سلیم احمد جدائی کب تھی کہاں ہوئی تھی میں اس سے بھی بے خبر گیا ہوں - سلیم احمد

جدائی کب تھی کہاں ہوئی تھی میں اس سے بھی بے خبر گیا ہوں
تو سایہ آسا تھا ساتھ میرے میں تجھ سے چھٹ کر جدھر گیا ہوں

مجھے سمیٹو! تو میرے اندر نئے معانی ہیں نقش بستہ
کتاب خود آگہی ہوں لیکن ورق ورق میں بکھر گیا ہوں

مری طبیعت کے ساحلوں پر ہے مرگ آ سا سکوت طاری
یہ پیش خیمہ ہے آتے طوفاں کا جس کی شدت سے ڈر گیا ہوں

وہی شب و روز زندگی کے ، ہنسی بھی ، اشکوں کے سلسلے بھی
مگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اندر سے مر گیا ہوں

مرے سوا کون ہے کہ جس نے معاشِ غم اختیار کی ہے
میں ایک الزامِ زندگی تھا سو آج اپنے ہی سر گیا ہوں​
سلیم احمد
 
Top