تاسف جنرل حمید گل انتقال کر گئے-انا للہ و انا الیہ راجعون

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
تاریخ کاایک اور باب تمام ہوا
عجیب مردِ قلندر تھا، جرات ، بہادی ، حق گوئی اوربات وعمل کاپکاہونا کوئی ان سے سیکھے!
قدرت کے فیصلے ہیں پہلے افغانستان سے ملاعمرؒ کے انتقال کی خبرآئی اوراب یہ سانحہ ہوا۔
اللہ مغفرت فرمائے اورپسماندگان کوصبرجمیل کی توفیق نصیب کرے، ہمیں ان کی مشن کومزیدآگے بڑھانے کی توفیق دے ۔آمین
 

محمد فہد

محفلین
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی اعلی مقام عطا فرمائے ۔ ۔ ۔آمین ۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آمین
جنرل حمید گل مرحوم سے کئی بار ملاقات ہوئی پاکستان سے ان کی محبت سچی اور بےپایاں تھی۔چکلالہ میں ان کے گھر جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ بالکل سادہ طرزِ زندگی نظر آئی۔ انتہائی سادہ طبع ، نفیس اور کھرے انسان تھے۔ پاکستان اور پاکستان سے محبت کرنے والوں پر بھونکنے والے کتوں کی پرواہ کسے ہے۔
 
