جھوٹ بولیے

یوسف-2

محفلین
jhooT-1.jpg


jhooT-2.jpg


jhooT-3.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
جھوٹ بولیئے
مثل مشہور ہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور سچوں پر خدا کی رحمت۔ مگر اس مشہوری سے جھوٹ کی اپنی صحت پر نہ اب تک کوئی اثر پڑا اور نہ آئندہ پڑنے کا امکان ہے لہذا ہم نے سوچا کہ کیوں نہ روز افزوں پھلتے پھولتے اس جھوٹ کی جھوٹی سچی کہانی پر طبع آزمائی کی جائے۔ سو ہم آج کے کالم مین جھوٹ کی گردان، دروغ بر گردن راوی کہتے ہوئے شروع کرتے ہیں کہ جھوٹ پھر جھوٹ ہے کھلے گا تو سہی۔ جھوٹ کی یوں تو کئی اقسام ہیں مگر چند ایک زبان زد خاص و عام ہیں۔ مثلاً ایک تو سفید جھوٹ ہوتا ہے جسے سب بالاتفاق جھوٹ کہتے ہیں۔ خواہ اس میں سچ کی کتنی ہی آمیزش کیوں نہ ہو اسے عموماً جھوٹے لوگ بولتے ہیں۔ کسی اور کی یہ مجال نہیں کہ وہ سفید جھوٹ بول سکے۔ اس جھوٹ کو بولنے والے اس بات کی قطعا پرواہ نہیں کرتے کہ ایک جھوٹ کو نبھانے کے لئے انہیں مزید کتنا جھوٹ بولنا پڑے گا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس قسم کے افراد ہر دم ہر جگہ اور ہر ایک کے سامنے جھوٹ بولنے کو تیار رہتے ہیں۔ تجربہ کار جھوٹوں کا کہنا ہے کہ جھوٹ ایسا بولنا چاہیے جو اگر صبح بولا جائے تو کم از کم شام تک تو اس کا بھرم باقی رہے جبکہ غیر تجربہ کار جھوٹے عموماً جھوٹ بولتے ہی پکڑے جاتے ہیں۔​
جھوٹ کی ایک بہترین قسم مصلحت آمیز جھوٹ ہے۔ ایسا جھوٹ عموماً سچے لوگ بولتے ہیں گو ہوتا تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے مگر اسے مصلحت کا خوبصورت لبادہ پہنا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے بولنے والے نہ صرف یہ کہ کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔​
راویان جھوٹ اس کی تمثیل میں یہ روایت کرتے ہیں کہ کسی دربار میں کوئی درباری بادشاہ سلامت کو زیر لب برا بھلا کہہ رہا تھا کہ بادشاہ کی نظر اس درباری پر پڑ گئی۔ بادشاہ نے ساتھ والے سے دریافت کیا کہ یہ زیر لب کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے مصلحت آمیز جھوٹ کا سہار لیتے ہوئے کہا کہ حضور یہ آپ کی شان میں تعریفی کلمات ادا کر رہا ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے زر و جواہر سے نوازنا چاہا تو قریب ہی بیٹھا ایک بد نیت درباری بول پڑا حضور یہ جھوٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ درباری آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس پر بادشاہ بولا۔ تمہارے اس سچ سے تو اس کا یہ جھوٹ ہی بہتر تھا کہ کم از کم اس کی نیت تو نیک تھی۔​
 

شمشاد

لائبریرین
ان دنوں جھوٹ کی مثال رشک و حسد کی بھول بھلیوں سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جب حسد کرنے والے لوگوں کو معاشرے نے ذلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تو "پارسا" قسم کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ ہم کیا کریں حسد نہیں کر سکتے اور کئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے رشک جیسا خوبصورت لفظ تراش لیا۔ تاکہ اپنا گزارہ حسد بھی ہوتا رہے اور پارسائی کا بھرم بھی برقرار رہے۔ ایسے ہی پارساؤں کے بارے میں تو شاعر کہہ گیا ہے کہ :​
ہم گناہ گار تو آسودہ ملامت ہیں​
یہ پارسا ہیں، ذرا ان پر بھی نظر رکھنا​
ماہرین کلریات کے مطابق "جھوٹ" خوابوں کی طرح رنگین بھی ہوتے ہیں۔ بھئی سفید جھوٹ سے کون واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے سفید جھوٹ کے ہوتے ہوئے سیاہ جھوٹ بھی ہو گا کہ سفید کا تصور سیاہ کے بغیر ممکن نہیں اور جب سفید و سیاہ جھوٹ سے آپ واقف ہو گئے ہیں تو رفتہ رفتہ دیگر رنگوں کے جھوٹ سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ ویسے اگر سائنسی نگاہ سے دیکھا جائے تو سفید رنگ بذات خود سات رنگوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تو سفید جھوٹ بھی سات رنگین جھوٹوں کا مجموعہ ہوا۔ اب یہ ماہرین جھوٹ کا کام ہے کہ اس مجموعہ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام الناس کو متعارف کرائیں۔ بالکل اس طرح جیسے سائنس دانوں نے سفید روشنی کو سات رنگوں میں علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے۔ جھوٹ کے بارے میں آخر میں ایک "زنانہ جھوٹ" بھی سنتے جائیے کہ جھوٹ بولنے والوں کو کالا کوا کاٹا کرتا ہے یعنی (اگر سیاں) جھوٹ بولے (تو) کوا کاٹے، (لہذا اے سیاں!) کالے کوے سے ڈریو۔ (ورنہ۔۔۔)​
************​
 
Top