اسکین دستیاب جوہرِ اخلاق

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 41 جوہرِ اخلاق صفحہ 31

چیخیں مار مار کے رونے لگی، تب بیٹی کہنے لگی کہ اماں دور بھی کرو، رونے کلپنے سے کیا ھو گا؟ پیروں سے مناجات مانگو کہ میری جان بچے۔ ماں نے جواب دیا کہ اے لڑکی! کون سا پیر میری تمھاری سنے گا، سبھوں کی قربانی کا گوشت ھم سبھوں نے چرایا ہے۔ اب اس وقت کون رحم کرے گا؟ اپنے وقت پر ھم لوگوں نے قصور نہیں کیا؟ ھماری اب کون رعایت کرے گا؟

حاصل
ھوا و ھوس میں کٹی زندگی
دم مرگ حاصل ہے شرمندگی
اگر تو نے اس وقت توباہ 1 کی
تیری زاریاں کب سنے گا کوئی
جوانی میں جس کی نہ لے تو خبر
کرے کب بڑھاپے میں تجھ پر نظر

اٹھارھویں نقل
ابابیل پیش بینی اور دور اندیشی میں ضرب المثل ھے۔ ایک دفعہ کسی دھقان کو اس نے دیکھا کہ سن کی تخم پاشی کر رھا ہے۔ ابابیل نے بہت سی چریوں کو ایک جا کر کے کہنا شروع کیا تہ تم سب کیا دیکھتی ھو۔ یہ آدمی سن بو رھا ہے۔ صیاد اسی سے
---------
(1) توبہ
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 42 جوہرِ اخلاق صفحہ 32

ھم لوگوں کو پھنسانے کا پھندا بناوے گا۔ مناسب ھے کہ سب مل کے ایک ایک بیج کر کے چن ڈالیں۔ ان بےوقوفوں نے اس کی بات کو بالکل خیال نہیں کیا۔ جب چھوٹے چھوٹے پودے نمود ھوئے، تب پھر ابابیل نے ان چڑیوں کو خبردار کیا کہ ابھی وقت ہے، چلو کوپلیں اکھاڑ ڈالیں مگر وہ شامت زدہ چڑیائیں سب کچھ بھی متوجہ نہ ھوئیں۔ جب ابابیل نے دیکھا کہ درخت ھو چلا، تب اپنے جی میں اس نے کہا کہ اب یہاں رھنا اور انھوں کے شامل گرفتار ھونا عقل سے باھر ھے۔ حاصل کہ چلتے وقت اپنے سب دوستوں سے کہنے لگی کہ بیٹھے بیٹھے دیکھو کیا ھوتا ھے۔ اگر میری بات تمھارے آگے نہ آوے تو میرا نام کچھ اور ھی رکھنا۔ اتنا گوش گزار کر کے ابابیل چلی آئی اور شہروں میں آدمی کی صحبت میں رھنے لگی۔ تھوڑے دنوں کے بعد سن تیار ھوا اور صیادوں نے اسے بٹا اور چڑیا بجہانے 1 کا جال بنایا۔ جب ابابیل کی چتائی 2 ھوئی، کئی چڑیائیں پھنس گئیں؛ تب انھیں ھوش ھوا کہ ابابیل سچ کہتی تھی اور ھماری کم بختی آئی تھی کہ اس کی بات کو چٹکیوں پر ھم سب اڑاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) بجھانا ۔ دام میں گرفتار کرنا۔
Bajhana. to entangle, inveigle; to ensnare (as game) entrap, catch (Platts).
(2) چتانا ۔ اطلاع دینا۔ خبردار کرنا
Chitana. To cause to observe, to draw attention (to); to apprise, inform, intimate; suggest, advise; to remind; to admonish, caution, warn; to give an alarm to, to alarm (Platts).
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 43 جوہرِ اخلاق صفحہ 33

حاصل
جو عاقل ھے رھتا ھے وہ پر حذر
کہ رکھتا ہے آیندہ کی سب خبر
ھے نفع و ضرر اپنا پہچانتا
ھر اک تخم کا پھل ھے وہ جانتا
نہیں پیش بینی جسے زینہار
وہ اک روز ھو گا بلا کا شکار

انیسویں نقل
ایک دفعہ مینڈکوں کو اپنی حالت آزادگی سے بڑی نفرت ھوئی۔ تب مشتری ستارے سے انھوں نے ایک بادشاہ کی درخواست کی۔ مشتری نے انھیں آزمانے کے لیے ایک کندۂ نا تراش کو آسمان پر سے جھیل کے بیچ میں ڈال دیا۔ وہ ایسی دھمک سے گرا کہ مینڈک سب ادھر اُدھر اپنی جان بچانے لگی، اور سوا اس کے کہ مٹی میں سر دے دے کے چھپ رھیں، کچھ اور نہ بن پڑی۔ جب دیر تک یہی حالت رہی، ایک دلاور مینڈک نے سر اٹھایا۔ دیکھتا کیا ھے کہ حضرت بادشاہ جس طرح تشریف لائے تھے، ویسے ھی پڑے ھیں۔ نہ ھلتے ھیں، نہ ڈولتے، نہ کچھ بولتے اور غصے میں آکر ذرا منہ بھی نہیں کھولتے۔ یہ دیکھ کر اس نے اپنے بھائیوں کو بلایا اور سب احوال کہہ سنایا۔ ڈر جو ان کا گیا، آھستہ آھستہ اس کندے کے نزدیک آئے۔ جب قریب پہنچے دیکھا کہ وھی حالت بادشاہ کی
--------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 44 جوہرِ اخلاق صفحہ 34

اب بھی ھے۔ وہ سب ایک ایک کر کے کود کود کے اس پر چڑھے اور وھیں سے مشتری سے پھر عرض کرنے لگے کہ تو نے ایسا نامرد بادشاہ کیوں دیا؟ مشتری نے جواب میں کہا "ٹھہرو میں تمھاری خاطر خواہ ایک بادشاہ بھیجتا ہوں۔ یہ کہہ کے ایک لگلگ کو نیچے اتار دیا۔ اس نے جھیل میں پہنچتے ھی ایک ایک مینڈک کو پکڑ پکڑ کر چکھنا شروع کیا۔ کم بختی کی ماری جو رعیت سامنے آئی، اس کی یہی نوبت پہنچی۔ اس قتل عام سے مینڈکوں کا قافیہ تنگ ھوا اور مشتری کے پاس سب پھر سے نالان ھوئے کہ ھم لوگ ایسے بادشاہ سے باز آئے۔ یا تو کوئی دوسرا حاکم عادل بھیج یا جو ھماری حالت اصلی تھی اسی میں چھور دے۔ مشتری نے جواب دیا کہ اپنے کیے پر کیوں روتے ھو؟ تم سب پہلے بھلے تھے یا نہیں؟ لگلگ کو تمھاری بے صبری اور ناشکری کے بدلے میں بھیجا ھے۔ اب جس طرح سے چاھو اپنا بندوبست کر لو۔

حاسل
جو بے صبر ھیں، ھیں وہ خانہ خراب
خوشی کی نہیں ان کو ملتی شراب
خرابی کا دن ان کو آتا ہے پیش
بدلتے ہیں جو اپنی حالت ھمیش

بیسویں نقل
ایک دفعہ جب کبوتروں نے دیکھا کہ چیل ان کو بہت
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 45 جوہرِ اخلاق صفحہ 35

ستانے لگی، شاہ باز کو انھوں نے محافظ مقرر کیا۔ باز کو یہ اچھا وسیلہ ھاتھ آیا۔ چیل کے ساتھ لڑآئی نہ کر کے آپ ھی کبوتروں کو ایک ایک کر کےک کھانے لگا۔ چیل نے دو مہینے میں جو نقصان نہیں کیا تھا، شہباز نے گھر میں گھس کے دو ھی روز میں وہ کیا۔

حاصل
تو کر آپ فکر اپنی گر ھے عقیل
نہ کر اپنے دشمن کو اس میں دخیل
نہ کر اعتماد اپنے دشمن پہ تو
کہ جیتا نہ چھوڑے گا تجھ کو کبھو

اکیسویں نقل
بہت سے چور کسی گھر میں نقب دینے کے ارادے سے گئے۔ اس میں اس مکان کا ایک پالا ھوا کتا بھونکنے لگا۔ ایک چور اسے چمکارنے اور بہلانے لگا اور ایک نے روٹی کا ٹکڑا بھی اس کے سامنے ڈال دیا۔ کتے نے جواب دیا کہ مجھ سے یہ نمک حرامی نہیں ھونے کی اور میں رشوت نہیں لینے کا۔ سوا اس کے اگر اپنے خاوند کا نقصان کرنے کو ایک ٹکڑا کھاؤں اور ساری عمر آرام کھوؤں، یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔

حاصل
بہت بد ھے وہ جو کہ ھے ناسپاس
وہ ناچیز ھے مرد دانا کے پاس
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 46 جوہرِ اخلاق صفحہ 36

ھے چور اور خونی کا بھی اعتبار
مگر اس کا جو آستیں کا ھے مار
خیانت تو آقا کی ھر گز نہ کر
ملے گر تجھے گنج قاروں کا ذر

بائیسویں نقل
ایک سور کی مادہ حاملہ تھی۔ جب اسے درد زہ پیدا ھوا، ایک بھیڑیے نے آن کر کہا: "بہن تمھارے بچوں کی میں خبرداری کروں گا۔" اس نے جواب دیا "چل دور ھو، تجھ سے یگانوں سے بیگانے بہتر۔"

حاسل
جو ھے خود غرض اس سے بیزار ھو
نہ کر اعتماد اس پہ ایک نیک خو
ھمیش اس سے پرھیز کر ھوشیار
کہ ظاھر میں یار باطن میں مار

تیئیسویں نقل
کسی ملک میں ایک دفعہ غوغا ھوا کہ ایک پہاڑ کو درد زہ
---------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 47 جوہرِ اخلاق صفحہ 37

پیدا ھوا اور بچہ ھونے والا ھے۔ لاکھوں خلقت تماشے کے لیے جمع ھوئی کہ ایسی ماں کے بچے کو دیکھا چاھیے۔ ماں تو ایسی دراز قد ھے، اس کا بچہ بھی اس کے مناسب ھی ھو گا۔ آپس میں یہ کہہ رھے تھے کہ ایک ھی دفعہ اس پہاڑ کے اندر سے ایک چوھا نکل پڑا۔