حمید گل جنٹلمین سولجر - نصرت جاوید
موت برحق-انسانوں کی اوسطاََ مانے جانے والی عمر کے آخری حصے میں معمول کے مطابق آجائے تو اتنا حیران بھی نہیں کرتی۔ ہفتے کی رات جنرل حمید گل کی وفات نے مگر مجھے پریشان کردیا۔
دس روز پہلے انور بیگ نے امریکی سفیر کے لئے ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ وہاں ایک صوفے پر وہ اپنی مخصوص آن کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے سلام کرنے ان کے پاس یقینا جانا تھا مگر سفیروں کے ایک گروپ کے ساتھ گپ شپ طویل ہوگئی تو میری توجہ کے حصول کے لئے انہوں نے مجھے نام لے کر پکارا۔ میں ان کے پاس گیا تو چہرہ ان کا دمک رہا تھا۔ بے اختیار کہہ بیٹھا: ”جنرل صاحب آپ تو جوان ہورہے ہیں۔ فٹ رہنے کے لئے جو نسخہ استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک دوپُڑیا مجھے بھی عنائت فرمادیں۔“
میرے پھکڑ پن کو بھی انہوں نے سنجیدگی سے لیا اور بڑی متانت سے سمجھایا کہ بندہ اپنے معمولات اور سوچ پر قائم رہے تو ہمیشہ فٹ اور مطمئن رہتا ہے۔
مجھے فٹ نظر آکر مسخرہ پن کو اُکسانے والے حمید گل کی موت نے حیران کردیا۔ اس سے کہیں زیادہ وحشت اور پریشانی مگر سوشل میڈیا پر شروع ہوجانے والی اس بحث کی وجہ سے ہوئی جو ان کی ذات کے بارے میں شروع ہوگئی ہے۔ مجھے اب تک یہ وہم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے صوفیاءاور ولیوں کی تعلیمات، شاعری اور مزارات کی برکت سے ہمارے لوگوں کے دل گداز سے بھرے ہوئے ہیں۔ حمید گل کی موت کی خبر کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں چاہنے یا نفرت کرنے والوں کے درمیان جو فقرے بازی ہوئی، اس نے یہ طے کرنے پر مجبور کردیا کہ ہم جنگل کے درندوں کی طرح تقسیم ہوچکے ہیں۔ محبتوں سے کہیں زیادہ نفرتوں کی شدت نے ہمارے دلوں کو پتھر بنادیا ہے۔
حمید گل جب ISIکے سربراہ تھے تو میں اسلام آباد میں The Nationکابیورو چیف تھا۔ محمد خان جونیجومرحوم افغان مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ پھر اوجڑی کیمپ میں ایک خوفناک دھماکہ بھی ہوگیا۔ جونیجو حکومت سکیورٹی کی ایسی خوفناک Breachکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بعد انہیں سزائیں دینا چاہ رہی تھی۔ جنرل ضیاءاور حمید گل کی ISIمگر قطعی مختلف سوچ اپنائے ہوئے تھی۔ دونوں اطراف کے مابین تخت یا تختہ والی چپقلش شروع ہوگئی۔ میں بے وقوفی کی حد تک اپنے تئیں جی دار بنا جونیجو مرحوم کے دھڑے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
آج وہ دن یاد کروں تو اپنی دیوانگی پر ہنسی آتی ہے۔ کیونکہ یہ وہ دن تھے جب حمید گل تو پبلک میں نظر نہیں آتے تھے۔ مگر قومی اسمبلی کی راہداریوں میں ان کے ادارے کے میجر عامر اکثر نظر آتے تھے۔ صحافیوں کو عموماََ فدوی بننے کا شوق ہوتا ہے۔ مگر اپنے حلقوں میں پھنے خان بنے کئی سورما نظر آنے والے رانا، چوہدری اور سردار وغیرہ بھی میجر عامر کی تابعداری کو اپنے لئے بڑی سعادت کا باعث سمجھے تھے۔
محمد خان جونیجو کی حکومت جنرل ضیاءنے مئی 1988ءمیں برطرف کردی۔ نئے انتخابات کروانے کو وہ تیار نظر نہ آتے تھے۔ 17اگست 1988ءکو ایک فضائی حادثے کی نذر ہوگئے تو نئے انتخابات ہونا یقینی نظر آنے لگے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کی ان انتخابات میں واضح جیت دیوار پر نظر آرہی تھی۔
اس جیت کو اگر ناممکن نہیں تو مشکل تر بنانے کے لئے جنرل حمید گل اور ان کے ادارے نے تمام بھٹو مخالف ووٹوں کو IJI کی چھتری تلے ا کٹھا کرنے کا منصوبہ بناکر اس پر تن دہی سے عمل شروع کردیا۔ میں اس منصوبے سے جڑی تمام جزئیات کو تفصیل سے رپورٹ کرتا رہا۔ The Nationکے مرکزی دفتر میں میرے خلاف آنے والی شکایتوں کا انبار لگ گیا۔ کسی نے مجھے اطلاع تک نہ دی۔ نہ ہی میری کسی خبر کو روکا گیا یا Underplay۔
بالآخر مرکز میںمحترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت بن گئی۔ انہیں بھی افغان مسئلہ کو اپنی سوچ کے مطابق ”حل“ کرنا تھا۔ جنرل نصیر اللہ بابر ان کے اس حوالے سے فیصلہ کن مشیر تھے اور تیاری شروع ہوگئی کہ جلال آباد کو مجاہدین کے ذریعے ”آزاد“ کروا کہ وہاں مجاہدین کی حکومت قائم کردی جائے۔ اس مقصدکے حصول کے لئے ”آپریشن جلال آباد“ ہوا تو بُری طرح ناکام ہوگیا۔ اس ناکامی کی تمام تروجوہات جنرل حمید گل کے ذمے تھونپ دی گئی۔
