جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی زمین میں ایک بے تکی غزل

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی زمین میں ایک بے تکی غزل کہنے کی جسارت کی ہے۔
اگرچہ غزل میں بھرتی کے اشعار زیادہ ہیں مگر پھر بھی اس لئے گوارا ہے کہ چلو عروض کی مشق ہو جائے گی۔

مرا دل آگ میں اپنی جلا آہستہ آہستہ​
مجھے یہ زخم کس نے ہے دیا آہستہ آہستہ​
کہ جیسے تُو ہُوا مجھ سے خفا آہستہ آہستہ​
تری چاہت کا دیپک بھی بجھا آہستہ آہستہ​
قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ​
شبِ ظلمت کا اندھیرا چھٹا آہستہ آہستہ​
تُو اپنے زخم مجھ کو مت دِکھا آہستہ آہستہ​
تجھے مجھ سے شکایت ہے؟ بتا آہستہ آہستہ​
اگر بے تابیاں ہوں ایسی تو منزل بھلا کیسی​
مرے کوچے میں آنا ہے تو آ آہستہ آہستہ​
مجھے ایسے عہد سے کچھ امیدیں بھی نہیں باقی​
نشہ جامِ سبو کا تو چڑھا آہستہ آہستہ​
میں ابروئے فلک میں یوں تماشا بن گیا جیسے​
مٹی تیری ہتھیلی سے حنا آہستہ آہستہ​
مرے دل میں تری آہٹ نے یوں کروٹ لی جاناں​
ہُوا جیسے حشر دل میں بپا آہستہ آہستہ​
مرے احساس کی چوکھٹ پہ دستک دی کسی نے یوں​
اترتا جیسے ہو بندِ قبا آہستہ آہستہ​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فعولان کیا رکن ہے بھئی ؟؟؟ چاروں مفاعیلن ہیں.
اچھی غزل ہے.

حیرت کی بات ہے جو بنیادی بحر تھی، میں نے اُس کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔
غزل کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔
استادِ محترم کی آمد سے پہلے کچھ غلطیاں ہی بتا دیں تاکہ اُن کی اصلاح سے پہلے پہلے کچھ کام کر لیا جائے۔
 
خوبصورت غزل ہے۔ داد قبول کیجیے۔
ویسے ہماری صلاح بھی ملاحظہ کیجیے
قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ​
شبِ ظلمت کا اندھیرا چھٹا آہستہ آہستہ​
( آپ نے نون غنہ کے بجائے نون باندھا ہے)​
مرے دل میں تری آہٹ نے یوں کروٹ ہے لی جاناں​
ہُوا جیسے حشر دل میں بپا آہستہ آہستہ​
( آپ نے حَشَر باندھا ہے، اصل لفظ حَشر، بفتحِ اول و سکونِ دوم و سوم ہے)​
مرے احساس کی چوکھٹ پہ دستک دی کسی نے یوں​
اترتا جیسے ہو کوئی ہو کھولتا بندِ قبا آہستہ آہستہ​
( اگرچہ پہلے مصرع میں ’دھیمے سے‘ اور دوسرے مصرع میں ’سست روی‘ کے معنی استعمال ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ بندِ قبا اترتا نہیں کھُلتا ہے، قبا اُترتی ہے:) )​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
زبردست خلیل سر

قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ
شبِ ظلمت کا اندھیرا چھٹا آہستہ آہستہ
( آپ نے نون غنہ کے بجائے نون باندھا ہے)
اس کا مجھے کچھ کچھ اندازہ تو تھا مگر میں نے سوچا کہ اگر کوئی غلطی ہوئی تو محفل پہ پتہ لگ جائے گی۔
مرے دل میں تری آہٹ نے یوں کروٹ ہے لی جاناں
ہُوا جیسے حشر دل میں بپا آہستہ آہستہ
( آپ نے حَشَر باندھا ہے، اصل لفظ حَشر، بفتحِ اول و سکونِ دوم و سوم ہے)
اس کا بالکل نہیں پتہ تھا، یعنی اس کا تلفظ ایسے ہی ہے جیسے "عمر" ہے۔
مرے احساس کی چوکھٹ پہ دستک دی کسی نے یوں
اترتا جیسے ہو کوئی ہو کھولتا بندِ قبا آہستہ آہستہ
( اگرچہ پہلے مصرع میں ’دھیمے سے‘ اور دوسرے مصرع میں ’سست روی‘ کے معنی استعمال ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ بندِ قبا اترتا نہیں کھُلتا ہے، قبا اُترتی ہے:) )
یہ بھی ایک معلوماتی بات ہے۔

