جاسمن

لائبریرین
ہمارے پڑوسی ایک ریٹائرڈ جج ہیں۔
ہم نے انھیں خط لکھا۔

انتہائی محترم جناب جج صاحب!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ مؤدبانہ التماس ہے کہ ہمارے واحد ہمسائے ہم دیوار بھی ہیں۔ الحمد اللہ ہمیں ان سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ بلکہ انھیں شاید ہماری چرخوں کی وجہ سے مسئلہ ہوا ہو گا لیکن انھوں نے ہمیشہ ہم سے اچھا برتاؤ ہی کیا۔
اب کچھ عرصے سے ہمیں ان سے ایک شکایت پیدا ہوئی ہے کہ عالی جناب جب اس پہ غور فرمائیں گے تو ہمیں اپنی شکایت میں حق بجانب سمجھیں گے۔
جنابِ عالی! ڈیڑھ دو مہینوں سے ان کے گھر سے بچوں کی مزے مزے کی آوازیں آتی ہیں ماشاءاللہ۔ کبھی کبھار ان بچوں کا ”اتفاقیہ“ دیدار بھی ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے ایک بہت ہی ودّیا فلم کے چند ٹوٹے کسی کو دکھا دیے جائیں اور پوری فلم کے لیے انسان بے تاب ہو جائے۔
عالی مرتبت! آپ تصّور کریں کہ آپ کی دیوار کے دوسری اور ماشاءاللہ چہکاریں سنائی دیتی ہوں اور آپ کا تصور خیالی تصویریں بھی دکھاتا ہو تو آپ کا دل بے تاب ہو جائے گا کہ چاہے کتنا ہی غیر اخلاقی ہو، دیوار سے جھانک کے ننھّے مُنّے چاند ستارے دیکھ کے دل ٹھنڈا کیا جائے۔
سیانے کہہ گئے ہیں کہ بچے سانجھے ہوتے ہیں پر ہمارے ظالم پڑوسیوں نے ہمارے جائز حقوق کی ہمیں ہوا تک نہیں لگنے دی جناب!
عالی جناب! آپ جانتے ہیں کہ پڑوسیوں کے کس قدر حقوق ہیں۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو بتا رہے تھے تو پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے گمان کیا کہ کہیں جائیداد میں بھی پڑوسیوں کو حصہ دینے کا نہ کہہ دیا جائے۔ ایسا تو نہیں ہوا لیکن ہمسائیوں کے حقوق اتنے زیادہ ہیں کہ چند جملوں میں ان کا احاطہ مشکل ہے۔ حد یہ کہ ہمسائے کے لیے سالن میں شوربہ بڑھانے کا بھی کہا گیا۔ لیکن جنابِ عالی! ہمارے پڑوسی، اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کے بیٹھے ہیں اور ہمیں ملانا تو درکار، دیدار تک نہیں کراتے۔ آپ خود سوچیں کہ ہمارے دلوں پہ کیا گزرتی ہو گی۔ ہم ان کی آوازیں سن کے ماشاءاللہ، ماشاءاللہ کہتے رہتے ہیں بس۔
جج صاحب! ہمیں انصاف چاہیے۔ ورنہ ہم بھی اپنے بچوں کی شادیاں کریں گے۔ ہمارے بھی پوتا پوتی، نواسا نواسی ہوں گے اور ہم بھی ایسے ہی بس آوازیں ہی سنوایا کریں گے۔
جج صاحب! ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے پڑوسی اپنے نواسوں کو ہم سے ملانے لائیں۔ بلکہ ملاتے رہیں۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔
خیر اندیش
”ہم سائے“


نوٹ:
جج صاحب نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فوری حکم جاری کیا کہ بچوں کو فی الفور پڑوسیوں سے ملانے کے جایا جائے۔ اور اسی دن دوپہر کو بچے اپنی والدہ اور نانی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جج صاحب! ہمیں انصاف چاہیے۔ ورنہ ہم بھی اپنے بچوں کی شادیاں کریں گے۔ ہمارے بھی پوتا پوتی، نواسا نواسی ہوں گے اور ہم بھی ایسے ہی بس آوازیں ہی سنوایا کریں گے۔
جج صاحب! ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے پڑوسی اپنے نواسوں کو ہم سے ملانے لائیں۔ بلکہ ملاتے رہیں۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔
خیر اندیش
”ہم سائے“
بہت خوب بہت خوب
کیا خوب
فریا د ہے صاحبِ انصاف سے
اور وہ بھی وکلا کے انداز میں
؀
قصہ جو یہاں کا ہے تو پھر طے بھی یہیں ہو
اللہ کرے آپکی آواز انکے بند دروازوں کو کھول دے ۔
پر سلیم کوثر صاحب کہتے ہیں ؀
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
 
Top