جہاد کے متعلق ایسے فتاویٰ کو کیوں چھپایا جاتا ہے

جہاد كا حكم اور اس كى اقسام
اس وقت اور دور ميں كيا ہر استطاعت ركھنے والے شخص پر جہاد فرض ہے ؟


الحمد للہ:

اول:

جہاد كے كئى ايك مراتب اور درجات ہيں، ان ميں كچھ تو ہر مكلف پر فرض عين ہے، اور كچھ فرض كفايہ يعنى جب بعض مكلفين جہاد كر رہے ہوں تو باقى سے ساقط ہو جاتا ہے، اور كچھ مستحب ہے.

جہاد نفسى اور شيطان كے خلاف جہاد تو ہر مكلف پر فرض ہے، اور منافقين اور كفار اور ظلم و ستم كرنے والوں اور برائى اور بدعات پھيلانے والوں كے خلاف جہاد فرض كفايہ ہے، اور بعض اوقات كفار كے خلاف جہاد معين حالات ميں فرض عين ہو جاتا ہے جس كا بيان آگے آ رہا ہے.


ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جہاد كى چار اقسام اور مراتب و درجات ہيں: جہاد بالنفس، شيطان كے خلاف جہاد، كفار كے خلاف جہاد، اور منافقين كے خلاف جہاد.

جہاد بالنفس كے بھى چار درجات اور مراتب ہيں:

پہلا مرتبہ:

ہدايت و راہنمائى كى تعليم اور دين حق كے حصول كے ليے نفس كے خلاف جہاد كيا جائے، كيونكہ اس كے بغير نہ تو دنيا ميں سعادت حاصل ہوتى ہے اور نہ ہى آخرت ميں كاميابى فلاح سے ہمكنار ہوا جا سكتا ہے، جب اس پر عمل نہ كيا جائے تو دونوں جہانوں ميں شقاوت و بدبختى حاصل ہوتى ہے.

دوسرا مرتبہ:

علم كے حصول كے بعد وہ اس پر عمل كرنے كے ليے جہاد اور كوشش كرے، كيونكہ عمل كے بغير صرف علم اگر اسے نقصان نہ دے تو اسے كوئى فائدہ بھى نہيں دے سكتا.

تيسرا مرتبہ:

وہ اس علم كو آگے پھيلانے اور جنہيں اس كا علم نہيں انہيں تعليم دينے ميں جہاد اور كوشش كرے، اگر ايسا نہيں كرتا تو وہ ان لوگوں ميں شامل ہوگا جو اللہ تعالى كى نازل كردہ ہدايت و راہنمائى اور واضح دلائل كو چھپاتے ہيں، اور اس كا يہ علم اسے نہ تو اللہ كے عذاب سے نجات دےگا اور نہ ہى اسے كوئى نفع دے سكتا ہے.

چوتھا مرتبہ:

اللہ تعالى كے دين كى دعوت دينے ميں جو تكاليف اور مشكلات پيش آئيں، اور لوگوں كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت پر صبر كرنے كا جہاد، اور ان سب كو وہ اللہ كے ليے برداشت كرے.

تو جب يہ چار مرتبے مكمل كر لےگا تو وہ ربانيين ميں شامل ہو جائيگا، سلف رحمہ اللہ كا اس پر اتفاق ہے كہ عالم اس وقت تك ربانى كے نام سے موسوم ہونے كا مستحق نہيں جب تك وہ حق كى پہچان كر كے اس پر عمل كرنے كے بعد اس كى لوگوں كو تعليم نہ دے، تو جو شخص علم حاصل كرے اور اس پر عمل كر كے لوگوں كو اس كى تعليم بھى دے تو يہى شخص ہے جو آسمان ميں عظيم شان ركھتا ہے.

شيطان كے خلاف جہاد كے دو مرتبے ہيں:

پہلا مرتبہ:

شيطان كى جانب سے بندے كو ايمان ميں پيدا ہونے والے شكوك و شبہات دور كرنے كے ليے جہاد كرنا.

دوسرا مرتبہ:

شيطان كى جانب سے فاسد قسم كے ارادے اور شہوات دور كرنے كى كوشش اور جہاد كرنا.

