جنرل کیانی کے بعد پانچ جرنیل سینئر شمار ہوتے ہیں

عاطف بٹ

محفلین
story2.gif
 

فرحت کیانی

لائبریرین
دلچسپ صورتحال ہے۔ ویسے قرین قیاس ہے کہ جنرل ہارون اسلم کو شاید آرمی چیف کی بجائےچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ آفر کیا جا سکتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی سب سے بڑی خوبی ان کا میجر شبیر شریف کا بھائی ہونا ہے۔ وہ قابل افسر ضرور ہیں تبھی تو جرنیلی تک پہنچے ہیں لیکن ان سے جونئیر خصوصاً جنرل طارق خان کی پوزیشن بھی کافی مضبوط بتائی جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

عاطف بٹ

محفلین
دلچسپ صورتحال ہے۔ ویسے قرین قیاس ہے کہ جنرل ہارون اسلم کو شاید آرمی چیف کی بجائےچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ آفر کیا جا سکتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی سب سے بڑی خوبی ان کا میجر شبیر شریف کا بھائی ہونا ہے۔ وہ قابل افسر ضرور ہیں تبھی تو جرنیلی تک پہنچے ہیں لیکن ان سے جونئیر خصوصاً جنرل طارق خان کی پوزیشن بھی کافی مضبوط بتائی جاتی ہے۔
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے فرحت، اور یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ جنرل ہارون اسلم اور جنرل راشد محمود کی مدتِ ملازمت اتنی کم رہ گئی ہے کہ اگر انہیں فوجی سربراہ بنایا جائے تو چند ہی مہینے بعد اس عہدے کے لئے نئے جرنیل کی تلاش کا عمل شروع ہوجائے گا جو میدانِ جنگ جیسی صورتحال سے دوچار کسی بھی ملک کی مشکلات اور الجھنوں میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔ دوسری جانب یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ سال 2014ء امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کی وجہ سے پاکستان کے لئے دفاعی اور تزویری معاملات کے حوالے سے انتہائی اہم ہے اور ایسی صورتحال میں ممکنہ طور پر کسی ایسے بندے کا ہی انتخاب کیا جائے گا جو کم از کم ایک برس سے زیادہ عرصے کے لئے اس عہدے پر فائز رہ سکے۔ اندریں حالات، جنرل طارق خان فوجی سربراہ کے عہدے کے لئے موزوں ترین جرنیل دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جنرل راحیل شریف اکتوبر 2014ء میں ریٹائر ہوجائیں گے اور یہ ایک ایسا وقت ہوگا جب امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے معاملات اپنے عروج پر ہوں گے، لہٰذا ایسی صورت میں نئے فوجی سربراہ کی تلاش پاکستان کے دفاعی اور تزویری معاملات پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے فرحت، اور یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ جنرل ہارون اسلم اور جنرل راشد محمود کی مدتِ ملازمت اتنی کم رہ گئی ہے کہ اگر انہیں فوجی سربراہ بنایا جائے تو چند ہی مہینے بعد اس عہدے کے لئے نئے جرنیل کی تلاش کا عمل شروع ہوجائے گا جو میدانِ جنگ جیسی صورتحال سے دوچار کسی بھی ملک کی مشکلات اور الجھنوں میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔ دوسری جانب یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ سال 2014ء امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کی وجہ سے پاکستان کے لئے دفاعی اور تزویری معاملات کے حوالے سے انتہائی اہم ہے اور ایسی صورتحال میں ممکنہ طور پر کسی ایسے بندے کا ہی انتخاب کیا جائے گا جو کم از کم ایک برس سے زیادہ عرصے کے لئے اس عہدے پر فائز رہ سکے۔ اندریں حالات، جنرل طارق خان فوجی سربراہ کے عہدے کے لئے موزوں ترین جرنیل دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جنرل راحیل شریف اکتوبر 2014ء میں ریٹائر ہوجائیں گے اور یہ ایک ایسا وقت ہوگا جب امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے معاملات اپنے عروج پر ہوں گے، لہٰذا ایسی صورت میں نئے فوجی سربراہ کی تلاش پاکستان کے دفاعی اور تزویری معاملات پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔
بالکل۔

