جنید جمشید کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سید ذیشان

محفلین
اسی واقعہ کے حوالے سے حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین مد ظلہ کا جنید جمشید پاپی کی والدہ کے متعلق انکشاف یا دعویٰ:
جو مبلغ ہو کر بھی عائشہ کا نہ ہوا
مرا من کہتا ہے وہ صرف فاحشہ سے ہوا
یوٹیوب پر دیگر مولیوں کے خطابات بھی آ چکے ہیں جو اس سے ملتے جلتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
اسی واقعہ کے حوالے سے حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین مد ظلہ کا جنید جمشید پاپی کی والدہ کے متعلق انکشاف یا دعویٰ:
جو مبلغ ہو کر بھی عائشہ کا نہ ہوا
مرا من کہتا ہے وہ صرف فاحشہ سے ہوا

یوٹیوب پر دیگر مولیوں کے خطابات بھی آ چکے ہیں جو اس سے ملتے جلتے ہیں۔

کیا فصیح زبان پائی ہے!!
 

نایاب

لائبریرین
جنید جمشید تو شاید بھگتے گا قبر تک اپنے اس جرم کی سزا ۔۔
جس کا اعتراف کرتے اس نے " چودھویں " صدی کے " مبلغ ملاؤں " کے چہرے سے نقاب کھینچ لیا ۔
جو سلامتی کا نہیں بلکہ " تشدد و انتشار " کا درس دیتے ہیں ۔
سب و شتم کرتے " توہین " کے نام معصوم ذہنوں کو جنت پانے کی راہ دکھلاتے ہیں ۔
ام المومنین جناب عائیشہ صدیقہ کی اتنی توہین تو جنید جمشید نے بھی نہ کی ۔
جتنی کہ کل سے " گرجتے برستے تھوک اڑاتے مولاناؤں " کی ام المومنین عائیشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی کی عظمت کا دفاع کرنے والوں کی تقاریر سن سن کر
جنید جمشید کے بیان کے ہر لفظ کی تشریح سن کر سمجھ کر میری سماعتیں کر چکی ہیں ۔ اب تو دل چاہتا ہے کہ اس " تائب " کی گردن اڑاؤں اور جنت میں محل پاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ مجھے معاف کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جاوید چوہدری
دنیا کے تین پیشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ ایسا لہو ہیں جو اگر ایک بار منہ کو لگ جائے تو پھر یہ ہونٹوں سے نہیں ہٹتا‘ ایک بادشاہت ہے‘ انسان اگر ایک بار کرسی تک پہنچ جائے تو پھر یہ اسے چھوڑ نہیں سکتا اور یہ اگر اسے چھوڑ دے تو پھر یہ عام انسان نہیں ہوتا‘ یہ نیلسن مینڈیلا ہوتا ہے‘ دو‘ انسان اگر ایک بار عوام سے مخاطب ہو جائے اور عوام اس کے حق میں تالیاں بجا دیں تو پھر انسان اسٹیج سے نہیں اترتا اور تیسرا جس شخص کو اسکرین کی عادت پڑ جائے یہ پھر اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جنید جمشید کی کایا پلٹ گئی لیکن کایا پلٹنے سے قبل اسکرین ان کے اندر جگہ بنا چکی تھی اور یہ اسکرین انھیں کسی نہ کسی بہانے کسی نہ کسی اسکرین پر کھینچ لاتی تھی‘ جنید جمشید کی واپسی موسیقی کے بغیر ’’دل دل پاکستان‘‘ سے ہوئی‘کسی ٹیلی ویژن پروگرام میں انھوں نے شلوار قمیض‘ داڑھی اور ٹوپی کے ساتھ دل دل پاکستان گایا اور اس کے ساتھ ہی وہ دروازہ کھل گیا جو نہیں کھلنا چاہیے تھا‘ دنیا میں صرف وہ انسان کامیاب ہوتے ہیں جو اگر ایک بار گزر جائیں تو پھر گزر جائیں‘ وہ واپس مڑ کر نہ دیکھیں‘ میرا مطالعہ‘ تجربہ اور مشاہدہ ہے جو لوگ جانے کے بعد مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں وہ پھنس جاتے ہیں اور جنید جمشید کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
یہ واپس مڑکر دیکھنے کی غلطی کر بیٹھے‘ نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا پھر جنید جمشید نے ٹیلی ویژن پر رمضان کے پروگرام شروع کیے‘ پھر مذہبی پروگرام شروع ہوئے اور آخر میں واعظ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر وہ ہو گیا جس کا خطرہ تھا‘ وہ کیا ہے؟ ہم اس طرف آنے سے قبل جنید جمشید کی ایک خامی کا ذکر کریں گے‘ جنید جمشید مذہبی ہو چکے ہیں‘ یہ اسلام کے رنگ میں بھی رنگے جا چکے ہیں مگر وہ میری طرح اسلام کے بارے میں سطحی علم رکھتے ہیں‘ جنید جمشید جیسے لوگوں کے دو المیے ہیں‘

