جنگِ آزادی 1857ء

الف عین

لائبریرین
بہادرشاہ کی لڑکی

بہادر شاہ کی ایک صاحبزادی احمدی بیگم کے شوہر مرزا منجھو جو غدر میں کام آئے بڑے دبدے کے آدمی تھے ۔ ان کی سرکار بنی ہوئی تھی۔ بیسیوں آدمی ان کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے ۔ دروازہ پر نالکی پالکی موجود تھی۔ جب مرزا مارے گئے اور شہر کی حالت بگڑی تو بڑی بیگم یعنی احمدی بیگم نے اپنا اور بہو بیٹیوں کا تمام زیور خانم کے بازار والی حویلی میں گاڑنے کا ارادہ کیا ۔ دو پتیلیاں زیور سے بھری تھیں ہزاروں کا مال تھا۔ شہر کی کیفیت لمحہ بہ لمحہ ردی ہورہی تھی۔ عین شب برأت کے روز یہ سب شہزادیاں نکل کھڑی ہوئیں ۔
احمد ی بیگم کی ضعیفی میرا بچپن تھا۔ انہوں نے سوبرس کے قریب عمر پائی ۔ آخری دنوں میں وہ باہر نکلنے کے قابل نہ رہیں ۔ اور بہت سخت تکلیفیں اٹھاکر یہ شہزای دنیا سے اس طرح رخصت ہوئی کہ کفن بھی وقت سے میسر نہ ہوا۔
فالج نے بالکل بے کار کر دیا تھا۔ چل پھر نہ سکیں تھیں اور کئی دموں کاگذارا اس ایک دم کی محنت پر تھا۔ میری عمر بارہ تیرہ بس کی ہوگی کہ میری والدہ مرحومہ نے احمدی بیگم کا پتہ دے کر مجھے ایک روپیہ دیا کہ دے آؤ۔ میں گیا اور مرزا شیشہ والے کے گھر پر جاکر جو بندریا والے مشہور تھے ۔ اس لیے کہ ان کے ہاں بندریا پلی ہوئی تھی۔ ان کا گھر پوچھا ۔ اس وقت تو خیال بھی نہ ہوا ۔ مگر آج جب دھیان آتا ہے تو اس گھر اور گھر والوں کی تصویر آنکھ کے سامنے پھر جاتی ہے ۔ شہزادی کے گھر میں کھانے کے واسطے مٹی کے ٹوٹے برتن تھے اور سردی کے موسم میں بادشاہ کی یہ اولاد دبکی اور سکڑی بیٹھی تھی۔
احمدی بیگم اس روپیہ کو دیکھ کر جس قدر خوش ہوئیں اور جو دعائیں ان کے دل سے نکلیں ان کٍا اظہار مشکل ہے ۔ اس وقت ہنستا ہوا گیا اور ہنستا ہوا آیا۔ مگر آج جب احمدی بیگم کی اس جھنگار چارپائی کا خیال آتا ہے تو تڑپ جاتا ہوں ۔
(دلی کی آخری بہار۔ علامہ راشد الخیری۔ ص ۱۱)



٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
بہادر شاہ ظفر ؔ
غزل

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسے اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہوگئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آئی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہربار
تیری خو حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی

٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کوئز
سوال نامہ

س۔ جنگِ آزادی 1857ء کا آغاز کب ہوا؟
ج۔ 9 مئی 1857ء کو ۔
س۔ 9 مئی 1857ء کو ہفتہ کا کون سا دن تھا؟
ج۔ ہفتہ
س۔ جنگِ آزادی کا آغاز کس شہر سے ہوا؟
ج۔ میرٹھ چھاونی سے ۔
س۔ کس مغل تاجدار کو بادشاہ بنانے کا اعلان کیا گیا؟
