کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم یہاں بار بار تاریخ وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے 12 ربیع الاول کے قول کو متفق علیہ قرار دیا جارہا ہے جو کہ صریح بددیانتی یا خیانت علمی ہے جبکہ دین کا مبتدی طالب علم جسے ذرا سا بھی سیرت و تاریخ سے شغف ہو وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ 12 ربیع الاول کو یوم وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متفق علیہ قول قرار دینا یا تو تاریخ اور اصول سے عدم واقفیت کی بنا پرہے یا پھر تجاہل عارفانہ ہے کہ جسکا مقصد فریب دینا ہے ۔ جہاں تک بات ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و وصال کی دونوں کی بابت متعدد اقوال ہیں جو کہ درجنوں سوانح نگار اور مؤرخین نے اپنی اپنی کتب میں درج کیئے ہیں لہذا تاریخ ولادت ا وروصال دونوں ہی پر مؤرخین و سیرت نگاروں کا باہمی اختلاف پایا جاتا ہے لہذا مختلف علماء نے مختلف احتمالات کی بنا پر مختلف اقوالات کو ترجیح دی ہے جبکہ ولادت کی مشھور اور عندالجمہورمعتبر اشہر و اکثر محقیقین جو تاریخ ہے وہ بارہویں ہی ہے جبکہ وصال کی مشھور تاریخ بھی 12 ہے مگر اختلاف ہر دو میں ہے ۔اور حقیقت حال یہ ہے کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و ولادت کہ وقت جو عرب معاشرہ تھا وہ ناخواندہ تھا حتٰی کہ آپ کے مبارک دورمیں جواشخاص پہلے سے پڑھنا لکھنا جانتے تھے انکی تعداد 17 بیان کی گئی ہے لہذا عرب معاشرہ اہم واقعات کی نسبت لکھنے لکھانے سے زیادہ انھے سینہ بہ سینہ روایت کرنےکا قائل تھا اور دوسری طرف یہ عرب کا ایک خاص کلچر بھی تھا کہ وہ علوم کی سینہ بہ سینہ روایت پر فخر کرتے تھےاس کے ساتھ ساتھ قدیم عرب معاشرہ میں جو کیلنڈررائج تھا یعنی اسلامی ہجری کیلنڈر سے پہلے (کہ جسکا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) جو کیلنڈر عالم عرب میں رائج تھا ا سکی بابت مشھور ہے کہ عرب اپنی مرجی سے اس میں مہینون اوردنون کا رد و بدل کرلیا کرتے تھے اور یون کبھی کھی سال بجائے 12 کے 14 ماہ کا بھی ہوجاتا تھا لہذا یہی وجہ ہے کہ عرب تاریخ یا دنیا کی تاریخ اور اہم واقعات کہ تعین کے بارے میں ماہرین ہئیت و تقویم کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی ایک تاریخ کو کسی ایک اہم واقعہ کی حیثیت سے حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قدیم انسانی تاریخ میں کسی بڑے واقعہ کی نسبت حتمی تاریخ کا تعین قریبا ناممکن ہے لہذا ایسے میں اعتبار جس چیز کا کیا جائے گا اسکی بنیاد تاریخ سے ہٹ کر روایات صحیحہ پر ہوگی جبکہ متعدد صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرض ہوجانے کہ بعد فقط ایک ہی حج اپنی زندگی میں ادا کیا کہ جسے حجۃ الوداع بھی کہا جاتا ہے جو کہ 9 ذی الحجہ بروز جمعہ کو ہوا اسی لیے اسے حج اکبر بھی کہتے ہیں جبکہ صحیح روایت کے مطابق آپکا وصال بروز پیر کو ہوا لہذا اگر 9 ذی الحجہ بروز جمعہ سے ربیع الاول کی بارہویں تک حساب لگایا جائے تو باقی ماندہ تین ماہ کو کسی بھی حساب سے تقسیم کیا جائے تو ربیع الاول کی 12 کو پیر کا دن نہیں بنتا بلکہ پیر کا دن مختلف حسابات سے یکم یا دوم یا تیرہ یا نو یا آٹھ یا پندہ یا بائیس کو بنتا ہے لہذا جس چیز پر پوری امت متفق ہے وہ ہے ماہ ربیع الاول اور پیر کا دن یوم وصال کا مگر تاریخ یا یکم ہوگی یا دو یا 9 یا تیرہ یا پھر کوئی اور ۔۔۔ والسلام
 

حسان خان

لائبریرین
جناب کسی بات کے حق یا نا حق کو پرکھنے کے لئے اس کے کرنے والوں کی تعداد نہیں دیکھی جاتی ۔۔۔ !

میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ماننے والوں کی تعداد کسی چیز کی صداقت کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔اور میرا مقصد بھی اُس مراسلے میں مولودِ نبی کی روایت کی 'درستگی' پر دلیل دینا نہیں، بلکہ اس تاثر کی نفی کرنا تھا کہ جیسے پاکستان کا صرف ایک چھوٹا 'بدعتی' مکتبۂ فکر ہی یہ 'بدعت' مناتا ہے، ورنہ دیگر مسلمان تو اس 'بدعت' سے پاک ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
میلاد کی تاریخ پر اختلاف ہے لیکن وفات کی تاریخ پر کوئی اختلاف نہیں۔
وفات کی تاریخ بھی مورخین اور مختلف مکاتبِ فکر کے نزدیک متفق علیہ نہیں ہے۔ بریلوی مکتبۂ فکر کا ایک بڑا حصہ ۹ ربیع الاول کو وفات کی تاریخ مانتا ہے، اور اگر آپ شیعوں کو مسلمان تسلیم کرنے کی زحمت فرمائیں، تو وہ ۲۸ صفر کو حضرت محمد (ص) کی وفات کی تاریخ تسلیم کرتے ہیں۔
 

متلاشی

محفلین
وفات کی تاریخ بھی مورخین اور مختلف مکاتبِ فکر کے نزدیک متفق علیہ نہیں ہے۔ بریلوی مکتبۂ فکر کا ایک بڑا حصہ ۹ ربیع الاول کو وفات کی تاریخ مانتا ہے، اور اگر آپ شیعوں کو مسلمان تسلیم کرنے کی زحمت فرمائیں، تو وہ ۲۸ صفر کو حضرت محمد (ص) کی وفات کی تاریخ تسلیم کرتے ہیں۔
میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں ۔۔۔! بریلوی مسلک کے سب سے بڑے عالم جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت 9 ربیع الاول اور تاریخ وفات 12 ربیع الاول لکھتے ہیں ۔۔۔۔!
 

ابوعثمان

محفلین
شکریہ آبی بھائی۔
لیجئے ام نورالعین! 9ذولحجہ،جمعہ کو تھا،اب کسی بھی طرح کر کے مطلب ذوالحجہ،محرم،صفر (پھر ربیع الاول)کو 29کا فرض کرلیں،30کا فرض کرلیں،کسی بھی طرح پیر کے دن 12ربیع الاول لاکر دکھائیں۔
اور بالفرض اگر پیر کو 12ربیع الاول ہو بھی، اور سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا وصال مبارک 12ربیع الاول کو ہی فرض کر لیا جائے۔تو اس دن ہم سرکار کے وصال کا دن منائیں یا عرس منائیں۔ تو کیا ہم سوگ منائیں؟جبکہ ہمارے عقیدے کے مطابق شریعت نے 3دن سوگ منانے کا حکم دیا ہے۔(اس معاملے میں آپ کا عقیدہ بھی یہی ہے)3دن سے زیادہ سوگ منانے کا حکم نہیں دیا۔(،اب ہم سوگ نہیں منائیں گے۔اگر آپ کا عقیدہ ہو تو آپ مناؤ،ماتم کرو جو مرضی آپ کا عقیدہ آپ کو مبارک)تو یہ تو طے ہوا کہ عرس منائیں تو سوگ تو نہیں منایا جائے گا۔عرس ہو،محفل منعقد کی جائے تو پھر بھی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان و سیرت ہی بیان کی جائے گی۔تو یوم ولادت ہو یا یوم وفات دونوں صورتوں میں سرکار کے فضائل ہی بیان کئے جائیں گے۔
اور قران نے حضرت یحیی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا۔۔
وَسَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوۡتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا ﴿٪۱۵
اورسلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اورجس دن مردہ اٹھایا جائے گا ۲۲)
عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا
وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوْمَ اَمُوۡتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ﴿۳۳
اور وہی سلامتی مجھ پر ۵۱)جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں ۵۲)
تو سرکار تو سیدالانبیاء ہیں۔صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔ تو سرکار کے وصال کا دن تو بدرجہ اولی سلامتی والا دن ہوا۔
اور موت کا مفہوم آپ کے عقیدے میں نجانے کیا ہو؟ کہ امام الطائفہ(آپ کے گروہ یا جماعت کے امام)مولوی اسماعیل دہلوی تقویۃ الایمان صفحہ 52 پر معاذاللہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھوٹ باندھا کہ معاذاللہ آپ نے فرمایا، کہ میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہو۔
جبکہ سنّیوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ نبی زندہ ہوتا ہے،مٹی پر حرام ہے کہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔اور نبی کے نام پر کوئی مرجائے تو اسے شہید کہتے ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ اس مردہ مت کہوبلکہ وہ زندہ ہے۔تو جس کے نام پر کوئی شہید ہوجائے تو وہ زندہ اور معاذاللہ نبی کیسے مردہ ہو سکتا ہے۔بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔موت کے بارے میں آپ کا (concept)ہی کلئیر نہيں۔موت مرنے کا نام نہیں مطلب فنا ہونے کا نام نہیں،موت منتقل ہونے کا نام ہے۔کہ ایک جہان سے دوسرے جہان منتقل ہوگیا۔پہلے عالم ارواح میں تھا،پھر ماں کے پیٹ میں عالم جنین،پھر عالم دنیا،پھر عالم برزخ(کہ یہاں حساب و کتاب کا سلسلہ ہے۔)،پھر عالم آخرت اب حساب کتاب کے بعد یا جنت یا دوزخ ۔۔تو اس دوران بندہ مرا کب؟؟ وہ تو منتقل ہی ہوتا رہا۔سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ہے کہ تم ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے پیدا کئے گئے ہو۔پھر قبر میں منکر نکیر کا سوالات کرنا،سزا یا جزا کا سلسلہ ۔۔جب مر گیا ،فنا ہوگیا تو عذاب و ثواب کس کو؟؟ تو موت آتی ہے۔فقط چند ساعت کیلئے اور اگلے جہان منتقلی ہے ۔اور احادیث سے ثابت ہے کہ مردہ کی عقل سلامت ہوتی ہے۔وہ جانتا ہے کہ مجھے کون غسل دے رہا ہے،کون دفن کررہا ہے۔