حاسل
نہیں فائدہ لن ترانی سے یار
سخن راست کہہ گر تو ھے ھوشیار
کہ جھوٹوں کی عزت نہیں ھے کہیں
جو سچے ھیں وہ اس سے ملتے نہیں
کوئی جھوٹ ھوتا ھے جب آشکار
تو جھوٹوں پہ ھوتی ہے لعنت کی مار

چوبیسویں نقل
ایک بےچارا گدھا خاوند 1 کی خدمت کرتے کرتے ایسا بوڑھا ھو گیا تھا کہ ایک روز چلتے چلتے بوجھ لے کر بیٹھ گیا۔ اس کے مالک نے اتھانے کے لیے اسے اتنی لکڑیاں ماریں کہ ناتوان گدھا بے دم ھو گیا۔ جب گدھے کو ھوش آیا، اس نے کہا کہ اس بے وفا دنیا کی رسم یہی ھے کہ اگر کوئی ساری عمر نمک حلالی اور جاں فشانی میں حاضر رھے اور اتفاقاً کوئی چھوٹا سا قصور اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) خاوند یعنی مالک
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 48 جوہرِ اخلاق صفحہ 38

سے سر زد ھو تو زمانے کے لوگ اس کی سب نیکیوں کو بھول جائیں گے اور ایک بدی کو یاد رکھیں گے۔

حاسل
جوانی میں جس نے کیا تیرا ساتھ
بڑھاپے میں ھر گز نہ چھوڑ اس کا ھاتھ
نجیب اور شریفوں کا ھے یہ نشان
ضعیفی میں خادم کے ھیں قدر دان

پچیسویں نقل
ایک شکاری کتا جوانی میں اپنے خاوند کو بہت سا شکار کروا دیتا تھا۔ جب بوڑھا ھوا، اس کا اور ھی عالم ھو گیا۔ نہ وہ چستی باقی رھی، نہ وہ چالاکی۔ اس کےک بےوفا خاوند کی مہربانی بھی اسی درجے کم ھی گئی۔ آخر بےکار محض سمجھ کے اس نے اس کتے کو نکال دیا، تب اس ن ے کہا "خداوند! آپ کو یہ لازم نہ تھا، اگرچہ میرا زور و شور جاتا رھا ھے مگر دل ویسا ھی ھے اور اگر آپ کی منصفی یہی ھے تو جیسا کم زوری کے سبب سے آپ نے دور کر دیا، بوڑھے ھونے کے لیے مجھے پھانسی دیجیے۔

حاسل
جو انصاف رکھتے ھیں دل میں ذرا
نہیں بھولتے ھیں وہ شرط وفا
-------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 49 جوہرِ اخلاق صفحہ 39

بڑھاپے میں وہ لوگ صاحب شعور
نہیں اپنے خادم کو کرتے ھیں دور
وہ بوڑھوں کو کرتے نہیں نامراد
بڑھاپے کو اپنے بھی رکھتے ہیں یاد

چھبیسویں نقل
ایک دفعہ گدھا اور بندر دونوں اپنی اپنی مصیبت کا حال بیان کر کے رو رھے تھے۔ گدھے کو یہی حسرت تھی کہ خداوند عالم نے گائے اور بیل کا سینگ اسے نہیں دیا تھا اور بندر کو لنگور کی دم کا رمان تھا۔ یہ سن کر ایک چھچھوندر کہنے لگی کہ بس جانے دو، چپ بھی رھو۔ خدا نے جو دیا ھے اس پر شکر کرو کیونکہ ھم سب اندھوں کا حال تم سے نہایت برا ھے۔

حاصل
خدا کیا نہیں رکھتا ھے یہ تمیز
کہ دیوے تمھیں جو مناسب ھے چیز
رھو اس سے خوش جو کے دیوے خدا
کہ بے صبری ھے اک بری سی خطا

ستائیسویں نقل
ایک دفعہ سب خرگوش اپنی حالت کو سوچ کر بہت دل گیر
------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 50 جوہرِ اخلاق صفحہ 40

ھوئے۔ ایک نے کہا "دیکھیے ھم لوگ کیا بدنصیب ھیں۔ ھم سب کو خدا نے آدمی اور کتوں اور بازوں کے حوالے کیا ھے۔ ھمیشہ جان کے اندیشے میں اوقات کٹتی ھے۔ اب صلاح کا وقت یہی ھے کہ آپ سے آپ ھم لوگ جان دیویں، جو کل ھونے والا ھے آج ھی کیوں نہ ھو، ایسے جینے سے مرنا بہتر ھے"۔ جب کہ سب خرگوشوں نے اس بات پر اتفاق کیا، سب کے سب مل کے اپنے ڈبانے کے لیے جھیل کی طرف روانہ ھوئے۔ جب تالاب کے کنارے پہنچے، ان کی آمد کا شور و غل سن کے اور آھٹ پا کے خوف سے بہت سے مینڈک کنارے سے پانی میں کود پڑے۔ تب ایک ھوشیار خرگوش نے کہا "بھائیو! جلدی نہ کرو۔ دیکھو، فقط ھم ھی لوگ ایسے کم بخت نہیں کہ سارے جہان سے ڈرا کرتے ھیں؛ غور کرو کہ یہ مینڈک سب ھم لوگوں کی ھیبت سے کہاں نہیں جان چراتے پھرتے ہیں؟"

حاصل
نہیں کوئی دنیا میں آتا نظر
کہ رکھتا نہیں کچھ بھی خوف و خطر
خدا کے سوا کون ھے، کر تمیز
کہ بے فکر و اندیشہ ھو اے عزیز

اتھائیسویں نقل
ایک بکری گھر سے باھر ھونے کے وقت اپنے بچے کو کہہ گئی کہ خبردار جب تک میں نہ پھروں دروازہ نہ کھولنا۔
--------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 56 جوہرِ اخلاق صفحہ 46

چونتیسویں نقل
ایک دفعہ چیونٹی اور مکھی میں مناظرہ ھوا۔ مکھی ک ہنے لگی کہ دنیا میں کون سی مجلس عیش و نشاط کی ھوتی ھے کہ جس میں ھم شریک نہیں ھوتے۔ سارے بت خانے اور عالی شان عمارتیں میرے لیے کھلی رھتی ھیں۔ بتوں کے آگے کا خاصہ ھم چکھتے ھیں اور شاہ زادوں کی دعوت کھاتے ھیں اور لطف یہ ھے کہ بغیر خرچ اور درد سر کے یہ سب چیزیں ھم کو میسر ھوتی ھیں۔ کبھی کبھی پادشاھوں کے تاج پر پانو (پاؤں) رکھ دیتے ھیں اور کبھی کبھی نازنینوں کے لب سے لب ملاتے ھیں۔ بھلا تیری کیا حقیقت ھے کہ میرے آگے اپنی بزرگی جتاتی ھے؟ چیونٹی نے جواب دیا کہ چپ رہ! اور فخر بےھودہ نہ کر کر۔ تجھے کیا معلوم نہیں کہ مہمان اور بن بلائے میں کتنا فرق ھے؟ اور تیری صھبت کو لوگ ایسا پسند کرتے ھیں کہ جہاں تجھے پاتے ھیں مار ڈالتے ھیں۔ تجھ سے کسی کو کچھ حاصل نہیں، یہاں تک کہ جس چیز کو تو چھوتی ھے اس میں پلو 1 پڑ جاتے ھیں۔ اور خوب صورتوں کے منہ چومنے پر ناز مت کر۔ گھورے پر کے غلیظ کے سوا تیرے منہ سے کیا نکلتا ھے جس کو معشوق سب اور لطیف طبع لوگ پسند کریں۔ اور میرا حال یہ ھے کہ بندی جو خود کرتی ھے، اسی کو کھاتی ھے اور لوٹ اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) پلو ، کیڑا۔
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 57 جوہرِ اخلاق صفحہ 47

تاراج سے علاقہ نہیں رکھتی اور گرمیوں کے دن میں خوب زخیرہ کرتی ھے تاکہ جاڑوں میں اوقات بسر ھو۔ اور تیری زندگی اس کے برعکس کٹتی ھے کہ چھ مہینے اٹھائی گیروں کی طرح ادھر اُدھر سے لوٹ پاٹ کر کھاتی ھے اور باقی چھے مہینے فاقہ کرتی ھے۔

حاصل
نہیں تھوڑے سے فائدوں میں مگر
کبھی لذت زندگی اے پسر
جسے اپنا آرام درکار ھے
مصیبت کے دن سے خبردار ھے
کوئی حال انساں کا اے ھم نشیں
توسط کی حالت سے بہتر نہیں

پینتیسویں نقل
ایک بڑا سا ٹرہ کہیں چرتا تھا۔ ایک مینڈک اسے دیکھ کر اپنے لڑکے بالوں کو چلّا کے کہنے لگا کہ دیکھو کیا بڑا جانور ھے، مگر اب میری طرف خیال کرو کہ میں اس سے زیادہ لنبا (لمبا) چوڑا ھو سکتا ھوں۔ یہ کہہ کر اپنے کو پھلانا شروع کیا، یہاں تک کہ پیٹ پھٹ کر مر گیا"۔

حاسل
جو چھوتے بڑوں کو نہیں مانتے
بہت آپ کو ھیں بڑا جانتے
--------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 58 جوہرِ اخلاق صفحہ 48

چھتیسویں نقل
کسی گدھے کے مانو (پاؤں) میں کانٹا جو چبھ گیا اور جراح اس کو میسر نہ ھوا، لاچار ایک بھیڑیے سے اس نے رجوع کی۔ بھیڑیے نے اپنے دانتوں سے کانٹے کو نکال دیا اور دل میں حرص کے دانتوں کو اس پر تیز کیا۔ گدھا چونگہ ایسا گدھا نہیں تھا کہ بھیڑیے کے فریب کو اپنے حق میں بہتر جانتا اور اس کے دلی ارادے کو نہیں سمجھتا، اس نے اس کے کان کے نیچے ایک لات ایسے زور سے لگائی کہ بھیڑیا بیٹھ ھی تو گیا۔