ج۔ بہادر شاہ ظفر کو ۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کو کس تاریخ کو بادشاہ بنانے کٍا اعلان کیا گیا؟
ج۔ 11/ مئی 1857ء کو بروز پیر۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کی فوج کا سپہ سالار کس کو مقرر کیا گیا؟
ج۔ مرزا مغل (بہادر شاہ ظفر کا صاحبزادہ)
س۔ بریلی سے جنگِ آزادی کا کونسا جرنیل ۱۲ ہزار کی افواج لے کر دہلی پہنچا؟
ج۔ جرنل بخت خاں ۔
س۔ ’’میرے پاس تنخواہ دینے کے لیے نہ خزانہ ہے نہ ملک جہاں سے روپیہ حاصل ہو۔ نہ فوج ہے جس سے تمہاری مدد کرسکوں ۔ میں تو نام کا بادشاہ ہوں ۔ بہتر ہے تم لوگ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔‘‘ یہ الفاظ کس کے ہیں ؟
ج۔ بہادرشاہ ظفر کے ۔
س۔ بہادر شاہ ظفر نے یہ الفاظ کس موقع پر کہے ؟
ج۔ جب بخت خان بریلی سے افواج لے کر دہلی پہنچا اور بہادر شاہ سے فوج کی کمان سنبھالنے کی درخواست کی۔
س۔ بہادر شاہ کے اس سمدھی کانام بتائیے جس نے لال قلعہ کے مشرق میں دریائے جمنا پر کشتیوں کا پل کٹوادیا؟
ج۔ مرزا الٰہی بخش۔
س۔ انگریز فوج کس تاریخ کو دلی شہر میں داخل ہوئی؟
ج۔ ۲۰/ستمبر ۱۸۵۷ء کو ۔
س۔ انگریز فوج کی قیادت کون کر رہا تھا؟
ج۔ جنرل ہوڈسن
س۔ جنگ آزادی کب ختم ہوئی؟
ج۔ ۲۰/نومبر ۱۸۵۷ء کو
س۔ جنگ آزادی کے دوران بہادر شاہ نے کتنے عرصے حکمرانی کی؟
ج۔ سوا چار ماہ
س۔ مرزا الٰہی بخش کی مخبری سے کن دوشہزادوں کو جرنل ہوڈسن نے گرفتار کر لیا۔
ج۔ شہزادہ خضر سلطان اور شہزادہ عبدالباقر
س۔ بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ کب شروع ہوا؟
ج۔ ۲۷۔ جنوری ۱۸۵۸ء کو
س۔ بہادر شاہ ظفر کو کتنا عرصہ نظر بند رکھاگیا؟
ج۔ تقریباً چار ماہ
س۔ بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ کتنے دن جاری رہا؟
ج۔ ۲۱ روز تک
س۔ بہادر شاہ ظفر کے مقدمہ کا فیصلہ کب سنایاگیا؟
ج۔ ۱۶ فروری ۱۸۵۸ء کو
س۔بہادرشاہ کے اس معتمدِ خاص کاکیا نام تھا؟ جس نے بادشاہ کے خلاف گواہی دی اور کہا بادشاہ (بہادرشاہ ظفر) شاہ ایران سے بھی ساز کر رہا تھا؟
ج۔ مکنہ لال۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کے مقدمے میں سرکاری وکیل کا کیا نام تھا؟
ج۔ ایف ۔ جے ہیریٹ
س۔ بہادرشاہ ظفر کو دہلی سے کلکتہ کب بھیجا گیا؟
ج۔ ۱۷ اکتوبر ۱۸۵۸ء کو جمعہ کے دن ۔
س۔ کر رحم غریبی پہ میری گردشِ ایام
بدعہدیِ دوراں نہ کر اتنا مجھے بدنام
یہ شعر کس کا ہے ؟
ج۔ بہادرشاہ ظفر کا۔
س۔ بہادر شاہ نے یہ شعر کب کہا؟
ج۔ ۶ نومبر ۱۸۵۸ء کو
س۔ بہادرشاہ ظفر کے کورٹ گزٹ کا کیا نام تھا؟
ج۔ سراج الاخبار ۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کی بیٹی کا نام بتایئے جس کا عقد دہلی کے ایک باورچی سے ہوا ؟
ج۔ ربیعہ بیگم۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کا یومِ وفات کیا ہے ؟