پھر یہ بھی کہ جنرل ہارون اسلم اور جنرل راحیل شریف دونوں اس وقت جی ایچ کیو میں جن پوزیشنز پر کام کر رہےان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کا ان پوسٹس پر آنا ریٹائرمنٹ سے پہلے chill period ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی کہ جنرل ہارون اسلم 1999ء کے کُو میں بریگیڈیئر تھے اور ملٹری آپریشنز کو ہیڈ کر رہے تھے۔ اس بات کو زیادہ ڈسکس نہیں کیا جاتا لیکن نواز شریف کے لئے اپنا تختہ الٹنے والی ٹیم کے ممبر کو ترقی دینا شاید کچھ مشکل فیصلہ ہو گا۔ مزید یہ کہ جنرل ہارون اسلم بھی جنرل پرویز مشرف کی طرح ایس ایس جی کمانڈو ہیں۔ نواز شریف ایک اور کمانڈو کو چُن کر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہیں گے۔ اس صورت میں جنرل راحیل شریف کا چانس کچھ بڑھ جاتا ہے مگر وہ بھی اس وقت جی ایچ کیو میں آئی جی ای اینڈ ٹی ہیں اور پچھلے کچھ عرصے سے جتنے جرنیل آئی جی اینڈ ٹی رہے ہیں وہ سب فور سٹار جنرل نہیں بنے۔ لیکن پھر بھی اگر ان دونوں میں کسی کو آرمی چیف بنا دیا گیا تو ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو جائے گی وہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہو گا شاید۔
ان دونوں کے مقابلے میں جنرل راشد محمود کے چیف بننے کے امکانات کچھ زیادہ اس لئے ہیں کہ وہ اس وقت سی جی ایس ہیں اور اگر ریکارڈ دیکھیں تو پچھلے چند آرمی چیفس میں اکثر وہ ہیں جو فور سٹار جنرل بننے سے پہلے سی جی ایس رہے تھے۔ پھر جنرل راشد محمود لاہور کے کور کمانڈر بھی رہے ہیں اور ن لیگ کی حکومت کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا نسبتاَ آسان رہے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل راشد محمود کا سی جی ایس بننا دراصل جنرل کیانی کی طرف سے بھی سِیل آف اپروول ہے۔
اگر جنرل راشد محمود کو بوجوہ ترقی نہیں دی جاتی تو باقی دونوں جنرل طارق خان اور جنرل ظہیر الاسلام دونوں کافی مضبوط امیدوار ہیں خصوصاً جب دونوں ہی پی ایم اے کے سورڈ آف آنر ہولڈر (اعزازی تلوار؟) ہیں۔ ان دونوں میں سے جنرل طارق خان کے امکانات اس لئے زیادہ لگتے ہیں کہ ان کا خصوصا قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار بہت اچھا رہا ہے۔ فوج میں ان کو ایک دھن کا پکا پروفیشنل اور اصلی فوجی کا نام دیا جاتا ہے۔
 
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے فرحت، اور یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنا چاہئے کہ جنرل ہارون اسلم اور جنرل راشد محمود کی مدتِ ملازمت اتنی کم رہ گئی ہے کہ اگر انہیں فوجی سربراہ بنایا جائے تو چند ہی مہینے بعد اس عہدے کے لئے نئے جرنیل کی تلاش کا عمل شروع ہوجائے گا جو میدانِ جنگ جیسی صورتحال سے دوچار کسی بھی ملک کی مشکلات اور الجھنوں میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔ دوسری جانب یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ سال 2014ء امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کی وجہ سے پاکستان کے لئے دفاعی اور تزویری معاملات کے حوالے سے انتہائی اہم ہے اور ایسی صورتحال میں ممکنہ طور پر کسی ایسے بندے کا ہی انتخاب کیا جائے گا جو کم از کم ایک برس سے زیادہ عرصے کے لئے اس عہدے پر فائز رہ سکے۔ اندریں حالات، جنرل طارق خان فوجی سربراہ کے عہدے کے لئے موزوں ترین جرنیل دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جنرل راحیل شریف اکتوبر 2014ء میں ریٹائر ہوجائیں گے اور یہ ایک ایسا وقت ہوگا جب امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے معاملات اپنے عروج پر ہوں گے، لہٰذا ایسی صورت میں نئے فوجی سربراہ کی تلاش پاکستان کے دفاعی اور تزویری معاملات پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔
دوسرے یہ کہ ایکسٹنشن کی خاطر دیکھا گیا ہے کہ یہاں بھی سر تسلیم خم کیا جانے لگا ہے۔ یا پھر کہیں اور نظریں دوڑائی جاتی ہیں ایکسٹینشن کی خاطر۔ اس لیے وہی بہتر ہے حالات اور ملک کے لیے جس کی مدت ملازمت میں اتنا ٹائم تو ہو کہ خطہ سے نیٹو اور امریکی انخلاء تک ایک ہی رہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بالکل۔