تو پہلے جہاد كے بعد يقين اور دوسرے كے بعد صبر حاصل ہوگا اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور جب ان لوگوں نے صبر كيا تو ہم نے ان ميں سے ايسے پيشوا اور امام بنا ديے جو ہمارے حكم سے لوگوں كو ہدايت كرتے تھے، اور وہ ہمارى آيتوں پر يقين ركھتے تھے ﴾السجدۃ ( 24 ).

تو اللہ سبحانہ وتعالى نے خبر دى ہے كہ امامت دين صبر اور يقين كے ساتھ حاصل ہوتى ہے، چنانچہ صبر شہوات اور فاسد قسم كے ارادوں كو دور اور ختم كرتا ہے، اور يقين شكوك و شبہات كو ختم كرتا ہے.

اور كفار اور منافقين كے خلاف جہاد كے چار مراتب ہيں:

دل اور زبان اور مال اور نفس كے ساتھ.

ہاتھ كے ساتھ جہاد كرنا كفار كے خلاف خاص ہے.
اور منافقين كے خلاف زبان كے ساتھ جہاد كرنا خاص ہے.
اور ظلم و ستم اور بدعات و منكرات كے خلاف جہاد كے تين مراتب ہيں:

پہلا:

اگر قدرت و استطاعت ہو تو ہاتھ كے ساتھ، اور اگر استطاعت نہ ہو تو يہ منتقل ہو كر زبان كے ساتھ، اور اگر اس كى بھى استطاعت اور قدرت نہ ہو تو پھر دل كے ساتھ جہاد كرنے ميں منتقل ہو جاتا ہے.

تو جہاد كے يہ تيرہ ( 13 ) مراتب ہيں، اور حديث :

" جو شخص بغير جہاد كيے مر گيا اور نہ ہى اس كے نفس ميں جہاد كرنے كى خواہش پيدا ہوئى تو وہ نفاق كى ايك علامت پر مرا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1910 ).

ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 9 - 11 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جہاد كى كئى ايك اقسام ہيں:

نفس كے ساتھ، مال كے ساتھ، دعاء كے ساتھ، توجيہ و ارشاد اور راہنمائى كر كے، كسى بھى طرح خير وبھلائى پر معاونت كر كے جہاد كرنا.

ليكن ان سب ميں عظيم نفس كے ساتھ جہاد ہے، پھر مال كے ساتھ اور رائى اور راہنمائى كے ساتھ جہاد كرنا، اور اسى طرح دعوت و تبليغ بھى جہاد ہى ہے، تو نفس اور جان كے ساتھ جہاد سب سے اعلى درجہ ہے "

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 7 / 334 - 335 ).

دوم:

اور كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد ميں امت مسلمہ كے حسب حال كئى قسم كے مراحل گزرے ہيں:

ابن قيم رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جو پہلى وحى نازل فرمائى كہ وہ اس رب كے نام سے پڑھيں جس نے انہيں پيدا كيا ہے، اور يہ نبوت كى ابتدا تھى، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے نبى كو حكم ديا كہ وہ اپنے دل ميں اسے پڑھيں اور اس وقت انہيں اس كى تبليغ كا حكم نہيں ديا پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے سورۃ المدثر كى يہ آيت نازل فرمائى:

﴿ اے چادر اوڑھنے والے اٹھو اور ڈراؤ ﴾.

تو اللہ سبحانہ وتعالى نے آپ كو ﴿ اقراء ﴾كہہ كر نبى بنايا اور ﴿ يا ايھا المدثر ﴾ كہہ كر رسول بنايا.

پھر اللہ تعالى نے حكم ديا كہ اپنے كنبہ قبيلہ والوں اور قريبى رشتہ داروں كو تبليغ كرو، اور پھر اس كے بعد اپنى قوم كو، اور پھر اس كے بعد اپنے ارد گرد رہنے والے عرب كو، اور پھر دور رہنے والے عرب كو، اور پھر پورى دنيا ميں رہنے والوں كو.

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نبى بننے كے بعد دس برس تك بغير كسى قتال اور لڑائى اور جہاد اور بغير جزيہ كے تبليغ كرتے رہے، اور آپ كو صبر و تحمل اور معاف و درگزر كرنے اور ہاتھ روك كر ركھنے كا حكم ديا گيا.

پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو ہجرت كى اجازت دى گئى اور اس كے بعد پھر لڑائى اور جہاد كرنے كى.