ج۔ ۷ نومبر ۱۸۶۲ء بروز جمعہ ( ۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۲۷۹ھ )
س۔ بہادر شاہ ظفر کا مزار کہاں ہے ؟
ج۔ رنگون ( برما ) میں ۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کا سراغ کس نے لگا یا ؟
ج۔ عبدالسلام نامی ایک شخص نے ۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کے اُس پوتے کا نام بتایئے جو اُس کے مزار کی مجاوری کرتا تھا ؟
ج۔ سکندر بخت۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کو پہلی بار سلامی کس نے دی ؟
ج۔ سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند افواج نے ۔
س۔ بہادر شاہ ظفر کے اُس چچیرے بھائی کا نام بتائیے جس نے ریاست اندور سے جنگِ آزادی کا آغاز کیا ؟
ج۔ شہزادہ فیروز شاہ۔
س۔ جنگِ آزادی کی افواج لکھئنو(اودھ ) کب پہنچیں ؟
ج۔ ۲۳ جون ۱۸۵۷ء کو۔
س۔ اُس وقت لکھئنوکا چیف کمشنر کون تھا ؟
ج۔ سرہنری لارنس۔
س۔ مجاہدین نے بیگم حضرت محل سے کس کی مسند نشینی کی درخواست کی ؟
ج۔ رمضان علی مرزا برجیس قدر ( جس کی عمر ۱۱ برس تھی )
س۔ واجد علی شاہ اور بیگم حضرت محل کا آپس میں کیا تعلق تھا ؟
ج۔ حضرت محل واجد علی شاہ کی بیوی تھی۔
س۔ مرزا برجیس قدر نے تخت نشینی کے بعد کیا کہلوایا ہے ؟
ج۔ نواب وزیر۔
س۔ برجیس قدر کی مسند نشینی کی تحریک کس نے پیش کی اور اس کی تائید کس نے کی ؟
ج۔ تحریک احمد حسین نے اور تائید نواب ممّو خان نے ۔
س۔ برجیس قدرنے سب سے پہلا فرمان کیا جاری کیا ؟
ج۔ ’’ اب کوئی شہر نہ لُوٹے ورنہ سزا پائے گا ‘‘۔
س۔ بیگم حضرت محل نے کس کو اپنا سفیر بنا کر بہادر شاہ کے پاس دہلی بھیجا ؟
ج۔ عباس مرزا کو۔
س۔ بیگم حضرت محل کی فوج کا سپہ سالار کون تھا ؟
ج۔ جنرل حسام الدولہ۔
س۔ بیگم حضرت محل نے لکھئنو میں شکست کے بعدباقی عمر کہاں گزاری ؟
ج۔ کھٹمنڈو ( نیپال ) میں ۔
س۔ بیگم حضرت محل کا انتقال کب ہوا ؟
ج۔ اپریل ۱۸۷۹ء کو۔ مزار ایران میں ہے ۔
س۔ ۵ جون ۱۸۵۷ءکو نجیب آباد میں جنگِ آزادی کے بعد کس نے اپنی فرما نروائی کا اعلان کیا ؟
ج۔ محمود خان نے ۔
س۔ جنگِ آزادی کا نقشہ کس مجاہد آزادی نے تیار کیا تھا ؟
ج۔ عظیم اللہ خان نے ۔
س۔ عظیم اللہ خان کے نقشے کے مطابق جنگِ آزادی کا آغاز کب ہونا تھا ؟
ج۔ ۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کو۔
س۔ عظیم اللہ خان کہاں پیدا ہوئے ؟
ج۔ کا نپور میں ۔
س۔ کانپور میں جنگِ آزادی کا علم کب بلند ہوا؟
ج۔ ۴ جون ۱۸۵۷ء کو۔
س۔ نانا راؤ ( کان پور ) کو جنگِ آزدی میں شمولیت کی ترغیب کس نے دی؟
ج۔ عظیم اللہ خان نے ۔
س۔ عظیم اللہ خان کی وفات کب اور کہاں ہوئی؟
ج۔ ۱۸۵۹ء میں نیپال میں ۔
س۔ فیض آباد میں جنگِ آزادی کا علم کب بلند ہوا ؟
ج۔ ۷ جون ۱۸۵۷ء کو۔
س۔ علم بلند کرنے والے مجاہد آزادی کا نام کیا تھا ؟
ج۔ مولانا احمد اللہ شاہ ( اصل نام سید احمد علی خان )