حاصل
جو نا آشنا اور ھیں بے وفا
کوئی ان کا ھوتا نہیں آشنا
جو ھیں دشمن خلق اے نیک نام
انھیں دشمنوں ھی سے پڑتا ھے کام
جو چاھے کہ ھو دوست اس کا جہان
بھلائی کرے سب کے ساتھ اے جوان
-------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 59 جوہرِ اخلاق صفحہ 49

سینتیسوں نقل
ایک شخص جہاز پر سوار ھوا۔ چونکہ سمندر کا سفر اس نے کبھی نہیں کیا تھا، جب طوفان آای اور جہاز نے چر 1 کے اوپر ٹکر کھائی، اوروں کو بڑی دھشت ھوئے مگر اس آدمی نے شکر بھیجا اور کہا الحمدللہ کہ ھم کنارے پر پہنچے

حاصل
یہ ھے خاصۂ آدمی اے عزیز
وھی جانتا ھے جو ھے با تمیز
کہ جس چیز سے پاتے ھیں ھم گزند
سمجھتے ھیں اس کو بہت سود مند
جسے نیک و بد کی نہیں کچھ تمیز
ھلاکت ھے اک دن اسے اے عزیز
اگر اپنے آرام پر ھے نظر
بھلے اور برے میں بہت سوچ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) چر ، جزیرہ۔
چر Char. A sandbank, an island formed by the current of a river, a shoal, a ford (Platts).
-----------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 60 جوہرِ اخلاق صفحہ 50

اڑتیسویں نقل
ایک موٹا تازا گھوڑا زیوروں سے لدا ھوا چلا جاتا تھا۔ راہ میں اس نے ایک غریب بے کس گدھے کو دیکھا کہ بوجھ لیے چلا جاتا ھے۔ اسے ڈپٹ کے کہنے لگا کہ کیوں بے گدھے! تو مجھے پہچانتا نہیں کہ میں کون ھوں؟ ار کس شخص کی سواری کا گھوڑا ھوں۔ تجھے معلوم نہیں کہ جب میرا آقا مجھ پر سوار ھوتا ھے، میری پیٹھ پر ساری سلطنت کا بوجھ رکھا رھتا ھے؟ میری راہ سے ھٹ جا، نہیں تو تجھ کو خاک میں روند ڈالوں گا۔ یہ سن کر بے چارے گدھے نے مارے ڈر کے راستہ چھوڑ دیا اور دل میں کہنے لگا کہ اگر میرے دن ایسے پھرتے کہ جیسے اس نصیب ور کے ھیں تو کتنا شکر میں کرتا۔ غرض ایک مدت تک وہ بےچارا گدھا اپنی بے کسی کے حال پر افسوس کرتا تھا کہ اتفاقاً ایک روز اسی گھوڑے سے پھر ملاقات ھوئی، مگر اس کی صورت کچھ اور ھی ھو گئی تھی۔ نہ وہ شان باقی رھی تھی نہ وہ شوکت، نہ وہ سونے کی ھیکل، نہ وہ کار چوبی چار جامہ، بلکہ اس کے بدلے ژولیدہ حال اور گرد آلودہ ایک مہتر کی گاڑی میں چوتا ھوا آھستہ آھستہ اپنے کو گھسیٹتا ھوا چلا جاتا تھا۔ جب گدھے نے اس کے حال میں آگے سے اتنا فرق پایا، اس نے پوچھا "کیوں جی یہ کیا ھوا؟ کیا اس مثل کی دلیل تم ھی ھوے" کبھی گاڈی ناؤ پر اور کبھی ناؤ گاڈی پر۔" گھوڑے نے جواب دیا کہ جب تو نے مجھے دیکھا تھا، میں امیر الامرا کی سواری کے خاصوں میں تھا، مگر
----------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 66 جوہرِ اخلاق صفحہ 56

آتے ھیں۔ ایک لمحے کے بعد کتے بھی نظر آئے اور ھرن بھی چوکڑی بھرتا ھوا سامنے کے م یدان کو طے کر کے جنگل کی طرف چلا اور کتوں کو کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑا، مگر جوں ھی جنگل میں گھسا اور چاھا کہ ایک جھوڑی (جھاڑی) کے اندر سے نکل جاوے کہ اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے اور ایسے بے طور پھنسے کے چھڑا نہ سکا۔ اس عرصے میں کتوں نے پہنچ کر اس کو شکار کیا۔ دم واپسیں ھرن یہ کہنے لگا کہ افسوس! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں 1 پر فریفتہ ھوا تھا مگر انھیں نے مجھے بلا میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقات سے دیکھا کرتا تھا، سو ان کے سبب سے میں سارا میدا طے کر آیا۔ اگر انھیں پر بھروسا کرتا تو اس وقت کتنی دور نکل جاتا۔

حاصل
غریب اور عاجز ترا دوست اگر
ترے کام آئے برے وقت پر
وہ بہتر ھے اس یار سے اے پسر
جو خود کام ھے گرچہ ھو مال ور
اٹھا ایسے کی دوستی سے تو ھاتھ
مصیبت میں جو چھوڑ دے تیرا ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سینگ
-------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 67 جوہرِ اخلاق صفحہ 57

سینتالیسویں نقل
ایک سانپ نے کسی صورت سے لوھار کی دکان میں گھس کر ایک ریتی کو ایسا چاٹنا شروع کیا کہ اپنی زبان کو لہو لہان کر ڈالا۔ جب اس موذی نے خون کو دیکھا، یہ سمجھ کر خوش ھوا کہ میں نے ریتی کا خون پیا؛ اس تصور میں زیادہ زور سے ریتی کو چاٹنے لگا، یہاں تک کہ مارے درد کے بے تاب ھو گیا۔ تب وہ ریتی کو دانت سے کاٹنے لگا مگر اس کے سب دانت ایک ایک کر کے ٹوت گئے۔ آخر جب کہ قریب الہلاکت ھوا، لاچار ھو کر اس کو ریتی سے ھاتھ اٹھانا پڑا۔

حاصل
لڑائی سے پہلے تجھ کو ضرور
کہ معلوم کر اپنے دشمن کا زور
برابر ھو گر تاب و طاقت میں تو
تو لڑنے میں اس سے نہ ھٹنا کبھو
اگر اس کی سی تجھ میں طاقت نہیں
تو ھر گز نہ چھیڑ اس کو اے ھم نشیں

چوالیسویں نقل
بھیڑ اور بھیڑیوں میں ایک دفعہ لڑائی ھوئی۔ جب تک کہ
----------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 68 جوہرِ اخلاق صفحہ 58

کتوں نے بھیڑ کا ساتھ دیا، بھیڑیں بھیڑیوں پر غالت رھیں؛ جب کہ ان موذیوں نے یہ دیکھا انھوں نے دام فریب کو بچھا کر بے چاری سیدھی بھیڑوں کے پاس ایلچی بھیج کر صلح کی درخواست کی اور کہلا بھیجا کہ اب اس جنگ و جدال سے ھاتھ اٹھایا چاھیے اور جب تک کہ دونوں طرف سے صلح کے مراتب طے ھوں، رسم و دستور کے موافق تمھارے کتے ھمارے کنے 1 اور ھمارے بچے تمھارے یہاں اول 2 رکھے جاویں۔ اس بات کو بےچاری سادہ لوح بھیڑوں نے منظور کر کے اپنے کتے وھاں بھیج دیے اور بھیڑیوں کے بچے اپنے یہاں منگوا لیے۔ صلح نامہ ھنوز لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ بھیڑیوں کے بچوں نے اپنے ماں باپ کی جدائی کے سبب سے چلّانا اور غل مچانا شروع کیا۔ اس بات سے آزردہ ھو کر ان کے ماں باپ نے شور کیا کہ دیکھو دیکھو بھیڑوں نے دغا کی اور ھمارے بچوں کو ستایا۔ یہ کہتے ھوے سب کے سب ان شامت زدہ بھیڑوں پر آ گرے۔ چوں کہ اس دفعہ کتے اُدھر کی طرف نہ تھے جو ان کا مقابلہ کرتے، اُن جفاکاروں نے جس جس طرح چاھا غریب لاچار بھیڑوں کو زیر کیا اور ان نادانوں نے کہ دور اندیشی کی راہ کو چھوڑ کر اپنے کو بے دست و پا کر ڈالا تھا، اپنی نادانی کی خوب ھی سزا پائی۔

حاصل
کرے صلح کا قصد موذی سے جو
وہ آفت میں ھے ڈالتا آپ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) پاس
(2) اول۔ ضمانت۔ گروی، رھن
اول Ol. Personal hail or security, surety; pledge, pawn; hostage (Platts).
-------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 69 جوہرِ اخلاق صفحہ 59

نہ دے اپنا ھتیار موذی کو تو
کہ بے دست و پا ھو گا اے نیک خو
خدا نے کیا ھم سے جس کو جدا
کہاں میل ھو اس سے اے با وفا
جو باطن میں رکھتا ھو بغض و عناد
نہ کر صلح پر اس کی تو اعتماد

پینتالیسویں نقل
ایک بڑھئی نے جنگل سے یہ درخواست کی کہ مجھے فقط اتنی لکڑی عنایت ھو کہ اپنے بسولے کا دستہ بناؤں۔ جنگل نے اس درخواست کو چھوٹی سی بات اور ناچیز جان کر دستہ بنانے کے موافق لکڑی اسے دی، مگر جب درختوں نے دیکھا کہ اسی دستے کی مدد سے سارا جنگل کٹا جاتا ھے، انھوں نے کہا کہ اب اس کا علاج نہیں کیوں کہ اپنی حماقت سے ھم اس بلا میں گرفتار ھوے۔

حاصل
اگر اپنی نادانیوں سے کبھی
مصیبت میں پڑتا ھے ناداں کوئی
پشیمانیوں کا پہنتا ھے تاج
کہ اپنے کیے کا نہیں کچھ علاج
ھر اک کام میں جو کہ ھے ھوشیار
سمجھتا ھے پہلے ھی پایان کا
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 70 جوہرِ اخلاق صفحہ 60

