جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

ظفری

لائبریرین
غیرمتفق کی ریٹنگ کام نہیں کرتی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس حوالےسے میں آپ سے شدید اختلاف کرتا ہوں۔ آپ محفل یا کسی اور فورم سے محض کسی بھی علم کی سطح کو چھو سکتے ہیں۔ اگر آپ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اس فیلڈ کے ایکسپرٹس کی آؤٹ پٹ پڑھنی پڑے گی۔ یہ کتب بھی ہو سکتی ہیں، پیپر بھی اور لیکچر بھی۔
میں صرف اس محفل کی فریم ورک کی بات کر رہا ہوں ۔ جہاں ڈسکیشن ہوتی ہے ۔ سیاست و مذہب کے زمرے بھی شاید اسی لیئے تخلیق کیئے گئے تھے ۔ سیکھنے اور جاننے کے لیئے اور بہت سے پلیٹ فورمز اور کتب موجود ہیں ۔ مگر ہم اس محفل پر ہی کیوں ا ٓتے ہیں ۔ یہاں صرف کتابوں کے لنکس ، ٹوئیٹس اور کاپ پیسٹ ہی سب کچھ ہے تو اتنی ابحاث کیوں کی گئیں ۔ اور اب بھی ہو رہی ہیں ۔ اگر کسی کو اس ابحاث میں حصہ لینا ہے تو پھر وہ ان زمروں کے قوانین اور اصول کو فالو کرے ۔ ورنہ ایک لنک شئیر کرے ، دو تین کتابوں کا حوا لہ دے ، کچھ مقالوں کو کاپی پسٹ کرے ۔ پھر یہ جا وہ جا ۔
 
وہ تو بہت واضع کہا کرتا تھا کہ ، The- problem- involved- is -too -vast- for -our- limited -minds
اس کا مطلب ہے کہ وہ معرفت کی حدبندی limits -of- knowledge کو تسلیم کرتا تھا ۔ جو کہ agnostic موقف کی ایک بنیادی خصوصیت ہے
ایک اور سوال مزید زور سے اچھلا ہےاور وہ یہ کہ مذہبی لوگ بھی یہی پہلا انگریزی جملہ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی لیے توجیہات نہ بھی ہوں تو ایمان لانا چاہئیے خدا پہ اور اگنوسٹک بھی اسی جملے کی بنیاد پہ کہتے ہیں کہ کیا معلوم کیا پاسیبلٹی ہو یعنی جان نہیں سکتے تو ماننا کیا؟ تو کیا یہ ایک ہی نکتے سے دو مختلف سمتوں میں لوگ نہیں نکل رہے؟ اور کسی جگہ بھی کھڑے ہو کے عقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ کون صحیح ہے؟ تو کیا کچھ اعداد و شمار ہیں کہ کس طرح کے لوگ زیادہ influential یا self-actualized وغیرہ رہے؟
 

زیک

ایکاروس
کسی جگہ بھی کھڑے ہو کے عقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ کون صحیح ہے؟ تو کیا کچھ اعداد و شمار ہیں کہ کس طرح کے لوگ زیادہ influential یا self-actualized وغیرہ رہے؟
خدا کے وجود کی بحث تو فلسفہ کی بنیادی بحث ہے اور یہ واضح ہے کہ عقل یا دلیل کے ذریعہ اس کا حل ممکن نہیں ہے۔ اکثر مذہب اس کے لئے ایمان پر زور دیتے ہیں لیکن اگر آپ کاگنیٹیو سائنس وغیرہ پڑھیں جیسے وہ دو کتب جن کا میں نے اوپر حوالہ دیا تو یہ بھی واضح ہے کہ خدا کا تصور جو مذہبی کتب یا مذہبی خواص میں ہے وہ عوامی تصور سے بہت مختلف ہے۔ عوام کا اس بارے میں تصور ہمارے دماغ کی وائرنگ کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کافی حد تک یونیورسل ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
پہلے جملے کے بارے میں:
4496554935_0b573db853_o.jpg
https://www.christies.com/en/lot/lot-6167096?ldp_breadcrumb=back
دونوں خطوں میں لہجہ اور وضاحت میں فرق بھی دیکھیئے ۔ اس لیئے کہا کہ وہ کسی خانے میں فٹ نہیں ہوتا ۔ کہ دونوں خط اس کی ذہن کے فکری مراحل کے تسلسل کے فرق کو وضع کر رہے ہیں ۔ اب agnostic کے لفظ کو پکڑ کر ( جنگ ) کی طرح بحث کا آغاز نہ شروع کرد یجیئے گا ۔ :D
 