پھر یہ بھی کہ جنرل ہارون اسلم اور جنرل راحیل شریف دونوں اس وقت جی ایچ کیو میں جن پوزیشنز پر کام کر رہےان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کا ان پوسٹس پر آنا ریٹائرمنٹ سے پہلے chill period ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی کہ جنرل ہارون اسلم 1999ء کے کُو میں بریگیڈیئر تھے اور ملٹری آپریشنز کو ہیڈ کر رہے تھے۔ اس بات کو زیادہ ڈسکس نہیں کیا جاتا لیکن نواز شریف کے لئے اپنا تختہ الٹنے والی ٹیم کے ممبر کو ترقی دینا شاید کچھ مشکل فیصلہ ہو گا۔ مزید یہ کہ جنرل ہارون اسلم بھی جنرل پرویز مشرف کی طرح ایس ایس جی کمانڈو ہیں۔ نواز شریف ایک اور کمانڈو کو چُن کر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہیں گے۔ اس صورت میں جنرل راحیل شریف کا چانس کچھ بڑھ جاتا ہے مگر وہ بھی اس وقت جی ایچ کیو میں آئی جی ای اینڈ ٹی ہیں اور پچھلے کچھ عرصے سے جتنے جرنیل آئی جی اینڈ ٹی رہے ہیں وہ سب فور سٹار جنرل نہیں بنے۔ لیکن پھر بھی اگر ان دونوں میں کسی کو آرمی چیف بنا دیا گیا تو ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو جائے گی وہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہو گا شاید۔
ان دونوں کے مقابلے میں جنرل راشد محمود کے چیف بننے کے امکانات کچھ زیادہ اس لئے ہیں کہ وہ اس وقت سی جی ایس ہیں اور اگر ریکارڈ دیکھیں تو پچھلے چند آرمی چیفس میں اکثر وہ ہیں جو فور سٹار جنرل بننے سے پہلے سی جی ایس رہے تھے۔ پھر جنرل راشد محمود لاہور کے کور کمانڈر بھی رہے ہیں اور ن لیگ کی حکومت کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا نسبتاَ آسان رہے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل راشد محمود کا سی جی ایس بننا دراصل جنرل کیانی کی طرف سے بھی سِیل آف اپروول ہے۔
اگر جنرل راشد محمود کو بوجوہ ترقی نہیں دی جاتی تو باقی دونوں جنرل طارق خان اور جنرل ظہیر الاسلام دونوں کافی مضبوط امیدوار ہیں خصوصاً جب دونوں ہی پی ایم اے کے سورڈ آف آنر ہولڈر (اعزازی تلوار؟) ہیں۔ ان دونوں میں سے جنرل طارق خان کے امکانات اس لئے زیادہ لگتے ہیں کہ ان کا خصوصا قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار بہت اچھا رہا ہے۔ فوج میں ان کو ایک دھن کا پکا پروفیشنل اور اصلی فوجی کا نام دیا جاتا ہے۔
بہت خوب، شاندار، زبردست!!! :thumbsup:
اب میں اپنے تجزیے کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ اعتراف کرلوں کہ میں ریکارڈ دیکھنا بھول گیا تھا، سو غلطی ہوگئی۔ یکم اکتوبر 2014ء کو ممکنہ طور پر جنرل راحیل شریف ہی ریٹائر نہیں ہوں گے بلکہ جنرل طارق خان اور جنرل ظہیرالاسلام اور ان کے بعد بالترتیب جنرل سلیم نواز، جنرل خالد ربانی اور جنرل سجاد غنی کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ بھی یہی ہے۔ جنرل ہارون اسلم کے 1999ء کی فوجی بغاوت کا حصہ بننے کے حوالے سے لیگی حکومت کے ہاں یقیناً تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کا ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن کا سربراہ یا آئی جی ٹی اینڈ ای ہونا بھی ایک اہم نقطہ ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ چیف آف جنرل اسٹاف یا سی جی ایس ہونے کی بنیاد پر فوجی سربراہ کے لئے اہل ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اس حوالے سے حالیہ ترین مثالوں میں جنرل خالد شمیم وائیں اور جنرل وحید ارشد ہمارے سامنے ہیں کہ دونوں ہی سی جی ایس تو رہے مگر فوجی سربراہ نہ بن سکے، البتہ جنرل وائیں کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا سربراہ ہونے کی وجہ سے چوتھا تارا ضرور مل گیا۔ آخری بار کسی سی جی ایس کے فوجی سربراہ بننے کا واقعہ جنوری 1996ء میں پیش آیا تھا جب جنرل جہانگیر کرامت کو فوج کی سربراہی سونپی گئی تھی۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ 1950ء سے اب تک سی جی ایس کے طور پر خدمات انجام دینے والے تیس افسران میں سے صرف پانچ ہی ایسے تھے جنہیں فوج کی قیادت تفویض کی گئی۔ پاکستان کے دفاعی و تزویری معاملات کو دیکھتے ہوئے میں جنرل طارق خان کو فوجی سربراہ کے لئے ایک انتہائی موزوں افسر سمجھتا ہوں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ فوجی سربراہ بننے کے لئے اعزازی شمشیر کا حامل ہونا قطعاً نہیں اور اگر جنرل طارق خان کو فوج کی قیادت سونپی جاتی ہے تو وہ اعزازی شمشیر کے حامل پاک فوج کے پہلے سربراہ ہوں گے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت خوب، شاندار، زبردست!!! :thumbsup:
اب میں اپنے تجزیے کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ اعتراف کرلوں کہ میں ریکارڈ دیکھنا بھول گیا تھا، سو غلطی ہوگئی۔ یکم اکتوبر 2014ء کو ممکنہ طور پر جنرل راحیل شریف ہی ریٹائر نہیں ہوں گے بلکہ جنرل طارق خان اور جنرل ظہیرالاسلام اور ان کے بعد بالترتیب جنرل سلیم نواز، جنرل خالد ربانی اور جنرل سجاد غنی کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ بھی یہی ہے۔ جنرل ہارون اسلم کے 1999ء کی فوجی بغاوت کا حصہ بننے کے حوالے سے لیگی حکومت کے ہاں یقیناً تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کا ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن کا سربراہ یا آئی جی ٹی اینڈ ای ہونا بھی ایک اہم نقطہ ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ چیف آف جنرل اسٹاف یا سی جی ایس ہونے کی بنیاد پر فوجی سربراہ کے لئے اہل ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اس حوالے سے حالیہ ترین مثالوں میں جنرل خالد شمیم وائیں اور جنرل وحید ارشد ہمارے سامنے ہیں کہ دونوں ہی سی جی ایس تو رہے مگر فوجی سربراہ نہ بن سکے، البتہ جنرل وائیں کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا سربراہ ہونے کی وجہ سے چوتھا تارا ضرور مل گیا۔ آخری بار کسی سی جی ایس کے فوجی سربراہ بننے کا واقعہ جنوری 1996ء میں پیش آیا تھا جب جنرل جہانگیر کرامت کو فوج کی سربراہی سونپی گئی تھی۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ 1950ء سے اب تک سی جی ایس کے طور پر خدمات انجام دینے والے تیس افسران میں سے صرف پانچ ہی ایسے تھے جنہیں فوج کی قیادت تفویض کی گئی۔ پاکستان کے دفاعی و تزویری معاملات کو دیکھتے ہوئے میں جنرل طارق خان کو فوجی سربراہ کے لئے ایک انتہائی موزوں افسر سمجھتا ہوں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ فوجی سربراہ بننے کے لئے اعزازی شمشیر کا حامل ہونا قطعاً نہیں اور اگر جنرل طارق خان کو فوج کی قیادت سونپی جاتی ہے تو وہ اعزازی شمشیر کے حامل پاک فوج کے پہلے سربراہ ہوں گے۔
متفق۔ :)
ویسے کسی زمانے میں سی جی ایس بننا آرمی چیف بننے کی سیڑھی پر پہلا قدم سمجھا جاتا تھا۔ سی جی ایس کا 1996ء کے بعد چیف نہ بننے کی شرح کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے نا کہ 1998ء سے 2007ء تک ایک ہی آرمی چیف رہا ہے۔
جنرل طارق خان کے چیف بننے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ ریٹائرمنٹ ڈیٹ کا مسئلہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ تو بہرحال چیف بننے کے بعد ان کو ایکسٹینشن دے دی جائے گی۔ جنرل راشد محمود کی نسبت جنرل طارق زیادہ پروایکٹو اور بہترین ریکارڈ کے حامل ہیں۔ کچھ لوگ ان کے پرو امریکن بھی کہتے ہیں لیکن عمومی طور پر ان کی قابلیت اور دور اندیشی میں کوئی کلام نہیں۔ اور خصوصاً افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے انخلا کی صورت میں ان سے زیادہ موزوں افسر کوئی نہیں ہو سکتا۔
سی جے سی ایس سی تو ہوتی ہی سیریمونیئل پوزیشن ہے جس جنرل کو چار ستارے دینا ہوں ان کو یہ سیٹ دے دی جاتی ہے۔ اور یہ سیٹ شاید جنرل اسلم یا جنرل راشد محمود کو دی جائے گی۔

