جعلی پیر،سادہ لوح عوام اور طلسم کدے

گوہر

محفلین
تحریر: محمدالطاف گوہر
میرے ایک گزشتہ کالم"اکیسویں صدی کے جدید ٹھگ "کے شائع ہونے سے اب تک کافی تعداد میں آپکے ای میل موصول ہوئے جن میں اگر ایک طرف اس موضوع پر کالم کو پسند کیا گیا تو دوسری طرف ایک اور موضوع کیطرف توجہ بھی دلائی گئی ، یعنی جعلی پیر ، اس موضوع پر بھی لکھنے کا اصرار کیا گیا۔حالانکہ اس موضوع پر کافی تعداد میں اور تفصیل کے ساتھ چند ایک مضامین مختلف لکھاری لکھ چکے ہیں مگر پھر بھی اس کے بارے میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
آج ایک خبر نظر سے گزری کہ ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے علاقے گگو منڈی میں ایک جعلی پیر نے گرم سلاخوں سے داغ کر ایک خاتون کو مار ڈالا، وہاڑی پولیس تفصیلات کے مطابق ایک تیس سالہ خاتون کو اسکا شوہر لاہور سے وہاڑی کے علاقے میں جن اتروانے کی غرض سے ایک نام نہاد عامل ، جعلی پیر کے پاس لایا جس نے اپنے جن اترنے کے عمل کے دوران خاتون کے جسم کو گرم سلاخوں سے داغا اور ڈنڈے بھی مارے جس سے خاتون موقع پر ہی ہلاک ہو گئی جبکہ عامل اور خاتون کا شوہر موقع سے فرار ہوگئے۔ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس تھانہ گگو منڈی نے لاش قبضہ میں لیکر جعلی پیر جان محمد اور خاتون زاہدہ کے شوہر نواز کیخلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کر دیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ ان معاملات کے محرکات کیا ہیں ، حیرت ہوتی ہے کہ اگر لفظ جعلی پیر استعمال کیا جاتا ہے تو کیا عوام اتنے ہی سادہ لوح ہیں کہ اس اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی ایسے حالات کے دھارے پر بہہ جاتے ہیں کہ انکو احساس تک نہیں ہوتا کہ نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں؟مذہبی عقیدت اور روحانیت کی آڑ لے کر کچھ لوگوں نے جو کاروبار شروع کر رکھا ہے اسکے بارے میں اکثر لوگوں کو بات کرتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے ۔ اور یہ ناخدا اپنی دکانداری بڑے شاندار طریقے سے چلا رہے ہیں۔جادو کی تاریخ انسانی تاریخ کی مانند بہت قدیم ہے جادو ایک علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جادو کا بانی ابلیس تھا جس نے انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے اور انہیں گمراہ کرنے کا چیلنج کیا تھا اور خدا نے اس کے وسوسوں سے بچنے کی تاکید کی تھی حضرت موسی کے دور میں سامری جادو گر بہت مشہور تھا مگر حضرت موسیٰ کی خدائی طاقت اور ایمان کے سامنے اس کی تمام شعبدے بازیاں کام نہ کر سکیں۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے حق کی قوتیں کام کرتی رہیں ویسے ہی بدی کی طاقتیں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھاتی رہیں اور بدی کا ساتھ دینے والے شیطانی علوم سے عوام الناس کو مختلف مصائب میں مبتلا کرتے رہتے ہیں ۔
جناب محمد ہارون عباس کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ لوگ نہ صرف کالے علم کی مختلف اقسام جیسے جنتر، منتر اور تنتر سے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرتے ہیں بلکہ روحوں ، موکلوں اور فرضی بلاؤں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے ہزاروں روپے بٹور تے ہیں جبکہ بعض چالباز اور دولت کے پجاری عامل زہر سے لکھ کر تعویز دیتے ہیں جس کو گھول کر پینے والا نہ صرف مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ بسا اوقات ہلاک ہو جاتا ہے اور بعض اوقات زہر کے اثر کی وجہ سے پاگل ہو جاتاہے اور بعض اوقات عالمِ دیوانگی میں خود کشی کر کے ہلاک ہوجاتا ہے۔لاہور شہرکاکوئی ایسا محلہ ،گلی ،بازار یا علاقہ نہیں ہے کہ جہاں پر کالے علم کے ذریعے کام کرنے والے جادوگر موجود نہ ہوں۔