زیک

ایکاروس
اس لیئے کہا کہ وہ کسی خانے میں فٹ نہیں ہوتا
یہ بات صرف آئنسٹائن ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان کے لئے درست ہے۔ ہم اکثر اپنے لئے ایک لیبل استعمال کرتے ہیں (مسلمان، مسیحی، ایگناسٹک، دہریہ وغیرہ) لیکن ہمارے خیالات اسی لیبل کے کسی دوسرے فرد سے کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ ہم اس لیبل کو بھی کچھ اپنا رنگ دیتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ بات صرف آئنسٹائن ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان کے لئے درست ہے۔ ہم اکثر اپنے لئے ایک لیبل استعمال کرتے ہیں (مسلمان، مسیحی، ایگناسٹک، دہریہ وغیرہ) لیکن ہمارے خیالات اسی لیبل کے کسی دوسرے فرد سے کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ ہم اس لیبل کو بھی کچھ اپنا رنگ دیتے ہیں۔
اصولی طور پر تو میں آپ سے متفق ہوں ۔ مگر جب ہم بات آسٹائن کی کر رہے تو پھر بات کا پیرائے بھی اسی ذات پر ہونا چاہیئے ۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ تضاد حقیقت کے تصور اور مذہب کے اظہار کے فرق سے پیدا ہوتا ہے۔حقیقت (Reality) ایک objective چیز ہے ۔ جو ہے، جیسے ہے، وہ ویسی ہی ہے۔ جبکہ مذہب ایک فریم ورک ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے، بیان کرنے، اور لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب مذہب وقت کے ساتھ مخصوص ثقافت، زبان یا سیاسی طاقت یا مفادات کے گرد لپٹ جاتا ہے۔یا جب مذہبی دعوے سائنسی یا تاریخی دعووں سے متصادم نظر آتے ہیں۔تو تضاد خود حقیقت اور مذہب میں نہیں، بلکہ"حقیقت کے اظہار (interpretation) میں ہے۔ اور حقیقت بذاتِ خود میں فرق" سے پیدا ہوتا ہے۔
کیا خدا حقیقت نہیں ہے ۔ ؟یہ نکتہ دراصل فلسفۂ وجود (ontology) کا مرکزی سوال ہے ۔اگر ہم "حقیقت" کو صرف مادّی (physical) چیزوں تک محدود رکھیں، تو خدا حقیقت نہیں ہوگا ۔ کیونکہ خدا نہ ناپا جا سکتا ہے، نہ آزمایا جا سکتا ہے۔ نہ دیکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر حقیقت میں ماورائی (metaphysical) سطح کو بھی شامل کیا جائے ۔جیسا کہ شعور، اخلاق، معنی، وجدان ۔ تو خدا کو ایک ممکنہ ماورائی حقیقت کے طور پر عقلی سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے فلسفی (جیسے اسپینوزا، کانٹ، حتیٰ کہ آئن اسٹائن) خدا کو کسی نہ کسی درجے میں حقیقت کا بنیادی سرچشمہ سمجھتے رہے ہیں، اگرچہ ان کا خدا مذہبی خدا سے مختلف ہو سکتا ہے۔