کچھ دن پہلے تک تو متوقع چیف کے امیدواروں میں دس (ٹین) کور کے کور کمانڈر جنرل خالد نواز کا نام بھی لیا جا رہا تھا لیکن اس بات کی اہمیت اس لئے بھی کم ہو جاتی ہے کہ جنرل نواز موجودہ چیف سے پہلے ہی ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔

جنرل ظہیر الاسلام کے امکانات جنرل طارق سے اس لئے بھی کم ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک تو انہوں نے بھی جنرل کیانی کی طرح آئی ایس آئی کو ہیڈ کیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ دوسری دفعہ بھی آئی ایس آئی سے چیف لینے سے گریز کیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ پھر شاید انہیں آئی ایس آئی کو چھوڑنا بھی پڑے گا جو ہو سکتا ہے اس وقت افورڈ نہ کیا جا سکے۔
جو بھی ہو یہ سب کچھ ہے بہت دلچسپ خاص طور پر اگر ابھی بھی چودھری نثار حسین ہی وزیرِ اعظم کے اس سلسلے میں اہم مشیر ہیں اور پچھلی دو دفعہ بھی چیفس کی سلیکشن میں ان کا مشورہ شامل تھا لیکن ان دونوں چیفس نے بعد نواز شریف کے لئے مشکلات پیدا کیں ۔بہرحال اب دیکھتے ہیں جنرل کیانی اور وزیرِ اعظم کس طرح ایک نام کو فائنل کرتے ہیں۔ دعا یہی ہے جو بھی ہو پاکستان کی بہتری کے ہو اور جس طرح جنرل کیانی کے دور میں فوج نے خود کو ظاہری سیاست سے دور رکھا ہے اور جمہوریت کو جیسے تیسے چلنے دیا ہے ، آئندہ آنے والے چیف بھی ایسا ہی کریں تا کہ پاکستانی قوم بھی جمہوریت اور انتخابات کی عادی ہو سکے۔
 
Top