جمہوریۂ وسطی افریقہ کے مسلمان نقل مکانی پر مجبور

جمہوریۂ وسطی افریقہ میں کئی ہفتوں سے جاری، عیسائی مسلم فسادات پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا اور تازہ اطلاعات کے مطابق ان فسادات میں مزید دس افراد مارے گئے ہیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایک سینیئر اہلکار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جمہوریۂ وسطی افریقہ میں منظم طریقے سے، مسلمانوں پر تشدد کر کے، اُنہیں نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے، اور وہ دن دور نہیں جب ملک سے مسلم اقلیت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
اتوار کو مسلم آبادی پر حملوں کے خلاف تقریر کرنے والے ملک کی پارلیمان کے رکن جین ایمینوئل نجاروا کو بھی مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر پیٹر بوکارٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید دس ہلاکتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ انھوں نے دارالحکومت بنگوئی میں خود اپنی آنکھوں سے ایک مسلمان کو قتل ہوتے دیکھا۔
ان کے مطابق یہ کارروائی اس علاقے میں مبینہ طور پر مسلم جنگجوؤں کی جانب سے چھ افراد کے قتل کے ردعمل میں کی گئی۔
"اب زیادہ تر تشدد عیسائیوں کی ملیشیا اینٹی بلاکا کی طرف سے ہو رہا ہے۔ وہ بڑے منظم طریقے سے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ملیشیا سیلیکا بھی گھوم پھر رہی ہے۔ مسلم علاقے بالکل خالی ہوتے جا رہے ہیں۔"
پیٹر بوکارٹ
جمہوریۂ وسطی افریقہ میں گذشتہ برس فوجی بغاوت کے بعد سے مسیحی اور مسلم آبادی برسرِپیکار ہے اور اب تک تیس ہزار مسلمان چاڈ، اور دس ہزار کیمرون نقل مکانی کر چکے ہیں۔
پیٹر بوکارٹ کے مطابق جمہوریۂ وسطی افریقہ میں عیسائی مسلم عداوت، انتہا کو پہنچ چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ملک سے مسلمانوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اب زیادہ تر تشدد عیسائیوں کی ملیشیا اینٹی بلاکا کی طرف سے ہو رہا ہے۔ وہ بڑے منظم طریقے سے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ملیشیا سیلیکا بھی گھوم پھر رہی ہے۔ مسلم علاقے بالکل خالی ہوتے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں بانگی کے سب سے بڑے تاجر سے ملا۔ اُس نے بتایا کہ اُس کے پاس کچھ نہیں بچا اور وہ بھی چاڈ نقل مکانی کرنے لگا ہے، جیسا کہ اُس سے پہلے دسیوں ہزاروں مسلمانوں نے کی۔‘
افریقہ کے غریب ترین ملکوں میں شامل جمہوریۂ وسطی افریقہ میں عیسائی مسلم کشیدگی گزشتہ سال اُس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں کے مسلح باغی گروہ سیلیکا نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
پھر ملک میں پہلی بار مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے مشعل جِتودیا نے عبوری صدارت سنبھالی لیکن حالات بگڑنے پر گزشتہ ماہ وہ بھی عالمی برادری کے دباؤ پر مستعفی ہو گئے۔
دو ماہ سے جاری کشیدگی پر قابو پانے کے لیے، فرانس اور افریقی یونین نے اپنے فوجی دستے وہاں بھیجے لیکن صورتحال سنگین ہوتی چلی گئی۔
خیراتی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں تمام برادریاں تشدد کا نشانہ بنی ہیں لیکن اب مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/02/140209_car_muslims_migration_zs.shtml
 
اس قتل عام کو رکوانے کے لئے کیا اقوام متحدہ حرکت میں آئے گی؟
او آئی سی کو تو کم از کم مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنی چاہئے۔
 