بجائے سزا کے مگر حمید گل کو ISIسے ہٹا کر پاکستان کی اہم ترین کور-ملتان- کی قیادت سونپ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کی حتمی منظوری پر وزیر اعظم کے دستخط جنرل نصیر اللہ بابر نے اس وقت لئے جب محترمہ ترکی کے ایک دورے کے لئے اپنے مخصوص جہاز میں بیٹھ چکی تھیں۔ بابر صاحب اپنی بغل میں ایک فائل تھامے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسلام آباد ایئرپورٹ کے وی آئی پی روم میں آئے تو میں نے تاڑ لیا کہ کوئی بڑی خبر تیار ہے۔ بابر صاحب کی جان کے درپے ہوگیا۔ انہوں نے زچ ہوکر مجھے فائل دکھادی۔ میرا Exclusiveبن گیا۔
بات مگر اس Exclusiveپر ختم نہ ہوئی۔ میں نے ساتھی رپورٹر مریانہ بابر کے ساتھ مل کر ”آپریشن جلال آباد“ کا بے رحمانہ پوسٹ مارٹم The Nationمیں قسط وار لکھنا شروع کردیا۔ حمید گل ہماری کہانی میں ایک جذباتی مگر عملی طورپر ایک ناکام جنرل نظر آئے۔ ان کی مجبوری مگر یہ تھی کہ فوج کی نوکری کرتے ہوئے وہ اپنے دفاع میں صحافیوں کو کچھ بتا نہ سکتے تھے۔ میری کہانی جاری تھی کہ مجید نظامی صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے اطلاع دی تو بس اتنی کہ جنرل صاحب مجھے ملنا چاہتے ہیں۔ ”مناسب سمجھیں تو انہیں مل لیں۔ ان کی بات سن لیں اور اگر اس میں وزن نظر آئے تو لکھ بھی ڈالیں۔ باقی آپ کی مرضی۔“ یہ کہہ کر نظامی صاحب نے فون بند کردیا۔
جنرل حمید گل نے اپنے دفاع میں انکشاف کیا کہ ”آپریشن جلال آباد“ درحقیقت ان کا منصوبہ تھا ہی نہیں۔ ان دنوں پاکستان میں مقیم امریکی سفیر رابرٹ اوکلے Robert Oakley، جنہیں میں اپنے کالموں میں پاکستان کا وائسرائے بھی لکھا کرتا تھا، اس منصوبے کے اصل خالق تھے۔ موصوف پاکستان کے سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل ”افغان سیل“ کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہوا کرتے تھے۔ ان ہی کا ا صرار تھا کہ جلال آباد کو ”آزاد افغان حکومت“ کا مرکز بنایا جائے۔
اپنے دعوے کی تائید میں محض یادداشت کی بدولت جنرل صاحب نے کچھ دن اور تاریخوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔ میں نے کاﺅنٹر چیک کے بعد ان کے دعوے میں کافی وزن دریافت کیا۔ انہیں Quoteکئے بغیر میں نے ’جنرل صاحب کے قریبی ذرائع کہتے ہیں“ کے بہانے سے ان کا ورژن بھی The Nationمیں لکھ ڈالا۔ وہ شکر گزار ہوئے۔
ان کی اس شکر گزاری کے باوجود میں نے ہی بعدازاں کھل کر لکھا کہ جنرل اسلم بیگ کے بعد آنے والے آصف نواز جنجوعہ مرحوم حمید گل صاحب کی نواز شریف سے قربت کی افواہوں پر سخت ناراض ہیں۔ بالآخر جنرل جنجوعہ نے حمید گل صاحب کو ملتان کور سے ہٹا کر ٹیکسلا بھیجنے کا حکم صادر کیا۔ حمید گل صاحب نے تعمیل میں دیر لگائی تو جنرل جنجوعہ نے اپنے ترکی کے دورے کے دوران ہی وہاں سے ان کی فوج سے برطرفی کے احکامات جاری کردئیے۔ یہ تفصیلی خبر بھی میں نے ہی دی تھی۔فوج سے اپنی جبری ریٹائرمنٹ کے بعد حمید گل صاحب نے جو بھی کہا میں نے اس پر مسلسل تنقید ہی لکھی۔ اس کے باوجود سماجی تقریبات میں جب بھی ملے صاف دل اور مسکراتے چہرے کے ساتھ گرم جوش معانقے کے ساتھ ملے۔ بحثیں ان کی میرے ساتھ بہت تلخ اور گرم ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے مگرمجھے کبھی غدار، ایمان کا کچّا یا ڈالر خور نہ کہا۔ میری عدم موجودگی میں بھی میری لکھی اور کہی باتوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے میری نیت پر ایک لمحے کو بھی شک وشبہ کا اظہار نہ کیا۔
کئی دفعہ جب اپنی بے ہودہ باتوں یا صحافیانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے مشکلوں اور آفتوں کا شکار ہوا تو مسلسل مجھے اور میری بیوی کو فون کے ذریعے تسلیاں دیتے پائے گئے۔ اپنی ذات کے بارے میں ایک سخت گیر موقف رکھنے والے ”جہادی“ کے برعکس میرے لئے وہ ایک Gentleman Soldierہی رہے جو کچھ معاملات پر شدید اور میری نظر میں اکثر مضحکہ خیز موقف اپنائے ہوئے تھے اور اس موقف کا جارحانہ دفاع کرنے کا ہنر بھی انہیں خوب آتا تھا۔ٹھنڈے دل سے سوچیں تو ہمیں جس پاکستان کی خواہش ہے وہاں ”سوپھول اپنی مہکار دکھاسکیں“ تب ہی جمہوری رویے اور Pluralism کے جلوے نظر آئیں گے۔ سوشل میڈیا پر حمید گل کی خبر کے بعد ہونے والی فقرے بازی نے مگر مجھے اداس کردیا ہے۔ ہم فکری اختلاف کو برداشت کرنے کی سکت کھوبیٹھے ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔
 
