خالص اردو لب و لہجہ موجود ہے ۔
میرا گمان ہے کہ ہندوستان میں اب بھی کئی شہر اور بستیاں اچھی اردو کے مراکز ہیں ۔ ہمارے کچھ رشتے دار اب بھی پرانی دہلی میں رہتے ہیں اور ان سے بات کرکے احساس ہوتا ہے کہ اردو کا لب و لہجہ اپنی جنم بھومی میں اب بھی زندہ ہے ۔
دہلی کی کرخنداری زبان اب بھی میرے ددھیال کے کچھ گھرانوں میں بولی جاتی ہے ۔ :):):) لیکن بولنے والے اب کم رہ گئے ہیں ۔ اکثر اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ خدا رحمت کند آں بزرگانِ پاک طینت را!
 
جیسے کی جگہ ایسے کا استعمال تحریری زبان ہی میں ملتا ہے ۔ تقریری زبان میں تو جیسے ، جیسا اور جیسی بولنے کا دستور ہے ۔ کبھی کبھار کسی صاحبِ ذوق کی گفتگو میں سننے کو مل جائے تو اور بات ہے ۔

امجد صاحب ، گلوبلائزیشن اور اربنائزیشن کی برکت سے اردو کا خالص لب و لہجہ تو اب ہر جگہ ہی زوال پذیر ہے ۔ پاکستان میں تو شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں روز مرہ بول چال میں معیاری اردو استعمال ہوتی ہو ۔ ویسے بھی بازار اور کاروبار کی زبان عام زبان سے ہٹ کر ہی ہوتی ہے ۔ ہاں ایسے خاندان اور گھرانے اب بھی پائے جاتے ہیں جہاں خالص اردو لب و لہجہ موجود ہے ۔
میرا گمان ہے کہ ہندوستان میں اب بھی کئی شہر اور بستیاں اچھی اردو کے مراکز ہیں ۔ ہمارے کچھ رشتے دار اب بھی پرانی دہلی میں رہتے ہیں اور ان سے بات کرکے احساس ہوتا ہے کہ اردو کا لب و لہجہ اپنی جنم بھومی میں اب بھی زندہ ہے ۔
دہلی کی کرخنداری زبان اب بھی میرے ددھیال کے کچھ گھرانوں میں بولی جاتی ہے ۔ :):):) لیکن بولنے والے اب کم رہ گئے ہیں ۔ اکثر اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ خدا رحمت کند آں بزرگانِ پاک طینت را!

بہت شکریہ ظہیر صاحب! آپ کے مراسلے پڑھ کر معلومات میں اضافہ تو ہوتا ہی ہے، مزا بھی بہت آتا ہے۔ :):)
 

علی وقار

محفلین
کچھ افسانوں میں لفظ "جیسے" کی جگہ لفظ "ایسے" کا استعمال دیکھا تو کچھ عجیب سا لگا۔ مثلاً منٹو اپنے اس افسانے میں لکھتے ہیں:-

"امرتسر میں مجھے اس ایسا دلچسپ دوست میسر نہ آسکے گا۔"

"ان کی موٹائی میں بہت خفیف سا فرق تھا، جو صرف مجھ ایسا باریک بیں ہی دیکھ سکتا ہے۔"

کیا یہاں "اس جیسا" اور "مجھ جیسا" زیادہ بہتر نہیں؟
کیا اس طرح لکھنا اب بھی جائز اور رائج ہے؟
آپ کی شروع کردہ لڑیوں میں اساتذہ کی دلچسپی اور اُن کی یہاں آمد سے اک سماں سا بندھ جاتا ہے۔