س۔ معرکئہ بیلی گارد کب ہوا ؟
ج۔ ۳۱ جولائی ۱۸۵۷ء کو۔
س۔ بیلی گارو کیا تھی ؟
ج۔ یہ ریذیڈنسی عمارت تھی جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ رہتا تھا۔
س۔ معر کئہ بیلی گارو میں مجاہدین کی قیادت کون کرہا تھا ؟
ج۔ مولانا احمد اللہ شاہ۔
س۔ معرکئہ بیلی گارد میں احمد اللہ شاہ کے علاوہ کون شریک تھا ؟
ج۔ عظیم اللہ خان اور بیگم حضرت محل۔
س۔ ۲۰ اپریل ۱۸۵۸ء کو کس مجاہد آزادی کی زندہ گرفتاری پر پچاس ہزار روپے کا انعام کا اعلان ہوا ؟
ج۔ مولوی احمد اللہ شاہ۔
س۔ مولانا احمد اللہ شاہ کی وفات کب ہوئی ؟
ج۔ ۵ جون ۱۸۵۸ء کو۔
س۔ مولانا احمد اللہ شاہ کو کس نے شہید کیا ؟
ج۔ پایاں کے راجہ جگن ناتھ نے ۔
س۔ مولانا احمد اللہ شاہ کا مزار کہاں ہے ؟
ج۔ شاہ جہاں پور کے گنج نامی گاؤں میں ۔
س۔ روہیل کھنڈ کے اُس مجاہدِ آزادی کا نام بتائیے جس نے کمانڈر انچیف ہند کو لن کیمبل کو دوبار شکست دی ؟
ج۔ مولانا احمد اللہ شاہ ۔
س۔ بریلی میں علمِ آزادی کب بلند ہوا؟
ج۔ ۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کو۔
س۔ علم آزادی بلند کرنے والے مجاہدِ آزادی کون تھے ؟
ج۔ جرنل بخت خان ۔
س۔ جنگِ آزادی کے آغاز پر بخت خان انگریز فوج کا ملازم تھا ۔ کس حیثیت سے ؟
ج۔ صوبیدار۔
س۔ بخت خان کے اس ساتھی کا نام بتائیے جو بریلی کا مجسٹریٹ بھی رہ چکا تھا ؟
ج۔ خان بہادر خاں ۔
س۔ جنگِ آزادی میں ناکام ہونے کے بعد بخت خان کہاں چلے گئے ؟
ج۔ نیپال ۔
س۔ بخت خاں کی وفات کب ہوئی ؟
ج۔ ۱۳ مئی ۱۸۵۹ء کو نیپال میں ۔
س۔ گو گیرہ ضلع ساہیوال میں جنگِ آزادی کا آغاز کرنے والے مجاہد کون تھے ؟
ج۔ احمد خاں کھرل۔
س۔ احمد خاں کھرل نے اپنی تحریک کا آغاز کب اور کہاں سے کیا ؟
ج۔ ۱۷ ستمبر ۱۸۵۷ء کو گوگیرہ سے ۔
س۔ احمد خاں کھرل کی وفات کب ہوئی ؟
ج۔ ۲۱ جنوی ۱۸۵۸ء کو۔
س۔ جنگِ آزادی کے آغاز پر جامع مسجد دہلی سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ کس عالمِ دین نے دیا؟
ج۔ مولانا فضل الحق خیر آبادی نے ۔
س۔ مولانا فضل الحق خیر آبادی کی مشہور تصانیف کونسی ہیں ؟
ج۔ تاریخ فتنہ ہندوستان ، رسالہ تحقیق الاجسام، رسالہ تحقیق الکلی الطیق، رسالہ الہیات، حاشیہ تلخیص الشفا، حاشیہ افق المبین،
س۔ مولانا فضل حق خیر آبادی کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟
ج۔ ۱۹ اگست ۱۸۶۱ء کو انڈیمان میں اور وہیں دفن ہوئے ۔
س۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے جنگِ آزادی میں کیا اہم کردار کیا ؟
ج۔ آپ نے تھانہ بھون ضلع مظفر گڑھ ( یو۔ پی ) میں انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ۔
س۔ مری کے اس مجاہد آزادی کا نام بتائیے جس نے مری کے پہاڑوں میں انگریزوں کے خلاف علم آزادی بلند کیا ؟
ج۔ باز خان ۔ جن کا تعلق قبیلہ ڈھنڈ سے تھا۔