ایک یہ لوگ مذہبی علم میں خام ہیں اور
دوسرا ملک میں مذہبی برداشت ختم ہو چکی ہے


‘ہمارے ملک میں آج خاندانی‘ کاروباری اور شخصی مخالفت میں کسی بھی شخص کو گستاخ رسول قرار دیا جا سکتا ہے‘ لوگ اس پر بلاتحقیق حملہ کر دیتے ہیں‘ اسے قتل کر دیا جاتا ہے‘ اس کی املاک کو جلا دیا جاتا ہے اور تحقیق اور تفتیش بعد میں ہوتی ہے۔
جنید جمشید شاید ان دونوں حقیقتوں سے واقف نہیں تھے‘ یہ ٹیلی ویژن انڈسٹری کی ریٹنگ کی دوڑ کا شکار بھی ہو گئے‘ ہماری ٹیلی ویژن انڈسٹری کو ہر وقت ایسے چہرے درکار ہوتے ہیں جنھیں یہ بیچ کر منافع بھی کما سکے اور حریفوں کو خاک بھی چٹوا سکے‘ مذہب بدقسمتی سے میڈیا انڈسٹری کے لیے منافع خوری کا ذریعہ بن چکا ہے‘ آپ کوئی ٹیلی ویژن چینل آن کر کے دیکھ لیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی ایسا ماڈرن مولوی مل جائے گا جو مذہب‘ روحانیت اور وظائف کو چاکلیٹ کے ریپر میں لپیٹ کر بیچ رہا ہو گا۔
جنید جمشید بھی ان لوگوں میں شامل ہو گئے اور پھر نازک آبگینوں کے ٹوٹنے کا وہ لمحہ آ گیا۔ جنید جمشید نے واعظ کیا اور اس واعظ کے دوران اس سے ایک مقدس ہستی کی شان میں گستاخی ہو گئی‘ یہ گستاخی یقینا گستاخی ہے لیکن اس گستاخی کی وجہ جنید جمشید کی بدنیتی نہیں تھی‘ یہ کم علمی اور مذہب کے بارے میں ادراک کی کمی کے ہاتھوں مارے گئے‘ جنید جمشید کا مقصد توہین نہیں تھا‘ بہرحال تیر کمان سے نکل گیا‘ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ ملک کے مختلف حصوں میں ایف آئی آر درج ہوئیں اور یہ ملک سے باہر چلے گئے‘ جنید جمشید فیس بک پر ہاتھ باندھ کر معافی بھی مانگ چکے ہیں لیکن شاید بات معافی سے آگے نکل چکی ہے۔
میں جنید جمشید کے واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے علماء کرام‘ حکومت اور معاشرے سے چند درخواستیں کرنا چاہتا ہوں‘ میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ جنید جمشید کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں‘ یہ ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو ماڈرن زندگی چھوڑ کر مذہب کی طرف راغب ہوئے‘ اگر جنید جمشید کو نقصان پہنچا تو ملک کے ایسے ہزاروں لوگ مذہب سے دور ہو جائیں گے جو دنیاوی زندگی چھوڑ کر اللہ کے راستے پر آنا چاہتے ہیں‘ یہ واقعہ ان لوگوں اور ان کے خاندانوں کے لیے بری مثال بن جائے گا‘ لوگ مذہب کی طرف آتے ہوئے گھبرائیں گے‘ ہماری مذہبی کتب میں مقدس ہستیوں کے بارے میں بے شمار ایسے واقعات اور احادیث موجود ہیں جنھیں ہم جیسے دنیا دار پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔

علماء کرام سے درخواست ہے آپ یہ تمام کتب یا ان کتب میں موجود یہ مواد ’’ایڈٹ‘‘ کرا دیں یا پھر آپ مذہبی کتب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں‘ علماء کے لیے کتب اور عام لوگوں کے لیے کتب۔ علماء کی کتابیں عام لوگوں کو دستیاب نہیں ہونی چاہئیں‘

حکومت علماء کا بورڈ بنائے اور یہ بورڈ جب تک کسی کتاب کی منظوری نہ دے‘اس وقت تک مذہب سے متعلقہ کوئی کتاب یا کسی کتاب کا کوئی حصہ شایع نہیں ہونا چاہیے‘ کتابوں کے آخر میں یہ سر ٹیفکیٹ بھی شایع ہونا چاہیے‘

