جب گناہوں کو ہے سوچا تو پسینہ آ گیا--برائے اصلاح

الف عین
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
------------
جب گناہوں کو ہے سوچا تو پسینہ آ گیا
بخشوانے کے لئے ہی یہ مہینہ آ گیا
----------
آج رحمت جوش میں ہے اور معافی عام ہے
پاس اپنے سوچتا ہوں اک نگینہ آ گیا
--------------
قید میں شیطان ہے یہ سوچنے کی بات ہے
پاس تیرے چل کے خود ہی ہے یہ زینہ آ گیا
------------------
ہے یہ موقع مانگنے کا در خدا کا ہے کھلا
سب خدا سے مانگنے کا ہے مہینہ آ گیا
-----------
اب معافی مانگ لو جو بھی خطائیں ہو گئیں
اس مہینے نے سکھایا ہے قرینہ آ گیا
-------
آج ارشد مانگتا ہے تُو خدایا دے اسے
ہے ندامت دل میں اس کے اور پسینہ آ گیا
----------
 

الف عین

لائبریرین
فلسفی کی زمین پسند آ گئی! لیکن مجھے یہ غزل پسند نہیں آئی
اغلاط گنوا رہا ہوں
جب گناہوں کو ہے سوچا تو پسینہ آ گیا
بخشوانے کے لئے ہی یہ مہینہ آ گیا
---------- کو ہے سوچا... مجہول بیانیہ ہے
تو کا طویل کھنچنا

آج رحمت جوش میں ہے اور معافی عام ہے
پاس اپنے سوچتا ہوں اک نگینہ آ گیا
-------------- پہلا مصرع خوب ہے اور رواں بھی
سوچتا ہوں بھرتی کا ہے، نگینہ قافیہ کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا

قید میں شیطان ہے یہ سوچنے کی بات ہے
پاس تیرے چل کے خود ہی ہے یہ زینہ آ گیا
------------------ سوچنے کی بات بھرتی کا ہے
زینہ کہاں جانے کا، اس کا ذکر ہی نہیں

ہے یہ موقع مانگنے کا در خدا کا ہے کھلا
سب خدا سے مانگنے کا ہے مہینہ آ گیا
----------- خدا سے مانگنا دونوں مصرعوں میں!
سب خدا سے یا خدا سے سب؟
بیانیہ بھی اچھا نہیں، روانی ناقص

اب معافی مانگ لو جو بھی خطائیں ہو گئیں
اس مہینے نے سکھایا ہے قرینہ آ گیا
------- قرینہ کس بات کا؟

آج ارشد مانگتا ہے تُو خدایا دے اسے
ہے ندامت دل میں اس کے اور پسینہ آ گیا
---------- پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا ہے
پسینہ آ گیا کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے
 
الف عین
--------
ندامت کے ساتھ ایک بار پھر
------------------
جان کر اپنے گناہوں کو ، پسینہ آ گیا
بخشوانے کے لئے ہی یہ مہینہ آ گیا
---------------
آج رحمت جوش میں ہے اور معافی عام ہے
مانگنے کی بات سچی تو قرینہ آ گیا
--------------
قید میں شیطان ہے کیسی یہ اچھی بات ہے
پاس تیرے ہے خدایا اک کمینہ آ گیا
------------
ہے یہ موقع مانگنے کا در خدا کا ہے کھلا
اس سے سب کچھ مانگنے کا ہے مہینہ آ گیا
-----------

اب معافی مانگ لو جو بھی خطائیں ہو گئیں
شکل میں رمضان کی ہے پاس زینہ آ گیا

آج ارشد مانگتا ہے تُو خدایا دے اسے
اب ندامت سے ہی اس کو ہے پسینہ آ گیا
----------
 

الف عین

لائبریرین
ہے آ گیا بجائے 'آ گیا ہے' صرف استثنائی طور پر قبول کیا جا سکتا ہے ورنہ روانی قطعی نہیں۔
زینہ قرینہ کمینہ صرف قوافی برائے قوافی ہیں ان کی معنویت ظاہر نہیں ہوتی
گناہوں کی ندامت سے پسینے کی بات مطلع اور مقطع میں دہرائی گئی ہے
گناہ جاننا؟ محاورہ نہیں
میرے خیال میں اسے مشق سمجھ کر چھوڑ دیں، مزید محنت نہ کریں
 
Top