اصلاح اور غزل کی پسندیدگی کے لئے بہت بہت شکریہ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آپ کے مشوروں کی روشنی میں کی گئی چند تبدیلیاں​
مرا دل آگ میں اپنی جلا آہستہ آہستہ​
مجھے یہ زخم کس نے ہے دیا آہستہ آہستہ​
کہ جیسے تُو ہُوا مجھ سے خفا آہستہ آہستہ​
تری چاہت کا دیپک بھی بجھا آہستہ آہستہ​
قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ​
شبِ ظلمت کا پردہ بھی ہٹا آہستہ آہستہ​
تُو اپنے زخم مجھ کو مت دِکھا آہستہ آہستہ​
تجھے مجھ سے شکایت ہے؟ بتا آہستہ آہستہ​
اگر بے تابیاں ہوں ایسی تو منزل بھلا کیسی​
مرے کوچے میں آنا ہے تو آ، آہستہ آہستہ​
مجھے ایسے عہد سے کچھ امیدیں بھی نہیں باقی​
نشہ جامِ سبو کا تو چڑھا آہستہ آہستہ​
میں ابروئے فلک میں یوں تماشا بن گیا جیسے​
مٹی تیری ہتھیلی سے حنا آہستہ آہستہ​
مرے دل میں تری آہٹ نے یوں کروٹ لی جاناں​
کہ جیسے حشر ہو دل میں بپا آہستہ آہستہ
مرے احساس کی چوکھٹ پہ دستک دی کسی نے یوں​
کوئی ہو کھولتا بندِ قبا آہستہ آہستہ
 

الف عین

لائبریرین
مرا دل آگ میں اپنی جلا آہستہ آہستہ
مجھے یہ زخم کس نے ہے دیا آہستہ آہستہ
//زخم آہستہ آہستہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ یہ مصرع بدل دو۔

کہ جیسے تُو ہُوا مجھ سے خفا آہستہ آہستہ
تری چاہت کا دیپک بھی بجھا آہستہ آہستہ
//یہاں بھی آہستہ کا استعمال محل نظر ہے۔ پہلے مسرع میں، اس کو تو بآسانی بدلا جا سکتا ہے، حسن مطلع کی کیا ضرورت ہے!!
کہ جیسے مجھ سے تو ناراض ہو جائے محبت میں
دیا پھر تیری چاہت کا بجھا آہستہ۔۔۔

قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ
شبِ ظلمت کا اندھیرا چھٹا آہستہ آہستہ
//قمر سورج سے اچھا نہیں لگ رہا، زمین ویسے ہی سنگلاخ ہے، پھر اتنے مطلعوں کی کیا ضرورت ہے؟

تُو اپنے زخم مجھ کو مت دِکھا آہستہ آہستہ
تجھے مجھ سے شکایت ہے؟ بتا آہستہ آہستہ
//یہاں بھی ردیف کی گڑبڑ ہے۔

اگر بے تابیاں ہوں ایسی تو منزل بھلا کیسی
مرے کوچے میں آنا ہے تو آ آہستہ آہستہ
//یہاں آہستہ آہستہ درست آ سکتا ہے، لیکن ’ایسی تو منزل بھلا کیسی‘ سے مراد؟ بہتر ہو کہ یہی مطلب رکھو جو میں سمجھا ہوں۔
اگر بے تابیاں ہیں، پھر بھی کچھ تو صبر لازم ہے
مرے کوچے میں آنا ہے تو آ آہستہ آہستہ

مجھے ایسے عہد سے کچھ امیدیں بھی نہیں باقی
نشہ جامِ سبو کا تو چڑھا آہستہ آہستہ
//یہ بھی مفہوم طلب ہے۔ عہد کا تلفظ بھی غلط باندھا گیا ہے۔

میں ابروئے فلک میں یوں تماشا بن گیا جیسے
مٹی تیری ہتھیلی سے حنا آہستہ آہستہ
//ابرو میں تماشا بننا۔۔۔ سمجھ میں نہیں آیا۔

مرے دل میں تری آہٹ نے یوں کروٹ لی جاناں
ہُوا جیسے حشر دل میں بپا آہستہ آہستہ
//حشر تو کبھی آہستہ آہستہ نہیں ہوتا۔ حشر کا تلفظ بھی غلط استعمال ہو رہا ہے۔