سمجھ لے کہ بے راہ جو جائے گا
وہ ھر کام میں ٹھوکریں کھائے گا

چھیالیسویں نقل
کسی زمانے میں جسم کے سارے عضو پیٹ سے لڑ پڑے اور ان سرکشوں کے سردار ھاتھ اور پاؤں تھے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا ظلم ھے کہ ھم سب شب و روز پیٹ کی غلامی کیا کریں اور اسی کو کھلانے اور پلانے اور آسودہ رکھنے میں اوقات بسر کریں اور یہ نابکار کچھ بھی کام نہ کرے اور کھا پی کے نوابوں کی طرح پڑا رھے اور ھم سب ھر وقت اسی کی فرماں برداری کریں، بلکہ دعوتوں اور ضیافتوں میں اس کو لیے لیے پھریں؛ علاوہ اس کے یہ عجیب نا انصافی ھے کہ جب یہ حضرت بیمار ھوتے ھیں تو ھم سب بھی ان کے ساتھ قید میں رھتے ھیں اور اس حالت میں بھی ان کی فرمایشیں بجا لاتے ھیں اور ان کے رنج و درد کو خواھی نخواھی آپس میں بانٹ لیتے ھیں، اور ھمیشہ یہ میاں صاحب کچھ نہ کچھ گڑبڑی آپ ھی پیدا کیا کرتے ھیں۔ یہ بڑے تعجب کی بات ھے کہ ھاتھ پاؤں خواہ مخواہ ان کے رنج و مصیبت کے شریک ھوں۔ حاسل کلام ھاتھ پاؤں نے کہا کہ اب ھم لوگوں کو یہ تابعداری اور جاں فشانی منظور نہیں۔ آئندہ کے لیے میاں پیٹ اپنے حق میں جو مناسب جانیں وہ کریں۔ اس کے بعد منہ نے کہا کہ بے اجازت ھاتھ کی اپنی راہ سے کسی چیز کو پیٹ کی طرف گزرنے نہیں دیں گے۔ اور دانتوں نے جواب صاف دیا کہ ھمارا کام چکی کا ھے، جب
----------------------------------------------------
 

مومن فرحین

لائبریرین
71
تک کے (که) هاته هم تک کچھ نہیں پہنچاوے گا هم اپنے کو پیس کر پیٹ کو نہیں کھلاویں گے ۔ غرض اسی طرح سب عضو نے با هم هو کر پیٹ کے جلانے کی ترکیبیں کیں ، مگر بعد چند روز کے سبهوں نے دیکھا کہ سب کے حسن اور قوت میں کچھ کچھ خلل واقع هونے لگا ۔ هاتهوں كا زور کم هوليا اور چستی اور چالاکی جاتی رہی اور پاؤں کو کھڑے هونے کی طاقت باقي نه رهی - جب سارے اعضا پر اس ناتوانی کا سبب ظاهر هوا ، تب اپنی حماقت اور
خر دماغی پر نفرین بھیج کر انھوں نے چاها که به دستور سابق اپنی اپنی خدمت میں سر گرم ہوں مگر بن نه پڑی ، اس لیے که آس وقت تک پیٹ کو بھوک اور پیاس کے سبب سے ایسا صدمة عظيم پہنچ چکا تھا که ہاتھ اور پاؤں کی مدد سے کچھ فائده نه ہوا ،
سب کا قصہ ایک بار هي فيصل هوگیا .
حاصل
نہیں اس میں اے دوست کچھ ریب و شک
ہے آبادیء ملک اس دم تلک
که هر قوم کے لوگ اے نام دار
رہیں اپنے پیشے میں سر گرم کار
مگر جب کسی مملکت میں ۔ کوئی
تکبّر سے کرتا ہے گردن کشی
وہ اس ملک میں ہے خلل ڈالتا
خبر اپنی أس کو نہیں مطلقاً
که اس کی خرابی بھی ھے اس کے ساتھ
جلا وه، دیا آگ میں جس نے ہاتھ


72
سینتالیسویں نقل

ایک چڑیا کسی تیار کھیت میں جا کر اپنے بچے رکھتی تھی اور جب دانا چگنے کے لیے گھونسلے سے نکل جایا کرتی ، بچوں کو کہہ جایا کرتی که جو کچھ دیکھنا سننا مجھ سے کہہ دینا ۔ ایک روز جب وہ پھر کے آئی ، بچوں نے کها کہ کهیت والا آج اس طرف
آیا تھا اور کھیت کاٹنے کے لیے ٹولیے محلے والوں کو بلا گیا ہے ۔ یہ سن کر چڑیا نے کہا : ”خیر کچھ اندیشه نهیں هے۔ دوسرے روز بچوں نے اپنی ماں سے کہا کہ آج پھر وہ آن کر اپنے دوستوں کو کھیت کاٹنے کے لیے تاکید کر گیا ہے ۔ چڑیا بولی کہ اے بچو! ڈرو مت، ابھی کچھ خوف نهیں هے ۔ جب که تیسرے روز ان بچوں نے کہا امّا (اماں) جان ! کھیت والا اپنے بیٹے کو کل صبح کے وقت لے کے آوے گا اور آپ کھیت کو کاٹ کے لے جائے گا ۔ تب وہ بولی که اب اپنا بھی کچھ ٹھکانا رهنے سہنے کا کیا چاهیے کیوں که جب تلک پڑوسیوں اور دوستوں کی مدد پر کھیت کا کاٹنا موقوف تها تب تک کچھ اندیشه نه تھا مگر جب مالک اپنا کام آپ کرنے کو مستعد هوا هے تو بے شک وہ کام ہوگا ۔
حاصل
جو چاهے که هو اپنا انجام کار
نه چهوڑے کسی اور پر زینهار
(۱) پڑوسی - دوست -
 

محمد عمر

لائبریرین
75

نصيحت مری سن لے اے نیک خو

بڑی آفتوں اے بچا آپ کو

اور ایسے بھی ہیں لوگ جو پائے نام

کہ پاداش لینے کو اور انتقام

وہ سب زندگی اپنی اے مہرباں

مصیبت میں ہیں کاٹتے بے گماں

ذری خوشی کے لیے یار تو

بڑی ناخوشی میں نہ پڑنا کبھو


پچاسویں نقل

دو لڑکے کسی قصاب کی دکان میں گئے۔ ایک نے ایک ٹکڑا گوشت کا چرا کر دوسرے کے حوالے کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد قصاب نے دیکھا کہ گوشت کا ایک ٹکڑا غائب ھے۔ اُس نے دونوں کو چوری لگائی۔ جس نے چرایا تھا اس نے لاکھوں قسمیں کھائیں کہ میرے پاس نہیں ھے اور جس کے پاس گوشت تھا اس نے سوگند کھائی کہ میں نے نہیں چرایا۔ قصاب نے کہا کہ ایسی حیلہ سازیوں سے انسان کو البتہ فریب دو گے اور آدمی کی آنکھوں میں خاک ڈالو گے مگر اُس کی آنکھ تو دیکھتی ہے کہ جو اوپر بیٹھا ہوا تمہارا تماشا دیکھ رہا ہے۔

حاصل

یہ حاصل ھے اس نقل کا اے پسر

کہ بالفرض مکّاریوں سے اگر


76

نہ معلوم ھو تیرا سب مکر و زُور

خدا کو تو ھے علم اُس کا ضرور

اگر خوف عقبیٰ کا رکھتا ھے تو

نصیحت مری بھولنا مت کبھو

نہ وہ کام کر خلق میں زینہار

کہ ھو جس میں خالق سے تو شرم سار

قطعہ

شکر اللہ کا ھو چكا مطبوع

نسخۂ نغز جوھرِ اخلاق

چاھیے اس کو نیز تیشۂ فکر

کہ یہ ھے کانِ گوہرِ اخلاق

سمجھے وہ اس کو جس کے ھاتھ میں ھو

تیغِ تسخیرِ کشورِ اخلاق

ھم نے کھولا ھے عاقلوں کے لیے

در گنجینۂ زرِ اخلاق

جس کو تہذیبِ نفس ھے درکار

ھے وہ جو یائے زیورِ اخلاق

جس
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۲۵

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پہلی نقل
ایک روز کسی مرغ نے کسی گھورے ۱ پر چگتے میں ایک جواھر بیش قیمت دیکھا۔ افسوس سے ایک آہ سرد بھر کر کہنے لگا کہ جوھری کے ھاں اس کی بہت قدر ہوتی لیکن میرے نزدیک ایک دانہ اناج کا اس سے ھزار درجے بہتر تھا۔
حاصل
جسے گندم و جَو سے ھووے سرور
نہیں کچھ اُسے لعل و گوھر ضرور
جو روٹی کا ٹکڑا ملے بھوک میں
تو معلوم ھو زر سے بہتر ھمیں
______________
(۱) گھورا۔ کوڑا کرکٹ
Ghura: Sweeping, rubbish ; — soil manure ; —a dust-
heap, dunghill ; a temporary fire-place ;a
(stove (Platts

صفحہ ۲۶
دوسری نقل

ایک مرغ اجل گرفتہ کسی گیدڑ کے پالے پڑا۔ ھر چند اپنا شکار دیکھ کے گیدڑ کا جی للچایا، پھر بھی اس نے فی الفور مرغ کو اس لیے نہیں چکھا تا کہ لوگ جانیں کہ دنیا میں اتنا ایمان اب تلک بھی باقی ہے۔ اس وقت حیلہ جوئی کر کے ایسے ڈھنگ پر وہ چلا کہ وہ بےچارا سیدھا جانور صاف اس کے دام میں آ گیا۔ یعنی اس نے مرغ سے کہا کہ تو بڑا بدذات اور واجب القتل ھے، کیونکہ تو ساری رات چلاّ چلاّ کے آس پاس کے اشراف پڑوسیوں کا دم ناک میں لاتا ھے، اور اس طرح لوگوں کو جگا رکھتا ھے کہ ھمارے ھم جنسوں کی معاش میں خلل واقع ھوتا ہے۔ بتلا تو کس کام کا ھے؟ کیا سبھوں کو حیران کرنے کے لیے تو پیدا ھوا ھے؟ مرغ نے جوا ب دیا کہ حضرت ! آپ نے کونسا ایسا قصور ٹھہرایا کہ بندے پر اتنا عتاب فرمایا؟ میں بانگ البتہ دیتا ھوں لیکن خواہ مخواہ اور بے وقت نہیں۔ بندہ آفتاب عالم تاب کا نقیب ھے اور اس خسرو گردوں سریر کی برآمد (کی خبر) دیتا ہے۔ سوا اس کے موذنی کرتا ھوں اور نماز وظیفے کے لیے لوگوں کو جگا دیتا ھوں اور غریب غربا کو سحر کے وقت ھوشیار کرتا ھوں کہ اٹھو اپنے کاروبار میں جاؤ۔ علاوہ اس کے بندے کی بہت سی حرمیں ھیں ، جس روز جو کہ اپنی قسمت کی برائی سے میری صورت نہیں دیکھنے پاتی ، وہ بے چاری میری آواز سن کر خوش رھتی ھے۔
گیدڑ نے کہا: ”بس بس تو اپنی زناکاری کا اپنے منہ سے آپ