ایک نجیب آدمی - خورشید ندیم

جنرل حمیدگل کا انتقال ہوگیا۔۔ایک نجیب آ دمی دنیا سے رخصت ہوا۔
اُن کے عہد ساز ہونے میںتو خیر کوئی کلام نہیں۔پاکستان، افغانستان اور اس خطے کی سیاست و معاشرت پر ان کے غیر معمولی اثرات ہیں۔اِن اثرات کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر بات ہوتی رہے گی کہ یہ دو نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ہے لیکن ان کی تاریخ ساز حیثیت مسلمہ ہے۔1979ء کے بعد،جنرل ضیاالحق کے علاوہ،ہماری صفوں سے شاید ہی کوئی اٹھا ہو جس نے اُن کی طرح دنیا کو متاثر کیا ہو۔بلا شبہ ہماری تاریخ کے وہ ایک ناقابلِ فراموش کردار ہیں۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
میں مگرایک عہد ساز سے زیادہ ایک نجیب آدمی کا ذکر کر رہا ہوں۔تاریخ سازلوگ کم ہوتے ہیں مگراُن میں نجیب بہت ہی کم۔ ہمارا معاشرہ جن خوبیوں سے تیزی کے ساتھ خالی ہو رہا ہے،اُن میں ایک نجابت بھی ہے۔اہلِ علم کا اٹھنا علم کے رخصت ہونے کا اعلان ہے کہ ہمارے ہاں ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا ۔کچھ ایسا ہی معاملہ شرافت کا بھی ہوگیاہے۔نجیب آدمی اٹھ جائے تو جان لیجیے کہ نجابت کم ہو گئی۔ اس طالب علم پر ایک دور ایسا گزراہے جب وہ یہ خیال کر تا تھا کہ ہماری تاریخ کی آئیڈیل شخصیات ان کی ذات میں مجسم ہو گئی ہیں۔صلاح الدین ایوبی ایسے ہی ہوں گے!طارق بن زیاد آج ہوتے تو ان ہی کی طرح ہوتے!میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے شعور کی آنکھ کھولی توجہادِ افغانستان اپنے جوبن پر تھا۔جنرل ضیا الحق نے جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جنرل حمید گل جیسے رفقا کے ساتھ مل کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔میرے لیے یہ خوابوں کا دور تھا۔ماضی کا اسیر ایک مسلم نو جوان ،جوامتِ مسلمہ کی نشاۃ الثانیہ کے خواب دیکھتا تھا اور یہ خیال کر تا تھا کہ اس منزل کی طرف جانے والا واحد راستہ جہاد ،بمعنی قتال، ہی ہے۔کتنے نوجوان ہیں جو آج بھی اسی خواب میں جیتے ہیں حالانکہ انہوں نے ، بچشمِ سر، اس کو بکھرتے دیکھ لیا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب جنرل ضیاالحق، حمید گل،قاضی حسین احمداور میجر عامر کے ساتھ ایک رومانوی تعلق قائم ہوا۔تب میں نے پہلی بار جنرل حمید گل کو دیکھا۔راولپنڈی پریس کلب میں وہ آئے اور اہلِ صحافت سے کلام کیا۔میرا اس وقت صحافت سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا لیکن میں ان کی محبت میں وہاں جا پہنچا اور صحافیانہ انداز میں ان کی گفتگو کے نکات لکھتا رہا۔جیسے اُن کے منہ سے گلاب جھڑ رہے ہوں اور میں ان کی پتیاں سمیٹنے کے لیے بے تاب ہوں۔میں کئی سال اس رومان میں رہا۔غالباً 1996ء کے دن تھے جب وہ اخباری کالموں کا کچھ اس طرح موضوع بنے کہ میں ان کے دفاع کے لیے بے چین ہو گیا۔میں اُن دنوں راولپنڈی کے ایک اخبار میں کالم لکھتا تھا۔اپنے ایک ہیرو کی ذات پر سوقیانہ تبصرہ مجھے گورا نہ ہوا اور میں نے ان کی محبت میں قلم اٹھا یا۔یہ کالم ان سے شخصی تعلق کی اساس بن گیا۔
آ دمی مگر ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہے۔عمر، مطالعے، مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہوا تو مذہب، تاریخ، سیاست اور سماج کے باب میں لگے بندھے خیالات ٹوٹنے لگے۔معلوم ہوا کہ ہم اپنی خواہشوں اور تعصبات کی اسیری میںجیتے ہیں اور اکثر اس کا ادراک ہی نہیں کرپاتے۔مذہب کی تعلیم ہو یا تاریخ کا عمل، ہم انہیں ویسے نہیں دیکھتے جیسے وہ ہیں۔ہم انہیں اپنے تعصب اور وابستگی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔یہ احساس پیدا ہواتو ایک نئی دنیا میرے سامنے تھے۔اس میں پرانے خیالات کے لیے بہت کم جگہ تھی۔جنرل حمیدگل بھی اسی دور کی یادگار تھے جس کو میں نے شعوری طور پر خیر باد کہہ دیاتھا۔یہاں سے ایک نئے فکری دور کا آ غاز ہوتا ہے۔اب جنرل حمیدگل اور جنرل ضیاء الحق کے تاریخی کردار کو میں ایک اورنظر سے دیکھ رہا تھا۔یہاں سے ان کے ساتھ تعلق کا بھی ایک نیا دورشروع ہو تا ہے۔
