جس کے پلو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ۔۔راغب تحسین

سیما علی

لائبریرین
جس کے پلو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ
ایسی دربار سے بخشی ہوئی دستار پہ تھو


جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹتی ہو
ایسی تلوار مع صاحبِ تلوار پہ تھو

شہر آشوب زدہ، اس پہ قصیدہ گوئی
گنبدِ دہر کے اس پالتو فنکار پہ تھو

سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسر ہو خوشی
ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تھو

روزِ اول سے جو غیروں کا وفادار رہا
شہرِ بد بخت کے اس دوغلے کردار پہ تھو

زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور
عادلِ شہر! تِرے عدل کے معیار پہ تھو

کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تِری راغب نے
اے عدو ساز! تِری دانشِ بیمار پہ تھو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بڑی لعاب دار ردیف استعمال کی ہے شاعر نے!

پہلے شعر میں دستار کے لیے پلّو کا استعمال ٹھیک نہیں ہے ۔ دستار کا طرّہ ہوتا ہے۔ پَلّو تو چادر ، دوپٹہ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ! بڑی لعاب دار ردیف استعمال کی ہے شاعر نے!

پہلے شعر میں دستار کے لیے پلّو کا استعمال ٹھیک نہیں ہے ۔ دستار کا طرّہ ہوتا ہے۔ پَلّو تو چادر ، دوپٹہ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آج کل انقلابی شعرائے کرام جگہ جگہ تھو تھتکار کرتے پھر رہے ہیں، "آخ تھو" ردیف بھی بس آئی کہ آئی۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر مشاعرے میں سنائی جائے تو اچھی بھلی غزل پر لوگ تھو تھو کریں گے۔ :)

حالانکہ با آسانی ۔۔۔۔۔"تھو"کو "خاک" سے بدلا جا سکتا تھا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اگر مشاعرے میں سنائی جائے تو اچھی بھلی غزل پر لوگ تھو تھو کریں گے۔ :)
ہاہاہاہا!!!
کیا مزے کی بات کی ہے قبلہ محمد احمد مدظلہ العالی نے ۔ حسب معمول اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔
مشاعروں میں مصرع تو عام طور پر اٹھایا ہی جاتا ہے لیکن بعض سامعین صرف ردیف اٹھاتے ہیں ۔یعنی جیسے ہی شاعر قافیے پر پہنچتا ہے وہ اس کے ساتھ ردیف بآواز بلند دہرادیتے ہیں۔ ایک جگہ طرحی مشاعرہ ہورہا تھا کہ جس کی زمین "خوگر میں ہوں ۔۔۔ پتھر میں ہوں" تھی۔ سامعین میں سے ایک صاحب بڑے زور و شور سے جھوم جھوم کر اونچی آواز میں ہر شعر کی ردیف اٹھارہےتھے۔ اور انداز یہ تھا کہ شاعر کے قافیہ ادا کرتے ہی "میں ہوں" کے ایک نعرے سے مشاعرہ گاہ کو دہلا دیتے تھے ۔ ایک شاعر ان کی اس حرکت سے جب بہت ہی تنگ ہوئے تو دوران غزل ایک شعر فی البدیہہ گھڑ دیا۔
اور اس کا دوسرا مصرع کچھ یوں پڑھ کر ایک لحظہ کو قافیہ پر رک گئے: ناریل ہاتھ لگا جس کے وہ بندر ۔۔۔۔
حسب معمول ان صاحب نے بلند آواز میں جھوم کر نعرہ لگایا: میں ہوں
:D
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاہاہاہا!!!
کیا مزے کی بات کی ہے قبلہ محمد احمد مدظلہ العالی نے ۔ حسب معمول اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔
مشاعروں میں مصرع تو عام طور پر اٹھایا ہی جاتا ہے لیکن بعض سامعین صرف ردیف اٹھاتے ہیں ۔یعنی جیسے ہی شاعر قافیے پر پہنچتا ہے وہ اس کے ساتھ ردیف بآواز بلند دہرادیتے ہیں۔ ایک جگہ طرحی مشاعرہ ہورہا تھا کہ جس کی زمین "خوگر میں ہوں ۔۔۔ پتھر میں ہوں" تھی۔ سامعین میں سے ایک صاحب بڑے زور و شور سے جھوم جھوم کر اونچی آواز میں ہر شعر کی ردیف اٹھارہےتھے۔ اور انداز یہ تھا کہ شاعر کے قافیہ ادا کرتے ہی "میں ہوں" کے ایک نعرے سے مشاعرہ گاہ کو دہلا دیتے تھے ۔ ایک شاعر ان کی اس حرکت سے جب بہت ہی تنگ ہوئے تو دوران غزل ایک شعر فی البدیہہ گھڑ دیا۔
اور اس کا دوسرا مصرع کچھ یوں پڑھ کر ایک لحظہ کو قافیہ پر رک گئے: ناریل ہاتھ لگا جس کے وہ بندر ۔۔۔۔
حسب معمول ان صاحب نے بلند آواز میں جھوم کر نعرہ لگایا: میں ہوں
:D
ہاہاہاہاہاہا

ظہیر بھائی ! یہ لطیفہ بہت بجا یاد آیا آپ کو۔ :)

مجھے بھی اکثر یاد آتا ہے۔ بلکہ اس شعر کا پہلا مصرع بھی کم و بیش یاد ہے جو کچھ اس طرح سے تھا۔

غم نہ کر تو کہ ترے رنج کا خوگر میں ہوں
ناریل جس کے لگا ہاتھ ۔۔۔۔۔ :) :) :)
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ہاہاہاہا!!!
کیا مزے کی بات کی ہے قبلہ محمد احمد مدظلہ العالی نے ۔ حسب معمول اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔
مشاعروں میں مصرع تو عام طور پر اٹھایا ہی جاتا ہے لیکن بعض سامعین صرف ردیف اٹھاتے ہیں ۔یعنی جیسے ہی شاعر قافیے پر پہنچتا ہے وہ اس کے ساتھ ردیف بآواز بلند دہرادیتے ہیں۔ ایک جگہ طرحی مشاعرہ ہورہا تھا کہ جس کی زمین "خوگر میں ہوں ۔۔۔ پتھر میں ہوں" تھی۔ سامعین میں سے ایک صاحب بڑے زور و شور سے جھوم جھوم کر اونچی آواز میں ہر شعر کی ردیف اٹھارہےتھے۔ اور انداز یہ تھا کہ شاعر کے قافیہ ادا کرتے ہی "میں ہوں" کے ایک نعرے سے مشاعرہ گاہ کو دہلا دیتے تھے ۔ ایک شاعر ان کی اس حرکت سے جب بہت ہی تنگ ہوئے تو دوران غزل ایک شعر فی البدیہہ گھڑ دیا۔
اور اس کا دوسرا مصرع کچھ یوں پڑھ کر ایک لحظہ کو قافیہ پر رک گئے: ناریل ہاتھ لگا جس کے وہ بندر ۔۔۔۔
حسب معمول ان صاحب نے بلند آواز میں جھوم کر نعرہ لگایا: میں ہوں
:D
ہاہاہا
 
Top