صبا اکبر آبادی جب وہ پرسانِ حال ہوتا ہے۔صبا اکبر آبادی

جب وہ پرسانِ حال ہوتا ہے
بات کرنا محال ہوتا ہے
کھو گیا جو ترے خیالوں میں
تجھے اُس کا خیال ہوتا ہے
وہیں اُن کے قدم نہیں پڑتے
دل جہاں پائمال ہوتا ہے
ایک لُطفِ خیال کا لمحہ
حاصلِ ماہ و سال ہوتا ہے
ہجر میں طولِ زندگی توبہ
موت کا جی نڈھال ہوتا ہے
اپنے ہی آشیاں کے تنکوں پر
برق کا احتمال ہوتا ہے
کبھی تم نے صباؔ سے پوچھا بھی
شبِ فرقت جو حال ہوتا ہے

صبا اکبر آبادی
 
Top