صفحہ ۲۷
اقرار کرتا ھے۔ اگر میرے ناشتے کا وقت نہ ھوتا تو تجھ کو مار ڈالنا شرعاً واجب تھا۔ “ یہ کہتے ھی گیدڑ نے اس کو اور اس کے قصے کو تمام کر دیا۔
حاصل
زبردست جب حیلہ جوئی پر آے
نہ ھوئے ضعیف اس سے عہدہ بر آے
مقابل ھو ظالم کے جب زیر دست
سمجھ نسبت مور با فیل مست
تیسری نقل
ایک سرچشمے پر ایک بھیڑیا پانی پی رھا تھا۔ اتفاقاً ایک کا بچہ اسی چشمے پر آیا، لیکن بھیڑیے سے بہت دور پانی پینے لگا۔ اسے دیکھتے ھی بھیڑیا دانت نکال کر دوڑا اور گالیاں دینے لگا کہ کیوں رے نابکار! جس پانی کو میں پیتا ھوں، تو اس کو جھوٹا اور گدلا کرتا ھے، کیا تیری کم بختی آئی ھے؟ یہ سنتے ھی بچے کے ھوش اور حواس اڑ گئے کہ یہ کیا بلا آئی۔ اُس نے جواب دیا کہ اتنے فاصلے پر میں نے پانی کو کس طرح سے گدلا کیا ھے؟ چونکہ بھیڑیے کا مطلب یہی تھا، اُس نے کہا ”تو کیا بکتا ھے، کیا اپنے باپ کا احوال تو بھول گیا؟ چھ مہینے ھوئے کہ اسی طرح سے بڑوں سے گستاخی کے لیے اُس کی جان گئی۔ کیا اُسی طرح سے اپنی زندگی تجھ کو بھاری معلوم ھوتی ھے؟ “بچے نے کہا۔” حضرت!

صفحہ ۲۸
بندے کی بات کو لغو نہ سمجھیے۔ چھ مہینے پہلے میں پیدا بھی نہ ھوا تھا، میں اس وقت کی کیا خبر رکھتا ھوں ؛ خیر جو باپ نے کیا باپ نے پایا، بیٹے کا کیا قصور؟“ بھیڑیے نے کہا ” تو پھر منہ لگتا ھے، لیکن تو کیا کرے، یہ نطفے کا اثر ھے، اور ھم لوگوں سے ٹیڑھے ھو کر چلنا تیری قوم کی عادت ھے۔ تب تو صحیح (سہی) جب تجھ سے ستر پشت کا بدلہ لوں۔ اتنا کہہ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقایا متن افتادہ ھے)
حاصل
کسی کو نہ دنیا میں ھووے نصیب
کہ ظالم کے پالے پڑے وہ غریب
اگر پاس بے زور کے ھو دلیل
زبردست کے سامنے ھے ذلیل
نہیں ذی مروت جو خود کام ھے
کہ مطلب سے اپنے اُسے کام ھے
چوتھی نقل
ایک دفعہ چوھوں اور مینڈکوں میں جھیل اور تالاب کی ریاست کے لیے بڑی لڑائی ھوئی، اس واسطے کہ طرفین اپنے باپ دادا کی میراث اُسے قرار دیتے تھے۔ دونوں طرف کے دو پہلوانوں نے میدان لیا لیکن ان کی جنگ ھنوز تمام نہیں ھوئی تھی کہ ایک چیل جھپٹا مارتی ھوئی آئی اور دونوں کو چنگل میں لے کے اڑ گئی۔

صفحہ ۲۹
حاصل
جو آپس میں لڑتے ھیں ناداں ھیں وہ
مگر اپنی دانش پہ نازاں ھیں وہ
کچہری میں بھرتے ھیں سب مال و زر
نہیں اپنے آگے کی رکھتے خبر
لڑائی میں کھو کر کے سرمایا سب
گدائی کریں گے برنج و تعب
یہ ثابت ھے عاقل پر اے نکتہ ور
جہاں میں نہیں پھوٹ سے بدثمر
پانچویں نقل
ایک روز کسی شیر اور ریچھ نے باھم ھو کر ایک ھرن شکار کیا لیکن جب صید ھاتھ آیا، کسی کو برابر کا حصہ لینا منظور نہ ھوا۔ آخر آپس میں نقاض ھوا۔ یہاں تک دونوں لڑے کہ بے دم ھو کر گر پڑے ؛ نہ اس کو طاقت رھی نہ اس کو۔ اس میں ایک گیدڑ آن پہنچا۔ ان دونوں کا حال دیکھ کر اس نے کہا: ”واہ واہ ! یہ اچھا شگوفہ پھولا، خیر میری قسمتوں سے مجھے یہ شکار ملا، میں کیوں اسے چھوڑ دوں ۔ “ یہ کہہ کر دونوں کی آنکھوں کے سامنے سے ھرن کو گھسیٹ کر لے گیا۔ شیر اور ریچھ ھات پٹک کر رہ گئے اور یہ نہ کیا کہ دونوں کم بختوں نے آپس میں آدھوں آدھ بانٹ لیا۔ اس نے سب کا سبھی لے کر چل دیا۔

صفحہ ۳۰
حاصل
جہاں چاھو اس کا کرو امتحاں
ھے آپس کے جھگڑے میں تم کو زیان
کرو گے کچہری کا گر تم خیال
تو کھو بیٹھو گے ھاتھ کا اپنے مال
کچہری کے کتے جو ھیں سب نڈر
تمھیں نوچ کھائیں گے واں دیکھ کر
جسے بہتری اپنی منظور ھو
گرادے وہ جھگڑوں کی دیوار کو
چھٹی نقل
ایک کتا منہ میں ٹکڑا گوشت کا لیے دریا کے پار ھوتا تھا، اپنا سایہ جو اس نے پانی میں دیکھا سمجھا کہ دوسر ا کتا اسی طرح سے گوشت لیے جاتا ھے۔ حرص کے مارے اس کا گوشت چھیننے کے ارادے سے جوں لپکا اس کے اپنے منہ میں جو تھا وہ بھی گر پڑا۔
حاصل
جہاں میں ھے لالچ کا بازار گرم
نہیں لالچی کو ھے لوگوں سے شرم
جو ھے لالچی خوار ھوتا ھے وہ
کہ اپنی گرہ کا بھی کھوتا ھے وہ
 

مقدس

لائبریرین
36

حاصل

کلاوه سلاطیں جو ہے زرنگار
وہ ظاهر میں ھے پھول، باطن میں خار
جو بے کھٹکے اک گوشے میں هو مقام
کریں تخت نادر کو هم سو سلام


بارھویں نقل

ایک کالے کوے کو کہیں جو ایک گھونگھا ملا تو چونچ
سے گھنٹوں اس نے ادھر ادھر ٹھونکا مگر توڑ نه سکا۔ ایک کوے نے دیکھ کر کہا ’’يار يوں نہیں، تم چونچ میں اسے لے کے اوپر اڑو، جب بلندی پر پہنچو، اس بڑے پتھر پر اسے پٹک دو۔ اتنی دور سے آپ سے آپ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔" وہ کوا بے چارا بھولا بھالا یہ سن کر خوش هوا اور اوپر بہت اونچا اڑا اور کہنے کے مطابق اس نے کیا، مگر اس کے اترتے اترتے کالا کوا اسے لے بھاگا۔

حاصل

اگر خود غرض سے تو لے گا صلاح
کہے گا وہ جس میں ہے اس کی فلاح
تجھے رنج دیوے گا وہ روسیاہ
ترے کام سب وہ کرے گا تباه


37

تیرھویں نقل

ایک گیدڑ نے ایک کوے کو دیکھا که ایک لطيف لقمه چونچ میں دبائے ھوئے درخت پر بیٹھا ھے۔ جی اس کا للچایا مگر اس کا حاصل کرنا مشکل دیکھا۔ جب اور کچھ نہ بن پڑی، اس نے کوے کی خوشامد شروع کر دی که سبحان الله جیسی تیری صورت هے، ویسی ھی سیرت بھی تو نے پائی ھے۔ تیرے پر کیا خوش نما هیں اور اس کی سیاہی پر کیا جلوا هے اور سیرت میں بھی تو یکتا ھے۔ سوا تیرے کس پرند یا چرند کو خدا نے پیش بینی اور دور اندیشی اور غیب آگاهی عطا کی هے؟ مگر ایک عیب ہے کہ اس نے اپنے سب کارخانے میں باقی رکھا ہے، تا که اس صانع بےعیب کی برابری کوئی نہ کر سکے۔ اگر اپنی صورت اور سیرت کے موافق تو خوش آواز بھی ہوتا تو پردۂ زمین پر کوئی تیرا ثانی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سنتے هی کوے کو حرص هوئی که کچھ سنائے اور گیدڑ کے جی سے یه شک بھی مٹائے۔ گلا کھنکھار کے منہ جو اس نے کھولا، وہ مزے دار لقمه ٹپ نیچے آتا رها۔
گیدڑ نے اٹھا لیا اور مسکرا کے کہنے لگا که بندے نے سب باتوں میں آپ کی تعریف کی تھی مگر آپ کی عقل کی صفت تو نہیں کی تھی۔ کیا اس میں بھی نقص دکھانا تمھیں واجب ھوا تھا؟


38

حاصل

خوشامد کا هوتا هے جس کو مرض
نهیں اس کی تعریف ھے بے غرض
نه بهول اس کی باتوں په سن لے ذرا
که اک روز اس خطا پائے گا

چودھویں نقل

ایک شیر اپنی جوانی کے عالم میں بڑا ظالم تھا۔ جب بوڑھا هوا، اس کا حال اور هی هو گیا ۔ حاصل کلام اس کے چار دن کے ظلم کا دور جب اخير هوگیا، تب جتنے جانوروں کو اس نے ستایا تھا، سب آن آن کر اپنا اپنا بدله اس سے لینے لگے اور آپس میں ایکا کرکے اس پر ٹوٹ پڑے اور سبھوں نے مل کر اس کی خوب هی خدمت کی اور اس نے بھی چار و ناچار برداشت کی مگر جب گدھے نے آن کر لات اٹھائی تو ذلت کے صدمے سے دل اس کا چور هو گیا۔


حاصل

کر احسان گر تجھ کو طاقت هے اب
که هوں بنده لطف یہ لوگ سب
ثنا خواں ترے وہ رهیں گے مدام
برے وقت میں تیرے آئیں گے کام


39

اگر پاس ہے تیرے کچھ مال و زر
مدد کر غریبوں کی اے با خبر !