حقیقت کو اگر ہم سادہ لفظوں میں بیان کریں تو اس کی تعریف کچھ اس طرح ہوسکتی ہے کہ وہ چیز جو اپنے وجود میں مستقل ہو ۔ چاہے اسے ہم مانیں یا نہ مانیں ۔ جانے یا نہ جانیں۔ ہم اگر حقیقت کی ممکنہ سطحوں کو سمجھیں ۔ تو وہ تین طرح سے بیان کیا جاسکتی ہیں ۔
مادّی حقیقت : جو سائنسی مشاہدے اور تجربے سے جانی ، پہچانی جا سکتی ہے ۔ جیسے زمین کا گول ہونا ۔
نفسیاتی حقیقت :جو انسان کے شعور، احساسات، ارادوں اور تجربات سے تعلق رکھتی ہے ۔مثلاً محبت، خوف، مقصد
ماورائی حقیقت : وہ جو نہ تجربہ میں آتی ہے، نہ کسی آلہ سے ناپی جا سکتی ہے، مگر انسان کی عقل یا وجدان اس کو ماننے کی طرف مائل ہوتا ہے ۔مثلاً وجودِ خالق، اخلاقی اصولوں کا ماخذ۔
اگر ہم عقلی بنیادوں پر مذہب اور حقیقت کے انٹرسیکشن پر بات کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب ، حقیقت کے سوالوں سے جنم لیتا ہے ۔ متضاد بلکل نہیں ہوتا ۔ مثلا ً انسانی شعور چند بنیادی سوالات اٹھاتا ہے کہ میں کہاں سے آیا ؟ ، میرے ہونے کا مقصد کیا ہے ؟ ، یہ کائنات کیا ہے ۔ ہے تو اس کا مقصد اور افادیت کیا ہے ۔ ؟ یہ سوالات عقلی ہیں ۔ مذہبی نہیں ہیں ۔ مگر مذہب ان سوالوں کے جوابات کے لیئے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے ۔ اگر مذہب ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ حقیقت (یا کم از کم اس کی تلاش) سے متعلق ہوتا ہے ،اس سے ٹکراؤ ہرگز نہیں ہوتا ۔
یعنی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کیا ہے (what -is) اور مذہب ہمیں بتاتا ہے کیا ہونا چاہیے (what -ought - to -be)۔
مطلب یہ کہ سائنس حقیقت کی تشریح کرتی ہے، اور مذہب معنی یا مقصد دیتا ہے۔ رہنمائی کرتا ہے ۔یہ دونوں الگ دائرے ہیں لیکن انٹرسیکشن تب ہوتا ہے جب ہم "کیوں" (why) کا سوال اٹھاتے ہیں۔کسی کا مرنا ایک سائنسی واقعہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کی موت سےمنسلک دکھ، دعا، یا جواز ۔ مذہبی دائرے میں آتے ہیں۔
مذہب اور حقیقت میں اصل تضاد نہیں - تضاد اُس وقت محسوس ہوتا ہے جب ہم "مذہب کے تاریخی، ثقافتی یا تشریحی فریم ورک" کو "مطلق حقیقت" سمجھنے لگتے ہیں۔اگر ہم یہ مان لیں کہ خدا ایک اعلیٰ درجے کی حقیقت ہے، تو مذہب اُس حقیقت کی انسانی فہم کا مظہر ہے ۔ اور فہم میں اختلاف، ارتقا، اور محدودیت فطری ہے۔
نوید احمد نے میرے اس مراسلے سے غیر متفق ہونے کا عندیہ دیا ہے ۔ اُمید ہے اس مراسلے کے جواب میں ان کی طرف سے ایک مکمل اور تفصیلی جواب آئے گا ۔
 

