جو سچّے اہلِ عشق تھے وہ شہر میں گم نام تھے

جو سچّے اہلِ عشق تھے وہ شہر میں گم نام تھے
اک داستانِ عشق میں عاشق برائے نام تھے

ادراک سے تھے ماورا اظہار کی حد سے پرے
کچھ شعر ایسے شعر تھےجو اصل میں الہام تھے

ہم سے یقینی منزلیں کچھ اس لیے بھی کھو گئیں
راہِ سفر آسان تھی دل میں مگر اوہام تھے

وہ شہر اب مدفون ہے زیرِ زمیں گہرا بہت
جس شہر کے سب لوگ ہی ظالم تھے خوں آشام تھے

سُرتال کی آواز پر قصّے نئے کہتے گئے
جو قافلے اِس شہر میں آئے بَہ وقت ِ شام تھے

جب میرؔ آدھی رات کو دل کھول کے روئے میاں!
تب عشق والے مست تھے باقی تو بے آرام تھے

جب حُسن بھی موجود تھا جب عشق بھی موجود تھا
تو مے کدے بھی عام تھے اور اہلِ دل بھی عام تھے

ان کی دعائیں بے اثر ان کی نمازیں رائگاں
جن کے دلوں میں شِرک تھا اور جسم پر احرام تھے

شاعر نامعلوم
 
Top