پھر آپ كو ان لوگوں سے لڑنے كا حكم ديا گيا جو آپ سے لڑائى كرتے تھے، اور جو آپ سے نہيں لڑے اور قتال نہيں كيا ان سے روك ديا گيا.

پھر مشركوں كے خلاف اس وقت تك لڑائى كا حكم ديا گيا جب تك كہ پورا دين اللہ كے ليے نہ ہو جائے.

پھر كفار كے خلاف جہاد كا حكم ملنے كے بعد كفار كى آپ كے ساتھ تين اقسام تھيں:

جن كے ساتھ صلح اور جنگ بندى تھى.
جن كے ساتھ لڑائى تھى يعنى اہل حرب.
اور ذمى لوگ.
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 159 ).

سوم:

كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد كرنا فرض كفايہ ہے:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

قال: ( اور جہاد فرض كفايہ ہے، جب قوم كے كچھ افراد جہاد كر رہے ہوں تو باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے ).
فرض كفايہ كا معنى يہ ہے كہ:

وہ فرض چيز اگر اتنے لوگ اس كى ادائيگى نہ كريں جو كافى ہوں تو سب لوگ گنہگار ہونگے، اور اگر اتنے لوگ ادا كر ليں جو كافى ہوں تو باقى سب لوگوں سے ساقط ہو جاتا ہے.

ابتدا ميں خطاب سب كو شامل ہے، مثلا فرض كفايہ، اور پھر اس ميں مختلف ہے كہ فرض كفايہ بعض كے ادا كرنے سے باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے، اور فرض عين كسى دوسرے كے كرنے سے كسى سے بھى ساقط نہيں ہوتا، عام اہل علم كے قول كے مطابق جہاد فرض كفايہ ميں شامل ہوتا ہے .

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 163 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

يہ پہلے بھى گزر چكا ہے كہ ہم پہلے كئى بار بيان كر چكے ہيں كہ جہاد فرض كفايہ ہے نہ كہ فرض عين، اور سب مسلمانوں پر ضرورى ہے كہ وہ اپنے بھائيوں كى اپنے نفس اور اپنے مال اور اسلحہ اور دعوت اور مشورہ كے ساتھ معاونت ضرور كريں، تو جب جہاد كے ليے اتنے لوگ نكل جائيں جو كافى ہوں باقى افراد گنہگار ہونے سے بچ جائينگے، اور جب سب لوگ ہى جہاد ترك كر ديں تو سب گنہگار ہونگے.
تو مملكت سعودى عرب، اور افريقہ اور مغرب وغيرہ ميں بسنے والے مسلمانوں كو اپنى طاقت صرف كرنى چاہيے، اور زيادہ قريب والا شخص زيادہ حصہ ڈالے، تو جب ايك يا دو يا تين يا اس سے زيادہ ملكوں ميں سے افراد كافى ہو جائيں تو باقى مسلمانوں سے ساقط ہو جائيگا.

اور وہ نصرت و مدد اور تائيد كے مستحق ہيں ان كى مدد كى جائے، ان كے دشمن كے خلاف ان مسلمانوں كى مدد كرنا فرض ہے؛ كيونكہ وہ مظلوم ہيں، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے سب كو جہاد كا حكم ديا ہے، انہيں چاہيے كہ وہ اللہ كے دشمنوں كے خلاف جہاد كر كے اپنے بھائيوں كى مدد كريں، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتے تو گنہگار ہونگے، اور جب اتنے افراد جہاد كرنے لگيں جو كافى ہوں تو باقى سے گناہ ساقط ہو جائيگا .

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 7 / 335 ).

چہارم:

كفار كے خلاف جہاد چار حالتوں ميں فرض ہو جاتا ہے:

