جنرل گائیڈز ...وقار خان

عنوان بالا سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ کوئی جنرل کسی سویلین کو گائیڈ کر رہا ہے ،نہ ہی کسی کو گائیڈڈ جمہوریت ایسا شرمناک یعنی نامناسب خیال ذہن میں لانے کی ضرورت ہے ، ناں ! بالکل نہیں ۔ جنرل گائیڈ ز سے مراد تو ”دروغ پبلشرز“ کی وہ گائیڈز اور ٹیسٹ پیپرز ہیں جو وہ سالہاسال سے طلباء و طالبات کے جنرل نالج میں اضافے کے لیے شائع کر رہے ہیں ۔ اپنے گزشتہ کالم ”ایک چوری شدہ سوالنامہ“ کے جوابات ہم جنرل گائیڈز کو کھنگال کر ہی تو نقل کر رہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔
سوال:ضمیر کی تعریف کریں ۔ ضمیر کی خلش کیا بلا ہے ؟ مختصر نوٹ لکھیں ۔
جواب: ضمیر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ وہ ہمارے شہر ڈیرہ بجلی چوراں تحصیل وضلع بھنگ پورہ کامشہور موٹر مکینک ہے ۔ اپنے شعبے میں مہارت، لگن ، دیانتداری اور ملنساری جیسی خصوصیات کی بنا پر گاڑیوں کا یہ ڈاکٹر ہر دلعزیز ہے ۔ وہ لوگوں کے دکھ سکھ میں خلوص نیت سے شریک ہوتا ہے اور نادار اور غریب خواتین کی گاڑیاں مفت ٹھیک کر دیتا ہے ۔ استاد ضمیر کو خلش یہ ہے کہ آج کل جس لڑکی کے ساتھ اس کا چکر چل رہا ہے ، اتفاق سے وہ بھی ”ملنسارانہ چال چلن“ کی حامل ہے اور اس کے کئی اور اسکینڈلز بھی زبان زدِ عام ہیں ۔ استاد اب تک اس بے وفا کو لگ بھگ گیارہ ہزار روپے کا ایزی لوڈ کرو اکے دے چکا ہے ، مگر حرام ہے جو اس نے کبھی ضمیر کو ایک کال بھی کی ہو۔ لڑکی کا فون اکثر مصروف رہتا ہے اور استاد پریشان ہے کہ آخر وہ اس کی طرف سے بھیجے گئے بیلنس سے کس منحوس کو کالیں کرتی ہے ؟ بس یہی ایک خلش استاد ضمیر کو بے چین رکھتی ہے ، باقی اس پر اللہ کا بڑا کرم ہے ۔
سوال:ورثے میں ملنے والے مسائل کی تعریف کریں ۔ ہر حکومت کو مسائل ورثے ہی میں کیوں ملتے ہیں،وہ خود کیوں نہیں پید اکر لیتی جبکہ اس کے پاس وزیروں اورمشیروں کی فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے ؟
جواب: ہماری ہر حکومت، آنے والی حکومت کے لئے نیک نیتی سے کئی مسائل چھوڑ کر جاتی ہے ۔ مثلاً تباہ حال معیشت،مہنگائی، لاقانونیت ،دہشت گردی، بے روزگاری ، غربت اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ ۔ اس کار خیر کے پیچھے یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ نئی حکومت کے اکابرین کی مصروفیت کا کچھ سامان کیا جائے تاکہ وہ فارغ بیٹھ کر ہڈ حرامی کا شکار نہ ہو جائیں ۔ ان مسائل کو ورثے میں ملنے والے مسائل کہا جاتا ہے ۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آخر حکومتوں کو مسائل ورثے ہی میں کیوں ملتے ہیں ؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر ورثے میں نہ ملیں تو کیا نئے حکمران مسائل گھر سے ”جہیز“ میں لے کر آیا کریں؟ سوال کے آخری حصے کا جواب بھی بڑا سادہ مگر پر وقار ہے کہ دوران حکومت یہ فوج ( مراد وزیروں ،مشیروں کی فوج ہے ) ”وسائل“ پید اکرنے کے چکر میں رہتی ہے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری فوج (پھر مراد وزیروں ، مشیروں کی فوج ہے ) مسائل پیدا ہی نہیں کر سکتی ۔ در حقیقت ”وسائل “ پید اکرنے کے عمل کے رد عمل میں مسائل خود کار طریقے سے پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ نیز ورثے میں ملنے والے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں فوج ( یہاں بھی مراد وزیروں ، مشیروں کی فوج ہے ) جو ”لکی ایرانی سرکس“ لگاتی ہے ، اس سے بھی نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں ، جنہیں یہ فوج ( مراد آپ سمجھ گئے ہونگے ) آنے والی حکومت کے لئے چھوڑ کر رخصت ہو جاتی ہے ۔