مرنے کے بعد میّت کو اپنے عزیزوں سے کس طرح تعلقات رہتے ہیں؟
الجواب:موت فنائے روح نہیں، بلکہ وہ جسم سے روح کا جدا ہونا ہے، روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے، حدیث میں ہےانما خلقتم للابد ۱؎تم ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے بنائے گئے، تو جیسے تعلقات حیات دنیوی میں تھے اب بھی رہتے ہیں۔ حدیث میں فرمایا کہ ''ہر جمعہ کو ماں باپ پر اولاد کے ایک ہفتہ کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں، برائیوں پر رنجیدہ ہوتے ہیں، تواپنے گزرے ہوؤں کو رنجیدہ نہ کرو، اے اللہ کے بندو! واللہ تعالٰی اعلم۔(۱؎ شرح الصدور باب مقرالارواح مطبوعہ خلافت اکیڈمی سوات ص۹۶)
{(۲) انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عجب الذنب کہتے ہیں وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، انھیں پر روز قیامت ترکیب جسم ہوگی، عذاب وثواب روح وجسم دونوں کے لیے ہے۔ جو فقط روح کے لیے مانتے ہیں گمراہ ہیں، روح بھی باقی اور جسم کے اجزائے اصلی بھی باقی، او ر جو خاک ہوگئے وہ بھی فنائے مطلق نہ ہوئے، بلکہ تفرق اتصال ہوا اور تغیر ہیأت۔ پھر استحالہ کیا ہے۔ حدیث میں روح وجسم دونوں کے معذب ہونے کی یہ مثال ارشاد فرمائی کہ ایک باغ ہے اس کے پھل کھانے کی ممانعت ہے۔ ایک لنجھا ہے کہ پاؤں نہیں رکھتا اور آنکھیں ہیں وہ اس باغ کے باہر پڑا ہوا ہے،پھلوں کو دیکھتا ہے مگر ان تک جا نہیں سکتا، اتنے میں ایک اندھا آیا اس لنجھے نے اس سے کہا: تو مجھے اپنی گردن پر بٹھا کر لے چل، میں تجھے رستہ بتاؤں گا، اس باغ کا میوہ ہم تم دونوں کھائیں گے، یوں وہ اندھا اس لنجھے کو لے گیا اور میوے کھائے دونوں میں کون سزا کا مستحق ہے؟ دونوں ہی مستحق ہیں، اندھا اسے نہ لے جاتا تو وہ نہ جاسکتا، اور لنجھا اسے نہ بتاتا تووہ نہ دیکھ سکتا، وہ لنجھا روح ہے کہ ادراک رکھتی ہے اور افعال جو ارح نہیں کرسکتی ۔ا ور وہ اندھا بدن ہے کہ افعال کرسکتا ہے اورادراک نہیں رکھتا۔ دونوں کے اجتماع سے معصیت ہوئی دونوں ہی مستحقِ سزا ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۳ ) روح کا مقام بعد موت حسب مراتب مختلف ہے۔ مسلمانوں میں بعض کی روحیں قبر پر رہتی ہیں اور بعض کی چاہِ زمزم میں اور بعض کی آسمان وزمین کے درمیان، اور بعض آسمانِ اول دوم ہفتم تک،ا ور بعض اعلٰی علیین میں، اور بعض سبز پرندوں کی شکلیں میں زیر عرش نور کی قندیلوں میں، کفار میں بعض کی روحیں چاہ وادی برہوت میں، بعض کی زمین دوم سوم ہفتم تک، بعض سجین میں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۵) روح میرے رب کے حکم سے ایک شے ہے اور تمھیں علم نہ دیا گیا مگر تھوڑا، روح کے ادر اکات علم وسمع و بصر باقی رہتے، بلکہ پہلے سے بھی زائد ہوجاتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۶) قبر پر آنے والے کو میّت دیکھتا ہے۔ ا س کی بات سنتاہے۔ اگر زندگی میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا ہے اگر اس کا عزیز یا دوست ہے تو اس کے آنے سے انس حاصل کرتا ہے: یہ سب باتیں احادیث اقوال ائمہ میں مصرح اوراہلسنت کا اعتقاد ہیں، ان کی تفصیل ہماری کتاب ''حیات الموات فی بیان سماع الاموات'' میں دیکھیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم}