1 - جب مسلمان شخص جہاد ميں حاضر ہو جائے.
2 - جب دشمن آ جائے اور علاقے اور ملك كا محاصرہ كر لے.
3 - جب امام المسلمين اور حكمران رعايا كو جہاد كى طرف بلائے تو رعايا پر جہاد كے ليے نكلنا فرض ہو جاتا ہے.
4 - جب اس شخص كى ضرورت ہو اور اس كے بغير كوئى اور اس ضرورت كو پورا نہ كر سكتا ہو.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جہاد واجب اور اس وقت فرض عين ہو جاتا ہے جب كوئى انسان قتال ميں حاضر ہو جائے، يہ فرض عين ہونے كى پہلى جگہ ہے جہاں جہاد فرض عين ہوتا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے ايمان والو جب تم كفار كے مد مقابل ہو جاؤ اور دو بدو ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھيرنا، اور جو شخص ان سے اس موقع پر اپنى پشت پھيرےگا مگر ہاں جو لڑائى كے ليے پينترا بدلتا ہو، يا جو ( اپنى ) جماعت كى طرف پناہ لينے آتا ہو وہ مستثنى ہے، باقى اور كوئى جو ايسا كريگا وہ اللہ كے غضب ميں آ جائيگا اور اس كا ٹھكانہ دوزخ ميں ہوگا، اور بہت ہى برى ہے وہ جگہ ﴾الانفال ( 15 - 16 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ لڑائى والے لڑائى ميں سے پيٹھ پھير كر بھاگنا سات تباہ كن اشياء ميں سے ايك ہے، فرمان نبوى ہے:

" سات تباہ كن اشياء سے بچ كر رہو: اور اس ميں لڑائى والے دن لڑائى سے پيٹھ پھير كر بھاگنا بھى ذكر كيا "

متفق عليہ.

ليكن اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے دو حالتوں ميں استثنى كيا ہے:

پہلى حالت:

وہ شخص لڑائى كا پينترا بدلنے كے ليے وہاں سے بھاگے، يعنى دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ وہ اس سے بھى زيادہ قوت و طاقت كے ساتھ آنا چاہتا ہو.

دوسرى حالت:

وہ اپنى جماعت كے ساتھ ملنا اور پناہ حاصل كرنا چاہتا ہو، وہ اس طرح كہ اسے بتايا جائے كہ دوسرى طرف سے مسلمانوں كى ايك جماعت اور لشكر شكست كھانے كے حالت ميں ہے، تو وہ ان كى تقويت اور كے ليے ان كے ساتھ ملنے كے ليے جائے، اور اس حالت ميں شرط يہ ہے كہ وہ اس گروہ اور لشكر كا خوف نہ ركھے جس ميں رہ كر وہ خود لڑ رہا ہے، اور اگر اس جماعت كا خدشہ ركھتا ہو جس ميں وہ خود ہے تو پھر اس كا وہاں سے نكل كر دوسرى جماعت ميں جانا جائز نہيں، تو اس حالت ميں اس پر فرض عين ہوگا اور اس كے وہاں سے جانا جائز نہيں.

دوم:

جب اس كے علاقے اور ملك كو دشمن گھير لے تو اس شخص پر اپنے وطن كے دفاع كے ليے لڑائى اور قتال فرض عين ہو جاتا ہے، اور يہ اس شخص كے مشابہ ہے جو لڑائى كى صف ميں موجود ہو؛ كيونكہ جب دشمن ملك اور علاقے كا محاصرہ كر لے تو اس كا دفاع كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ دشمن اس علاقے ميں جانے اور وہاں سے باہر نكلنے سے روك دے گا، اور اس طرح ان كے ليے غلہ وغيرہ بھى نہيں آ سكے گا، اور اس كے علاوہ جو كچھ معروف ہے اس پر بھى پابندى لگ جائيگى، تو اس حالت ميں اس علاقے كے لوگوں پر اپنے ملك كے دفاع كے ليے لڑنا فرض عين ہے.

سوم:

جب امام اور حكمران لڑنے كا حكم دے، امام وہ ہے جو ملك كا حكمران اور سربراہ ہو، اور اس ميں امام المسلمين ہونے كى شرط نہيں؛ كيونكہ يہ عمومى امامت بہت زمانے سے ختم ہو چكى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر تم پر حبشى غلام بھى امير اور حكمران بنا ديا جائے تو اس كى سمع و اطاعت اور فرمانبردارى كرو "

تو جب كوئى انسان كسى بھى جہت ميں امير بن گيا تو وہ امام عام كى طرح ہى ہے اور اس كا قول نافذ ہوگا اور اس كا حكم مانا جائيگا.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 10 ).