آستانوں میں عامل اور جعلی پیر تعویذوں کو اصلی زعفران سے لکھنے کے لیے بھاری رقم طلب کرتے ہیں۔ بکروں کا صدقہ دینے کے لیے بھی رقم طلب کی جاتی ہے۔ ان مبینہ جعلی پیروں اور نجومیوں کے چکر میں آکر خواتین اپنے زیورات گنواء بیٹھتی ہیں جبکہ ان آستانوں میں مبینہ طور پر خواتین کو بے آبرو کرنے کے بھی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جبکہ عام آدمی کی طرح ہمارا حکمران طبقہ بھی اس طرح کے لوگوں سے کافی متاثر رہا ہے۔کالا جادو کرنے والوں نے سندھ، راولپنڈی اور پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور بھی میں ہزاروں کی تعداد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ لاہور شہر میں 5 ہزار سے زائد افراد نے جادو ٹونے کرنے کے ڈیرے بنائے ہوئے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں نے یہ دھندا اپنے گھروں پر شروع کیا ہوا ہے۔ معاشی اور سماجی بے چینیوں میں مبتلا لوگ روزی اور روٹی کی طلب میں ان باتونی اور چالباز عاملوں کی باتوں میں آ کر نہ صرف حقیقت کی دنیا سے دور ہو جاتے ہیں بلکہ اپنا دین اور ایمان بھی گنوا دیتے ہیں جبکہ خواتین اپنی عزتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔دیکھتی آنکھوں اس ہونے والے ظلم اور زیادتی کے خلاف نہ کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے ان کے خلاف کاروائی کی۔
حقیقت یہ ہے ان کالا جادو کرنے کے دعوے کرنے والے تمام پروفیسر اور عامل دراصل کالے جادو کی ابتدائیات سے بھی ناواقف ہو تے ہیں۔ اور صرف اور صرف فون کالز پر اپنے ''کلائنٹس'' کو ''ڈیل'' کرتے ہیں۔ انہیں صرف ایک فون کالز پر اپنے تمام مسائل کے حل کی نوید سناتے ہیں۔ اور اگلے دن فون کرنے کو کہتے ہیں۔ جب دوسرے دن ''کلائنٹ' فون کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ ہم نے تمہارے کام کے متعلق رات موکلین کو بلاکر ''حاضری'' کی ہے۔ اور اس کے مطابق اس کام پر ''چھ ہزار روپے'' خرچہ آئے گا۔ اور یہ '' خرچہ'' تمہیں کل تک بھیجنا ہے۔ ورنہ موکل ناراض ہو جائیں گے۔ اور تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
معاشی ،سماجی اور گھریلو حالات سے پریشان ہو کر لوگ ان کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنا سب کچھ حتی کہ دین اور ایمان بھی گنوا بیٹھے ہیں جبکہ عورتیں گھریلو جھگڑوں جیسے شوہر بیوی کی ناچاقی ، ساس سسر کا مسلہ، نندوں کے طعنوں سے تنگ آ کر ان کے پاس جاتی ہیں جن میں سے اکثر اپنی عزت بھی گنوا دیتی ہیں۔یہ کالے جادوگر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور خود کو روحانی سکالر ، روحانی ڈاکٹر، عاملوں کا سردار ،جنات کا بادشاہ ،موکلوں کا مالک اور پیر کامل اور جنات والے ظاہر کرتے ہیں اور اپنا تعلق بنگال،کیرالا، کالی گھاٹ ،تبت، نیپال ،وار سندر کے ہندو پجاریوں سے ملاتے ہیں بعض جعلی عامل خود کو حکومت کا منظور شدہ عامل بتلا کر پرائز بانڈ کا نمبر دینے کا دھندا بھی کرتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیکر ان سے ہزاروں روپے بٹور لیتے ہیں جبکہ بعض فراڈیوں نے اپنے ڈیروں پر ایسے مرد اور عورتیں ملازم رکھی ہوئیں ہیں جو ضروت مندوں کو ورغلا کر لاتے ہیں یہ لوگ مجبوروں سے پیسے بٹور کر ان سے کام ہونے کے عوض ایسی ایسی شرائط بھی رکھ دیتے ہیں جو ناممکن ہوتی ہیں ان لوگوں کی وجہ سے آج ہر دسواں گھر نت نئے مسائل میں مبتلا ہو چکا ہے اور معاشرے میں کفر اور شرک پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں ان کا خلاف آج تک کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے کوئی کاروائی کی لوگ ان کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور لٹتے رہیں گئے۔
جعلی عامل اور پیر اپنے تمام گاہکوں کو اس بات کا مکمل یقین دلاتے ہیں کہ صرف وہی اپنے عمل میں کامل اور ''علم چلانے'' کے ماہر ہیں۔ اور ان کا کام سو فیصد گارنٹی سے ہوگا۔موبائل فون پر کام کرنے والے یہ عامل حضرات اپنے موکلین کی تمام کالز کی ریکارڈنگ محفوظ رکھتے ہیں تاکہ ان کی ''کلائنٹ'' خواتین کو بلیک میل کیا جا سکے۔ مزید برآں یہ عاملین ان خواتین سے انکے مسئلہ کاغذ پر ان کے دستخط کے ساتھ لکھوا لیتے ہیں۔ کیونکہ خواتین زیادہ تر اپنے شوہر، نند، ساس، بھابھی اور ایسے عزیزوں کے ساتھ جھگڑوں کے سلسلے میں ان عاملین سے رابطہ کرتی ہے۔ لہذا اگر کوئی خاتون ان عاملوں سے کام نہ ہونے کی صورت میں اپنی دی ہوئی رقم کا تقاضا کرے تو انہیں بلیک میل کیا جاتاہے۔