ابن ابی الدنیا وبیہقی سعید بن مسیب رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی حضرت سلمان فارسی وعبداللہ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں؟ کہا:نعم اما المومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت۱؎۔ہاں مسلمان کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں انھیں اختیار ہوتاہے جہاں چاہیں جائیں۔
(۱؎ شعب الایمان باب التوکل والتسلیم حدیث ۱۳۵۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۱۲۱)
ابن المبارک کتاب الزہد وابوبکر ابن ابی الدنیا وابن مندہ سلمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی :قال ان ارواح المؤمنین فی برزخ من الارض تذھب حیث شاءت ونفس الکافر فی سجین۲؎ ۔بیشک مسلمانوں کی روحیں زمین کے برزخ میں ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں، اور کافر کی روح سجین میں مقید ہے۔ (۲؎ کتاب الزہد لابن مبارک باب ماجاء فی التوکل حدیث ۴۲۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ص۱۴۴)
ابن ابی الدنیا مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:قال بلغنی ان ارواح المومنین مرسلۃ تذھب حیث شاءت ۳؎ ۔فرمایا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ مسلمانوں کی روحیں آزادہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ (۳؎ شرح الصدور بحوالہ ابن ابی الدنیا باب مقرالا رواح خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص۹۸)
اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں:رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجنۃ وارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت ۴؎ ۔امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں،(۴؎ شرح الصدور بحوالہ ابن ابی الدنیا باب مقرالا رواح خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص۱۰۵ )