واللہ اعلم .
ماخذ
 
اوپر دیا ہوا فتویٰ میرے نہیں بلکہ اسی مسلک کا ہے جسے عموما ظالمان اپنے حرص و ہوس سے بھرے نام نہاد جہاد پر دلیل کے لیئے پیش کرتے ہیں ۔ ان کو انہی کے مسئلک سے یہ فتویٰ کیوں نطر نہیں آتا یا پھر شاید انہیں دکھایا ہی نہیں جاتا ۔ دین میں جہاد کا حکم واضح ہے لیکن اس کی شرائط بھی طے ہیں ۔ تو کیا خیال ہے اس فتویٰ کی روشنی میں ظالمان کا فتنہ خود کو جہاد کا نام دے سکتا ہے ۔۔؟ براہ کرم ظالمان کے حمایتیوں کو اس کی طرف متوجہ کیجئے اور سوال کیجئے کہ یہ فتویٰ غلط ہے یا کہ ان کا طرز عمل اور اس فتویٰ کے مطابق وہ کون سے حالات ہیں جن کے تحت جہاد کا نام اپنی اس جنگ کو دیا گیا ہے۔مقامی روایات و مفادات کی جنگ کو جہاد کہنا کہاں کی دانش ہے ۔ اور کیا ایک مسلمان مملکت میں جہاں اکثریت میں ایسے فساد کو جہاد کا لبادہ پہنانا کہاں کا اسلام ہے ۔۔؟
 
جہاد فى سبيل اللہ كے ليے امام المسلمين كى اجازت كى شرط كا حكم
كيا جہاد في سبيل اللہ كرنے كے ليے امام المسلمين كى اجازت لينا شرط ہے ؟


الحمد للہ:

سوال نمبر ( 20214 ) كے جواب ميں جہاد كا حكم، اور اس كى اقسام بيان ہو چكى ہيں، جس ميں بيان ہوا ہے كہ جب دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے تو اس حالت ميں ہر مسلمان شخص پر قتال اور لڑائى كرنا فرض ہو جاتا ہے، اور اس وقت امام المسلمين كى اجازت حاصل كرنے كى شرط نہيں.

رہا وہ جہاد جس كا مقصد فتوحات ميں وسعت دينا، اور كفار كو اسلام كى دعوت دينا، اور جو اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سرخم تسليم نہ كرے اس كے خلاف لڑنا، تو اس كے ليے امام المسلمين كى اجازت حاصل كرنا شرط ہے، تو اس طرح امور ميں انظباط پيدا ہوتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جہاد كا معاملہ امام المسلمين اور اس كے اجتہاد كے سپرد ہے، اور اس سلسلے ميں رعايا كے ليے امام المسلمين كى رائے پر عمل كرنا لازم ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ( 10 / 368 ).

اور امام المسلمين كى اجازت افراتفرى پيدا كرنے ميں مانع ہے، جس كا اللہ كے دشمنوں كى اور مسلمانوں كى قوت اور امور كو مد نظر ركھے بغير بعض مسلمانوں كا كفار كے خلاف اعلان جہاد كرنے سے پيدا ہونا ممكن ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

اعلاء كلمۃ اللہ اور دين اسلام كى حمايت، اور دين كى نشر و تبليغ اور اس كى حدود اور حرمات كى حفاظت كے ليے جہاد كرنا ہر اس شخص پر فرض ہے جو ايسا كرنے كى قدرت و طاقت ركھتا ہو.

ليكن افراتفرى اور بدنظمى كے خوف سے بچنے كے ليے جس كا انجام اچھا نہ ہو لشكر روانہ كرنا ضرورى ہيں؛ اسى ليے اس كے شروع ہونے اور اس ميں داخل ہونے كے ليے مسلمانوں كے ولى الامر كا عمل دخل ہے، تو علماء كرام اس كے ليے اٹھ كھڑے ہوں.

تو جب جہاد شروع ہو اور مسلمانوں كو اس كے ليے نكلنے كا كہا جائے تو جو شخص بھى اس پر قادر ہو اور اس كى استطاعت ركھتا ہو تو وہ خالصتا اللہ تعالى كى رضا اور حق كى مدد و نصرت اور دين اسلام كى حمايت و بچاؤ كے ليے اس دعوت كو قبول كرے، اور جو شخص بھى ضرورت ہونے كے باوجود بغير كسى عذر جہاد سے پيچھے رہا وہ گنہگار ہوگا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 12 ).

