تاسف جنرل حمید گل انتقال کر گئے-انا للہ و انا الیہ راجعون

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

arifkarim

معطل
یہ تو وہی چیف صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ اگر زیادہ تجسس تنگ کر رہا ہے تو ان سے جا کر پوچھ لیں اپنی ذمہ داری پر
جنرل حمید گُل مرحوم کے مطابق 9/11 جہادی حملوں میں اسامہ بن لادن کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ حملے امریکہ نے خود کروائے:

ایک تو زیک میاں حیران بہت جلدی ہوجاتے ہیں۔ :p
بس محفل پروفائل میں موڈ "حیران" کرنا باقی ہے۔ :)
 
آخری تدوین:
جنرل حمید گل - روؤف کلاسرا
لندن میں سینیٹرانور بیگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ جنرل حمیدگل کی موت پر دکھی تھے۔ کہا، پچھلے ہفتے وہ ان کے گھر دعوت میں شریک تھے جہاں اکثر صحافیوں اور دوسرے لوگوںکی ان سے آخری ملاقات ہوئی۔انور بیگ نے کچھ نام لے کر کہا، وہ سوشل میڈیا پر جنرل گل کے بارے میں نازیبا باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، بیگ صاحب آپ دکھی نہ ہوں، جنرل گل ایک متنازع شخصیت تھے، وہ اسی طرح جینا اور مرنا چاہتے تھے۔ ہر مشہورانسان متنازع ہوتا ہے، اگر متنازع نہ ہو تو لوگ بھول جاتے ہیں۔ جنرل وحیدکاکڑ غیرمتنازع تھے، کتنے لوگ انہیںجانتے ہیں؟ جنرل گل یہ رازجان چکے تھے، لہٰذا ان کی دوستیاں اپنے ناقدین سے زیادہ تھیں۔
جنرل حمیدگل سے پہلی ملاقات 2002ء کے آخر میں دوست کالم نگار ہارون الرشید کے ہمراہ ان کے گھرہوئی۔ جنرل گل کی مدد کی ضرورت پڑگئی تھی۔ ہمارے صحافی دوست شاہین صہبائی جنرل مشرف کے زیرعتاب تھے، ان کی تحریروں نے جنرل مشرف کے ہائوس آف کارڈز میں طوفان برپاکیا ہوا تھا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف ڈیل کر کے پاکستان چھوڑ گئے تھے کہ اچھے دنوں میں پھر نئی ڈیل کر کے لوٹ آئیںگے۔جنرل مشرف سے جو لڑائی بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لڑنی تھی وہ اب شاہین صہبائی لڑ رہے تھے۔ انہوں نے جنرل مشرف کا پورا امتحان لینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا کیونکہ ایک دن جنرل مشرف کے منہ سے نکل گیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں ججوں اور جرنلسٹوں کو آزادی دے رکھی ہے۔شاہین صہبائی کی ہر تحریر بم کی طرح جنرل مشرف پرگرتی۔فیصلہ ہوا، شاہین صہبائی کو مزہ چکھایا جائے۔ شاہین ان دنوں امریکہ میں تھے۔ایک ایجنسی کو کام سونپا گیا، وہ شاہین صہبائی کو فکس کرے ۔ شاہین صہبائی کی کراچی میں مقیم بہن، بہنوئی اور ایک بھتیجے پر مقدمات قائم ہوئے۔شاہین پر اپنے رشتہ دارکے گھر سے واشنگ مشین چوری کرنے کا مقدمہ بنا۔ بہنوئی جو چھ چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کا باپ تھا اسے کراچی سے گرفتارکرکے جنرل مشرف کے حکم پر اڈیالہ جیل (راولپنڈی) میں ڈالاگیا تاکہ شاہین صہبائی کو جھکایا جا سکے۔ان کے بھتیجے پر الزام تھاکہ اس نے واشنگ مشین چرانے میں اپنے چچاکی مدد کی تھی۔ وہ بھی جیل میں تھا۔ وکیل ظفرعلی شاہ، ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں ایجنسیوں کی سخت مخالفت کے باوجود اس مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ ہر دفعہ ایجنسی کا افسر عدالت میں جج سے ملتا اور ضمانت نہ ملتی۔ ایک دن ہارون الرشید سے بات کی۔ہم دونوں جنرل گل سے جا کر ملے کہ ان مظلوموں کی جان چھڑائی جائے۔ میرا خیال تھا سخت مزاج ہوںگے۔ لیکن انہیں انتہائی مہذب پایا۔ بولے، اگرچہ وہ ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی کسی سے بات کریں گے۔ جنرل گل سے اس دن تعلق بنا جو ان کی وفات تک قائم رہا۔مجھے علم تھا میرا ان کے خیالات اور فلسفے سے کبھی اتفاق نہیں ہوسکے گا۔ جنرل گل کو بھی پروا نہیں تھی کہ ان کے خیالات سے ضروراتفاق کیا جائے۔
جنرل حمید گل کے بارے میں سب سے اچھی گفتگو میجر عامر سے سنی۔ وہ خود ایک بڑا کردار ہیں جس پرکتاب لکھی جانی چاہیے۔ میجر عامرسے جنرل گل کی افغان جنگ کے دنوں کی حیرت زدہ کرنے والی داستانیں سنیں، پھر بھی میں ان کا قائل نہ ہو سکا۔ جنرل گل جب میجر عامرکے گھرکھانے پر مدعو ہوتے توان (میجر عامر) کی خوشی دیدنی ہوتی۔ لگتا،ایک بچے کو اپنا پسندیدہ ترین کھلونا مل گیا ہے۔ میجر عامرکی سنائی ہوئی کئی باتوں کے باوجود جنرل گل کے فلسفے سے دل متفق نہ ہوا۔
چند برس پہلے راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ایکس سروس مین کی تقریب میں جنرل حمید گل کوایک گھنٹہ سننے کا موقع ملا۔ جنرل اسلم بیگ نے بھی تقریرکی۔دونوںکا نظریہ ایک تھا کہ افغانستان کو امریکی افواج کی موجودگی میں بھی فتح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد پورا سینٹرل ایشیا اور پھر پوری دنیا۔ میں دم بخود ہوکر سنتا رہا۔ مجھے یاد ہے، احسن اقبال اپنی باری پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ ہمارے ریٹائرڈ جنرلزکس دنیا میں زندہ ہیں۔ لیکن جنرل گل اپنی بات پر قائم تھے، ان کا خیال تھا، یہ سب ممکن ہے۔ اور تو اور فوج میں ان کے اپنے ریٹائرڈ ساتھی بھی ان کی باتوں سے متفق نہ تھے۔ایکس سروس مین کے اجلاسوں میں جب جنرل حمیدگل ملکی یا غیرملکی معاملات پر ایک اسٹینڈ لیتے اور دوسرے ریٹائرڈ جنرلز شدت سے مخالفت کرتے تو اکثر بات تلخی تک پہنچ جاتی۔