ایک نجیب آ دمی کی پہچان اُسی وقت ہوتی ہے جب آپ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ اس آزمائش میں پورا اترنے کے لیے بہت ریاضت کی ضرورت ہو تی ہے۔بہت کم لوگ اس کے متحمل ہوتے ہیں۔ اس نئے دور میں بھی ،جنرل حمید گل میرے کالموں اور گفتگوئوں کا مو ضوع تھے مگر باندازِ دیگر۔ظاہر ہے کہ یہ بات ان کے لیے پسندیدہ نہیں تھی۔میری تربیت کا تقاضا تھا کہ میں ان سے اختلاف تو کروں لیکن ان کا احترام پیش ِنظر رکھتے ہوئے۔تنقیدبہر حال تنقید ہوتی ہے اور طبیعت پہ گراں گزرتی ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ میری اس جسارت کے باوجود ان کی شفقت اور شائستگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔وہ فون پر یا ملاقات کے وقت اپنی بات کہتے۔ اپنا موقف واضح کرتے لیکن تلخی کا شائبہ تک نہ ہوتا۔میری والدہ کا انتقال ہوا تو تعزیت کے لیے میرے گھر تشریف لائے۔فون پر ہمیشہ اہلِ خانہ کے بارے میں پوچھتے۔اپنے گھر والوں کی بات کرتے۔اہلیہ کی صحت کے بارے میں تشویش میں رہتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے،ان کے ساتھ ربط ضبط میں کمی آئی لیکن ایک تعلقِ خاطر موجود رہا۔اس کا اندازہ اُس وقت زیادہ ہوا جب ان کے انتقال کی خبر ملی۔رات ایک برقی پیغام ملاتو دل لہو سے بھر گیا۔
انسان صرف نقطہ نظر کا نام نہیں ہو تا۔اصلاً وہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ رائے قائم کرنے وقت اس سے کبھی غلطی نہیں ہوئی۔انسان کی آ زمائش مگریہ ہے کہ وہ کوئی موقف دیانتداری سے اختیار کرتا ہے یا کسی تعصب اور مفاد کے تحت۔رائے کی غلطی کے اثرات ہوتے ہیں اور ہم ان پر گفتگو بھی کرتے ہیں۔تاہم یہ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہو تا کہ زیرِ بحث رائے کسی مفاد کے باعث اختیارکی گئی ہے الاّ یہ کہ ہمارے پاس شواہد ہوں۔ میں خود کوآج مذہب،تاریخ اور سیاست کے باب میں جنرل حمید گل مرحوم کے خیالات سے متفق نہیں پا تا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے خیالات کسی مفاد کے تابع نہیں تھے۔ ان سے مل کر اندازہ ہوتا تھا کہ افغانستان کی جنگ کو وہ فی الواقع جہاد سمجھتے تھے ۔یہ ان کے لیے ملازمت کا معاملہ نہیں، ایک مشن تھا۔ان کا بیٹاان کے ساتھ اس جہاد میں لڑتا رہا۔وہ جب اس معرکے کا ذکر کرتے تو وفورِ جذبات سے ان کی آواز بلندہو جاتی۔ اندازہ ہو تا تھاکہ ان کی زبان نہیںِ دل بول رہا ہے۔میجر عامر کی گفتگو میں بھی ،میںان ہی کی صدائے بازگشت سنتا ہوں۔
میرا احساس یہ ہے کہ اس جنگ میں اکثر لوگ، ان کا تعلق فوج سے تھا یا کسی مذہبی جماعت سے،اسی جذبے کے تحت شریک رہے۔آج بھی میجر عامر سے جنگ کے واقعات سنیے تواندازہ ہو تا ہے کہ یہ معرکہ صرف امریکی امداد کے مرہونِ منت نہیں تھا۔یہ انسانی جذبے کی ایک ناقابلِ فراموش داستان بھی ہے۔جنرل حمید گل اسی داستان کے ایک ہیرو ہیں۔یہ داستان کامیابیوں اور المیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ہیرو دونوں صورتوں میں ہیرو ہی رہتا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ و ہ انہیں اپنی مغفرت سے نوازے اوران کا معاملہ اس گروہ کے ساتھ ہو جس پر اُس نے انعام کیا ہے۔
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2015-08-17/12316/88934744#tab2
 