مرے احساس کی چوکھٹ پہ دستک دی کسی نے یوں
اترتا جیسے ہو بندِ قبا آہستہ آہستہ
//بند قبا کھلتے ہیں، اترنے نہیں۔
کہ جوں کھل جائیں وہ بند قبا
کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ غزل اس قابل نہیں کہ زیادہ اصلاح کی محنت بھی کی جائے، اسے محض مشق کے لئے سمجھ لو۔ سبق یہ نکلا کہ ہر زمین ایسی نہیں ہوتی کہ ہر کس و ناکس اسے نبھا سکے۔ آہستہ آہستہ ردیف کی اساتذہ کی غزلوں پر غور کرو، اور ان کی روشنی میں اس غزل کو دیکھو۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مرا دل آگ میں اپنی جلا آہستہ آہستہ
مجھے یہ زخم کس نے ہے دیا آہستہ آہستہ
//زخم آہستہ آہستہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔ یہ مصرع بدل دو۔

کہ جیسے تُو ہُوا مجھ سے خفا آہستہ آہستہ
تری چاہت کا دیپک بھی بجھا آہستہ آہستہ
//یہاں بھی آہستہ کا استعمال محل نظر ہے۔ پہلے مسرع میں، اس کو تو بآسانی بدلا جا سکتا ہے، حسن مطلع کی کیا ضرورت ہے!!
کہ جیسے مجھ سے تو ناراض ہو جائے محبت میں
دیا پھر تیری چاہت کا بجھا آہستہ۔۔۔

قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ
شبِ ظلمت کا اندھیرا چھٹا آہستہ آہستہ
//قمر سورج سے اچھا نہیں لگ رہا، زمین ویسے ہی سنگلاخ ہے، پھر اتنے مطلعوں کی کیا ضرورت ہے؟

تُو اپنے زخم مجھ کو مت دِکھا آہستہ آہستہ
تجھے مجھ سے شکایت ہے؟ بتا آہستہ آہستہ
//یہاں بھی ردیف کی گڑبڑ ہے۔

اگر بے تابیاں ہوں ایسی تو منزل بھلا کیسی
مرے کوچے میں آنا ہے تو آ آہستہ آہستہ
//یہاں آہستہ آہستہ درست آ سکتا ہے، لیکن ’ایسی تو منزل بھلا کیسی‘ سے مراد؟ بہتر ہو کہ یہی مطلب رکھو جو میں سمجھا ہوں۔
اگر بے تابیاں ہیں، پھر بھی کچھ تو صبر لازم ہے
مرے کوچے میں آنا ہے تو آ آہستہ آہستہ

مجھے ایسے عہد سے کچھ امیدیں بھی نہیں باقی
نشہ جامِ سبو کا تو چڑھا آہستہ آہستہ
//یہ بھی مفہوم طلب ہے۔ عہد کا تلفظ بھی غلط باندھا گیا ہے۔

میں ابروئے فلک میں یوں تماشا بن گیا جیسے
مٹی تیری ہتھیلی سے حنا آہستہ آہستہ
//ابرو میں تماشا بننا۔۔۔ سمجھ میں نہیں آیا۔

مرے دل میں تری آہٹ نے یوں کروٹ لی جاناں
ہُوا جیسے حشر دل میں بپا آہستہ آہستہ
//حشر تو کبھی آہستہ آہستہ نہیں ہوتا۔ حشر کا تلفظ بھی غلط استعمال ہو رہا ہے۔

مرے احساس کی چوکھٹ پہ دستک دی کسی نے یوں
اترتا جیسے ہو بندِ قبا آہستہ آہستہ
//بند قبا کھلتے ہیں، اترنے نہیں۔
کہ جوں کھل جائیں وہ بند قبا
کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ غزل اس قابل نہیں کہ زیادہ اصلاح کی محنت بھی کی جائے، اسے محض مشق کے لئے سمجھ لو۔ سبق یہ نکلا کہ ہر زمین ایسی نہیں ہوتی کہ ہر کس و ناکس اسے نبھا سکے۔ آہستہ آہستہ ردیف کی اساتذہ کی غزلوں پر غور کرو، اور ان کی روشنی میں اس غزل کو دیکھو۔

جی استادِ محترم ایسا ہی کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔
 
Top