پندرھویں نقل

کسی کے پاس ایک اچھا سا کتا تھا اس لیے هر وقت اپنے
خاوند کے ساتھ کھیل کود کیا کرتا۔ اسی گھر میں ایک گدھا بھی تھا۔ اس نے کتے کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر اپنے جی میں سمجھا که میں همیشه اپنے خاوند سے دور رهتا هوں اسی لیے اس خراب حال رهتا هوں۔ اگر کتے کی طرح اس کے ساتھ کھیلوں تو اچھا رهوں- دل میں یہ ٹھہرا کے خاوند کے پاس گیا اور جوں هی کتے کی

طرح اگلے دونوں پاؤں اٹھا کے صاحب کی گود میں رکھنے لگا، اس نے ایک سونٹے سے اسے پیٹنا شروع کیا۔ بے چارہ گدها عاجز اور پشیمان اپنے تھان پر چلا آیا اور کہنے لگا کہ سچ ھے بزرگوں کا قول نہیں ٹلتا "ھر کارے و ھر مردے"

حاصل

هر اک کا هے دنیا میں کام اک جدا
کرے شیر کا کام کب بھیڑیا
تجاوز نہ کر اپنی حد سے کبھی
که گدها بنائیں گے تجھ کو سبھی


40

سولہویں نقل

ایک دفعہ کسی شیر کے پنجوں تلے ایک چوها آگیا اور شیر نے اسے مار ڈالنے کا قصد کیا مگر جب اس بے چارے نے بہت آہ و زاری سے اپنی جان بخشی چاهی، شیر نے اسے رهائی دی۔ چند روز کے بعد انقلاب روزگار سے ایسا هوا که وهی شیر ایک شکاری کے دام میں آگیا لیکن جب اس چوهے کو یہ وحشت ناک خبر ملی، اس نے اپنے محسن کی مدد کی اور بات کے کہتے جال کو کتر کے شیر کو خلاص کر دیا۔


حاصل

بنایا ہے اگر تجھ کو حق نے امیر
نه دیکھ ان غریبوں کو هرگز حقیر
خبر اپنی گردش کی بھی هے کهیں
که اک حال پر کوئی رهتا میں
کیا جس نے رحم اس نے پایا هے رحم
خدا اس کا ہے جس نے کھایا هے رحم


سترھویں نقل

ایک چیل بیماری بے قریب الہلاکت هوئی ۔ اس کی ماں جب
 

سیما علی

لائبریرین
صفحہ ریختہ ۔51

ادهر ایک بکری باہر چلی اِیک بھیڑیا گھر کے پیچھے سے آیا وه سن چکا تھا که بکری اپنے بچے کوکس طرح سے کہنے تأکید کر کئی تھی، اس نے بکری کی آواز بنا کر کے بچے کو کهنے لگا کة بيٹا مین پھر کے أئي هوں ، دروازه كگول دے ،چونکہ که اس مکاری سے بچہ آگاه تھا،اسن جواب دیا که اے اماں! اپنی داڑھی دکھلا
اس ایر بکری کی آواز بنا کرک م کو باهر سے
دو تو درواز كھول دوں۔

حاصل

فريبوں سے . مکار کے اے جوان
بزور خرد اپنا ہو پاسبان
نگہبانی عقل سے میرے یار
بچے گا تو آفت سے لیل و نہار
کہ ہے عقل سے نیک و بد کی تمیز
اگر عقل ہے غور کرے اے عزیز

انتيسوین نقل

ایک کتے نے بھیڑی (بھیڑ) پر اس مضمون کی نالش کی که میں نے کئی پیانے گیهوں ک اسے قرض دیے ہیں، اس کو یہ ادا نهیں کرتی ۔ اس بات ک گواه مجهھ سے بھی بزرگ اور شريف هیں ۔یعنی بھیڑیا اور چیل اور گدھ. جب أن تینول گواهی دی ۔ایک بھیڑی کا لينا ثابت کیا ، مقدمه اس پر فيصلہ هوا گه بھیڑی اپنی پیٹھ کے
51-ریختہ

صفحہ ریختہ-52

پشم کو بیچ کر دین ،کو ادا کرے

حاصل

لگے جب سے گواہی دروغ
عدالت میں نہیں سچ کو فروغ
امیروں کے آگے کرے کیا غریب
لڑے گر انھوں سے تو ہے بدنصیب
جہاں ہر طرف داری ہے اے مہرباں
کہاں رحم و انصاف کی بو وہاں


تیسو یں نقل
۔

ایک سانپ کسی دهقان کے گھرمیں جو گھسا ، تاگهانی
ایک لڑکےنے آس پر پاؤن رکھ دیا ۔ غصے میں آکر آس موذی نے پلٹ کے اُس بچے کو ایسا کہ فوراً مر گیا ۔ لڑکے کے باپ کو بڑا رنج هوا اور سانپ کو دیکهتے ہی غصے ے اختيار هوكر ایک وار اس پر کیا ؛ وه خالی گیا اور اس ک وار کا نشان پتھر پر رہ گیا۔ ایک مدت کے بعد دهقان نے اسی سانپ سے ملاپ کا پیغام کیا مگر سانپ نه مانا ،اور جواب دیا که حضرت معاف کیجے؛ جب تلک آپ اپنے بیٹے کے مرنے کویاد رکهھیے گااور میں على هذالقیاس اُس پتھر پر کے نشان کو هم لوگون میں کبھی

52-ریختہ


صفحہ ریختہ-53
دوستی نہیں ہونے کی -

حاصل

رہے دو دلوں میں برائی جهان
بھلائی کا پاؤ گے کیو ں کر نشاں
اگر دل میں هو دوستوں کے بدی
تو اُس دوستی بھلی دشمنی

اکتیسو یں نقل


ایک دفعه گیدڑنے گروڑ کی دعوت کی اور هر قسم کا شوربا چوژی چوڑی رکابیوں میں بھردیا -. گیدڑ نے چاٹ چاٹ کے کھانا . شروع کیا اور مهان کوکها “حضرت آپ بھی نوش جان فرمائیے، تكلف نہ
کیجیے” ۔، گڑوڑ نے دریافت کیا که گیدڑ نے اس کے ساتھ اچھی ہنسی کی مگر کچھ بولا نهين ۔رخصت کے وقت گیدڑسے کہا که كل بندے کے گھر میں آپ کی دعوت ہے،آپ کو تكليف کرنا هوگا۔ گیدڑ نے بهت سے بہانے کیے مگر گڑوڑ کے آگے حيله چل نه سكا-

آخر—————————-
(1)
اصل لفظ گرڈیا گرڈ ہے جس ک معنی سارس ہے کار کرن

Garud, vulg. Garur. Name of a mystical bird, the chief of the feathered race, the enemy of the serpent race, and the vehicle of Vishnu ; crane, the adjutant-bird, Ardea argala; a large vulture ; the great horn-bill (Platts).
-a large kind of crane the adjutant bird,Ardea, Argala, a large vulture,the great horn bill (Platts)

*ریختہ -
53*

صفحہ ریختہ۔53
مجبور ہو کر دعوت قبول کی ۔گڑوڑ نے موسم کی ساری مزے دار چیز یں دسترخوان پر منگوائی مگر چونکه (لمبی لمبی )( گردن ک پاستون مین خاصه چنا گیا تھا، گیدڑاس میں کھا نهین سکتا تھا . کڑوڑ نے چونچ ڈال ڈال کر خوب کھانا شروع کیا اور گیدڑ کو کہا حضرت تناول فرمائیے، کچه تكلف نه کيجیے۔ گیدژ سمجهاکہ میری ہنسی کا اس نے بدلا ليا،خاموش هورها اور دل میں یہ کہتا ہوا وہاں سے بھاگا کہ میں نے جیسا کیا ویسا پایا

۔
حاصل

ٹھٹھول اور دمباز ہے جو کوئی
جب آتا ہے دم میں کسی کے کبھی
بهت سا پشیمان هوتا ہے وہ
وہی كاٹتا ہے
جو بوتاہے وہ

بتيسویں

. ایک گیدژ کسی بت تراش کی دکان میں گیا اور ادهر اُدھر کی چیزون کو پسند کرنے لگا- اتفاقا ایک بهت خوب صورت بت پر اُس کی نظر جا پڑی - اس بغور دیکه کر کهنے لگا که تو بڑے هنر مند کا بنايا هواہے اور بهت حسن رکھتا ہے مگر ضد افسوس که تتو محض بے مغز ہے۔

ریختہ۔54

صفحہ ریختہ
55

نہ سمجھو
که سارے حسیں اور جميل
خرد مند و لايق هول اور هون عقیل
کسی کے نہ جا ظاہر حال پر
کہ باطن کی اُس کے نہیں کچھ خبر

تینتیسویں نقل
ایک کوا اپنے آپ کو خوب صورت بنائے کے لیے

اور اور چڑیوں کے طرح طرح کے خوش رنگ پروں نهایت آراسته و پیراسته هوا ۔ اس کو ایسا رنگیلا دیکھ کر اور پرندون کو شک پیدا هوا عقده کھل گیا سبھوں کوے نے
کے پر و بال میں سے اپنے
پر نکال لیے ۔ جب اس کی صورت اصلى دکهائی دی، اس ک بھائی بندوں خوب هي اس ک موزے لیے
حاصل
غریبی کی حالت ميں ا لے نکتہ رس
کر ےگا امارت کی جو کونی هوس
اسے یاد رکهھ هم سے ا ے باشعور
کے ہووے گا ایک دن وه رسوا ضرور