جنرل حمید گل کی کچھ حسین یادیں... قلم کمان …حامد میر

289094_s.jpg

SMS: #HMC (space) message & send to 8001
hamid.mir@janggroup.com.pk
ہم سب نے یہ دنیا چھوڑنی ہے ۔ ہم سب نے ایک دن ماضی کی یاد بن جانا ہے ۔ ہم زندگی بھر دوسروں کی یادیں ساتھ لیکر چلتے ہیں اور پھر اپنی یادیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ حمید گل بھی اپنی یادیں چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ اس خاکسار کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل سے قربت کا کبھی دعویٰ نہیں رہا۔ تقریباً 20سال پہلے لاہور میں پہلی دفعہ ان کا انٹرویو کیا تو انہوں نے میرے تیکھے سوالوں پر سیخ پا ہونے کی بجائے مسکرامسکرا کر جواب دیئے ۔ اس انٹرویو کے کچھ ہی دن کے بعد مجھے لاہور میں ایک محفل میں شرکت کا موقع ملا جس میں حمید گل ہم سے کہہ رہے تھے کہ قوم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے مایوس ہو چکی ہے اب ہمیں عمران خان کو سیاست میں لانا چاہئے ۔ یہ وہ دن تھے جب عمران خان کی تمام تر توجہ شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر پر مرکوز تھی اور وہ حمید گل کے مشورے کو نظرانداز کر رہے تھے ۔ جب کینسر اسپتال مکمل ہو گیا تو عمران خان نے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے پر غور شروع کر دیا ۔ ایک دن عمران خان نے مجھے پوچھا کہ کیا انہیں سیاست میں آنا چاہئے ؟میں نے جواب دینے کی بجائے پوچھا کہ آپ سیاست میں خود آنا چاہتے ہیں یا حمیدگل صاحب آپ کو سیاست میں لانا چاہتے ہیں ؟ عمران خان نے قہقہہ لگایا اور پھر سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ وہ حمیدگل کی بڑی عزت کرتے ہیں اور ان کے مشورے کو اہمیت بھی دیتے ہیں لیکن وہ سیاست اپنی مرضی کی کرینگے۔ 1996ء میں تحریک انصاف قائم ہوئی تو حمید گل اس میں شامل نہیں ہوئے لیکن اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیربھٹو صاحبہ کو یقین تھا کہ عمران خان کا اصل ’’گاڈفادر‘‘ حمید گل ہے حالانکہ یہ حقیقت نہ تھی۔ حمید گل صاحب کے بارے میں بہت سے لوگوں کو بہت سی غلط فہمیاں رہتی تھیں اور حمید گل صاحب بھی کئی مرتبہ کئی لوگوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے لیکن ان میں یہ خوبی تھی کہ سیاسی و نظریاتی اختلاف کو نفرت بنا کر دل میں نہیں پالتے تھے۔ ایک صحافی کے طور پر ان کے اور میرے تعلقات میں کئی اتار چڑھائو آئے ۔ کبھی وہ غصے میں آ جاتے کبھی میں کوئی سخت بات لکھ دیتا لیکن وہ ان تلخیوں کو ایک مصافحے اور ایک مسکراہٹ میں اڑا دیتے ۔ ان کی وفات کے بعد انکی ایسی ہی مسکراہٹیں میرے لئے حسین یادیں بن چکی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب افغانستان میں طالبان ابھرے تو حمید گل صاحب نے ان کی کھل کر حمایت نہیں کی کیونکہ وہ ذاتی طور پر گلبدین حکمت یار کے زیادہ قریب تھے ۔ ایک دفعہ اسلام آباد میں ایک تقریب میں حمید گل صاحب نے طالبان کے بارے میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ ان دنوں امریکی حکومت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی طالبان کی حمایت کرتی تھی ۔ اسی تقریب میں مفتی نظام الدین شامزئی نے حمید گل کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ۔ بعدازاں مولانا سمیع الحق نے حمید گل اور طالبان کے درمیان ذہنی فاصلے کم کرائے ۔یہ کہنا درست نہیں کہ حمید گل نے طالبان بنائے یا وہ طالبان کے روحانی باپ تھے ۔ جب طالبان تحریک شروع ہوئی تو حمید گل کو آئی ایس آئی سے ریٹائر ہوئے پانچ چھ سال گزر چکے تھے اور وہ طالبان کے مخالف حکمت یار اور ربانی کے زیادہ قریب تھے ۔ جب انکی غلط فہمیاں دور ہو گئیں تو پھر انہوں نے بڑھ چڑھ کر طالبان کی حمایت کی۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان کی افغانستان کے بارے میں پالیسی بدلی تو مولانا سمیع الحق نے دفاع افغانستان کونسل بنا ڈالی اور حمید گل طالبان کے دفاع میں سب سے آگے آگے تھے ۔ وہ مغربی میڈیا میں امریکی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے جس پر انہیں دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا جاتا۔ وہ اپنے سیاسی خیالات کا اظہار بلاخوف وخطر کرتے اور اس وجہ سے انہیں کئی مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ جمہوریت پسند حلقوں میں ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ انہوں نے 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تھا ۔ حمید گل صاحب سے جب بھی پوچھا جاتا کہ کیا آئی جے آئی آپ نے بنائی ؟ وہ اثبات میں جواب دیتے اور کہتے کہ مجھے آرمی چیف نے ایک ٹاسک دیا تھا میں نے ٹاسک پورا کیا اور ذمہ داری قبول کرتا ہوں اگر کسی نے میرے خلاف کوئی مقدمہ چلانا ہے تو شوق پورا کرلے ۔ حمید گل صاحب کا المیہ یہ تھا کہ وہ ایک بہت مشکل دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے ۔ 1987ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تو فوجی صدر اور سویلین وزیر اعظم میں سردجنگ شروع ہو چکی تھی ۔ اس دوران فوجی صدر ایک ہوائی حادثے میں موت کا شکار ہو گئے ۔ جنرل ضیاء الحق کی موت جنرل حمید گل کیلئے ایک ذاتی جھٹکا بھی تھی کیونکہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے صدر پاکستان کی حفاظت نہ کرسکے۔ انہیں حادثے کی تحقیقات پر توجہ دینے کی بجائے آئی جے آئی بنانے کا حکم ملا ۔ 17؍اگست 1987ء کوجنرل ضیاءالحق کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے کے ایک ماہ کے بعد حمید گل نے غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں آئی جے آئی بنا ڈالی۔ منصوبہ یہ تھا کہ جتوئی صاحب کو وزیر اعظم بنایا جائے لیکن آئی جے آئی کو قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہ ملی اور بے نظیر بھٹو صاحبہ وزیر اعظم بن گئیں۔ حمید گل صاحب نے جن کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنائی انہیں اقتدار مل گیا ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے نئی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو خود ہی بتا دیا کہ انہوں نے آئی جے آئی بنائی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد بینظیر حکومت نے انہیں آئی ایس آئی سے فارغ کر دیا ۔ 1990ء میں نواز شریف وزیراعظم بنے تو حمید گل لیفٹیننٹ جنرل تھے ۔1992ء میں نواز شریف نے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد حمید گل کی بجائے آصف نواز کو آرمی چیف بنا دیا جس کے بعد حمید گل نے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ انکے تعلقات کشیدہ رہے ۔
پرویز مشرف کے دور میں دونوں سابق وزرائے اعظم جلاوطن تھے ۔حمید گل اور مشرف کے تعلقات بہت اچھے تھے لیکن حمید گل نے مشرف کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ مشرف پر تنقید کے ذریعہ انہوں نے نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کے قریب ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ 9مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد وکلاء تحریک شروع ہوئی تو حمید گل بھی مشرف حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ۔ اس دور میں مشرف حکومت نے مجھ پر پابندی لگائی تو میں بھی سڑکوں پر آگیا۔ میں نے سڑکوں پر وکلاء اور سیاست دانوں کے ساتھ کئی شو کئے جن میں حمید گل بھی شریک ہوتےاور نعرے لگاتے محترمہ بےنظیر بھٹو نے 16؍اکتوبر 2007ء کو ایک خط میں الزام لگایا تھا کہ ا گر ان پر پاکستان میں حملہ ہوا تو حمید گل، اعجاز شاہ، پرویز الٰہی اور ارباب غلام رحیم ذمہ دار ہونگے ۔ کراچی میں حملے کے بعد یہ خط زیر بحث آیا تو میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بتایا کہ حمید گل تو مشرف کے خلاف تحریک میں شامل ہیں وہ مشرف کے ساتھ مل کر آپ کو قتل نہیں کرا سکتے ۔بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک اور خط لکھا اور اس میں صرف مشرف کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حمید گل نے کبھی ان کے بارے میں تنقیدی الفاظ استعمال نہیںکئے بلکہ انہیں ایک بہادر اور محب وطن لیڈر قرار دیا۔ یہ انکی اعلیٰ ظرفی تھی۔ حمید گل صاحب کی موت کے بعد انکی یہ اعلیٰ ظرفی ایک حسین یاد میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ انکی اہلیہ طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا تھیں لیکن حمید گل اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ (آمین)
 