اور لوگوں كا امام المسلمين كى جانب سے اكٹھا ہونا ان كى وقوت و طاقت ميں اضافہ كريگا، اس پر مستزاد يہ كہ ان كا امام المسلمين كى ہر اس كام ميں اطاعت كا التزام كرنا جو شريعت كے مخالف نہ ہو شرعى واجب ہے، اس سے مسلمان مجاہدين كى صفوف ميں وحدت پيدا ہوگى اور وہ سب مل كر دين حنيف اور اللہ كى شريعت كى مدد و حمايت كرينگے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ جاننا ضرورى ہے كہ لوگوں كا ولى الامر بننا عظيم دينى واجبات ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ اس كے بغير نہ تو دين اور نہ دنيا قائم ہو سكتى ہے كيونكہ بنى آدم كى مصلحتيں اور ضروريات لوگوں كے اجتماع كے بغير پورى نہيں ہو سكتيں، كيونكہ وہ ايك دوسرے كے محتاج ہيں، اور اجتماع كے ليے كسى بڑے كى ضرورت ہوتى ہے.

حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تين اشخاص سفر پر نكليں تو اپنے ميں سے كسى ايك كو اپنا امير بنا ليں "

اسے ابوداود رحمہ اللہ نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

اور امام احمد رحمہ اللہ مسند احمد ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كوئى تين اشخاص زمين كے كسى بھى حصہ ميں ہوں تو ان كے ليے حلال نہيں مگر وہ اپنے اوپر كسى ايك كو امير مقرر كر ليں "

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفر جيسى ضرورت ميں بھى جو كہ ايك قليل سا اجتماع ہے ميں امير بنانا واجب كيا ہے جو كہ باقى سب اجتماعات پر تنبيہ ہے؛ اور اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كا كام واجب كيا ہے، اور يہ كام قوت و طاقت اور امارت كے بغير پورا نہيں ہو سكتا.

تو اسى طرح جہاد، عدل و انصاف، حج كرنا، جمعہ اور عيدوں كى ادائيگى، اور مظلوم كى نصرت و مدد، حدود كا نفاذ جيسے وہ سب امور جو اللہ تعالى نے فرض اور واجب كيے ہيں، يہ سب قوت و طاقت اور امارت كے بغير پورے نہيں ہوتے.

اسى ليے روايت كي گئى ہے كہ:

" حكمران اور سلطان زمين ميں اللہ كا سايہ ہے "

اور كہا جاتا ہے:

" ظالم حكمران كے ساتھ ساٹھ برس حكمران كے بغير ايك رات سے بہتر ہيں " اور تجربہ اسے بيان كرتا ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 28 / 390 - 391 ).

اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" كسى بھى لشكر كے ليے امام المسلمين كى اجازت كے بغير جنگ كرنا جائز نہيں، چاہے معاملہ جيسا بھى ہو؛ كيونكہ جنہيں جنگ كرنے اور جہاد كرنا مخاطب كيا گيا ہے وہ ولى الامر اور حكمران ہيں، نہ كہ افراد، لوگوں ميں سے افراد اہل حل و عقد كے تابع ہيں، اس ليے كسى كے ليے بھى امام المسلمين كى اجازت كے بغير جنگ اور جہاد كرنا جائز نہيں، ليكن اگر دفاع كا معاملہ ہو تو پھر اجازت كى كوئى ضرورت نہيں، جب دشمن اچانك حملہ آور ہو اور انہيں اس كے شر كا خدشہ ہو تو اس وقت وہ اپنا دفاع كرتے ہوئے دشمن سے لڑ سكتے ہيں، كيونكہ اس وقت لڑائى كرنا متعين ہو چكى ہے.
يہ اس ليے جائز نہيں كہ امر امام كے ساتھ معلق ہے، تو امام المسلمين كى اجازت كے بغير جنگ اور غزوہ كرنا اس كى حدود سے تجاوز اور اس پر انتشار ہے، اور اس ليے بھى كہ اگر لوگوں كے ليے امام المسلمين كى اجازت كے بغير جہاد اور جنگ كرنى جائز ہوتى تو معاملہ افراتفرى كا شكار ہو جاتا، جو چاہتا اپنے گھوڑے پر سوار ہو كر جنگ كرنے نكل جاتا، اور اس ليے بھى كہ اگر لوگوں كے ليے ايسا ممكن ہو جائے تو عظيم فساد كھڑا ہو جائيگا، تو كچھ لوگ تيارى شروع كر ديں كہ وہ دشمن كے خلاف جنگ كى تيار كر رہے ہيں، اور وہ امام المسلمين كے خلاف جنگ كرنے كا ارادہ ركھتے ہوں، يا پھر لوگوں ميں سے كسى گروہ پر بغاوت اور ظلم كرنا چاہتے ہوں جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور اگر مومنوں ميں سے دو گروہ آپس ميں لڑ پڑيں تو ان دونوں كے مابين صلح كروا دو ﴾الحجرات ( 9 ).