ڈی ڈبلیو کی ویب سائٹ پر بھی یہ خبر موجود ہے:
اسی ویک اینڈ پر وسطی افریقی جمہوریہ میں عبوری پارلیمنٹ کے ایک رکن سمیت تیرہ سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ مذہبی منافرت کے باعث مختلف علاقوں کے مسلمان خوف و ہراس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
شورش زدہ افریقی ملک وسطی افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت بنگوئی میں تشدد کے تازہ واقعات کے دوران اسی ویک اینڈ پر تیرہ افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ تین افراد کل اتوار کی سہ پہر میں قتل ہوئے۔ ان میں دو مسلمانوں کو مشتعل مسیحی گروپوں نے دو مختلف مقامات پر ہلاک کیا جبکہ مسلمانوں نے بھی ایک مسیحی کو اس شک پر مار ڈالا کہ اُس نے مسجد پر دستی بم پھینکا تھا۔ ہفتہ اور اتوار کو شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رہا اور کئی عمارتوں کو بھی بلوائیوں تے آگ لگائی۔
0,,17399416_303,00.jpg

بنگوئی کے شمال مغرب کے نواح میں آباد بڑی مسلم آبادی پوری طرح نقل مکانی کر چکی ہے
اتوار کے روز مسیحی ملیشیا نے وسطی افریقی جمہوریہ کی عبوری پارلیمنٹ کے رکن ایمانویل دجاراوا (Emmanuel Djarawa) کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق دجاراوا کو مسیحیوں کی اینٹی بالاکا ملیشیا نے ہلاک کیا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اینٹی بالاکا مسیحی ملیشیا کئی ہفتوں سے دجاراوا کے معمولات پر باقاعدگی سے نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ بنگوئی میں قائم عبوری حکومت نے ابھی تک دجاراوا کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ اِس دوران بنگوئی یونیورسٹی کے چانسلر گُستاو بوبوسی نے یونیورسٹی کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ بنگوئی یونیورسٹی کئی ماہ کی بندش کے بعد آج پیر سے کھل رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں پرتشدد واقعات میں تسلسل کے تناظر میں وسطی افریقی جمہوریہ کے مسلمانوں کو انتہائی سنگین اور پرخطر حالات کا سامنا ہے۔ ہزاروں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ابھی تک ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی درست تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔ افراتفری کے شکار اس افریقی ملک میں فرانسیسی فوجیوں کے علاوہ افریقی امن دستے بھی موجود ہیں لیکن مسلمان آبادی کے حالات بہتر نہیں ہو پا رہے اور مسلح مسیحی ملیشیا کے اراکین حملے کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے پیٹر بُوکیرٹ کے مطابق اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہلاکتوں کے سلسلے کو فوری طور پر روکا جائے۔
افراتفری کے شکار اس افریقی ملک میں فرانسیسی فوجیوں کے علاوہ افریقی امن دستے بھی موجود ہیں
وسطی افریقی جہوریہ کی کُل آبادی 46 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اِس میں مسلم آبادی کا حصہ 15 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 8 لاکھ افراد مہاجرت اختیار کر کے دوسرے مقامات کی جانب منتقل ہو گئے ہیں اور ان میں سے نصف لوگ بنگوئی سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ہفتے کے روز عبوری حکومت کے وزیراعظم آندرے نزاپائیکی (Andre Nzapayeke) نے اعتراف کیا کہ کوئی ایسی قوت موجود ہے جو نہیں چاہتی کے اِس ملک میں مسلمان موجود رہیں۔
پچھلے جمعے یعنی سات فروری کو بنگوئی سے ہزار ہا مسلمانوں کا قافلہ کئی گاڑیوں پر سامان لاد کر جب نقل مکانی کے لیے روانہ ہوا تو ارد گرد کھڑے بے شمار مسیحی افراد نے ان پر آوازے کسنے کے ساتھ اُن کا مذاق بھی اُڑایا۔ اس دوران ایک شخص ٹرک سے نیچے گر پڑا تو مذاق اڑانے مسیحیوں نے اُسے ہلاک کر دیا۔ جن علاقوں کے مسلمان ابھی تک نقل مکانی نہیں کر سکے وہ مساجد میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور حکومتی سکیورٹی کے منتظر ہیں۔ بنگوئی کے شمال مغرب کے نواح میں آباد بڑی مسلم آبادی پوری طرح نقل مکانی کر چکی ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق مسلم آبادی والے تمام علاقے ویران ہو گئے ہیں۔
 
Top