حمید گل۔ اسلام کا سپاہی...کس سے منصفی چاہیں … انصار عباسی

289092_s.jpg

ansar.abbasi@thenews.com.pk
جنرل حمید گل انتقال کر گئے۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔وہ ایک پکے مسلمان اور سچے پاکستانی تھے۔ اُن کا مطالعہ انتہائی وسیع اور یاداشت اس قدر قابل دید تھی کہ ان کا بڑے سے بڑا مخالف بحث میں اُن کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ سویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے ہیروز میں شامل تھے۔ وہ مسلم امہ کے لیے درد دل رکھتے اور بھارت، امریکا اور اسرائیل کی اسلام مخالف اور پاکستان مخالف چالوں کو خوب سمجھتے اور اُن پر کھلے عام تنقید کرتے اور اسی وجہ سے انہیں اسلام دشمن اور پاکستان دشمن برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ پاکستان کے واحد سابق آئی ایس آئی سربراہ تھے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ بلکہ اپنی موت تک انتہائی با اثر رہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے اُن سے غلطیاں بھی ہوئیں۔ کئی مسئلوں میں ان کی رائے سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ اپنی مسلمانیت پر فخر کرتے اور اللہ کے نظام کے نفاذ کی کھلے عام بات کرتے اور یہی وہ باتیں تھی جس کی بنا پر اُن کے خلاف پاکستان کے دیسی لبرلز کا ایک مخصوص طبقہ ایک ایسا بغض اور عناد رکھتا تھا جس کی ایک گھنائونی جھلک اُن کے فوت ہونے کے بعد بھی سوشل میڈیا میں نظر آئی ۔مسئلہ یہ نہ تھا کہ جنرل حمید گل نے آئی جے آئی کیوں بنائی، تکلیف یہ تھی کہ جنرل حمید گل اسلام، جہاد، نظریہ پاکستان، مسلم امہ وغیرہ کی بات کیوں کرتے تھے۔پاکستان کے کتنے سابق انٹیلیجنس سربراہان ایسے ہیں جنہوں نے سیاست میں مداخلت بھی کی، حکومتوں کو گرایا بھی بنایا بھی، سیاسی جماعتوں کو توڑا اور اپنی من پسند پارٹیاں میدان میں بھی اتاریں لیکن دیسی لبرلز اور کنفیوژڈ سیکولرز کا نشانہ ہمیشہ جنرل حمید گل ہی رہے۔ لیکن یہ مرد مجاہد کسی سے ڈرا اور نہ آخری دم تھا اپنا نظریہ بدلا۔ میرا جنرل حمید گل سے محبت اور احترام کا ایک گہرا رشتہ تھا جس کی بنیاد اسلام تھا۔ ابھی گزشتہ ہفتہ مجھے جنرل حمید گل صاحب کا فون موصول ہوا۔انہوں نے اکیسویں ترمیم کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوے انتہائی خفگی کا اظہار کیا اورسوال کیاکہ عدالت اعظمیٰ نے یہ کیا فیصلہ سنا دیا ہے؟ وہ خفا اس بات پر تھے کہ سپریم کورٹ نے آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں اسلام اور اسلامی دفعات کا ذکر کیوں نہ کیا۔ اس سلسلے میں میری تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل صاحب نے مجھے بتایا کہ 9 اگست کی رات کو ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کھل کر اس مسئلہ میں بات کی اور مجھ سے کہا کہ میں وہ پروگرام ضرور دیکھوں۔ میں نے وعدہ کیا لیکن جنرل صاحب کا آخری ٹی وی انٹر ویو دیکھنے کا موقع آج ملا۔انٹرویو دیکھا تو یہ سوچ کر دل اداس ہو گیا کہ اب کون اس انداز میں اسلام، اسلامی نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام کے نفاذکی بات کرے گا۔ میں تو ایسے بہت سوں کو جانتا ہوں جو دینی سوچ تو رکھتے ہیں مگر آج کے ماحول اسلام کا نام لینے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں اُن پر کوئی لیبل نہ لگ جائے۔ اپنے آخری انٹرویو میں حمید گل کا کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو Anglo Sexon laws کے نفاذ کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے قانون کے نفاذ کے لیے بنایا تھا اور جب تک ایسا نہیں ہو گا عوام کی قسمت نہیں بدل سکتی۔ حمید گل نے کہا عدالت یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتی کہ اللہ کی حاکمیت سے کیا مراد ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر اسلامی دفعات اور قرارداد مقاصد کو آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل نہ کرنے پرتنقید کرتے ہوئے سابق آئی ایس آئی چیف نے تنبیہہ کی کہ اگر ہماری عدالتیں اور ہماری پارلیمنٹ اللہ کی حاکمیت کو نہیں مانیں گے تو پھر ملک کے لیے بہت سے مسائل ہوں گے۔ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق حمید گل مرحوم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہمارا نظام حکومت اور پارلیمنٹ قرآن اور سنت کے تابع نہیں ہوتے توپھر اس نظام سے بہتری کی کوئی توقع نہیں۔ انہوں نے یہ واضع تاثر دیا کہ وہ مغربی جمہوریت کی پوچا کرنے والوں میں سے نہیں بلکہ اللہ کے قانون کے نفاذ کے داعی ہیں۔ اُنہوںنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ہمارے موجودہ نظام میں چار لیڈروں نے اس ملک اور پارلیمنٹ میں بیٹھے منتخب نمائندے کی تقدید کو اپنے ہاتھوں میں قابو کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان لیڈروں کی بتوں کی طرح پوجا کی جاتی ہے اور اُن سے اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں جبکہ اسلام تو ہر فرد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اچھائی کی ترغیب دیں اور برائی سے روکیں۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ آئین میں درج قرارداد مقاصد اور 31 اسلامی دفعات کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ نے آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں جمہوریت، آزاد عدلیہ اور پارلیمانی نظام حکومت کا ذکر کیا لیکن اسلام کا نام نہیں لیا۔ حمید گل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا حاکم اللہ کی ذات ہے اورپاکستان میں صرف اُسی کا نظام اور اُسی کا قانون چلنا چاہیے۔ ملا عمر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملا عمر جیسے لوگ مرا نہیں کرتے۔ تاریخ میں اُن کا نام زندہ رہے گا جبکہ بش، ٹونی بلئیر اور مشرف جیسے لوگوں کا نام مٹ جائے گا۔ ایسی باتیں صرف حمید گل ہی کر سکتے تھے کیوں کہ نہ انہیں امریکا کا خوف تھا اور نہ ہی بھارت و اسرائیل کا ڈر۔ جہاں تک اُن کے دیسی مخالفین کا تعلق ہے وہ تو ہمیشہ حمید گل کے سامنے بونے ہی رہے۔ اللہ تعالیٰ حمید گل کی کوتاہیوں، گناہوں اور غلطیوں کو درگزر کرتے ہوے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون

زیادہ تو میں نہیں جانتا۔ لیکن میں نے جتنا بھی حمید گل صاحب کو سنا (ٹی وی پر) میں نے اُنہیں ایک محب وطن شخص پایا۔ اُن کی ہر بات گھوم گھام کر پاکستان اور اسلام کی خیر خواہی پر آ جاتی تھی۔

اللہ اُن کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔
 

x boy

محفلین
"حمید گل"
مری کے معروف اور مصروف بازار جھیکاگلی میں ایک کار رکی ۔ کھلونے اور سٹے بیچنے والا ایک پٹھان بچہ اسکی طرف لپکا کار کی اگلی نشست پر بیٹھے شخص نے اس سے ایک سٹہ لے کر اسے سو روپے تھما دئیے اس وقت ایک سٹہ 10 روپے کا ہو تا تھا شائد بس پھر کیا تھا بازار میں گھومنے والے سب افغانی خانہ بدوش بچے اس کی گاڑی کے گرد جمع ہوگئے اس نے سب بچوں کو پیار کیا اور سب کو نقد رقم بھی دی ۔ بچے اپنے پھٹے پرانے کپڑوں اور کیچڑ سے لتھڑے جوتوں سمیت اسکی کار میں گھس گئے وہ 20 ۔ 30 منٹ تک وہاں رکا رہا اور اس دوران بڑے خوشگوار موڈ میں بچوں کے ساتھ گپ شپ کرتا رہا گاڑی اس دوکان کے سامنے کھڑی تھی جہاں میں ملازمت کرتا تھا ۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ کیسا آدمی ہے جس کا ان بچوں نے گھیراؤ کیا ہوا ہے ۔ ۔ اسکی گاڑی میں گھسے ہوئے ہیں ۔ اسے تنگ کر رہے ہیں ۔ لیکن یہ بالکل غصہ نہیں کر رہا.
اسی لمحے ایک دوست دوکان میں داخل ہوئے اور کہنے لگے اس آدمی کو جانتے ہو ۔ یہ جنرل حمید گل صاحب ہیں بس میں جنرل حمید گل کو اتنا ہی جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ امریکہ,بھارت ,روس ,پاکستانی لبرل اور ملحد انہیں پسند نہیں کرتے تھے آج مری میں ان کی وفات کی خبر پڑھی تو یہ سارا واقعہ ایک دم سے یاد آگیا
اناللہ وانا الیہ راجعون
رب اغفرہ وارحمہ وادخلہ فی الجنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ہارون عباسی
 

محمداحمد

لائبریرین
لئیق احمد بھائی!

کالمز کا شکریہ !

ممکن ہو تو مرحوم کی وفات کے بعد تحریر کیے جانے والے مزید کالمز بھی (حامیوں اور مخالفوں کے بھی) اس دھاگے میں شامل کریں تاکہ اُن کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملے۔
 
لئیق احمد بھائی!

کالمز کا شکریہ !

ممکن ہو تو مرحوم کی وفات کے بعد تحریر کیے جانے والے مزید کالمز بھی (حامیوں اور مخالفوں کے بھی) اس دھاگے میں شامل کریں تاکہ اُن کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملے۔
ابھی تک تو یہی نظر سے گزرے - جنہیں پڑھنے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ سب متفق ہیں کہ حمید گل مرحوم ذاتی طور نہایت ملنسار خوش اخلاق اور برداشت کی قوت کے حامل تھے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top