ریختہ۔55
 

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 61 سے 65

ص61

چونکه لڑائیوں میں بہت زخمی اور بے کار ھو ليا ، اس سبب سے میرا یہ حال ھوا اور گردش روزگار سے یی کچھ تعجب کی بات نهیں، گاھے چناں گاھے چنیں –

حاصل

جو چیزی کہ ظاهر میں ھیں خوش نما
بھڑک اور چمک اُن کی ھے دل ربا
فرومایہ اور بے وقوفوں کے پاس
بہت قدر ھے اُن کی اے حق شناس
سوا اس کے جو لوگ ھیں بے خرد
کبھی وہ سمجھتےنہیں نیک و بد
توسط کے لوگوں کو وه ھرزه کار
بہت جانتے ہیں حقیر اور خوار
سمجھتے نہیں اس کو وہ بوالہوس
کہ آرام و راحت اسی میں ھے بس
جسے عافیت اپنی منظور ھو
توسط میں رھنے دے وہ آپ کو

انتالیسویں نقل

کسی نیول (نیولے) نے ایک دفعہ چمگادڑ کو پکڑا ۔ اُس نے ھزاروں منت سے اپنی جان بخشی چاھی مگر نیول نے کچھ نہ سنا اور کہا ” میں چڑیا کو ھرگز نہیں چھوڑتا ، اس بات کی مجھ کو قسم



ص62




ھے۔“ چمگادڑ نے سوچ کر فوراً جواب دیا کہ اے صاحب ! میں تو چو ھا هوں . میری هیئت تو دیکھو، چڑیوں سے بھلا مجھے کیا نسبت۔ یہ سن کر نیول نے اُسے چھوڑ دیا ۔ کچھ دنوں کے بعد پھر ایسا اتفاق ھوا کہ اُسی چمگادڑ کو کسی دوسرے نیول نے پکڑا اور پھر اُس چمگادڑ کو اپنی رھائی کی فکر پڑی - بے چاری نے اُس نيول سے بہت سی منت اور عاجزی کی - نیول نے کہا کہ میں چوھے کو ھرگز نہیں چھوڑتا۔ چمگادڑ نے جھٹ سے عرض کیا که حضرت ! واه واه آپ نے کیا مجھے چوھا سمجھا، میں تو چڑیا ھوں ، میرے پروں کو ملاحظہ فرمائیے ۔ غرض اس طرح کی فقره بازی سے چمگادڑ کے دو دفعہ اپنی جان بچائی ۔

حاصل

حواس آدمی کے رھیں گر درست

تو ھو سکتا ھے سارے کاموں میں چست

بلا کیسی ھی سخت ھو اور عظیم

وه ٹالے گا، ھے جس کو فکر سليم

خطا ہوئے اوسان اگر وقت پر

تو رستم سے بھی چھوٹ جاوے سپر

نہ بن آئے جو کام شمشیر سے

وہ بن جاتا ھے فکر و تدبیر سے

بلا میں پڑے جب کوئی ھوشیار

نہیں چوکتا فکر سے زینہار




ص63


چالیسویں نقل

ایک دفعہ پرندوں اور چرندوں میں بڑی گھمسان کی لڑائی ھونے لگی اور دونوں طرف کے مردانہ حملوں سے کسی کی فتح اور شکست کا حال معلوم نہیں ھوتا تھا ۔ اس وسواس کے حال میں چمگادڑ سب سے کنارے تھی۔ جب دیکھا کہ چرند سب میدان میں غالب رھے ، اُن کی طرف جا ملی ۔ مگر چند روز کے بعد چڑیوں نے جمعیت کر کے ھلّا کیا اور چرندوں کو شکست دی ۔ اُس وقت چمگادر انھیں چھوڑ کر چڑیوں میں جا گھسی ، ليكن یہاں اس بھگوڑی کو پوری خرابی ھوئی که چڑیوں نے پرو بال نوچ کر لنڈورا بنا کر اپنے فرقے سے نکال دیا اور حکم ناطق ھوا که وه نمک حرام رات کے سوا ھرگز اپنے گھر سے نہ نکلے ۔

حاصل

جسے راستی اور صفائی نہیں

کوئی دوست اس کا نہیں بالیقیں

سخن ایسے بیہودوں کا زینہار

نہیں ہے کہیں قابل اعتبار

جسے اعتماد اپنا منظور ھو

نہ آنے دے پاس اپنے وہ جھوٹ کو



ص 64


اکتالیسویں نقل

ایک بھیڑیا اپنے کھانے پینے کا بہت سا سامان جمع کرکے اپنے ماند۱ سے باھر ھرگز نہ نکلتا اور اس اندیشے میں بیٹھا رھتا کہ اگر میں شکار کو جاؤں اور مکان کو خالی پا کر کوئی حریف آن کر یه سب چکھ جائے تو میری ساری عمر کا سرمایه مفت میں غارت ھو - ایک گیدڑ نے بھیڑیے کی یه اطوار دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ راز ھے، اسے دریافت کیا چاھیے ۔ دل میں یہ سوچ کر ماند کے پاس گیا اور بھیڑیے کو تسلیم کر کے کہنے لگا ” بندگی حضرت ! حضور جو مدت سے شکار کو تشریف نہیں لے جاتے اس کا سبب ارشاد ھو تو خیرخواہ کے جی کی تسلی ھووے ۔ بھیڑیے نے جواب دیا که بھائی میری طبیعت أكثر ناساز رھتی ھے، اس جہت سے با ھر نہیں نکلتا ، تم دعا کرو کہ جلد شفا پاؤں ۔ گیدڑ نے دیکھا کہ یہ بات بن نہ آئی کہ اس کا فقره خالی گیا ۔ اُس نے جا کر ایک گڈریے سے کها که فلانی جگہ ایک بھیڑیا رھتا ھے اُسے جا کر مار ڈالو۔ اُس کے پتے پر گڈریے نے بھیڑیے کو پایا اور مار ڈالا - پ سانحه جب ھو چکا، گیدڑ جھٹ پٹ اس ماند میں جا گھسا اور مقتول کی جگہ پر قائم مقام ھوا مگر اُس کی چاندنی چار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) ماند – غار

ماند

Mand. Den (of a wild beast), lair, haunt, hole (of a fox, etc.) (Platts




ص65



ھی دن تھی کیوں کہ کئی دن کے بعد گڈریا جو اُس راہ سے گزرا اور گیدڑ کو دیکھا ، فوراً اُس کو بھی وھیں ٹھنڈا کر دیا ۔

حاصل

کسی سے نہ کر تو دغا و فریب

که دیتا نہیں ھے کسی کو یہ زیب

دغا باز ھیں جو کہ اور حیلہ گر

اُنهیں بھی پہنچتا ھے اک دن ضرر

وہ کردار سے اپنے پچتاتے ھیں

که بدلے وفا کے دغا پاتے ھیں

اگر چاھتا ھے کہ ھو شادماں

نصيحت مری ياد رکھ اے جواں

دغا مت کر اپنے بے گانے کے ساتھ

که ملتا ھے اس کا عوض هاتھوں هاتھ


بیالیسویں نقل

ایک ھرن کسی صاف نہر میں پانی پیتا تھا ۔ اُس آب زلال میں اپنے سائے کو دیکھ کر بہت افسوس سے کہنے لگا کہ اگر میرے دبلے دبلے پاؤں اس خوب صورت شاخ دار سر کی مانند ھوتے تو میں اپنے دشمنوں کو کچھ چیز نہیں جانتا ۔ وہ ھرن اپنے دل میں یه کہہ رها تھا کہ ایک دفعه شکاری کتوں کا بھونکنا اس طرح اُس کے کان تک پہنچا که ھرن پر ثابت ھوا که اسی کی طرف وہ چلے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۱

ساتویں نقل

ایک شیر، ایک بھیڑیا، ایک ریچھ اور ایک گیدڑ باہم ایک ھوئے اور یہ اقرار کر کے شکار کو نکلے کہ جو صید ھاتھ آوے، آپس میں بانٹ لیویں۔ غرض ایک بارہ سنگھا ھرن شکار ھوا اور چار حصے کیا گیا۔ مگر جب اپنا ٹکڑا لینے کو سب چلے، شیر نے روکا اور کہا "سنو پہلا حصہ میرا ہے اور لیے کہ میں تم سب سے بزرگ تر ھوں، اور دوسرا حصہ بھی میرا ھے کیونکہ میری ھی محنت سے ھرنإ ھاتھ آیا۔ اور تیسرے حصے کی مجھ کو بڑی ضرورت ھے اُسے بھی خواہ مخواہ میں ھی لوں گا اور چوتھے حصے کو تم مجھ کو نذر نہیں دو گے تو میں دیکھ لوں گا کہ تم کیسے باپ کے بیٹے ھو۔"

تینوں یہ سن کر دم دبا دبا کے چپکے وھاں سے سرک گئے۔

حاصل

توانا کا ساتھی نہ ھو زیر دست
کس طرح کا وہ کرے بندو بست
کرے جو غریبوں سے قول و قرار
کہاں یاد پھر اس کا نکلا جو کار
غرض جب نہیں تم سے اے میری جان
نہیں تم پہ رھنے کا وہ مہربان
برابر سے اپنے کرو دوستی
کہ خواری نہ دیکھو گے اس میں کبھی


صفحہ ۳۲

برابر سے اپنے کرو کار و بار
نہ پاؤ گے اس گل کو تم خار دار

آٹھویں نقل

ایک بھیڑیے کے گلے میں ھڈی اٹکی، ایک سارس کے پاس گیا اور کہا "بھائی تجھے لمبی چونچ اور گردن اللہ نے دی ھے، یہ ھڈی نکال دے۔ آرام پانے سے تجھے خوش کروں گا۔" سارس نے ھڈی نکال دی اور قول و قرار کے مطابق انعام مانگا۔ بھیڑیے نے آنکھ بدل کے کہا "کیسا انعام چاھتا ہے؟ واہ واہ کیا خوب! بھیڑیے کے منہ میں گردن دے کے پھر اسے ثابت پایا، اسی کو خیر نہیں جانتا؛ چل کافور ھو۔ تیرا سر جو گردن پر برقرار ہے، اسی کو غنیمت جان۔"