سوال: کیدو کی حیات و خدمات مفصل پر نوٹ لکھیں ۔ نیز دلائل سے ثابت کریں کہ جذبہ صادق ہو تو جسمانی معذوری کسی مقصد اولیٰ کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔
جواب: کیدو ایک تحریک ، ایک نظریے ، ایک مشن کا نام ہے ، جس کا ماٹو ہے ”یہ شادی نہیں ہو سکتی “ ۔کیدو جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا نہیں ہوتے بلکہ صدیوں سے ہر روز پیدا ہو رہے ہیں ۔کیدو ہیر کا چچا تھا جو ایک ٹانگ سے معذوری کے سبب بیساکھی کے سہارے چلتا تھا ۔ بعض مورخین نے اسے ہیر کا ماموں بھی لکھا ہے ، تاہم اس اختلاف کے باوجود ہر دومکاتبِ فکر نے کیدو کی صلاحیتوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے ۔ کیدو کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے ، جو نہ صرف معذوروں کے لئے مشعل راہ ہے ،بلکہ ہاتھ پاؤں سلامت رکھنے والے ان ہڈ حراموں کے منہ پر طمانچہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے ، جن کے جذبات سر عام گھومتے جوڑوں کو دیکھ کر مجروح نہیں ہوتے ۔ دنیا میں صرف دو ایسی شخصیات ہو گزری ہیں ، جن کی ڈکشنریوں میں ”نا ممکن“ کا لفظ نہیں تھا ۔ ایک نپولین اور دوسرا کیدو۔ جھنگ کے اس فرزند نے محبت کی سرکوبی کو اپنا نصب العین بنایا اور پھر اپنی معذوری پر تین حرف بھیجتے ہوئے اپنی زندگی اس عظیم مشن کے لئے وقف کردی ۔ اس کے عزم صمیم، انتھک جدوجہد اور مقصد اولیٰ سے غیر مشروط وفاداری نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا، ورنہ یہ اکیلے آدمی کا کام نہ تھا۔ اس مشکل ترین اور گرد گرد سفر میں جتنے مصائب ، لعنتیں اور بد دعائیں کیدو نے جھیلیں ، اگر ان سے کسی پہاڑ کو بھی واسطہ پڑتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا، مگر آفرین ہے اس مرد آہن پرکہ جس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور اس نے رانجھے کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آخر کار وہ ظفر مند ہوا اور ہیر نے ڈولی چڑھتے چیخیں ماریں تو کیدو نے قہقہے ۔ عقل کو بروئے کار لائے بغیر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہیر رانجھا کا جذبہ سچا تھا ، حالانکہ تاریخ کیدو کے حق میں اپنا فیصلہ صادر کر چکی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چچا کے مقابلے میں بھتیجی کا جذبہ صادق تھا تو پھر ڈولی کھیڑے کیوں لے کر گئے ؟ یہ کیدو کے جذبے کی سچائی کا کرشمہ ہے کہ آج جب دنیا سائنس دانوں کی محیرالعقول ایجادات اور کامیابیوں سے متاثر ہو رہی ہے ، ہمارے ہاں کیدو کے افکار و نظریات سے ”متاثرہ“ معاشرے کی غالب اکثریت اس کے مشن کو آگے بڑھانے میں پوری تندہی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔ کیدو کی زندگی معذوروں کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ذہنی معذور آج بھی اس آتش بجاں تحریک کے علمبردار ہیں ۔ وہ اپنے مشن سے اتنے کمیٹڈ ہیں کہ لڑکیوں اور ان کے تعلیمی اداروں کو گولیوں اوربموں سے اڑانے والوں کے خلاف تو زبان نہیں کھولتے لیکن بنتِ حوا کو بے پردہ یا پارک میں جوڑوں کو دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں ۔ المختصر! کید وہماری تاریخ کا لازوال کردار ہے ، جو اپنی سچی لگن اور محنت سے امر ہو گیا۔ اس کا مشن جاری ہے اور جاری رہے گا
بشکریہ:روزنامہ جنگ
 
11_02.gif
 
Top