ان تين امور اور اس كے علاوہ دوسرے امور كى بنا پر بھى امام المسلمين كى اجازت كے بغير جہاد كرنا جائز نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 22 ).

واللہ اعلم .

یہ فتویٰ بھی اسی مسلک کا ہے جس میں جہاد کی اجازت کے متعلق احکام بیان کیئے گئے ہیں تو ظالمان کس کے حکم پر وہ جنگ کر رہے ہیں جسے جہاد کا نام دیا جاتا ہے
 
شرعی لحاظ سے( ایک خبیث ترین شخص جسے میں ذاتی طور پر ناپسند کرتا ہوں لیکن کیوں کہ حدیث پاک معلوم ہوچکی ہے لہذا) پاکستان کا سربراہ مملکت اس چیز کا مجاز ہے کہ پاکستان میں جہاد کے متعلق حکم دے سکے ۔
 
شرعی لحاظ سے( ایک خبیث ترین شخص جسے میں ذاتی طور پر ناپسند کرتا ہوں لیکن کیوں کہ حدیث پاک معلوم ہوچکی ہے لہذا) پاکستان کا سربراہ مملکت اس چیز کا مجاز ہے کہ پاکستان میں جہاد کے متعلق حکم دے سکے ۔

فیصل بھیا میری نظر میں وہ حاکم حکم دے سکتا ہے جو کتاب و سنت کے مطابق حکومت کرتا ہو۔
مجھے حدیث صحیح یا نہیں آرہی مگر کچھ الفاظ یاد ہیں
الحاکم بالکتاب۔
 
فیصل بھیا میری نظر میں وہ حاکم حکم دے سکتا ہے جو کتاب و سنت کے مطابق حکومت کرتا ہو۔
مجھے حدیث صحیح یا نہیں آرہی مگر کچھ الفاظ یاد ہیں
الحاکم بالکتاب۔

اجی حضرت اس تھریڈ کا موضوع تو یہ نہیں ہے مگر اوپر دیئے گئے دونوں فتاویٰ ظالمان کو انکی زبان میں یہ سمجھانے کی ایک کوشش ہیں کہ انکی جنگ جہاد نہیں بلکہ فساد ہیں ۔ حاکم کے متعلق کچھ احکام تو اوپر موجود ہیں اگر مزید کی تلاش ہے تو بھی ہر مکتب فکر کے علماء اس سلسلے میں رہ نمائی کر سکتے ہیں ۔ حاکم کون ہو سکتا ہے اور کون نہیں اور کن حالات میں حاکم کے خلاف جنگ یا جدوجہد جائز ہے یا نہیں موضوع سے ہٹ کر ہیں ۔ اس وقت بات ہو رہی ہے ظالمان کے نام نہاد جہاد کی ان کے اپنے مکتب فکر کے مطابق جائز اور ناجائز ہونے کی تو موضوع اگر اسی پر رہے تو بہتر ہے
 
جب امام اور حكمران لڑنے كا حكم دے، امام وہ ہے جو ملك كا حكمران اور سربراہ ہو، اور اس ميں امام المسلمين ہونے كى شرط نہيں؛ كيونكہ يہ عمومى امامت بہت زمانے سے ختم ہو چكى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اگر تم پر حبشى غلام بھى امير اور حكمران بنا ديا جائے تو اس كى سمع و اطاعت اور فرمانبردارى كرو "

تو جب كوئى انسان كسى بھى جہت ميں امير بن گيا تو وہ امام عام كى طرح ہى ہے اور اس كا قول نافذ ہوگا اور اس كا حكم مانا جائيگا.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 10 ).

ظالمان کے لیئے یہ جواب ہے جو انہیں دیکھ کر اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے ۔ اور یہ جواب بھی میرا نہیں انکے اپنے مسلک کے علما ء کرام کا ہے
 
دیکھتے ہیں ظالمان کے حامی جو انکے ظالمانی جہاد کی تبلیغ میں تن من دھن سے سرگرداں ہیں ان فتاویٰ کو ہضم کر پاتے ہیں یا نہیں ۔۔!
 