شعیب سڈل کے صاحبزادے کے ولیمے میں ملاقات ہوئی تو میں نے کہا، جنرل صاحب آج کل بھارتی ایجنسی را کے ایک سابق افسرکی کتاب پڑھ رہا ہوں۔ مسکرا کر پوچھا کیا لکھتا ہے۔ میں نے کہا، وہ لکھتا ہے جب آپ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو آپ کی تین خفیہ ملاقاتیں بیرون ملک بھارتی ایجنسی کے سربراہ سے ہوئی تھیں اور جن کا اہتمام ایک عرب ملک کے اس شہزادے نے کیا تھا جو راجیوگاندھی اور جنرل ضیا دونوںکے قریب تھا۔ ان ملاقاتوںکے بعد پاکستان نے خفیہ طور پر وہ سکھ فوجی جوان بھی بھارت کے حوالے کر دیے تھے جو پنجاب میں چلنے والی سکھوں کی تحریک کے دوران بھارتی فوج چھوڑکر پاکستان سے آ ملے تھے؛ تاہم اس شرط پر وہ واپس کیے گئے کہ ان بھگوڑے بھارتی سکھ فوجیوں کو سرحد کے قریب ایک مقام پر رکھا جائے گا اور بھارتی فوج اچانک چھاپہ مارکر انہیںگرفتارکر کے لے جائے گی تاکہ یہ نہ لگے کہ پاکستان نے جان بوجھ کر انہیں بھارت کے حوالے کیا ہے، اسے بھارتی فوج کی ایک خفیہ کارروائی سمجھا جائے۔ بعد میں ان سکھوں کا کیا حشر ہوا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
جنرل گل نے بڑی تسلی سے سنا اورکہا انہوں نے وہ کتاب نہیں پڑھی۔ ویسے سکھ فوجیوں والی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کہا،کسی دن آپ سے اس پرانٹرویوکرناچاہتا ہوں۔کہا ضرور تاہم اس انٹرویو کی باری کبھی نہ آئی۔
کبھی کبھی مجھے جنرل صاحب اپنی ہی طرح کے لگتے۔۔۔۔۔ اپنے خیالات کے شدید رومانس میں گم اور اپنی الگ دنیا بسائے رہنے والے ۔ البتہ ان میں ایک خصوصیت وافر تھی جو مجھ میں نہیں۔ وہ اپنے ناقدین سے اپنے دوستوں سے بھی زیادہ پیارکرتے تھے، میں یہ کبھی نہیں کر سکا۔
ٹی وی پروگراموں میں کئی باران کے خیالات اور فلسفے پر تنقیدکی، کئی کالم لکھے، مجال ہے ان کے ماتھے پر شکن آئی ہو۔ ہر دفعہ مسکرا دیتے۔کوئی بات اچھی نہ لگتی تو موبائل پر اتنا لکھ کر بھیج دیتے کہ رئوف، آپ نے یاد کیا، شکریہ۔۔۔۔۔گُل۔
میرا ایک کالم انہیں پسند نہ آیا تو طویل میسج کیا۔ میں نے فون کرکے کہا، جنرل صاحب! آپ واحد شخصیت ہیں جو میری تحریریں برداشت کرلیتے ہیں، میرے اندر یہ احساس رہنے دیں۔ قہقہہ لگایا اور بولے، سوری یار۔
ایک دفعہ میں شدید دکھ کی کیفیت میں تھا۔ میرا لیہ کالج کا ایک کلاس فیلو مجھے اسلام آباد میں پچیس برس بعد ملا۔ وہ ایک سکیورٹی فورس میںکرنل تھا۔ باتوں باتوں میں بتایا، آج کل ہماری ایجنسی شدید پریشانی کی شکار ہے۔کرک کے ایک ایم این اے کو اٹھایاگیا ہے۔ وہ بیت اللہ محسودکا خط لے کر جنرل گل کے پاس جا رہا تھا جس میں اس نے ٹی وی چینلز پر جنرل گل کی حمایت پر شکریہ ادا کیا تھا۔فیصلہ ہوا ہے کہ اس معاملے کو دبا دیا جائے، بدنامی ہوگی۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ جنرل گل جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر طویل جنگ لڑی تھی وہ ریٹائر ہوتے ہی کیسے اس کے خلاف ہوگئے۔ عرصے بعد سحر صدیقی کی غلام اسحاق خان پر لکھی کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ امریکہ سے دشمنی کی وجہ کیا تھی۔ جنرل گل نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں غلام اسحاق خان نے بتایا تھا وہ (جنرل گل) تو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن امریکہ نے نہیں بننے دیا۔ میں نے جنرل گل سے ہنس کرکہا، سر!امریکہ نے آپ کو آرمی چیف نہ بنوا کر بڑی قیمت ادا کی ہے، آپ نے بھی انہیں معاف نہیںکیا۔
ذاتی مراسم قائم رکھناکوئی ان سے سیکھتا۔ میری بیوی بیمار ہوئی توکئی دفعہ فون کیا اور دیر تک اپنی بیگم کی بیماری کے حوالے سے قصے سناکر حوصلہ دیتے رہتے۔جب ان کی بہادر بیٹی عظمیٰ گل کی بس سروس واران کے خلاف(جنرل مشرف سے شہبازشریف تک سب نے جنرل گل کے نظریات سے اختلاف کی بنا پر) کارروائیاںکیں اور اتنی اچھی بس سروس بندکرادی تو میں نے ان کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھائی جس پر وہ شکرگزار ہوئے۔
جنرل گل گمنام زندگی نہیںگزارنا چاہتے تھے۔ انہیں خود کو متنازع بنانے کا فن آتا تھا اور وہ فن تھا مخالفوںکو گلے لگاکر رکھنا۔ میں ان شدید نقادوں میں سے تھا جنہیں ہمیشہ گلے سے لگائے رکھا۔ میں جنرل گل کی جگہ ہوتا تو اپنے جیسے نقادوں کی شکل تک نہ دیکھتا۔ جنرل گل سرد جنگ دورکے جنرل تھے۔ وہ اس یقین کے ساتھ زندہ رہے کہ پراکسی جنگوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکے ذریعے بھارت، امریکہ ، افغانستان کو فتح کیا جاسکتا ہے، بس نان اسٹیٹ ایکٹرزکو استعمال کرتے رہو۔ پراکسی جنگوں میں معصوم لوگوں کا بہتا خون بھی انہیں اپنی منزل کی طرف ایک سفر لگتا تھا۔ انہیں کوئی نہ سمجھا سکا کہ دنیا بدل گئی ہے۔ یا شاید ہم جنرل گل کی بسائی ہوئی دنیا کو نہ سمجھ سکے۔ جنرل گل اپنی بسائی ہوئی رومانٹک دنیا اور خیالات سے رہائی نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنی اس سوچ کے قیدی رہے کہ دنیا نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے فتح کی جاسکتی ہے۔ جنرل گل کوکوئی نہیں بدل سکتا تھا۔ باقی چھوڑیں، جو لوگ ماضی میں ان کے گرویدہ تھے وہ بھی اب ان کے خیالات سے نالاں ہوچکے تھے۔ میں پھر کہوں گا کہ جنرل گل کی یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے اپنے بدترین ناقدین سے بھی پیارکیا،انہیں عزت دی، ان کے لاڈ اٹھائے، خیال رکھا، لیکن ان سے کبھی ہارنہیں مانی اور اپنی ہی شرائط پر جیے۔۔۔۔!