امجد بھائی! مجھے شبہ سا ہے کہ یہ لکھنو والوں کا لہجہ ہے۔ مثال کے طور پر، صہبا لکھنوی "اقبال اور بھوپال" کے دیپاچہ میں رقم طراز ہیں،
"جہاں سے مجھ ایسا مغرور گستاخ خود فہم اور خود سر انسان اس ایسے صاحب مقام بلکہ صاحب عصر انسان سے ہم کلام تھا۔"
ایک اور مقام پر،
" ۔۔۔۔ وقار و استغنا اور خوداعتمادی کی تمام بلند فطرتوں کو روند کر مجھے ایسی داد عطا فرمائی کہ ان کی ایسی شہرت کا ایک انسان بھی مجھ ایسے کمترین انسان کو کبھی نہ دے سکے گا۔"

یگانہ چنگیزی بھی لکھنو کے تھے، اُن کا ایک شعر نظر سے گزرا۔
اس کی نگاہ شوق کے قربان جائیے
تجھ ایسے بے نشاں کو جو پیدا کرے کوئی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
واقعی امجد بھائی کے مفید سوالات اور اساتذہ کی جانب سے تسلی بخش جوابات سے لطف آ جاتا ہے جیسے ایک ساتھ کئی کتابوں کا مطالعہ کر لیا ہو :)
 
آپ کی شروع کردہ لڑیوں میں اساتذہ کی دلچسپی اور اُن کی یہاں آمد سے اک سماں سا بندھ جاتا ہے۔

ان لڑیوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے

واقعی امجد بھائی کے مفید سوالات اور اساتذہ کی جانب سے تسلی بخش جوابات سے لطف آ جاتا ہے جیسے ایک ساتھ کئی کتابوں کا مطالعہ کر لیا ہو

آپ لوگوں کی ذرہ نوازی ہے۔ بہت شکریہ! :):)

بے شک محفل پہ موجود اساتذہ کے فیضان سے یہ جو علم کا چشمہ جاری ہے، اس سے نہ جانے کتنے علم کے پیاسے سیراب ہو رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اس خوبصورت محفل کو اور یہاں پر چمکتے ستاروں، یعنی ان اساتذہ کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھیں۔ آمین۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بے شک محفل پہ موجود اساتذہ کے فیضان سے یہ جو علم کا چشمہ جاری ہے، اس سے نہ جانے کتنے علم کے پیاسے سیراب ہو رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اس خوبصورت محفل کو اور یہاں پر چمکتے ستاروں، یعنی ان اساتذہ کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھیں۔ آمین۔
آمین ثم آمین
 

زوجہ اظہر

محفلین
بطور عام قاری میرا یہ تاثر ہے کہ یہ تشبیہ اور استعارے کی طرح ہے
جیسا یعنی تشبیہ
ایسا یعنی استعارہ

اس کو بھی سوال سمجھا جائے
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
بطور عام قاری میرا یہ تاثر ہے کہ یہ تشبیہ اور استعارے کی طرح ہے
جیسا یعنی تشبیہ
ایسا یعنی استعارہ

اس کو بھی سوال سمجھا جائے
یہ بات میرے ذہن میں بھی آئی تھی مگر سوال موزوں صورت میں نہیں بن پایا۔ آپ کا شکریہ کہ اساتذہ کی رائے سامنے آ جائے گی۔
 
بطور عام قاری میرا یہ تاثر ہے کہ یہ تشبیہ اور استعارے کی طرح ہے
جیسا یعنی تشبیہ
ایسا یعنی استعارہ

اس کو بھی سوال سمجھا جائے
ہر استعارہ تشبیہ ہوتا ہے مگر ہر تشبیہ استعارہ نہیں ہوتی۔

استعارہ تشبیہ کی ایک قسم ہے جس میں مشبہ یا مشبہ بہ میں سے کسی ایک کا ذکر موجود نہیں ہوتا۔ مشبہ کو مشبہ بہ پکارنا استعارہ بالتصریح کہلاتا ہے۔ دبیر کا مشہور مصرع ہے:

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

اگر مشبہ بہ موجود نہ ہو تو اسے استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں۔ جیسے غالب کا شعر ہے:

ہوسِ گل کے تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

یہاں ہوسِ گل اور بے پر و بالی بلبل سے مستعار لی گئی ہیں لیکن بلبل کا ذکر مفقود ہے۔
 
Top