ساقی۔

محفلین
کیسے ہیں فیصل بھائی ؟
آج کل خوب اندھا دھند لکھ رہے ہیں . کیا کوئی کتاب شتاب لکھنے کا ارادہ ہے ؟
 

تیلے شاہ

محفلین
صحیح فرمایا ساقی نے اندھا دھند لکھے جارہے ہیں۔۔۔۔۔:rollingonthefloor:
دیکھیں جی آپ بیٹھ کر مزے سے لکھتے رہیں ہم عمل پر یقین رکھتے ہیں
آپ روک سکتے ہیں تواپنے قلم کی طاقت سے روک کر دیکھادیں۔۔۔۔۔:rollingonthefloor:
 

باذوق

محفلین
اوپر دیا ہوا فتویٰ میرے نہیں بلکہ اسی مسلک کا ہے جسے عموما ظالمان اپنے حرص و ہوس سے بھرے نام نہاد جہاد پر دلیل کے لیئے پیش کرتے ہیں ۔ ۔۔؟
فیصل بھائی ، دو تین جگہوں پر آپ نے اس تھریڈ کا ذکر کیا تو میں چلا آیا کہ دیکھیں کیا لکھا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ میں بہت پہلے یہ فتویٰ پڑھ چکا ہوں اور اس سے اتفاق بھی ہے۔ بلکہ جہاد کے موضوع پر علامہ البانی کی جو تحقیق تھی مجھے اس سے بھی یقینی اتفاق ہے۔
معلوم نہیں طالبان کے نام سے آج یہ کون لوگ ہیں جو جہاد کو بدنام کرنے پر تلے ہیں؟
افغانستان میں جب ملا عمر کی قیادت میں طالبانی حکومت تھی ، اس سے مکمل نہیں تو کسی قدر اتفاق کیا جا سکتا تھا مگر آج کے جو پروپگنڈا باز ہیں ، وہ اسلام تو نہیں بلکہ کسی اور چیز کی تبلیغ کے ذریعے مسالک و مذاہب کو بدنام کر رہے ہیں !!
 
کتابیں لکھنے کی فراست نہیں ہے مجھ میں ایک عام شہری ہونے کی حیثیت سےفتنے کو بڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سینہ سلگ اٹھتا ہے۔ اب وطن سے دور ہوں تو اور کچھ تو کر نہیں سکتا سوچتا ہوں کیوں نہ تحریر کے ذریعے جہاد کروں ۔ قتال جو فی الوقت پاکستان میں جاری ہے اسے میں فتنہ سمجھتا ہوں اور یہ وہ فتنہ ہے جو دلوں میں اسلام کے پردے میں تالے لگا چکا ہے ۔ لوگ خودکشی کو ، عوام الناس کے قتل عام کو، عبادت گاہوں پر حملوں کو ، اور مسلمان ملک کی افواج و حفاظتی نظام پر حملوں کو شریعت کےدھوکے میں جائز اور حلال سمجھتے ہوئے اس کا حصہ بن رہے ہیں ، علماء چیخ رہے ہیں کہ یہ جہاد نہیں ، مشائخ فرما رہے ہیں کہ یہ جہاد نہیں ، لیکن انکو سمجھ ہی نہیں آتی ۔ لوگوں کے کان کاٹنا ، ظلم کے نئے نئے انداز سے خواتین کو نشانہ بنانا ، عوام الناس پر قاتلانہ حملے کرنا ، لاشوں کو لٹکانا ، بزرگان دین کے مزارات پر حملوں ، اور جنازوں اور قبروں پر حملوں کو عین عبادت سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے میں بحیثیت مسلمان اور دردمند پاکستانی ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس فتنے کے خلاف آواز اٹھائیں اور جہاں تک ہو سکے اسکا سدباب کریں ۔
 
بطور رضاکار ظالمان کے خلاف جہاد میں مصروف افواج میں شرکت کرتا اور ایک دن بھی نہ رکتا ۔ لیکن یہاں پر میں فی الوقت کچھ ایسی وجوہات کی بناء پر اس ملک سے باہر نکلنے سے قاصر ہوں ورنہ کب کا جا بھی چکا ہوتا ۔
 
Top