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/rauf-kalsra/2015-08-19/12337/56361839#tab2
 
حمید گل سے ہفتے کی سہ پہر آخری گفتگو - اسد اللہ غالب
آپ مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ حمید گل کی آواز تھی۔ ہفتے کے روز تین بجے سہ پہر۔ ان کے دم آخریں سے صرف سات آٹھ گھنٹے قبل۔
اس ٹیلی فون کال نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔میں انہیں واقعی ڈھونڈ رہا تھا، ایک ہفتے سے مجھے ان کی تلاش تھی، قصور کے جنسی اسکینڈل کو جس شخص نے عالمی سطح پر ابھار کر ملک کا نام بد نام کیا، اس کے بارے میںمجھے پتہ چلا کہ وہ جنرل حمید گل کے ساتھ کام کر چکا ہے، بلکہ ایک واردات بھی۔میں براہ راست تصدیق سے پہلے اس موضوع کو نہیں چھیڑ سکتا تھا، یہ میری صحافتی اخلاقیات کا تقاضہ ہے۔مگر میں ان کا فون نمبر گما چکا تھا، ان کے گھر والے نمبر پر کئی بار فون کیا مگر کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔ ہفتے کو ایک مشترکہ دوست کا فون آیا، ان سے جنرل صاحب کا موبائل نمبر مانگا، ابھی سوچ ہی رہا تھاکہ انہیں فون کروں کہ ان کی اپنی کال آ گئی ۔سولہ منٹ بائیس سیکنڈ تک بات چیت جاری رہی، پھر اچانک انہوں نے کہا کہ دوسری کال آ گئی، اللہ حافظ۔ میرے ساتھ یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ دوسری کا ل آ گئی ہے۔اللہ حافظ! یہ الفاظ سدا میرے کانوں میں گونجتے رہیں گے۔
میںنے ان سے پوچھا کہ کیا یہ کردار آپ کے ساتھ کام کرتا رہا ہے، انہوںنے کہا کہ میرے بیٹے عبداللہ گل کی تنظیم میں تھا، پھر چھوڑ کو ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ جاملا، انہیں بھی چھوڑ دیا اور اپنی کوئی الگ تنظیم کھڑی کر لی۔جماعت الدعوہ میں بھی رہا۔ میںنے قصور اسکینڈل کے موضوع پر ہی توجہ مرکوز رکھی اور اس سے ملک کی عالمی سطح پر جو بدنامی ہوئی، اس پر وہ بھی دل گرفتہ تھے۔
میںنے کہا کہ آپ کو ملنے کے لئے آ رہا ہوں، کہنے لگے کہ میں کئی روز سے مری میںہوں، بیٹا عبداللہ گل ترکی میں ہے، میری بیگم صاحبہ کی طبیعت خراب ہے، پنڈی میں سخت گرمی ا ور حبس کا عالم ہے ، انہیں لے کرمری آ گیا ہوں، چودہ اگست کو آرمی چیف نے پرانے فوجی افسروں کے ساتھ مجھے بھی کھانے پر مدعو کیا تھا،ا س میں شرکت کی ا ور واپس آ گیا،ابھی مری سے واپسی کا کوئی پروگرام نہیں۔ میںنے کہا،وہاں حاضر ہو جاﺅں گا۔ ملک کے معاملات دگر گوںہیں، فوج کارہا ئے نمایاں اور جانوں کی بیش بہا قربانی کے باوجود تنقید کی زد میں ہے۔ بالمشافہ گفتگو ضروری ہے۔ اب میں یہ گفتگو کسی اور سے نہیںکر سکتا۔
جنرل صاحب سے محبت اور دوستانہ اختلاف کا رشتہ ربع صدی سے قائم ہے۔ وہ ایک جہادی لیڈر تھے مگر میں ان سے کہا کرتا تھا کہ میرے اسلاف تحریک مجاہدین میںقربانی دے چکے ہیں، جہاد تومیرے لہو میں رچا بسا ہے۔انگریز ایس ایس پی میرے گھر میں والد صاحب کے ساتھ مقیم ایک جہادی لیڈر کو گرفتار کرنے آیا تھا، مگر گاﺅں والوں نے یہ کوشش ناکام بنا دی تھی، مجاہد لیڈر وہاں سے ہجرت کر گئے، یہ صوفی ولی محمد تھے جن کے ہاتھ پہ عبید اللہ سندھی نے ا سلام قبول کیا تھا۔
ضرب مومن کی مشقوں کے دوران میری ان سے پہلی جھڑپ ہوئی، وہ اس مشق کے کمانڈر تھے، اور ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو سرگودھا میں اس پر بریفنگ دے رہے تھے، میںنے ان سے پوچھاکہ آپ نے پچھلے ایک ہفتے میں ہمیں جو مشقیں دکھائی ہیں ، وہ ساری کی ساری میدانی جنگ سے متعلق ہیں جبکہ آپ کو اگر کوئی کام کرناہے تو وہ کشمیر کی باز یابی کا نہ کہ بھارت کی فتح کا۔ اس لئے آپ کو پہاڑی جنگ کی مشق کرنا چاہئے تھی۔
ابھی چندماہ پہلے میں نے لکھا کہ افغان بارڈر پر کانکریٹ کی دیوار کھڑی کردی جائے تاکہ دہشت گردی کا راستہ روکا جا سکے، ان کا فون آیا کہ آپ آئندہ ایسا نہیںلکھیں گے، افغانستان ہمارا اثاثہ ہے، ہم یک جان و دو قالب کی مثال ہیں۔میںنے واضح کیا کہ میں تو پاکستانی طالبان کا رستہ روکنے کی بات کر رہا ہوں، انہوں نے کہا، ا سکے لئے اور بڑے طریقے ہیں۔اور ہم اس میںکامیاب ہوں گے۔
کوئی دو عشرے قبل میں نے پی سی ہوٹل میں جاپانی سفیر کی ضیافت کی، اس میںجنرل صاحب بھی شریک ہوئے، محفل برخواست ہوئی تو ہوٹل کے دروازے پر شور وغوغا ہوا، جنرل صاحب اور شامی صاحب میں تلخ بحث چل رہی تھی اور ا سکی وجہ ایک ا ٓرٹیکل تھا جو جنرل صاحب نے لکھا اور میںنے ایک اخبار میںچھاپا، اس کا عنوان تھا ، دائیں بازو کی دانش پر ڈاکہ۔ موقع پر موجود دوستوںنے اس بحث کو ختم کرا دیا مگر جنرل صاحب اپنے موقف میں سچے تھے، چند روز قبل حافظ محمد سعید کی ایک محفل میں مجھے ایسے ہی ایک دوست نے ننگی گالیاں سنا ڈالیں۔یہ دائیں بازو سے ہی تعلق رکھتے ہیںمگر اب ڈاکے کی زد میں ہیں۔محفل کے آداب کے پیش نظر میںنے ان کے نکات کا جواب تو ضرور دیالیکن ان کی مغلظات پر خاموشی اختیار کی۔ مجھے ا س موقع پر جنرل حمید گل بے طرح یاد آئے، انہیں ا س محفل میں آنا تھا مگر شاید بیگم صاحبہ کی علالت کے باعث سفر نہ کر سکے۔ مگر اب وہ سفرا ٓخرت پر ر وانہ ہوگئے ہیں۔ میں نے اتوار کے اخبارات تو کھولے تھے، مشاہد اللہ کی خبر کی تفصیل پڑھنے کے لئے مگر یہاں تو بساط ہی الٹ گئی تھی۔ ابھی تو مجاہد اول سردار عبدا لقیوم کی رحلت کا زخم تازہ تھا، ملا عمر کی شہادت اور جلال ا لدین حقانی کی شہادت کی خبروں سے دل ملول تھا کہ یہ کیا بجلی ا ٓن گری، دل کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں تو کل سہہ پہر دل بھر کے ان سے باتیں کر رہا تھا، یہ آواز خاموش کیسے ہو گئی مگر قدرت کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔ اورآج سترہ اگست ہے۔ یہ تاریخ ملکی تاریخ کی المناک تاریخ ہے۔