تو سنّی سرکار کی ولادت کی خوشی مناتے ہيں۔
(۱) اﷲ تعالٰی فرماتا ہے:وامّابنعمۃ ربّک فحدّث۱
؎اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔(۱؎القران الکریم۹۳/۱۱)
اگر وہابیہ ثبوت دے دیں کہ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نعمت نہیں یا مجلس میلاد مبارک اس نعمت کا چرچا نہیں توپھر تو بات بنے۔
(۲) اللہ تعالٰی فرماتا ہے:وذکرھم بایّام اﷲ ۲ ؎انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ ( ۱؎ القرآن الکریم ۱۴/ ۵ )
اگر وہابیہ ثبوت دے دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت کا دن اﷲ کے عظمت والے دنوں میں نہیں یا مجلسِ میلاد اُس دن کا یاد دلانا نہیں تو پھر تو ہم ان کی سنے بھی۔
(۳) اﷲ تعالٰی فرماتا ہے: ،قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ۳ ؎تم فرمادو کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی پر لازم ہے کہ خوشیاں مناؤ۔ ( ۱؎القرآن الکریم ۱۰/ ۵۸)
اگر وہابیہ ثبوت دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ولادت اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہیں یا مجلسِ میلاد اس فضل و رحمت کی خوشی نہیں تو آپ کی بات درست نہیں تو آپ غلط۔
(۴) اﷲ تعالٰی فرماتا ہے:وامااٰتکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا ۱ ؎جو رسول تمہیں دے وہ لو اور جس سے وہ منع کریں اس سے باز رہو۔ (۱؂القرآن الکریم ۵۹/۷)
اگر وہابیہ ثبوت دیں کہ قرآن مجید یا حدیث شریف میں کہیں مجلس میلاد مبارک کو منع فرماتا ہے تو آپ کی بات درست نہیں تو آپ غلط۔
ضروری اطلاع :واضح رہے کہ ایچ پیچ کا کام نہیں صرف وہ آیت یا مع حوالہ کتاب وصحیح اسناد وہ حدیث شائع کردینا کافی ہے جس میں لکھا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں مجلس میلاد نہ کیا کرو مجلس میلاد کرنا عذاب ہے بلکہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ چاروں اماموں یا صحاح ستّہ کے چھ مصنفوں میں سے کسی ایک امام ہی کا قول مذکوردکھا دیں جو کسی مستند کتاب میں ہو، اگر منع کا اتنا ثبوت بھی نہیں تو پھر ایسے بے ثبوت منع کو چھوڑنے میں ذرا دیر نہ کریں ورنہ خدا کے سامنے جواب دہی ہوگی۔
(۵) اہلحدیث کی کانفرنس اور اس میں سیکریٹری وغیرہ مقرر کرنا اور بننا اور اس کے بڑے سالانہ جلسے اور ان کی ہیئت کذائی اور اہلحدیث کا اخبار چھاپنا اور اس کی پیشگی قیمت لینا اور رَدِّائمہ میں کتابیں چھاپنا اور ہیئت مروجہ پر مدرسے بنانا اور ان میں تنخواہ دار مدرسین رکھنا، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ امتحان ہونا، ان میں پاس کے نمبر ٹھہرانا، کسی مسئلہ کا ثبوت مانگنے پر اشتہار چھاپنا، اس پر درس کا نصاب معین کرنا، انعام ٹھہرانا ، ان سب باتوں کا اگر وہابیہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا صحابہ، تابعین یا چار امام یاچھ مصنف صحاح سے ثبوت دے دیں تو ۴۰ روپیہ انعام، اور ثبوت نہ دے سکیں، تو پھر ایسی بے ثبوت باتوں کے چھوڑنے میں ذرا دیر نہ کریں ورنہ خدا کے سامنے جواب دہی ہوگی۔والسلام علٰی من اتبع الہدٰی (اور سلامتی اسے جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ت)۔
 

ابوعثمان

محفلین
یہاں ایک جگہ 40روپے انعام کا ذکر ہے۔آج سے ٹھیک96سال پہلے۲۷ربیع الاول شریف۱۳۳۷ھ کو(محمد ابراہیم شال مرچنٹ نائب سیکریٹری انجمن اہلِ حدیث امرتسر۱۳دسمبر)نے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا میلاد شریف کی مخالفت میں ۔تو اہلسنّت کی طرف سے بھی جواب دیا گیا اور انعام کا اعلان کیا گيا۔ اس تحریر میں اور بھی انعامات کا ذکر تھا، جو میں نے حذف کردیا۔یہ بھی حذف کرنا تھا نہیں کر سکا،بعد میں دیکھا لیکن تدوین کی آپش نہیں۔ اس لئے یہ وضاحت کردی۔​
 