حاصل

نہیں ہو گا ظالم کبھی یار جان
نہ ھو گی وفا اُس میں اے مہربان
اگر اس کے پالے پڑے تو کبھی
بغیر از ضرر تیری ھو مخلصی
دو گانا ادا کیجو تو شکر کا
کہ ظالم کے پنجے سے چھوٹا بھلا


صفحہ ۳۳


نویں نقل

ایک دفعہ جاڑے کے موسم میں بڑی شدت سے برف گری۔ کوئی ایک دھقان گھر کے جو باھر ھوا، ایک سانپ کو دیکھا کہ پالے کا مارا پڑا ھوا ھے۔ اس موذی کے حال پر اس نادان کو رحم جو آیا اُسے اٹھا لیا۔ گرمی جو اس موذی کو پہنچی سلبگایا اور دھقان کی ھتھیلی میں کاٹ لیا۔ دھقان نے کہا : "اے کم بخت بے وفا! دوست اور دشمن کو نہیں پہچانتا، جس نے تجھ کو جلایا اسی کو تو نے مارا۔"

حاصل

کبھو بے وفا سے نہ کر دوستی
کہ ھے دشمنی ساتھ اُس کے بھلی
جو موذی ھے ھو گا نہیں تجھ سے رام
بھلا اس کے حق میں ھے کرنا حرام

دسویں نقل

ایک گدھا شیر کا منہ چڑھانے (چڑانے) اور اس سے تمسخر کرنے لگا۔ شیر کو غصہ جو آیا تو اس نے دانت دیکھلایا


صفحہ ۳۴

(دکھلایا)۔ مگر آخر کچھ مسکرایا اور کہا کہ خیر خوش رہ، مگر اپنا گدھا پن نہ چھوڑنا اور یاد رکھنا کہ تیری کم ظرفی نے آج تیری جان بچائی۔ اگر میرے غضب کے قابل ہتو ہوتا تو میں اسی وقت قیامت برپا کر دیتا۔

حاصل

جو سفلے کی باتیں کریں ھم خیال
بچانا ھمیں اپنا جی ھو وبال
ھیں سفلے کی باتیں جو سفلے کے ساتھ
امیر اُس میں ھرگز نہ دے اپنا ھاتھ
نہ ھو گا تو گالی سے اُس کی خفیف
نہ تعریف سے اُس کی ھو گا شریف

گیارھویں نقل

کسی گانو (گاؤں) کے چوھے نے اپنے ایک شہری بھائی کی دعوت کی۔ گاؤں یں جو کچھ میسر ھوا جیسا کہ باسی روٹی کےسوکھے ٹکڑے اور پنیر کی کترن، اس نے حاضر کی۔ دونوں دسترخوان پر بیٹھے اور کھانے لگے۔ شہری چوھے کو اور ھی مزا پڑا ھوا تھا۔ اس طرح کی غذا اس نے کبھی نہیں کھائی تھی۔ ھر چند اس سے جی اس کا گھبرایا، مگر مارے لحاظ کے کچھ نہ کہا۔ غرض طعنے مانے میں اس نے کہا کہ ایسی سنسان جگہ میں رھنا اور اس طرح کی خوراک کھانا آپ کی شان سے باھر ھے۔


صفحہ ۳۵

جب رخصت ھوا تو بدلا اُتارنے کو شہری چوھے نے ایک روز دھقانی بھائی کی دعوت کی اور اپنے ساتھ اُسے شہر کے ایک عالی شان مکان میں لے گیا۔ وھاں پہنچ کر شہری چوھے نے نعمت خانے میں اسے لے جا کر ایک سے ایک نعمت دکھلائی۔ بعد اس کے دالان میں جا کے میز پر کیا دیکھتے ھیں کہ اُسی رات کا بچا بچایا کھانا رکھا ھے۔ خوش ھو کر شہری چوھا اپنے بھائی کو ایک مخمل کے پلنگ پر بٹھلا کے نفیس نفیس چیزیں کھلانے لگا اور آپ بھی شریک ھوا۔ یہ سب سامان دیکھ کے بے چارے دیہاتی چوھے کی عقل اڑ گئی، کیونکہ اس کے لیے بہشت بریں کی نعمتیں وھاں جمع تھیں۔ اتنے میں دروازہ کھل گیا اور بہت سے نوکر چاکر شور و غل مچاتے ھوئے خاوند کے الوش‘ پر بے اختیار گر پڑے اور چکھی کرنے لگے۔ اس دھوم دھام میں دونوں چوھوں کو بھاگتے ھی بن آیا۔ خصوص دھقانی کی بری نوبت ھوئی کیونکہ اس بلا میں اس کے دشمن بھی کبھی نہیں پھنسے تھے۔ وہ ایک کونے میں خوف کے مارے تھر تھرا رھا تھا کہ شہری چوھا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا "بھائی گھبراؤ مت، وہ جھوٹے خور سب نکل گئے۔ چلو پھر چکھیان کریں۔" دھقانی نے کہا "اس کھانے سے بندہ باز آیا۔ اگر آپ کے کھانوں میں بہشت کی نعمتوں کا مزا بھی ھو تو اُس سے مجھے معاف کیجیے۔ میرے پنیر کا کترن اور سوکھی روٹی کا ٹکڑا پارچا ساتھ آرام اور چین کے میرے لیے بڑی نعمت ھے۔ یہ لطیف غذا اتنے اندیشوں کے ساتھ آپ ھی کو مبار رہے۔"
---------------------------------------
۱۔ الوش "الش" بچا کھچا کھانا۔

Ulash, Ulush. Leavings of food from the table of a great personage (of which the servants partake) (Platts). الش
 
ریختہ صفحات 77 - 78

مئے معنی سے ہو گا وہ سر خوش
جو پیے گا یہ ساغر اخلاق
ہم نے دکھلایا آنکھ والوں کو
جلوہ مہرِ انورِ اخلاق
ہو مفید جہانیاں یہ کتاب
رہے جب تک کہ دفترِ اخلاق

جوہر اخلاق
یونی اسپ کی نقلیات کا ترجمہ اردو زبان میں دلی اور لکھنو کے خاص لوگوں کے محاورےمیں جس کو احقر العباد جیمز فرانسس کارکرن نے ترجمہ کرکے اور شاہ الفت حسین موسوی کی نظر سے گذران کے جناب مستطاب ، سخن پرور ، عدل گستر، حاکم عدالت دیوانی صدر کلکتہ ، رابرٹ ہالڈن راٹری بہادرمدام دولتہ کی خدمت میں نذر دینے کو مدرسہ عالیہ میں سنہ 1845ء میں چھپوایا :

حق سے امید ہے کہ تا دم صور
قدر دان سخن رہیں مسرور

کہ یہ ہیں آبیارِ باغ سخن
ان سے ہے نو بہار باغ سخن

ہیں بھرے وصف نیک خوئی سے
پاک ہیں عیب عیب جوئی سے

لاکھ عیبوں کو جی سے دھوتے ہیں
اک ہنر پا کے شاد ہوتے ہیں

اس جہاں کو قیام ہو جب تک
رہیں قائم جہاں میں یہ تب تک
 
بھیا آپ ابھی یہاں ہی کر دیں۔۔۔ میں وہاں موو کر دوں گی

صفحہ 73

اگر چاہے لے اور سے اپنا کام
نگہباں ہو آپ اس کا اے نیک نام

اڑتالیسویں نقل

ایک شیر بہت بیمار ہوا۔ جنگل کے سب جانور اُس کی عیادت کو آئے مگرگیدڑ نہ آیا۔ شیر نے اُس کو شقہ بھیج کر اپنی بیماری کے حال سے آگاہ کیا اور اشتیاق ملاقات ظاہر کیا ۔ اس کے جواب میں گیدڑ نے عرضی کی؛ اُس عرضی میں شیر کی صحت کے لیے خدا سے دعا مانگی مگر اپنے حاضر ہونے کے باب میں کچھ عذر کیا اور کہا کہ خانزادہ 1کو اس بات سے بہت تعجب ہے کہ اکثر رعیتوں کے پاؤں کا نشان حضور کی دولت سرا کے اندر ہی جانے پر دلالت کرتا ہے مگر کسی نقشِ پا کا رخ باہر کی طرف نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے غلام دور ہی سے دعا کیا کرتا ہے۔

حاصل

یہ ہشیار کو چاہیے ہے ضرور
کہ اپنے کو رکھے وہ دشمن سے دور
تو رہ ایسا ہشیار اے ہم نفس!
کہ دشمن کا تجھ پر نہ ہو دست رس
نصیحت مری سن لے اے نیک خو!
کہ دشمن کے دم میں نہ انا کبھو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) خانہ زاد: غلام – غلام کا بیٹا۔

صفحہ 74


انچاسویں نقل

ایک بنیلا1سور کہیں پانی میں پڑا لوٹ رہا تھا۔ ایک گھوڑے نے وہاں آ کر پانی پینے کا رادہ کیا۔ اس بات پر دونوں میں نزاع ہوئی۔ گھوڑا کسی آدمی کے پاس گیا اور سور سے بدلا لینے کے ارادے سے اُس کو اپنا شریک کیا۔ وہ شخص پانچوں ہتھیار سے درست ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور سور کو مار کر گھوڑے کو بہت خوش کیا، مگر جب گھوڑے نے شکر گزاری کر کے ارادہ جنگل کا کیا، اُس مرد نے روکا اور کہا کہ بھائی شاید اگر ہمیں بھی کہیں ایسی ضرورت ہو تو ہم تمہیں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے؟ آپ اصطبل میں رہیے اور بخوبی دانا گھاس کھائیے۔ تب گھوڑے نے معلوم کیا کہ اُس کی آزادگی گئی اور مخلصی مشکل نظر آنے لگی۔ اس نے بدلہ کیا لیا، اپنا ہی حال مبدل کر دیا۔

حاصل

بہت لوگ ایسے بھی ہیں بے شعور
کہ تھوڑی سی آفت کے کرنے کو دور
بڑی آفتیں کرتے ہیں اختیار
سمجھتے نہیں اُس کا پایان کار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)بنیلا - جنگلی؛ (baneta, banila. Pertaining to the forest; sylvan wild, sage (Platts.
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top