سانحہ بہاولپور نے دل دہلا دیا تھا مگر جنرل حمید گل نے حوصلہ دیا، اس نے راتوں رات اسلام آباد کی جامع مسجد کے سائے میں مرد مجاہد جنرل ضیا الحق کامقبرہ کھڑا کر دیا۔اور پھر ان کے مشن کا علم بلند کئے رکھا، آخری سانس تک۔ جنرل حمید گل کو گالیاں دینے والوں نے طالبان کی حکومت اپنے ہاتھوں سے قائم کی ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ ٹینک پر بیٹھ کر کابل گئے اور طالبان کو سریرا ٓرائے سلطنت کر کے لوٹے۔ پھر بھی طالبا ن کی سرپرستی کے لئے جنرل حمید گل ہی مورد الزام اور کون بھول سکتا ہے کہ گلبدین، ربانی ، سیاف، مجددی ا ور دوسرے نوجوان افغان مجاہدین کو پاکستان بلا کر ٹھکانے فراہم کئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے۔یہ سب نوجوان اس دور کے طالبان تھے۔اور گالی پھر بھی جنرل حمید گل کو۔
جنرل حمید گل کا گناہ یہ تھا کہ اس نے ایک قومی پالیسی کو آگے بڑھایا، اس پالیسی پر بھٹو، ضیاا لحق، نوازشریف، بے نظیر ، سبھی کا اتفاق رائے تھا، نائن الیون تک جنرل مشرف کا بھی، اور ساتھ ہی پوری قو م کا بھی مگر پھر سب بھیڈ ہو گئے۔
میں اس لمحے کو نہیں بھول سکتا جب میں نے ایوان وقت میں گلبدین حکمت یار کو مدعو کیا تھا،ا س مرد مجاہد کی میڈیا میںیہ اولیں مہورت تھی۔ اور اگر کسی نے امریکہ کی اصل شکل دیکھنی ہو تو وائٹ ہاﺅس میں تمام افغان لیڈروں کی تصویریں ملاحظہ فرما لیں، لمبی ڈاڑھیوں کے حصار میں امریکی صدر۔
مگر گالیاں جنرل حمید گل ہی کے لئے۔ یہ گالیاںنہیں، ایک خراج عقیدت ہے، اس کی طاقت کو، اس کی حشمت کو ،ا س کی قوت ایمانی کو۔ جنرل حمید گل پنڈی کے فوجی قبرستان میں سانحہ بہاول پور کے شہدا کے پہلو میںمحو خواب ہے۔اس نے ہمیں آزادی، حریت،اور حمیت کا خواب دکھا یا تھا اور اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا تھا، اس کی عملی تعبیر پیش کی تھی، اس کی قبر تاریخ کے راستوں کو اجالتی رہے گی۔اس سے آزادی اور حریت کے چشمے پھوٹتے رہیں گے، اور پوری دنیا اس کے شاہنامے رقم کرتی رہے گی، سنہری الفاظ میں۔ وہ زندگی کا درس تھا۔ وہ آ زادی کی للکار تھا۔وہ سراپا زندگی تھا اورسدا زندہ۔
 
سچا پاکستانی اور عسکری دانشور جنرل حمید گل - ڈاکٹر اجمل نیازی
مجھے مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی وفات کا بہت صدمہ ہے۔ ان کے بعد جس عظیم شخص کے مرنے کا دکھ بہت گہرا ہے وہ جنرل حمید گل ہیں۔ وہ مجید نظامی کو اپنے عہد کا سب سے بڑا آدمی سمجھتے تھے۔ وہ ان کے بعد نوائے وقت کے لئے بہت خوش تھے کہ میڈم رمیزہ نظامی بہت جذبے سے معاملات کو آگے لے کے جا رہی ہیں۔ وہ عجیب آدمی تھے۔ بہادر بے پناہ پڑھے لکھے دل اور ایمان کی گواہی میں بات کرنے والے۔ اپنی بات پر ثابت قدم رہنے والے پکے مسلمان سچے پاکستانی اجالے کی طرح اجالے بڑھاپے میں بھی ان کے سراپے پر کسی کمزوری کے آثار نہ تھے۔ وہ گفتگو کرتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے ہماری آرزو کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

میرے خیال میں ڈاکٹر مجید نظامی کے بعد وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ وہ مکمل سپاہی تھے۔ وہ اس طرح زندہ تھے جیسے جہاد کے میدان میں ہوں۔ وہ مرد میدان تھے۔ مرد مجاہد تھے، مرد وطن تھے، وہ پورے اور سچے مرد تھے اور اس شعبے میں فرد تھے۔ مردانگی کے سارے سلیقے انہیں آتے تھے۔ وہ ڈٹ جانے والے آدمی تھے مگر مزاج کے شرمیلے تھے۔ یہ بہت بڑے کردار کے آدمی کا وصف ہوتا ہے۔ وہ ہیرو تھے۔ کچھ زیرو لوگ کسی مصنوعی ہیرو کے پیچھے پھرنے والے کو بھی ہیرو کہہ دیتے ہیں۔ آج کل کی لڑکیوں کو ہیر کی بجائے حور بننے کا شوق ہے۔ ویسے ایسے لوگوں کے درمیان وہ رات کے پچھلے پہر کے قطبی ستارے کی طرح تھے۔ اس کی روشنی میرے دل میں ہمیشہ رہے گی۔ وہ بہت خوبصورت آدمی تھے ایک مردانہ حسن کی پاکیزہ لہر ان کے چہرے پر وجد کرتی تھی۔ وجد کرنے میں اور رقص کرنے میں ایک غیرمحسوس سا فرق ہے جس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ وجد بھی رقص کی طرح وجود کی ایک ادا ہے۔
ہمارے نامور کالم نگار نصرت جاوید نے ایک مختلف اور بہت محبت بھرا کالم لکھا ہے۔ ”جنرل حمید گل جنٹل مین سولجر“ یہ ان کی شخصیت کی پوری عکاسی کرنے والی بات ہے اور نصرت جاوید کو بات کہنا آتی ہے۔ میرے بھائی اسداللہ غالب نے ان سے آخری ٹیلی فونک بات کی۔ جنرل صاحب نے فون پہلے کر دیا کہ تم مجھے تلاش کر رہے تھے۔ یہ بات جنرل صاحب کو کرنل صاحب برادرم ضرار نے بتائی تھی۔ قصور کے واقعے کے ایک کردار کے جنرل صاحب کی تصدیق اس کالم کا باعث بنی۔ میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مبین غزنوی کو جنرل صاحب کے بیٹے عبداللہ گل نے اپنی تنظیم سے نکال دیا تھا۔ ہمیں عالمی طور پر اپنی بدنامی کا خیال ہے مگر جو کچھ ہمارے بے قصور بچوں کے ساتھ درندگی ہوئی اس کا کوئی احساس نہیں ہے؟
خورشید ندیم کے کالم کا عنوان ”ایک نجیب آدمی“ ہے۔ شفقت، شائستگی، نجابت اور لطافت سے بھرپور اس تحریر میں جنرل حمید گل ایسے شخص کے روپ میں سامنے آئے کہ ان کو دیکھنے کے لئے دل کرتا ہے۔ ہم نے ان کے ساتھ جی بھر کے محبت کی۔ انہوں نے بھی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ خورشید نے انہیں عہد ساز کہا۔ میں انہیں عہد آفریں کہتا ہوں۔ ان دونوں لفظوں میں کیا فرق ہے۔ یہ میں اور خورشید ندیم مل کر طے کریں گے۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی ایک نیا خوبصورت اور غیرت مند آزاد زمانہ پیدا ہو گا اور اس کے لیے جنرل ضیاالحق جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل حمید گل کو کسی بھی افغان لیڈر سے بڑھ کر یاد کیا جائے گا۔
نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اگر جنرل حمید گل کو آرمی چیف بننے دیا گیا ہوتا اور جنرل ضیاالحق زندہ رہتے تو بھارت پاکستان کے آگے سرنگوں ہوتا۔ خالصتان بنتا اور کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جاتا۔ اگر افغانستان کے لئے جنرل ضیاالحق اور جنرل حمید گل کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج پاکستان اور افغانستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
جنرل حمید گل پاکستان اور افغانستان کے لیے کمزوری اور مایوسی کی کوئی بات کبھی نہ کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ شاید وہ اچھے دن ہمارے ہوتے بھی نہ آئیں مگر آئیں گے ضرور۔ کوئی ان مناظر کو دیکھے گا اور ہمیں یاد کرے گا تو ہم بھی ان اچھے منظروں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ میں آج بھی جنرل ضیاءالحق کو عظیم ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل نہیں سمجھتا۔ ان کا قاتل وہی ہے جس نے قائداعظم اور مادر ملت کو غیر طبعی موت کا شکار کیا۔ جس نے لیاقت علی خان کو گولی مروائی۔اسی نے بھٹو صاحب جیسے لیڈر کو تختہ دار تک پہنچایا۔ یہ سب جیالے جانتے ہیں مگر سیاسی مصلحتیں انہیں سچ کا سامنا نہیں کرنے دیتیں۔ وہی لوگ جنرل حمید گل کے خلاف باتیں کرتے ہیں وہ ان کاکچھ بگاڑ نہ سکے۔
جنرل حمید گل آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ مجھے دوست معاف رکھیں تو کہوں کہ جنرل حمید گل شہید ہیں جو بھی راہ حق میں کام کرتے ہوئے جان دیتا ہے وہ شہید ہے۔
ان کے جنازے میں سپہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف شریک ہوئے۔ محبوبیت کے جس مقام پر جنرل راحیل شریف ہیں تو میں مایوس نہیں ہوں۔ میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو جنرل راحیل شریف سے محبت نہ کرتا ہو۔ یہ محبت ضرور رنگ لائے گی؟ جنرل حمید گل بے پناہ مطالعے کے آدمی تھے۔ دنیا میں مسلم جدوجہدکی ساری تاریخ پر ان کی نظر تھی۔ وہ پاکستان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتے تھے کہ سب قومیں ہماری طرف رشک کی نظروں سے دیکھیں اور ہم جیسا بننے کی خواہش کریں۔
ماموں ڈاکٹر اکبر نیازی سے فون پر بات ہوئی تو وہ جنرل صاحب کے گھر بیٹھے تھے۔ انہوں نے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو صدیوں کی طرح بیان کیا۔ میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ان کے جنازے میں نہ جا سکا۔ میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہ کروں گا۔ مجھے انہوں نے کئی بار گھر بلایا پوری فیملی کے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا۔ دلیر پاکپاز اور سرگرم بیٹی عظمیٰ گل کو بلا لیا۔ وہ پوری فیملی کے ساتھ میری بیٹی تقدیس نیازی کی شادی میں آئے۔ ان کے ساتھ یادوں کا ایک لشکر ہے وہ اس لشکر کے بھی جرنیل ہیں اور مجھے بھی کبھی کبھی جرنیلی کا اعزاز دیتے تھے۔ خدا کی قسم کسی کے ساتھ فون پر بھی بات کرنے کا اتنا مزا کبھی نہ آیا جو جنرل حمید گل کے ساتھ آیا۔ ہمکلامی اور خود کلامی ایک ہو جاتی تھی۔ یہ دکھ آج کچھ زیادہ ہو گیا ہے کہ آخر وہ کون تھے جنہوں نے اتنے مکمل جرنیل کو آرمی چیف نہ بننے دیا۔ یہ کہ وہ ہمارے سپہ سالار ہیں۔ آج جنرل راحیل کے لئے بھی میرا یہی احساس ہے۔
وہ بہت بڑے دانشور تھے۔ وہ صرف عسکری لیڈر نہ تھے۔قومی لیڈر تھے۔ وہ ایک امید تھے اور یہ امید کسی نوید کی طرح تھی۔ ہمارے فوجی حکمران بھی سیاسی حکمران بن گئے تھے۔ کوئی پاکستانی حکمران ہوتا اس زمانے میں فوجی حکمران جتنا بھی اچھا ہو اچھا نہیں لگتا۔ میں تو جنرل راحیل شریف سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ براہ راست سیاست میں نہ آﺅ مگر سیاست کو تو راہ راست پر لاﺅ۔ سردار خان نیازی ایک ممتاز صحافی ہیں ان سے بات کرتے ہوئے جنرل حمید گل نے کہا ”یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ہمارے حکمران بھیڑیے ہیں۔ وہ بھیڑیے نہیں مگر ہم بھیڑیں بن چکے ہیں۔“
 
جنرل حمید گل سے یاد گار ملاقاتیں ...حکم اذاں ........ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

289779_s.jpg

جنرل حمید گل کے ساتھ میری ملاقاتوں اور یادوں کا سلسلہ دو دہائیوں پر پھیلاہوا ہے۔ اس دوران میری طرف سے اظہار عقیدت ہوتا رہااور وہ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے ۔روبرو ملاقاتوں کے علاوہ ٹیلی فون اور اخباری ِکالموں کے ذریعے تبادلۂ افکار کا سلسلہ چلتا رہا۔ جنرل صاحب کی ایک خوبصورت ادا تھی کہ اخباری صفحات میں اپنے خلاف سخت سے سخت ، تندوتیز تنقید پر بھی وہ وسیع النظری کا ثبوت دیتے اور تعلقات کے آبگینے پر کوئی بال نہ آنے دیتے۔ اُن سے اسلام آباد ،لاہور اور سرگودھا میں کئی یادگار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں عالمِ اسلامِ، وطن ِ عزیز پاکستان اور دو قومی نظریہ وغیرہ کے موضوعات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ ان موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوتی۔ جنرل صاحب بہت سے سیاسی وفوجی قائدین کے برعکس صرف اپنی ہی نہ سناتے دوسرے کی بھی سنتے اور نہایت غور سے سنتے تھے ۔اُن سے آخری ملاقات چند ماہ قبل سرگودھا میں ہوئی۔ شہری آسودگی اور دیہاتی حسن کے دل کش سنجوگ کا نام سرگودھا ہے۔ میں ہمیشہ سرگودھا کو شہرِ وفا کہتا ہوں جبکہ اسلام آباد کو شہر ’’بے وفا‘‘ کہتا ہوں کیونکہ یہاں کا اقتدار کم ہی کسی سے وفا کرتا ہے یقین نہ آئے تو مشاہد اللہ صاحب سے پوچھ لیجئے ۔میری طرح جنرل صاحب کا تعلق بھی سرگودھا سے ہے ۔جنرل صاحب میری وضع کردہ ترکیب ’’شہروفا‘‘ سے بہت محظوظ ہوتے اور سرگودھا کے لئے اس لقب کی تعریف فرماتے ۔