ابوعثمان

محفلین
مسئلہ ۴۴: ۲۹ جمادی الآخرہ ۱۳۲۰ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چند اشخاص نے مل کر پانچ شخصوں کو مجلس میلاد شریف سے روکا یعنی نہ آنے دیا۔ ذکر الٰہی سننے سے روکنے ولا کون ہے اور ذکر الٰہی خاص ہے یا عام لوگوں کے واسطے ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب
ذکرالٰہی سب مسلمانوں کے لئے ہے اور مجلس میلاد مبارک جو مطابق رواج حرمین شریفین معتبر روایتوں سے پڑھی جائے اور منکرات شرعیہ سے خالی ہو اس سے روکنا ذکر خدا سے روکنا ہے ایسا شخص اگر بے عذر صحیح مقبول وقابل قبول روکے تو وہ مناع للخیر معتداثیم ۳؎ہے یعنی خیر سے روکنے ولا خدا کی باندھی ہوئی حدوں سے بڑھنے والا گناہ میں بالقصد پڑھنے والا ۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔(۳؎القرآن الکریم ۶۸/ ۱۲)
مَّنَّاعٍ لِّلْخَیۡرِ مُعْتَدٍ اَثِیۡ۔مٍ ﴿ۙالقلم۱۲بھلائی سے بڑا روکنے والا (ف۱۱)حد سے بڑھنے والا گنہگار(ف۱۲)​
(ف۱۱)بخیل نہ خود خرچ کرے ، نہ دوسرے کو نیک کاموں میں خرچ کرنے دے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس کے معنٰی میں یہ فرمایا ہے کہ بھلائی سے روکنے سے مقصود اسلام سے روکنا ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں سے کہتا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی اسلام میں داخل ہوا تو میں اسے اپنے مال میں سے کچھ نہ دوں گا ۔(ف۱۲)فاجر بدکار ۔
ہاں بضرورت شرعیہ مستحب سے کسی اور امر اہم کے لئے روکے تو الزام نہیں مثل باپ یا ماں علیل ہے بیٹے کے ذمے تیمار داری ہے وہ مجلس شریف سننے جائے تو یہ تکلیف میں رہیں یا اسی قسم کی اور صورتیں تو یہاں روکنے کااختیار ہے۔ یوہیں آقا اپنے ملازم کو کام کی غرض سے روک سکتاہے
فقد نصوا فی اجیر الواحد علی ماھو اکبر من ھذا وھی الصلٰوۃ النافلۃ فما ظن بالعبد۔ واﷲ تعالٰی سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
فقہائے کرام نے تصریح فرمائی کہ اجرت پر کام کرنے والا آدمی یعنی مزدور اوقات مزدوری میں نفلی نماز نہ ادا کرے جب مزدور کے بارے میں یہ حکم ہے جبکہ وہ زر خریدا اور مملوک بھی نہیں تو زر خرید غلام اور مملوک آدمی کے بارے میں آپ کیا خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ اور اللہ پاک و برتر اور سب سے بڑا عالم ہے
 

متلاشی

محفلین
برادرم ابوعثمان صاحب !
آپ نے ان سب باتوں پر اتنا زور دے دیا ۔۔۔!
اب ذرا اپنے اعلیٰ حضرت کی بھی سنئے ۔۔۔۔۔!
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
as.bmp


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وفات کے بارے میں فرماتے ہیں :۔

wafat.bmp

اب بتائیے جناب ہم آپ کی مانیں یا آپ کے اعلٰی حضرت کی ۔۔۔۔۔؟

اس کے بعد 12 ربیع الاول کو ہونے والی چند قبیح حرکات کے بارے میں بھی اپنے اعلٰی حضرت کے اقوال ملاحظہ فرما لیں ۔۔۔۔!

dfs.bmp


اب بتائیں 12 ربیع الاول والے دن ایسا ہوتا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔؟

fdsdf.bmp


اب بتائیں آپ لوگ ہر محفل میں کتنی دفعہ یا محمد کا نعرہ لگاتے ہو ۔۔۔۔؟

dsfsd.bmp


اب بتائیے کہ آپ لوگوں کی اکثر محافل میں امرد نعت خوان ہی نعت پڑھتے ہیں ۔۔۔۔!

dasf.bmp


اب بتاؤ ۔۔۔ تمہاری محفلوں میں کتنے داڑھی منڈھے نعت خوان ہوتے ہیں ۔۔۔۔؟

امید ہے جس کو حق کی تلاش ہو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔۔۔۔ ورنہ کہو تو مزید حوالہ جات کے انبار لگا دوں ۔۔۔۔!

اب بتاؤ جناب آئینہ دکھلایا ہے برا مت منائیے گا۔۔۔!
 

ساجد

محفلین
آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ اب یہ دھاگہ مزید مناظرہ بازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جسے اس دن کی خوشی منانا ہے وہ منائے اور جسے نہیں منانا وہ خاموش رہے ۔ اردو محفل فروعی مسائل زیر بحث لانے کا فورم ہرگز نہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top