یہ بات کسی حد تک حقیقت رکھتی ہے کہ اکثر اوقات نفسیاتی مسائل کا شکار لوگ ایسے جعلی عاملین کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور اپنی صحت کے ساتھ ساتھ جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔حالانکہ ایسے افراد کو کسی عامل یا جعلی پیر کی ضرورت نہیں بلکہ کسی سائکاٹرسٹ ، یا سائیکالوجسٹ کی ضرورت ہے جو انکے مسلے کا حل بخوبی نکال سکتا ہے۔البتہ اگر واقعی کوئی فرد کسی جادو یا ٹونے کا شکار ہے تو اسکے بارے میں بھی احکامات موجود ہیں اور احادیث مبارکہ میں اسکے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔
جادو کے بارے میں قرآن مجید (سورت البقر) میں، واضع ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
" اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے پیغمبر (آخرالزماں) آئے، اور وہ ان کی (آسمانی) کتاب کی بھی تصدیق کرتے ہیں تو جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی، ان میں سے ایک جماعت نے خدا کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا، گویا وہ جانتے ہی نہیں" (2:101) "اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمانؑ کے عہدِ سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمانؑ نے مطلق کفر کی بات نہیں کی، بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے، جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں۔ تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے (ایسا) جادو سیکھتے، جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔ اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا، اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، وہ بری تھی۔ کاش وہ (اس بات کو) جانتے "(2:102)
اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی وضاحت موجود ہے کہ
”بلا شبہ جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈے اور باہمی عشق ومحبت پیدا کرنے کیلئے تیار کی جانے والی چیزیں، یہ سب شرک ہے“۔
بحوالہ مسنداحمد : ۱۔۳۱۸، وسنن ابی داود،
اس حدیث مبارکہ کے مطابق ہر وہ چیز جو بچوں کو نظر بد سے بچانے کیلئے ان کے گلے میں یا جسم کے کسی حصہ پر لٹکائی یا باندھی جائے ، سب شرک ہے ، لیکن جب وہ چیز قرآنی آیات پر مشتمل ہو(یعنی قرآنی تعویزہو)تو بعض صحابہ کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجائز۔انھی (ناجائز قرار دینے والوں)میں سے ایک عبداللہ بن مسعود رض بھی ہیں۔لیکن شرعی دلیل نے وضاحت کردی کہ جس دم میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں وہ جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نظر بد اور زہریلے جانور کے ڈسنے پر دم کی رخصت اور اجازت فرمائی ہے۔اسی طرح جادو ٹونے کے ذریعے جادو کا علاج کرنے کی بھی ممانعت فرمائی گئی ہے ،
جابررض سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ سے" نشرہ" یعنی جادو کے ذریعے سے جادو کے علاج کی بابت دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا :
" یہ شیطانی عمل ہے" حوالہ مسند احمد؛و سنن ابی داؤد
حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ " جادوگر ہی جادو کو زائل کر سکتا ہے" ، جبکہ سحر زدہ سے جادو کا اثر زائل کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ دم، تعویذات ،ادویات اور جائز و مباح ادعیہ کے ساتھ اس کا اعلاج کیا جائے یہ بلا شبہ جائز ہے(بحوالہ کتاب التوحید، صفحہ 111)
ان احکامات او ر تفصیلات کے مطابق اگر کوئی سحر زدہ ،اور مرض میں مبتلا ہے تو اسکا علاج کرانا جائز ہے جبکہ ان امور میں شرکیہ الفاظ شامل نہ ہوں۔ مگر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر کوئی روحانی علاج کا دعویدار اس آڑ میں اپنے کاروبار چمکا تا پھرے بلکہ اعلیٰ کردار ، پابند شریعت فرد ہی اس کا صحیح حقدار ہے ۔ ایسے امور میں عوام آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہ لگ جائیں بلکہ سب سے پہلے اس امر کو جانیں کہ آیا کسی ذہنی بیماری کے باعث تو مسائل کا شکار نہیں اور اسکے مناسب علاج کے ساتھ ساتھ کسی پابند شریعت ،اللہ والے سے قرآن و حدیث کے احکامات کے اندر رہتے ہوئے روحانی علاج کروائیں۔
 

تیشہ

محفلین
اس کالم میں حضرت موسٰی کی خدائی طاقت کی بات سمجھ نہیں آئی


آپ اتنے عرصے بعد آئے ہیں اس لئے آپکو سمجھ نہیں آئے گی :battingeyelashes:
غیر حاضر رہا جائے تو یہی ہوتا ہے دماغ کو زنگ لگ جاتا ہے
سمجھ پے پٹی پڑجاتی ہے ناں :chatterbox:

:
chips.gif
 
Top