ظفری

لائبریرین
اردو محفل ڈاکٹروں کی دی ہوئی تاریخ سے پہلے ہی اکھڑی اکھڑی سا نسیں لے رہی ہے ۔ لگتا ہے وقت سے پہلے ہی رخصت ہوجائے گی کہ محفل بہت ہی سست چل رہی ہےے ۔ مراسلے پڑھنے ، لکھنے اور نوٹیفیکشن میں کافی انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔ :idontknow:
 

نوید احمَد

محفلین
برائے کرم اپنی اس بات کو واضع کیجئے۔ :)
مذہب حقیقت کو بیان کرنے کا ایک تخیلاتی اظہار ہے جس کا وجود صدیوں پہ محیط ہے۔ انسان نے حقیقت کو بیان کرنے کی شعوری سطح پہ جو کہانیاں تخیل میں لائیں، ان میں سے کئی ایک مربوط فریم ورک بن کر مذہب کی شکل میں ابھریں جو ہم آج اس دور میں جانتے ہیں کہ وہ کہانیاں کس قدر ناقص تھیں۔ صد معذرت کہ اس سے زیادہ تفصیل لکھنے کی سکت نہ ہے۔
 

نوید احمَد

محفلین
نوید احمد نے میرے اس مراسلے سے غیر متفق ہونے کا عندیہ دیا ہے ۔ اُمید ہے اس مراسلے کے جواب میں ان کی طرف سے ایک مکمل اور تفصیلی جواب آئے گا ۔
بھائی سچی بات یہی ہے کہ مجھے آپ کے اس مراسلے میں کئی باتوں سے اختلاف ہے لیکن اس سے آگے سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھ میں اب تفصیل سے لکھنے، یا جواب دینے کی سکت کلی طور پر غائب ہے، اسے آپ میری نا اہلی تصور کر لیجیے یا کچھ اور، لیکن میں نفسیاتی سطح پہ اس مقام پہ ہوں جہاں میرا دماغ مجھے جواب دینے کے لیے ذرا سا بھی نہیں اکساتا۔
 

زیک

ایکاروس
اردو محفل ڈاکٹروں کی دی ہوئی تاریخ سے پہلے ہی اکھڑی اکھڑی سا نسیں لے رہی ہے ۔ لگتا ہے وقت سے پہلے ہی رخصت ہوجائے گی کہ محفل بہت ہی سست چل رہی ہےے ۔ مراسلے پڑھنے ، لکھنے اور نوٹیفیکشن میں کافی انتظار کرنا پڑ رہا ہے ۔ :idontknow:
اسی لڑی کی کرامات لگتی ہیں
 

یاز

محفلین
بھائی سچی بات یہی ہے کہ مجھے آپ کے اس مراسلے میں کئی باتوں سے اختلاف ہے لیکن اس سے آگے سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھ میں اب تفصیل سے لکھنے، یا جواب دینے کی سکت کلی طور پر غائب ہے، اسے آپ میری نا اہلی تصور کر لیجیے یا کچھ اور، لیکن میں نفسیاتی سطح پہ اس مقام پہ ہوں جہاں میرا دماغ مجھے جواب دینے کے لیے ذرا سا بھی نہیں اکساتا۔
ایسے تو نہ کہیں بھائی۔ اختصار سے ہی سہی، لیکن اپنا نکتہ نظر تو بیان کریں۔
اظہارِ رائے کہنے یا سننے سے کیا گھبرانا کہ اختلاف جہان کا حسن ہے۔ (اور ہم سب حسینان وغیرہ ہیں).
 