س۔ ۱۸۵۷ء میں دہلی اردو اخبار کے مالک کا نام بتائیے جن کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا ؟
ج۔ مولوی محمد باقر ( مولانا محمد حسین آزاد کے والد )
س۔ جنگِ آزادی کے حوالے سے ٹوانہ خاندان کے کس شخص نے انگریزوں کی مدد کی ؟
ج۔ فتح شیر ٹوانہ۔
س۔ اُس انگریز جرنیل کا نام بتائیے جس نے مرزا غلام احمد کو وفاداری کے صلے میں قادیان کے حقوق ملکیت دیئے ؟
ج۔ جنرل نکلسن۔
س۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کب ختم ہوئی ؟
ج۔ اگسٹ ۱۸۵۸ء کو۔ حکومت برطانیہ کے حکم سے ۔
س۔ جنگ کے وقت ہندوستان کا وائسرائے کون تھا ؟
ج۔ لارڈ کیننگ ۔
س۔ لارڈ کیننگ کا عہدہ کب ختم ہوا؟
ج۔ ۱۸۶۴ء میں ۔
س۔ لارڈ کیننگ کے بعد نیا وائسرائے کون بنا؟
ج ۔سرجان لارنس۔
س۔ ہندوستان کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹر ز اور بورڈ آف کنٹرول کی بجائے وزیر ہند کے تقرر کا قانون برطانوی پارلیمنٹ نے کب منظور کیا ؟
ج۔ ۱۸۵۸ء میں ۔
س۔ پہلا انڈین کونسل ایکٹ کب نافذ ہوا؟
ج۔ ۱۸۶۱ء میں ۔
س۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد کیا تھا ؟
ج۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ نے براہِ راست ہندوستان کا نظم ونسق سنبھال لیا۔
س۔ پہلی بار ہندوستانیوں کو امورِ حکومت میں حصہ لینے کا موقع کب ملا؟
ج۔ انڈین ایکٹ ۱۸۶۱ء کی رو سے ۔
س۔ محمڈن لٹریری سوسائٹی آف کلکتہ کب قائم ہوئی ؟
ج۔ ۱۸۶۳ء میں ۔
س۔ اس سوسائٹی کے بانی کون تھے ؟
ج۔ نواب عبدالطیف ۔
س۔ نواب عبدالطیف اُس وقت کس عہدے پر فائز تھے ؟
ج۔ آپ کلکتہ مدرسہ میں عربی کے پروفیسر تھے ۔
س۔ نواب عبدالطیف نے یہ سوسائٹی کس بات سے متاثر ہو کر بنائی ؟
ج۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی سے متاثر ہوکر۔
س۔ برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کا قیام کب عمل میں آیا؟
ج۔ مئی ۱۸۶۶ء میں علی گڑھ میں ۔
س۔ برٹش انڈیا ایسوسی ایشن کے پہلے صدر اور سیکرٹر ی کون تھے ؟
ج۔ صدر: راجہ جے کشن داس اور
سیکرٹری : سرسید احمد خان۔
س۔ ہندوؤں نے یہ مطالبہ کب کیا کہ اردو کی جگہ ہندی زبان اور فارسی کی جگہ دیونا گرسی رسم الخط کو سرکاری حیثیت دی جائے ؟
ج۔ ۱۸۶۷ء
س۔ وائسرائے سرجان لارنس کا عہدئہ تقرر کب ختم ہوا؟
ج۔ ۱۸۶۹ء میں ۔
س۔ سر جان لارنس کی جگہ نیا وائسرائے کون تھا ؟
ج۔ لارڈ میو۔
س۔ لارڈمیو کب تک ہندوستان کے وائسرائے رہے ؟
ج۔ ۱۸۶۹ء تا ۱۸۷۲ء
س۔ لارڈ میو کے بعد ہندوستان کا وائسرائے کون بنا ؟
ج۔ لارڈ مارکویس آف رپن۔
٭٭٭٭
اقبال اکادمی اور ناشر کے شکریے اور اجازت سے
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
A presentation of http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, and http://kutub.250free.com
 
Top