ام اویس

محفلین
پیارے بچو آج ہم آپ کو ایک مزے کی کہانی سناتے ہیں ہوا یوں کہ ایک جنگل میں کچھ جانور مل جُل کر رہتے تھے۔ ان میں گلو گلہری اور اس کا بڑا سا خاندان تھا جس میں ہر عمر کے بچے تھے۔ مانو بلی اور اس کے چھوٹے چھوٹے بلونگڑے تھا۔ ہرن تھا جس کے ہر نوٹے جنگل میں اچھل کود کرتے تھے پھر خرگوش میاں تھے۔ ان کے خاندان میں ان کے بھائی بہن اور بہت سے ننھے منے خرگوش تھے۔ جنگل میں بندروں کا خاندان بھی رہتا تھا، چڑیا، طوطا اور مینا، کبوتر، ہدہد اور ان کے بچے بھی تھے۔اونٹ ، لومڑ اور گدھے بھی اپنے خاندان کے ساتھ رہتے۔ جنگل کے سب جانور مل جُل کر رہتے تھے۔ شیر میاں اس جنگل کے بادشاہ تھے
اس جنگل کی ایک خاص بات تھی یہاں مہینے میں ایک دن میلہ لگتا تھا۔ اس دن سب جانور اور ان کے بچے پارٹی کرتے تھے۔ میلے میں کھیل کود اور دوڑ کے مقابلے ہوتے۔ کہانیاں سنائی جاتیں اور مزے مزے کی باتیں بتائی جاتیں۔ آخر میں سب جانوروں کو کھانا پیش کیا جاتا۔ کھانا کا طریقہ بہت دلچسپ تھا۔
میلے سے ایک دن پہلے ہر جانور اپنی پسند کا کھانا الو میاں کے پاس جمع کروا دیتا۔ الو میاں ان جانوروں کے لیے ایک ایک تھیلا بناتے جس میں، اس کی پسند کا کھانا ڈال دیتے۔ جونہی کھانے کا وقت ہوتا، سارے جانور اپنے بال بچوں کے ساتھ، میدان میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتے۔ اُلو میاں ہر ایک کو اس کا تھیلا دیتے۔ سب وہیں بیٹھ کر اپنا اپنا کھانا کھاتے اور خوب مزے کرتے۔
ایک دن یوں ہوا کہ الو میاں کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں بخار تھا اور وہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ جنگل کے بادشاہ شیر نے میلے میں کھانا تقسیم کرنے کا کام بندر کے ذمے لگا دیا۔ جنگل کے سب جانوروں اور پرندوں نے معمول کے مطابق بندر کے پاس اپنا کھانا جمع کروا دیا۔ اتنا ڈھیر سارا کھانا دیکھ کر بندر میاں کے منہ میں پانی آ گیا۔ لیکن پھر سزا کے ڈر سے اس نے جلدی جلدی کھانا تھیلوں میں بھر دیا۔
دوسرے دن جنگل میں میلا سج گیا۔ خرگوش اور کچھوے میں دوڑ کا مقابلہ ہوا اور کچھوا یہ مقابلہ جیت گیا۔ ہوا یوں کہ خرگوش میاں سستانے بیٹھے اور حسبِ معمول سب بھول بھال کر نیندیا پور چلے گئے۔
لومڑی اور اس کے بچوں کو بیل سے انگور اتارنے کا ٹاسک ملا۔ وہ چھلانگیں لگا لگا کر تھک گئے لیکن انگور نہ اتار سکے ۔ لومڑی بولی دفعہ کرو!
یہ انگور کھٹے ہیں۔
کوے نے گھڑے میں کنکر ڈال ڈال کر بچوں کو پانی پینے کا طریقہ سکھایا۔
غرض سارا دن خوب کھیل کود اور بھاگ دوڑ ہوئی۔ سب جانور تھک گئے۔ سب کو بھوک لگی تھی۔ کھانا کا وقت ہو چکا تھا۔ سب جانور اپنے بال بچوں کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ شیر کے اشارے پر بندر نے کھانا تقسیم کرنا شروع کیا لیکن اسے یاد نہ رہا کہ کون سا تھیلا کس کا ہے۔
اس نے اندازے سے ہر ایک کے سامنے ایک ایک تھیلا رکھ دیا۔ مگر یہ کیا!
جب خرگوش نے اپنا تھیلا کھولا تو اس میں لال لال گاجروں کی بجائے گوشت کے چھیچھڑے تھے۔ اوغ اوغ ۔ اس کے منہ سے نکلا
ادھر بی مانو نے جب تھیلا کھولا تو اس میں ہری ہری گھاس بھری تھی۔ اونہوں میں تو تازہ تازہ چھچھڑے لائی تھی اس نے منہ بنایا اور زور سے چلائی۔
گلہری کے تھیلے سے اخروٹ کی بجائے کیڑے مکوڑے نکل آئے۔ لمبے لمبے کیڑے دیکھ کر گلہری کے بچے ڈر گئے اور ادھر ادھر دوڑنے لگے۔
چڑیا کو بہت بھوک لگی تھی اس نے جب تھیلا کھولا تو وہ سبز مرچوں سے بھرا تھا۔ چڑیا کہ ننھے بچے نے بھوک سے بے تاب ہو کر ہری مرچ کو کاٹ لیا اور پھر سی سی کرتا رونے لگا۔
گیدڑ کے تھیلے سے خربوزوں کی بجائے گاجریں نکل آئیں۔
طوطوں کے تھیلے سے اخروٹ نکلے۔ ان کے بچے چونچیں مار مار کر انہیں میدان میں لڑھکانے لگے۔ ہر طرف ادھم مچ گیا۔ سب چیخ چلا رہے تھے۔
شیر نے جب یہ دیکھا تو وہ زور سے دھاڑا :
”خاموش!“
سب جانور دم سادھے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ شیر نے حکم دیا کہ ہر گروہ سے ایک جانور کھانے کا تھیلا لے کر آئے۔ پھر اس نے اشارہ کیا: سب اس طرف قطار بنا لیں ۔ اب ہر ایک کھانے کا تھیلا اس کے اصل مالک تک پہنچا دے۔
خرگوش میاں نے اپنا تھیلا اٹھایا اور مانو بلی کے سامنے رکھ دیا۔ مانو بلی تھیلا اٹھا کر بکرے کے سامنے رکھ آئیں۔ گلہری نے ڈرتے ڈرتے تھیلا اٹھایا اور ہدہد کے پاس لے آئی ، تھیلے سے ایک کیڑا باہر گرگیا ، ہدہد میاں نے آگے بڑھ کر چونچ سے اٹھایا اور تھیلے میں ڈال دیا۔
چڑیا نے ہری مرچوں کا تھیلا اٹھا کر طوطے کے سامنے رکھ دیا۔ گیدڑ نے تھیلا خرگوش میاں کے حوالے کر دیا، طوطا ابھی تک اخروٹ اکھٹے کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ گلہری شیر کی اجازت پا کر آگے بڑھی اور اخروٹ پکڑ کر اپنے تھیلے میں ڈال لیے ۔ غرض تھوڑی ہی دیر میں سب جانوروں کے پاس اپنے پسندیدہ کھانے کا تھیلا پہنچ گیا۔ سب جانوروں نے اپنا اپنا کھانا کھایا اور خوشی خوشی اپنے گھروں کو چل دئیے۔
 
Top