زیک

ایکاروس
یہ تضاد حقیقت کے تصور اور مذہب کے اظہار کے فرق سے پیدا ہوتا ہے۔حقیقت (Reality) ایک objective چیز ہے ۔ جو ہے، جیسے ہے، وہ ویسی ہی ہے۔ جبکہ مذہب ایک فریم ورک ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے، بیان کرنے، اور لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب مذہب وقت کے ساتھ مخصوص ثقافت، زبان یا سیاسی طاقت یا مفادات کے گرد لپٹ جاتا ہے۔یا جب مذہبی دعوے سائنسی یا تاریخی دعووں سے متصادم نظر آتے ہیں۔تو تضاد خود حقیقت اور مذہب میں نہیں، بلکہ"حقیقت کے اظہار (interpretation) میں ہے۔ اور حقیقت بذاتِ خود میں فرق" سے پیدا ہوتا ہے۔
کیا خدا حقیقت نہیں ہے ۔ ؟یہ نکتہ دراصل فلسفۂ وجود (ontology) کا مرکزی سوال ہے ۔اگر ہم "حقیقت" کو صرف مادّی (physical) چیزوں تک محدود رکھیں، تو خدا حقیقت نہیں ہوگا ۔ کیونکہ خدا نہ ناپا جا سکتا ہے، نہ آزمایا جا سکتا ہے۔ نہ دیکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر حقیقت میں ماورائی (metaphysical) سطح کو بھی شامل کیا جائے ۔جیسا کہ شعور، اخلاق، معنی، وجدان ۔ تو خدا کو ایک ممکنہ ماورائی حقیقت کے طور پر عقلی سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے فلسفی (جیسے اسپینوزا، کانٹ، حتیٰ کہ آئن اسٹائن) خدا کو کسی نہ کسی درجے میں حقیقت کا بنیادی سرچشمہ سمجھتے رہے ہیں، اگرچہ ان کا خدا مذہبی خدا سے مختلف ہو سکتا ہے۔
حقیقت کو اگر ہم سادہ لفظوں میں بیان کریں تو اس کی تعریف کچھ اس طرح ہوسکتی ہے کہ وہ چیز جو اپنے وجود میں مستقل ہو ۔ چاہے اسے ہم مانیں یا نہ مانیں ۔ جانے یا نہ جانیں۔ ہم اگر حقیقت کی ممکنہ سطحوں کو سمجھیں ۔ تو وہ تین طرح سے بیان کیا جاسکتی ہیں ۔
مادّی حقیقت : جو سائنسی مشاہدے اور تجربے سے جانی ، پہچانی جا سکتی ہے ۔ جیسے زمین کا گول ہونا ۔
نفسیاتی حقیقت :جو انسان کے شعور، احساسات، ارادوں اور تجربات سے تعلق رکھتی ہے ۔مثلاً محبت، خوف، مقصد
ماورائی حقیقت : وہ جو نہ تجربہ میں آتی ہے، نہ کسی آلہ سے ناپی جا سکتی ہے، مگر انسان کی عقل یا وجدان اس کو ماننے کی طرف مائل ہوتا ہے ۔مثلاً وجودِ خالق، اخلاقی اصولوں کا ماخذ۔
اگر ہم عقلی بنیادوں پر مذہب اور حقیقت کے انٹرسیکشن پر بات کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب ، حقیقت کے سوالوں سے جنم لیتا ہے ۔ متضاد بلکل نہیں ہوتا ۔ مثلا ً انسانی شعور چند بنیادی سوالات اٹھاتا ہے کہ میں کہاں سے آیا ؟ ، میرے ہونے کا مقصد کیا ہے ؟ ، یہ کائنات کیا ہے ۔ ہے تو اس کا مقصد اور افادیت کیا ہے ۔ ؟ یہ سوالات عقلی ہیں ۔ مذہبی نہیں ہیں ۔ مگر مذہب ان سوالوں کے جوابات کے لیئے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے ۔ اگر مذہب ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ حقیقت (یا کم از کم اس کی تلاش) سے متعلق ہوتا ہے ،اس سے ٹکراؤ ہرگز نہیں ہوتا ۔
یعنی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کیا ہے (what -is) اور مذہب ہمیں بتاتا ہے کیا ہونا چاہیے (what -ought - to -be)۔
مطلب یہ کہ سائنس حقیقت کی تشریح کرتی ہے، اور مذہب معنی یا مقصد دیتا ہے۔ رہنمائی کرتا ہے ۔یہ دونوں الگ دائرے ہیں لیکن انٹرسیکشن تب ہوتا ہے جب ہم "کیوں" (why) کا سوال اٹھاتے ہیں۔کسی کا مرنا ایک سائنسی واقعہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کی موت سےمنسلک دکھ، دعا، یا جواز ۔ مذہبی دائرے میں آتے ہیں۔
مذہب اور حقیقت میں اصل تضاد نہیں - تضاد اُس وقت محسوس ہوتا ہے جب ہم "مذہب کے تاریخی، ثقافتی یا تشریحی فریم ورک" کو "مطلق حقیقت" سمجھنے لگتے ہیں۔اگر ہم یہ مان لیں کہ خدا ایک اعلیٰ درجے کی حقیقت ہے، تو مذہب اُس حقیقت کی انسانی فہم کا مظہر ہے ۔ اور فہم میں اختلاف، ارتقا، اور محدودیت فطری ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ مذہب سے کیا مراد ہے۔ آرگنائزڈ ریلیجن؟ ہائی ریلیجن؟ فوک ریلیجن؟ وغیرہم
 

ظفری

لائبریرین
بھائی سچی بات یہی ہے کہ مجھے آپ کے اس مراسلے میں کئی باتوں سے اختلاف ہے لیکن اس سے آگے سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھ میں اب تفصیل سے لکھنے، یا جواب دینے کی سکت کلی طور پر غائب ہے، اسے آپ میری نا اہلی تصور کر لیجیے یا کچھ اور، لیکن میں نفسیاتی سطح پہ اس مقام پہ ہوں جہاں میرا دماغ مجھے جواب دینے کے لیے ذرا سا بھی نہیں اکساتا۔
اللہ آپ کے لیئے آسانیاں پیدا کرے ۔ لیکن پھر بھی میں کہوں گا کہ اگر آپ اپنی تنقید کا دفاع نہیں کرسکتے تو یہ کسی بھی طور پر مثبت نہیں ہے ۔ یا تو پھر آپ مراسلے کو ہی نظرانداز کردیں ۔ کیونکہ یہ تنقید برائے تنقید ہے ۔ اور کسی بھی لحاظ سے علمی طور پر درست نہیں ۔
 