چند ماہ قبل یونیورسٹی آف سرگودھا کے علم دوست وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری نے سیرت النبی اﷺ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کی صدارت کے لئے جنرل (ر) حمید گل صاحب کو دعوت دی۔میں بھی اس سیمینار میں حاضر تھا۔ جنرل صاحب نے بڑے ذوق وشوق کے ساتھ سیرتِ سرور عالمﷺ کے بارے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب سے پہلے انھوں نے ہال میں ایک سی ڈی چلانے کا حکم دیا جسے وہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ یہ سی ڈی کنور مہندرا سنگھ بیدی کی ایک خوبصورت اور اثر انگیز نعت پرمشتمل تھی۔ اس نعت کے چند اشعار قارئین کی دل چسپی کے لئے یہاں نقل کر رہاہوں:
ہم کسی دین سے ہوں ،قائل کردار تو ہیں
ہم ثنا خوانِ شہہ حیدرِ کرار تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدؐکے پرستارتو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدِ مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پر اجارہ تو نہیں
نوجوان طلبہ وطالبات کو ایک غیر مسلم کی ولولہ انگیز نعت سنانے کے بعد حیاتِ طیبہﷺ کے بارے میں جنرل (ر) حمید گل نے نہایت ایمان افروز ، پرجوش اور فکر انگیز خطاب کیا۔جنرل صاحب نے یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو سرکار دو عالمِ ﷺ کی حیات ِ طیبہ سے ایمان افروز واقعات سنائے اور نوجوانوں کو بتایا کہ آپ کے پاس قرآن وسنت کی شکل میں خدا کا آخری پیغام محفوظ شکل میں موجود ہے۔ اس پیغام مہروفا کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچانا ،بحیثیت مسلمان ہماری اور آپ سب کی ذمہ داری ہے۔ استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر ہے کہ
کبھی اصول کی غیرت کبھی زباں کا سوال
دماغ و دل میں رہی ہے مشاورت کیا کیا
جنرل صاحب کے ساتھ ربع صدی کے دوران میں نے ایک بار بھی محسوس نہیں کیا کہ انھیں کبھی دماغ ودل کے درمیان کسی ’’مشاورت‘‘ کی صعوبت سے دو چار ہونا پڑا ہو۔سبب اس کا یہ تھا کہ جنرل صاحب نے ’’اصول کی غیرت‘‘ کا پرچم ہمیشہ سربلند رکھا اور ’’زباں‘‘ کا سوال تو کبھی اُن کے ہاں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اللہ نے انھیں بہت کچھ دے رکھا تھا اورا نھوں نے حرص وہوس سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیا۔
جنرل صاحب امیر مینائی کے اس شعر کی چلتی پھرتی تصویر بھی تھے اور تفسیر بھی
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
سارے جہاں کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عالمِ اسلام کا سچا درد ،وہ اپنے جگر میں محسوس کرتے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کا سن کر تو اُن کا دل پاش پاش ہوجاتا۔ کشمیر ،افغانستان ،بوسنیا ،اریٹریا،برما کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر وہ بہت کبیدہ خاطر ہوتے مگر اُن کی شدّت احساس صرف کبیدگی خاطر تک محدود نہ رہتی بلکہ وہ مسلمانوں کے مسائل ومعاملات کے حل کے لئے غورو فکر کے بعد نہایت قابل عمل تجاویز بھی پیش کرتے۔
جنرل حمید گل جہاد افغانستان کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جاتے رہیں گے۔ جنرل صاحب نے جب آئی ایس آئی کے چیف کے طور پر 1987ء میں چارج سنبھالا تو جہاد افغانستان اپنے عروج پر تھا۔ اس وقت کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آئی ایس آئی، پاک فوج اور پاکستانی عوام کی اشیر باد کے ساتھ جہاد افغانستان کو اس مقام پرلے جائے گی جہاں روس کو ناکوں چنے چبوائے جائیں گے اور روس کے پاس افغانستان خالی کرنے اور واپس اپنے وطن لوٹ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس کامیابی کے پیچھے جنرل ضیاء الحق کی جوانمردی اور منصوبہ بندی یقیناََ موجود تھی مگر افغان مجاہدین کے ساتھ براہ راست رابطہ استوار کرنا ،اس رابطے کو مستحکم کرنا ،اس رابطے میں کوئی دراڑ نہ آنے دینا بہت بڑا کام تھا، بہت بڑا ٹاسک تھا اور اس ٹاسک کو جس شخص نے نہایت حسن وخوبی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کا نام جنرل (ر) حمید گل ہے اگرچہ جنرل ضیاء الحق اورا ُن کے لائق وفائق جنرل (ر) حمید گل تو باریک چالوں کو بڑی حد تک سمجھتے تھے مگر جنرل ضیاء الحق کے آخری زمانے اور اس کے بعد کی سول حکومتیں ’’دوستوں‘‘ اور دشمنوں کی چالوں کو نہ سمجھ سکے اور جنیوا معاہدے کے جال میں آ گئے ۔جس کے نتیجے میں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمارے جملہ مسائل کا کافی وشافی علاج ’’نرم انقلاب‘‘ ہے، میرا جواب یہ ہوتا جنرل صاحب ! اگر ’’نرم انقلاب ‘‘ سے آپ کی مراد دعوت وارشاد ہے تو اس کے کئی ماڈل ہمارے ہاں موجود ہیں۔ ان ماڈلوں میں تبلیغی جماعت کی خاموش دعوت ہے جو اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنے معاشرے تک پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر اُن کا دعوی ہے کہ ہم اس دعوت کو ساری دنیا میں پھیلائیں گے ۔ پھر جماعت اسلامی کی دعوت اقامت دین ہے جسے وہ رابطہ عوام اورکتب بینی کے ذریعے لوگوں کو پہنچاتی ہے ۔اگر آپ کا نرم انقلاب بھی ایسی ہی کسی دعوت کا نام ہے تو مجھے یقین نہیں آتا کہ کسی قوّت نافذہ کے بغیر آپ کا یہ انقلاب کیسے برپا ہو گا۔ جنرل صاحب ایسے مواقع پر اپنی وسعت ِ مطالعہ کے تمام تر ہتھیاروںسے لیس ہو کر سامع کوگھائل اور قائل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے۔نوّے کی دہائی میں اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سالوں کے بعد جنرل حمید گل ایک دیو مالائی شخصیت کے طور پر پسند کئے جاتے تھے ۔