علماء کرام اگر احادیث کی کتابوں کا بھی از سر نو جائزہ لے لیں تو یہ بھی ہم جیسے عام مسلمانوں کے لیے خصوصی مہربانی ہو گی

‘ حکومت ٹیلی ویژن پر مذہبی پروگراموں کے لیے فوری طور پر ضابطہ اخلاق طے کرے‘ ٹیلی ویژن پر مذہبی گفتگو کرنے والے لوگ جب تک اس معیار پر پورا نہ اتریں انھیں اس وقت تک ٹیلی ویژن پر مذہبی گفتگو کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ ہمارے معاشرے میں نعت‘ منقبت اور قوالی کے لیے کوئی ضابط اخلاق موجود نہیں۔
ہمارے نعت خوان‘ منقبت لکھنے والے اور قوال اکثر اوقات جذب و مستی میں عقیدت کی لکیر عبور کر جاتے ہیں‘ ملک میں نعتوں‘ منقبت اور قوالیوں کو پاس کرنے کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے اور جب تک حکومت سکہ بند علماء کی مدد سے پاس نہ کرے کسی نعت خواں اور کسی قوال کو کوئی نئی قوالی کہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘

عقائد ریاست کے تابع ہوتے ہیں‘ ریاست عقائد کی ماتحت نہیں ہوتی‘ ریاست فوراً ایکٹو کریں‘ ریاست کو مسجد اور امام مسجد سے لے کر ٹیلی ویژن پر اذان تک ہر مذہبی معاملے میں نظر آنا چاہیے کیونکہ ریاست اگر اسی طرح پیچھے ہٹتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کوئی شخص اٹھ کر ریاست کے خلاف فتویٰ دے گا اور ملک میں لاشوں کے انبار لگ جائیں گے۔
آپ القاعدہ اور داعش کو ذہن میں رکھیں‘ یہ لوگ ایک خاص شریعت کے حامی ہیں‘ یہ روز اللہ اکبر کے نعروں میں کلمہ گو مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں‘ سوشل میڈیا پر کلپس نشر کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے سرخ تلواروں کا اسلام پیش کرتے ہیں‘ ہم اگر ملک کو اس انجام سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ریاست‘ علماء کرام اور معاشرے تینوں کو جاگنا ہو گا‘ آپ خود سوچئے لوگ جس ملک میں خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے لگیں‘ کیا اس ملک کی حکومت سونے کا رسک لے سکتی ہے؟ ریاست کو جاگنا چاہیے ورنہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام کے نام پر ہی ختم ہو جائے گا۔
 
مختلف مکتب فکر یا مسالک کے علمائے کرام کے آپس میں اتفاق و یگانگت کے حوالے سے ، جنوری 1951 میں سید سلیمان ندوی کی صدارت میں ایک اجلاس کا ذکر ضروری ہے جس میں 31 علمائے کرام نے 22 متفقہ نکات (ربط ) منظور کیے تھے۔ حکومت اس کی بنیاد پر سب کی مشاورت سے حالیہ معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کر سکتی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
انتہائی مضحکہ خیز کالم۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں کہ اس کالم نگار کے قلم سے کوئی ایک عقل و فہم کی بات لکھی جائے۔ مثال کے طور پر یہ جملہ تو حد سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔

علماء کرام سے درخواست ہے آپ یہ تمام کتب یا ان کتب میں موجود یہ مواد ’’ایڈٹ‘‘ کرا دیں یا پھر آپ مذہبی کتب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں‘ علماء کے لیے کتب اور عام لوگوں کے لیے کتب۔ علماء کی کتابیں عام لوگوں کو دستیاب نہیں ہونی چاہئیں‘


یعنی اب مولوی یہ فیصلہ کرے گا کہ تاریخ کی کتب میں سے کونسی باتیں رکھنی چاہیں اور کونسی نکال دینی چاہییں۔ اس سے بڑی خیانت اور کھلواڑ بھلا تاریخ کیساتھ اور کیا ہو سکتا ہے۔
 
انتہائی مضحکہ خیز کالم۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں کہ اس کالم نگار کے قلم سے کوئی ایک عقل و فہم کی بات لکھی جائے۔ مثال کے طور پر یہ جملہ تو حد سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔
یعنی اب مولوی یہ فیصلہ کرے گا کہ تاریخ کی کتب میں سے کونسی باتیں رکھنی چاہیں اور کونسی نکال دینی چاہییں۔ اس سے بڑی خیانت اور کھلواڑ بھلا تاریخ کیساتھ اور کیا ہو سکتا ہے۔