نوید احمَد

محفلین
اظہارِ رائے کہنے یا سننے سے کیا گھبرانا کہ اختلاف جہان کا حسن ہے۔ (اور ہم سب حسینان وغیرہ ہیں).
سر اس کا تعلق گھبرانے سے قطعی نہیں ہے، بلکہ دماغی بے حسی سے ہے۔ میں خؤد کو مفکر سمجھتا ہوں اور نہ ہی اب حقیقت کو پانے کی کوئی جستجو مجھ میں ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ مذہب سے کیا مراد ہے۔ آرگنائزڈ ریلیجن؟ ہائی ریلیجن؟ فوک ریلیجن؟ وغیرہم
بہت اچھا سوال ہے ۔بلکہ بہت اہم اور بنیادی سوال ہے ۔ کیونکہ "مذہب" ایک ایسا لفظ ہے جو مختلف سیاق و سباق میں مختلف معنی رکھتا ہے، اور اگر ہم وضاحت نہ کریں کہ ہم کس قسم کے مذہب کی بات کر رہے ہیں تو بحث یا دلیل غیر واضح، اور بعض اوقات گمراہ کن ہو جاتی ہے۔ مذہب ایک متنوع مظہر ہے ۔ جو ادارہ جاتی عقائد سے لے کر ذاتی روحانیت تک پھیلا ہوا ہے۔کسی بھی تنقید یا دفاع میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بات کس قسم کے مذہب کی ہو رہی ہے، کیونکہ ہر سطح پر مذہب کا تصور اور کردار مختلف ہوتا ہے۔کیا مذہب تخیلاتی ہے یا حقیقت پسند؟" اس سوال کا درست جواب اسی وقت ممکن ہے جب ہم واضح کریں کہ ہم کس قسم کے مذہب کی بات کر رہے ہیں ۔ان تین مذاہب کو آپ نے علم و عقل کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ منظم مذہب (Organized): حقیقت کی باقاعدہ وضاحت کی کوشش ہے ۔ اعلیٰ مذہب (High): حقیقت کے ماورائی، اخلاقی، اور فلسفیانہ مفہوم کی جستجو ہے ۔ عوامی مذہب (Folk): ثقافتی اور جذباتی علامتوں کے ذریعے حقیقت کی جزوی ترجمانی (اکثر غیر عقلی عقائد پر مبنی ہوتا ہے ۔
مگر جب ہم مذہب کو اس تینوں پیرائے میں دیکھتے ہیں تو سولات اٹھتے ہیں کہ ہم مذہب کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ یعنی ہم کس جہت کے مذہب کی بات کر رہے ہیں؟کیا یہ مذہب کا تنظیمی ڈھانچہ ہے؟
یا اس کا باطنی فلسفہ؟یا صرف ثقافتی مظاہر؟تب ہی ہم مذہب کی تنقید، فہم یا دفاع کسی فکری انصاف کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
ایک اور سوال مزید زور سے اچھلا ہےاور وہ یہ کہ مذہبی لوگ بھی یہی پہلا انگریزی جملہ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی لیے توجیہات نہ بھی ہوں تو ایمان لانا چاہئیے خدا پہ اور اگنوسٹک بھی اسی جملے کی بنیاد پہ کہتے ہیں کہ کیا معلوم کیا پاسیبلٹی ہو یعنی جان نہیں سکتے تو ماننا کیا؟ تو کیا یہ ایک ہی نکتے سے دو مختلف سمتوں میں لوگ نہیں نکل رہے؟ اور کسی جگہ بھی کھڑے ہو کے عقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ کون صحیح ہے؟ تو کیا کچھ اعداد و شمار ہیں کہ کس طرح کے لوگ زیادہ influential یا self-actualized وغیرہ رہے؟
دونوں عقائد (ایمان اور شک) ایک ہی جملے سے نکل سکتے ہیں، لیکن انتخاب اور تشریح مختلف ہے۔عقل سے قطعی فیصلہ مشکل ہے کیونکہ یہ فلسفی، نفسیاتی اور ذاتی سطح کا معاملہ ہے۔influential یا self-actualized لوگوں کی مختلف اقسام اور عقائد ہوتے ہیں، اور یہ بات کہ کس عقیدے کے لوگ زیادہ کامیاب ہیں، بہت پیچیدہ اور context-based ہے۔
 
Top