جب بھی وہ بے حِجاب ہوتے ہیں غزل نمبر 160 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
پچھلی زمین کی غزل (جب حسِیں پُر شباب ہوتے ہیں) میں کچھ اور خیالات جمع ہوگئے تھے تو اس لئے اس غزل کو دو غزلہ کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔

جب بھی وہ بے حِجاب ہوتے ہیں
آپ اپنا جواب ہوتے ہیں

نامے بھیجے ہیں تیرے نام صنم
دیکھیں کب باریاب ہوتے ہیں

ساتھ جِن کے دُعائیں ہوتی ہیں
بس وہ ہی کامیاب ہوتے ہیں

نامُکمل ہیں خواہشیں جِن کی
اُن کی آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں

شیخ صاحب نے کل نشے میں کہا
رِند سارے خراب ہوتے ہیں

شیخ و ناصح بھی غم مٹانے کو
پِیتے اکثر شراب ہوتے ہیں

دھوکے اُن سے ہی مِلتے ہیں اکثر
جِن کے رُخ پر نقاب ہوتے ہیں

بے ادب کو نہیں سکھاتے ادب
بے خِرد بے طناب ہوتے ہیں

مِیر و غالب سے آج بھی
شارؔق
ہم سُخن فیض یاب ہوتے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کچھ عاجزانہ سے مشورے۔
نامے بھیجے ہیں تیرے نام صنم
دیکھیں کب باریاب ہوتے ہیں
صنم لفظ فلمی سا لفظ ہے۔ اگر اس شعر کو ایسے کر لیں تو۔
نامے بھیجے جو تیرے نام کے، کب
دیکھیے باریاب ہوتے ہیں
ساتھ جِن کے دُعائیں ہوتی ہیں
بس وہ ہی کامیاب ہوتے ہیں
"وہ ہی" کے بجائے "وہی" کر لیں۔
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
شکریہ عبدالرؤف بھائی آپکے ماہرانہ مشورے اچھے ہیں قبول ہیں الف عین سر بھی ذرا اسے دیکھ لیں پھر تبدیل کردیتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
پچھلی زمین کی غزل (جب حسِیں پُر شباب ہوتے ہیں) میں کچھ اور خیالات جمع ہوگئے تھے تو اس لئے اس غزل کو دو غزلہ کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔

جب بھی وہ بے حِجاب ہوتے ہیں
آپ اپنا جواب ہوتے ہیں
درست

نامے بھیجے ہیں تیرے نام صنم
دیکھیں کب باریاب ہوتے ہیں
روفی کا مشورہ اچھا ہے، لیکن روانی کم ہے اس میں۔ کچھ اور سوچو، جیسے
ہم نے بھیجے ہیں تیرے نام خطوط

ساتھ جِن کے دُعائیں ہوتی ہیں
بس وہ ہی کامیاب ہوتے ہیں
درست، روفی کے مشورے کے ساتھ

نامُکمل ہیں خواہشیں جِن کی
اُن کی آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں
تکنیکی طور پر در ست، لیکن مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے

شیخ صاحب نے کل نشے میں کہا
رِند سارے خراب ہوتے ہیں
ٹھیک

شیخ و ناصح بھی غم مٹانے کو
پِیتے اکثر شراب ہوتے ہیں
زبردستی شراب کا قافیہ استعمال کرنے کی کوشش، نکال دو اسے
دھوکے اُن سے ہی مِلتے ہیں اکثر
جِن کے رُخ پر نقاب ہوتے ہیں
ملتے کی ے کا اسقاط. اچھا نہیں ، ویسے ٹھیک ہےل

بے ادب کو نہیں سکھاتے ادب
بے خِرد بے طناب ہوتے ہیں
بے طناب کس طرح، شعر سمجھ میں نہیں آیا

مِیر و غالب سے آج بھی شارؔق
ہم سُخن فیض یاب ہوتے ہیں
ہم سخن؟ یا سخن ور کہنا تھا؟ ہم سخن کے ساتھ تو بے معنی ہے
 

امین شارق

محفلین
بہت شکریہ الف عین سر عبدالرؤف بھائی کا مشورہ اچھا تھا اس شعر کے لئے لیکن میں نے یہ متبادل لیا ہے۔
بھیجے مکتوب تیرے نام جو ہیں
دیکھیں کب باریاب ہوتے ہیں


عبدالرؤف بھائی نے اچھی توجہ دلائی
ساتھ جِن کے دُعائیں ہوتی ہیں
بس وہی کامیاب ہوتے ہیں


یہاں یہ کہنا مقصود تھا کہ جن لوگوں کی خواہشیں پوری نہیں ہوتی وہ خواہشیں ان لوگوں کے لئے ایک خواب بن جاتی ہیں ایک حسرت رہ جاتی ہےٰ۔
نامُکمل ہیں خواہشیں جِن کی
اُن کی آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں


یہاں یہ مراد تھی کہ بے عقل کو جتنا بھی سمجھایا جائے وہ وہی کرتے ہیں جو اس کا دل چاہتا ہے یعنی وہ بے طناب بے لگام ہوتے ہیں
بے ادب کو نہیں سکھاتے ادب
بے خِرد بے طناب ہوتے ہیں


جی میں سخن ور ہی کہنا چاہتا تھا لیکن ہم سخن کہہ دیا میری کم عقلی جو ہم سخن کا مطلب سخنور سمجھ بیٹھا غالب کے اس مصرع کو لے کر ( ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں) اب تبدیل کردیا ہے۔
مِیر و غالب سے آج بھی شارؔق
شعر گو فیض یاب ہوتے ہیں
 
Top