یہی تو چاہا جا رہا ہے کہ جب دیگر مذاہب یہ کھلواڑ کر چکے ہیں اور من پسند ترامیم کر دی گئی ہیں تو اسلام کیوں بچا ہوا ہے۔
 
انتہائی مضحکہ خیز کالم۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں کہ اس کالم نگار کے قلم سے کوئی ایک عقل و فہم کی بات لکھی جائے۔ مثال کے طور پر یہ جملہ تو حد سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔




یعنی اب مولوی یہ فیصلہ کرے گا کہ تاریخ کی کتب میں سے کونسی باتیں رکھنی چاہیں اور کونسی نکال دینی چاہییں۔ اس سے بڑی خیانت اور کھلواڑ بھلا تاریخ کیساتھ اور کیا ہو سکتا ہے۔

مولوی سے آپ کی کیا مراد ہے؟
اور آپ کی بات تاریخ کی کتب غیر متعلق ہے؟
پہلے کالم ٹھیک سے پڑھ لیں۔
 
انتہائی مضحکہ خیز کالم۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں کہ اس کالم نگار کے قلم سے کوئی ایک عقل و فہم کی بات لکھی جائے۔ مثال کے طور پر یہ جملہ تو حد سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔

یعنی اب مولوی یہ فیصلہ کرے گا کہ تاریخ کی کتب میں سے کونسی باتیں رکھنی چاہیں اور کونسی نکال دینی چاہییں۔ اس سے بڑی خیانت اور کھلواڑ بھلا تاریخ کیساتھ اور کیا ہو سکتا ہے۔

رکھانے نکالنے کی بات ہی نہیں ہے میرے خیال میں، یہاں کم پڑھے لکھے اور عام دنیا دارافراد کے لیے مخصوص کتب ، کتاب ( جو اسان فہم اور واضح ہو) کی بات ہو رہی ہے اور یہ ایک بنیادی تجویز ہے ، جس میں ضروری ردو بدل کے بعد مزید بہتر قابل عمل صورت بنائی جا سکتی ہے۔

چلیں اگر یہ قبول نہیں تو پھر مڈل جماعت کے طالب علم کو ایم اے انگلش کی کتاب تھما دیں

ایک عرف عام مولوی (تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر دین کی بات کرنے والا) اور کسی مدرسے سے فارغ التحصیل عالم میں فرق ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
رکھانے نکالنے کی بات ہی نہیں ہے میرے خیال میں، یہاں کم پڑھے لکھے اور عام دنیا دارافراد کے لیے مخصوص کتب ، کتاب ( جو اسان فہم اور واضح ہو) کی بات ہو رہی ہے اور یہ ایک بنیادی تجویز ہے ، جس میں ضروری ردو بدل کے بعد مزید بہتر قابل عمل صورت بنائی جا سکتی ہے۔

چلیں اگر یہ قبول نہیں تو پھر مڈل جماعت کے طالب علم کو ایم اے انگلش کی کتاب تھما دیں

ایک عرف عام مولوی (تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر دین کی بات کرنے والا) اور کسی مدرسے سے فارغ التحصیل عالم میں فرق ہے۔

علم حاصل کرنے پر کوئی کیسے پابندی لگا سکتا ہے؟ آٹھویں کلاس کے بچے پر بھی کوانٹم میکنکس کی کتب پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور ایسے بچے موجود بھی ہیں جو کہ اسی عمر میں ایڈوانس لیول کی کتب پڑھتے بھی ہیں اور ان کو سمجھ بھی سکتے ہیں۔

اگر تو یہ کتب دین سے متعلق ہیں تو پھر تو آپ کی اور جاوید چووی کی بات کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ دین میں طبقات بنا دیں اور ہر طبقے کو دوسرے طبقے سے الگ کر دیا جائے یہاں تک کہ کتب تک بھی رسائی محدود کر دیں( ویسے آج کل کے انٹرنیٹ کے دور میں ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہے۔) کل کو کوئی اٹھ کر کہے گا کہ قرآن کی فلاں فلاں سورت کی بھی عوام تک رسائی نہیں ہونی چاہیے اور اس کو بھی ایڈیٹ کر دیا جائے۔ تو کیا یہ بات قابلِ قبول ہو گی؟

مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
علم حاصل کرنے پر کوئی کیسے پابندی لگا سکتا ہے؟ آٹھویں کلاس کے بچے پر بھی کوانٹم میکنکس کی کتب پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور ایسے بچے موجود بھی ہیں جو کہ اسی عمر میں ایڈوانس لیول کی کتب پڑھتے بھی ہیں اور ان کو سمجھ بھی سکتے ہیں۔

اگر تو یہ کتب دین سے متعلق ہیں تو پھر تو آپ کی اور جاوید چووی کی بات کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ دین میں طبقات بنا دیں اور ہر طبقے کو دوسرے طبقے سے الگ کر دیا جائے یہاں تک کہ کتب تک بھی رسائی محدود کر دیں( ویسے آج کل کے انٹرنیٹ کے دور میں ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہے۔) کل کو کوئی اٹھ کر کہے گا کہ قرآن کی فلاں فلاں سورت کی بھی عوام کو رسائی نہیں ہونی چاہیے اور اس کو بھی ایڈیٹ کر دیا جائے۔

مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔
لیکن شاہ جی بے لگام گھوڑوں کو کسی نظم و ضبط میں لانے کی تو ضرورت پھر بھی رہے گی؟ جس طرح عطائی ڈاکٹر کو سرجری کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح نیم ملایئت کو بھی وعظ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
 

سید ذیشان

محفلین
لیکن شاہ جی بے لگام گھوڑوں کو کسی نظم و ضبط میں لانے کی تو ضرورت پھر بھی رہے گی؟ جس طرح عطائی ڈاکٹر کو سرجری کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح نیم ملایئت کو بھی وعظ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔

بالکل ضرورت ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ کتب تک رسائی محدود کر دیں یا ان میں تحریف کریں۔

ویسے بھی آج کل تو گلی گلی میں نیم ملاوں کا راج ہے، کس کس کو لگام ڈالیں گے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بالکل ضرورت ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ کتب تک رسائی محدود کر دیں یا ان میں تحریف کریں۔

ویسے بھی آج کل تو گلی گلی میں نیم ملاوں کا راج ہے، کس کس کو لگام ڈالیں گے۔
لیکن اس وجہ سے جوں کا توں چھوڑا تو نہیں جا سکتا ، ریاستی اور انتظامی اداروں کو بنیادی معاملات میں کچھ نہ کچھ قوانین وضع کرنا ہوں گے۔ ورنہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد لیکر بیٹھے رہیں گے۔اور کچے اذہان کا بیڑا غرق کرتے رہیں گے۔
 

سید ذیشان

محفلین
لیکن اس وجہ سے جوں کا توں چھوڑا تو نہیں جا سکتا ، ریاستی اور انتظامی اداروں کو بنیادی معاملات میں کچھ نہ کچھ قوانین وضع کرنا ہوں گے۔ ورنہ سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد لیکر بیٹھے رہیں گے۔اور کچے اذہان کا بیڑا غرق کرتے رہیں گے۔

بنانے والے طرح طرح کے قوانین بنا چکے ہیں، لیکن ان پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً لاوڈ سپیکر کے استعمال سے متعلق بھی گائڈ لائن موجود ہے لیکن ان پر کوئی عمل درامد نہیں ہوتا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بنانے والے طرح طرح کے قوانین بنا چکے ہیں، لیکن ان پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً لاوڈ سپیکر کے استعمال سے متعلق بھی گائڈ لائن موجود ہے لیکن ان پر کوئی عمل درامد نہیں ہوتا۔
تو اصل مسئلہ مذہبی بے راہ روی نہیں ناقص و نا اہل انتظامیہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
تو اصل مسئلہ مذہبی بے راہ روی نہیں ناقص و نا اہل انتظامیہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

دونوں طرف مسائل موجود ہیں۔ ایک طرف عدم برداشت ہے اور دوسری طرف تساہل پسندی، بزدلی اور اپنے مفادات کا تحفط ہے۔

جاوید چوہدری کا بس چلے تو وہ سب احادیث اور تاریخ کی کتب بین کر کے اس کی جگہ ایک ”مطالعہ پاکستان نما“ ایک کتاب رائج کر دے جس میں چیری پکنگ کی گئی ہو اور وہی باتیں ہوں جو کہ اس کو یا پھر ”درست/حلال علماء “ کو پسند ہوں۔
 
علماء کرام اگر احادیث کی کتابوں کا بھی از سر نو جائزہ لے لیں تو یہ بھی ہم جیسے عام مسلمانوں کے لیے خصوصی مہربانی ہو گی۔۔ جاوید چوہدری

یہ ایک انتہائی قابل اعتراض بات ہے۔ ہر لکھنے والا دانشور نہیں ہوتا۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top