اور لوگ ہرجگہ اُن پر عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتے تھے میری رائے یہ تھی کہ جنرل صاحب کو اس وقت اپنے ’’نرم انقلاب‘‘ کی تفسیر بیان کرنے کے لیے کوئی عملی راستہ اختیار کر لینا چاہئے تھا۔ اس کی ایک شکل تو یہ ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی پسندکی کسی سیاسی ودینی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے یا پھر اپنے اسلامی وسیاسی افکار کی صورت گری کے لیے اپنی کوئی پارٹی تشکیل دیتے۔
جنرل صاحب کی اسلام اور پاکستان سے کمٹمنٹ مضبوط تھی۔ وہ اسلام ،دو قومی نظریہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہمیشہ شمشیرِبے نیام تھے۔ وہ کسی بھی قومی یا بین الاقوامی فورم پر کھل کر اور ڈٹ کر اور لگی لپٹی رکھے بغیر عالمِ اسلام اور پاکستان کی سربلندی کے لئے نعرہ مستانہ بلند کرتے اور امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی پالیسیوں کو نشانہ تنقید بناتے رہتے۔ جنرل صاحب کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُن کی نیکیوں کا پلڑا اُن کی خامیوں کے پلڑے سے بہت بھاری ہے۔ اللہ اُن کی حسنات کو قبول فرمائے اور اُن کی خامیوں سے درگزر فرمائے ۔آمین
 
حمید گل زندہ باد- مجیب الرحمن شامی

جنرل حمید گل79سال کے ہو چکے تھے، لیکن بڑھاپا اُن کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ گفتار، انداز، چال ڈھال میں جوان ہی نہیں، نوجوان تھے۔ آواز میں وہی کڑک تھی، برسوں پہلے جس سے میرے کان اُس وقت آشنا ہوئے تھے، جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔جنرل ضیاء الحق جب تک زندہ رہے، کسی دوسرے جرنیل کی طرف دیکھنے یا اُس سے ملنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اُن سے مل کر گویا پوری فوج سے مل لیا جاتا تھا۔ انہوں نے وردی کو اِس طرح بھینچا تھا کہ وہ ان ہی کی ہو کر رہ گئی تھی۔ حالات معمول پر رہتے تو1979ء میں ریٹائر ہو جاتے، لیکن ان کی مدت ِ ملازمت میں ''تاحکم ثانی‘‘ توسیع کر دی گئی۔ چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الحق نے فائل صدر ضیاء الحق کی خدمت میں بھجوائی اور انہوںنے بے چون و چرا آرمی چیف سے اتفاق کر لیا۔
حادثہ ٔ بہاولپور کے بعد ہمارے مکتب ِ فکر میں ہاہا کار مچی، تو باقیات کو سنبھالنے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نظریاتی احباب نے مجھے جنرل مرزا اسلم بیگ کی خدمت میں روانہ کیا۔ اُن کی رہائش گاہ پر اُن سے تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ اِس دوران جنرل حمید گل کا ذکر آیا۔ بیگ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے ملے ہیں، مَیں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چند ہی قدم کے فاصلے پر رہتے ہیں، ان سے بھی ملتے جائیے۔ پھر فون کر کے اُن کو اطلاع بھی دے دی۔ اُن کے ہاں پہنچا، تو وہ قاضی حسین احمد کو رخصت کر رہے تھے۔ تپاک سے ملے، اور مسکراتے ہوئے کہا، بیگ صاحب نے بتایا کہ آپ آنا چاہتے ہیں، تو مَیں نے کہا، فوراً بھجوا دیں، کہیں آپ کا ارادہ نہ بدل جائے۔ اس کے بعد جنرل حمید گل سے تعلق کی ایسی بنیاد پڑی کہ بہت سے جھٹکے کھانے کے باوجود وہ ٹوٹنے نہیں پایا۔ کبھی مَیں ڈھیل دے دیتا،کبھی وہ ڈھیلا چھوڑ دیتے، مراسم کا دھاگہ ہم دونوں کو باندھے رہا۔گرہ پڑی بھی تو کسی نہ کسی طور اسے کھول لیا گیا۔ کبھی ہاتھوں سے، کبھی دانتوں سے، اور کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔
جنرل صاحب آئی ایس آئی سے رخصت ہوئے، ملتان پہنچے، وہاں سے واپس آئے۔ آئی جے آئی بنی، انتخابات ہوئے، بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں، نواز شریف نے اُن کی جگہ لی بہت کچھ ہوا، لیکن بہت کچھ نہ ہو پایا۔ میرے جیسوں کی خواہش تھی کہ حمید گل چیف آف آرمی سٹاف بنیں، لیکن یہ دستار جنرل آصف نواز کے سر پر رکھ دی گئی۔ قلم جنرل حمید گل پر فریفتہ تھا، جنرل آصف نواز نے لاہور میں یاد فرمایا، اور اطمینان سے سمجھایا کہ فوج میں اب اُن کا سکہ چلنا ہے، کسی اور کو، کسی اور کا، کوئی اور خیال دِل میں نہیں پالنا چاہئے۔ حمید گل کو ٹیکسلا کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس کا سربراہ بنا دیا گیا، وہ اس پر بھنا گئے۔ انہوں نے ٹیکسلا جانے کے بجائے وزارتِ دفاعی پیداوار میں رپورٹ کیا، کہ(ان کے نزدیک) اس طرح حکم کی تعمیل ہو گئی تھی۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس وزارت ِ دفاعی پیداوار کے تحت تھا، لیکن ان کی یہ فقہی توجیہ قبول نہ ہو پائی، انہیں ریٹائر ہونا پڑا۔
نواز شریف وزیراعظم بنے تو سان گمان میں نہ تھا کہ اُن کی جنرل بیگ سے ٹھن جائے گی۔ مسلم لیگ کو ج(جونیجو) سے ن تک لانے میں ان کا اور جنرل حمید گل کا ہاتھ چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ ان ہی کی تھپ تھپاہٹ سے پنجاب حکومت اپنے قدموں پر کھڑی رہی۔ غلام اسحاق کو وہ مٹھی میں بند کر چکے تھے یا یہ کہیے کہ غلام اسحاق ان سے طاقت حاصل کر رہے تھے، اور ان کی طاقت بھی بنے ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی جگہ ان کا منصب ِ صدارت سنبھالنا بیگ+گل کے بغیر ممکن نہ تھا۔ نواز شریف وزیراعظم بنے، تو بیگ صاحب اپنی جگہ سرشار تھے کہ وہ خود کو وزیراعظم کا سرپرست سمجھتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نواز شریف کو اپنا (اور غلام اسحاق کو اپنا) رعب قائم رکھنے کے لئے انہیں ٹوکنا پڑا، یہاں تک کہ اُن کی باقاعدہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا۔ سمجھا یہی جا رہا تھا کہ بیگ کی جگہ حمید گل لیں گے، لیکن معاملہ نواز شریف کے ہاتھ میں نہیںتھا۔ آٹھویں ترمیم نے فوجی سربراہوں کی تقرری کا اختیار بلا شرکت ِ غیرے صدر کو دے رکھا تھا۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اختیار نواز شریف کے ہاتھ میں ہوتا تو بھی فوجی قیادت حمید گل کو سونپ دی جاتی کہ ان کی عقابی روح پر شبہ ہو ہو جاتا تھا کہ اسے اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگے گی۔
جنرل حمید گل نوکری پیشہ نہیں تھے۔ اُنہیں ملازمت کی تلاش فوج میں نہیں لائی تھی۔ ان کا رشتہ اپنی تاریخ سے مضبوط تھا، اور وہ فوجی زندگی کو عظمت ِ رفتہ کی تلاش کا ذریعہ سمجھنے والوں میں تھے۔ ان کی قادر الکلامی اور وسعت ِ مطالعہ نے انہیںایک افسانوی کردار بنا دیا تھا، جو بھی ان سے ملتا گرویدہ ہو جاتا یا مرعوب۔ ان کے مخالف بھی ان کی ذہانت اور بیدار مغزی کی داد دیے بغیر نہ رہتے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی فوج کا نظریاتی تشخص گہرا ہوا، اور ماحول پر پاکستانی رنگ غالب آتا گیا، تو حمید گل کے جوہر بھی کھلے۔ حوصلہ افزائی اور سرپرستی نے غنچے کو پھول بنا دیا۔ وہ ملٹری انٹیلی جنس میں رہے، آئی ایس آئی میں جنرل اختر عبدالرحمن کے بعد اس کی سربراہی سنبھالی۔ جہادِ افغانستان ان کے عقیدے کا حصہ تھا۔اگرچہ ان کے ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ہی افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی طے ہو چکی تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے جذبات کو افغان جذبوں میں مدغم کر لیا۔... ان کے آنے کے چند روز بعد اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا، کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقا فضائی حادثے کا شکار ہو گئے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ملبے تلے دبنے سے بچا لیا۔ ان کا طلسماتی تشخص اور الفاظ پر قدرت ان کی حفاظت کرتے اور انہیں آگے بڑھاتے رہے۔ وہ جنرل اختر عبدالرحمن کی طرح خاموش مجاہد نہیں تھے، دیکھے، سُنے اور محسوس کیے جاتے تھے۔ ان کے دور میں آئی ایس آئی پردے سے نکل آئی، اور اپنے وجود کا احساس دِلا کر پھول پھول جاتی رہی۔ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں ان کے سیاسی حریف آئی جے آئی کی صورت یک جا ہوئے تو اسے جنرل حمید گل کا کارنامہ سمجھا گیا۔ پیپلزپارٹی کے33فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے سامنے بند باندھا جا سکتا تھا، سوباندھ دیا گیا۔ دوسرا بڑا سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آ کر سسٹم کو توازن بخشنے کا دعویدار بن گیا۔ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد افغان مجاہدین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ جلال آباد پر قبضہ کر کے وہاںافغان حکومت کے قیام کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ سوویت فوجوں کے خلاف مزاحمت کے دوران جو کچھ حاصل کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ناممکن ہوتی چلی گئی۔ وہ افغان مجاہد جنہوں نے جغرافیے اور تاریخ کو نئے سبق سکھائے تھے، ایک دوسرے سے اُلجھ کر اپنے آپ کو گدلا کر بیٹھے۔ ان کے بہت سے عقیدت مندوں کے لیے دِل تھامنا مشکل ہو گیا۔ خواب چکنا چور ہوتے چلے گئے۔
حمید گل نے ریٹائرمنٹ کے بعد بہت کچھ کرنا چاہا، لیکن زیادہ کچھ نہ کر سکے، نہ کوئی ڈھنگ کا پریشر گروپ بنا، نہ تھنک ٹینک، نہ ہی مبسوط مقالے لکھے، نہ افغان جہاد پر کوئی تفصیلی کتاب لکھی گئی۔ وہ سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتے تو ان کی صلاحیتیں پٹڑی پر چڑھ جاتیں، لیکن وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے۔ مبینہ طور پر اپنے بنائے ہوئے 'بتوں‘ کے سامنے کورنش بجا لانا ممکن نہ ہو پایا۔ حالانکہ برہمن اپنے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔کبھی نرم انقلاب کی بات کی، کبھی احتساب کا نعرہ لگایا، کبھی مارشل لاکے خلاف سینہ سپر ہوئے، کبھی اہل ِ سیاست سے مایوس ہوگئے،کبھی پارٹیوں کو متحد کیا، کبھی ان کو سیاسی فرقہ قرار دے کر خلافِ اسلام سمجھ لیا، ان کی بے تابیوں نے انہیں ٹکنے نہ دیا۔ امریکہ اور ہندوستان ان کی نگاہ میں کھٹکتے رہے۔ وہ انہیںایک ہی سکے کے دو رُخ قرار دیتے تھے، لیکن ان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ چلے ہوئے کارتوسوں کو ایٹم بم سمجھ بیٹھے تھے۔وہ مفاد پرست نہیں تھے۔ ان کی شہرت نظریہ ساز کی رہی۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان کا احترام کرتے تھے، اور اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں ڈھالنے والے وہ بھی نہ تھے۔ ہر شخص ان سے ہر بات کر سکتا تھا۔ ان کے رابطے وسیع تھے، وہ دِلوں میں جگہ بنانے کے فن سے آشنا تھے۔چیف آف آرمی سٹاف نہ بننے، اور کوئی بھی قلعہ فتح نہ کرنے کے باوجود وہ اپنے مداحوں کی نظر میں سپہ سالار ہی کا مقام رکھتے تھے، اور ان مداحوں کی تعداد کسی طور کم نہیں تھی۔ دشمن انہیں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ سمجھتے تھے، اور دوست بھی ان سے طاقت حاصل کرتے تھے۔ واشنگٹن سے دہلی تک انہیں محسوس کیا جاتا تھا، ان کی دھمک سنی جاتی تھی۔ بلاشبہ وہ اپنے جذبوں کے اعتبار سے ایک عظیم پاکستانی اور ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے جنازے میں لوگ پورے پاکستان سے امڈ آئے تھے، دیوانہ وار زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، کہ اپنا زمانہ آپ بنانے والے اور اپنے لوگوں کا دم بھرنے والے جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں، دِلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/mujeeb-ur-rehman-shami/2015-08-23/12382/74959802#tab2
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top